Tag: سندھ کی جھیلیں

  • کلانکر جھیل: تھر کی رونق ماند پڑتی جارہی ہے

    کلانکر جھیل: تھر کی رونق ماند پڑتی جارہی ہے

    اچھڑو تھر 23 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی حدود عمر کوٹ سے شروع ہو کر سندھ کے ضلع گھوٹکی سے آگے پنجاب سے ملتی ہیں، جس کے بعد چولستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔

    سندھ کے مشہور اور تاریخی علاقے عمر کوٹ کے قصبے، ڈھورو نارو سے شمال کی سمت 6 کلومیٹر کا فاصلہ طے کریں تو اچھڑو تھر میں ریت کے ٹیلوں کے درمیان کلانکر جھیل واقع ہے۔ یوں تو سندھ کے ان علاقوں میں متعدد جھیلیں ہیں جو دریاؤں کے سمٹنے سے وجود میں‌ آئیں اور کینال کے پانی نے بھی انھیں شاد باد رکھا، برسات میں ان کی رونق مزید بڑھ جاتی ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم قدرت کے ان تحائف کی قدر کرنے کو تیّار نہیں ہیں۔ کلانکر جھیل کے ساتھ بھی ہم کچھ ایسا ہی سلوک کرتے رہے ہیں اور اس کے قدرتی حسن اور اس جھیل میں موجود حیات کو نقصان پہنچا ہے۔‌ ماہرین کے مطابق کلانکر جھیل ہاکڑو دریا کا تسلسل ہے جس کا وجود مٹ چکا ہے، لیکن اس کے طفیل ہمیں کلانکر اور دیگر جھیلیں‌ ضرور ملی ہیں جن کی حفاظت کرنا ہوگی۔

    کلانکر جھیل کی وجہِ شہرت خوب صورت نظّاروں کے ساتھ ساتھ اس میں موجود مچھلیوں کی مختلف اقسام تھیں جن میں چاکڑ، سنگاری، کرڑیو، جھرکا و دیگر شامل ہیں، لیکن اب یہاں‌ کا پانی مچھلیوں کی افزائش اور فراوانی کے لیے موزوں نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ اس جھیل کے ساتھ آباد ماہی گیروں کی بڑی تعداد یہاں سے نقل مکانی کرگئی ہے۔ اس جھیل کے اطراف بلند بالا ٹیلے موجود ہیں جب کہ اردگرد میں سبزہ اور درخت ہیں، جو اس کا قدرتی حسن ہیں۔

    جھیل میں پانی کی سطح بہت کم ہوگئی ہے اور کبھی 4 ہزار مربع ایکڑ پر پھیلی ہوئی یہ جھیل رقبے کے اعتبار سے بھی سکڑ کر نہایت کم اراضی تک محدود ہوگئی ہے۔ اس طرف توجّہ دلانے پر حکومتِ سندھ نے اسے تفریحی و سیّاحتی مقام بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، لیکن یہ ناکافی ہیں۔ جھیل تک پہنچنے کے لیے تقریباً چار کلومیٹر کا دشوار گزار راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔

    موسمِ سرما میں سندھ بھر کی جھیلوں کی طرح یہاں بھی پردیس سے مختلف اقسام کے پرندے لمبا سفر طے کرکے یہاں پہنچتے ہیں، لیکن پانی کی کمی کے سبب ان کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔

  • منچھر جھیل کی ترنگ میں ہلکورے لیتی زندگی کی نئی امنگ

    منچھر جھیل کی ترنگ میں ہلکورے لیتی زندگی کی نئی امنگ

    پاکستان میں‌ مون سون نے اس سال بڑا زور دکھایا اور کیرتھر کے پہاڑوں پر بھی پانی خوب برسا جس کے بعد بالائی علاقوں‌ سے ندی نالوں‌ کے ذریعے بہہ کر آنے والے پانی نے منچھر جھیل کو جیسے زندہ کردیا ہے۔ جھیل سے اپنا رزق اور روزگار سمیٹنے والے بہت خوش ہیں۔

    منچھر کو دنیا کی قدیم ترین، ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل کہا جاتا ہے اور یہ پاکستان کے لیے ایک اہم آبی ذخیرہ ہے۔ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع منچھر جھیل کا زیادہ حصّہ جامشورو اور کچھ ضلع دادو میں ہے۔ اس جھیل کا وجود یوں تو موئن جودڑو اور ہڑپہ جیسی تہذیبوں سے بھی قدیم بتایا جاتا ہے، لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ یہ جھیل 1930 میں بنائی گئی تھی۔ 1988 کے ایک سروے کے مطابق منچھر جھیل پر مختلف اقسام کے 25 ہزار پرندے اور قسم قسم کی نباتات دیکھی جاسکتی تھیں۔

    جھیل کا رقبہ موسم اور پانی آنے پر گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ منچھر ایک تفریح گاہ اور سندھ کا سیاحتی مقام ہے جسے ان دنوں بارش پانی نے خوب صورت بنا دیا ہے۔ تاہم آلودگی نے اس جھیل اور اس سے کسی نہ کسی طرح‌ جڑے ہوئے انسانوں، حیوانات اور نباتات کی زندگی کو مشکل میں‌ ڈال رکھا ہے۔ 2019 کے ایک سروے کے مطابق منچھر جھیل میں پانی کی آلودگی کی شرح سات ہزار ٹی ڈی ایس تھی، لیکن بارشوں کے بعد نہ صرف جھیل کا پانی پینے کے قابل ہو چکا ہے بلکہ مچھیروں کو بھی روزی روٹی کے حوالے سے بڑی امیدیں ہیں، مگر یہ خوشی چند ماہ کی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کی آلودگی کو سطح آب پر نمودار ہونے میں‌ چھے سات ماہ لگیں‌ گے اور بس۔ جھیل میں میٹھے پانی کا تسلسل ہی اسے دور رکھ سکتا ہے جو ابھی ممکن نظر نہیں آتا۔