کراچی: آج سے سندھ بھر کے اسپتالوں میں او پی ڈی سروس میں کام نہیں ہوگا، سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں کورنٹین یونٹس اور ایمرجنسی میں ڈیوٹی دی جائے گی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ کے احکامات پر عمل درآمد شروع ہو گیا، آج سے سندھ کے تمام سرکاری اسپتالوں میں معمول کی او پی ڈی کو پندرہ دن کے لیے معطل کر دیا گیا ہے، شہر کراچی میں قائم سندھ حکومت کے 6 اسپتالوں میں او پی ڈی بند کر دی گئی ہے، شہر کے بیش تر نجی اسپتالوں میں بھی او پی ڈی سروس معطل ہے، تمام سرکاری اسپتالوں میں ایمر جنسی سروس جاری ہے۔
جناح، سول، قومی ادارہ صحت اطفال اور قومی ادارہ امراض قلب میں بھی سروس بند ہے، یہ اقدام کرونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔ گزشتہ روز ینگ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ او پی ڈی آنے والے ہزاروں مریض ہائی رسک پر ہیں۔
اس سلسلے میں ینگ ڈاکٹرز کے رہنماؤں نے تمام سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ اور سندھ بھر میں اپنے تنظیمی یونٹس کو صورت حال سے آگاہ کر کے کہا کہ کرونا صورت حال کے پیش سندھ حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا، یہ ایک عالمی چیلنج ہے اور اس کا سامنا سب مل کر کریں گے، شہریوں سے اپیل ہے کہ پر سکون رہیں، معمولی نزلہ زکام اور کھانسی میں مبتلا افراد گھروں میں رہنے کو ترجیج دیں، تازہ پھل اور سوپ کا استعمال زیادہ کریں۔
چیئرمین ینگ ڈاکٹرز ایسو سی ایشن ڈاکٹر عمر سطان کا کہنا تھا کہ شہری طبعیت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں کسی بھی سرکاری اسپتال کے کورنٹین سینٹر میں فوری رپورٹ کریں۔
خیال رہے کہ شہر قائد میں آج (بدھ) سے ریسٹور نٹ، شاپنگ مالز، سینٹرز، مار کیٹیں، الیکٹرانکس مارکیٹس، آٹو پارٹس، کپڑے کی دکانیں، اور فرنیچر مارکیٹس 15 دن کے لیے بند ہوں گی، اس سلسلے میں کمشنر کراچی کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
کراچی: سندھ حکومت نے رے بیز کیسز سے بڑھتی اموات کے پیش نظر میئر کراچی وسیم اختر سمیت تمام بلدیاتی کونسلرز کو آوارہ کتے پکڑنے کا ٹاسک دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے صوبے بھر میں کتا مار مہم شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اس سلسلے میں کراچی سمیت صوبے کے تمام بلدیاتی کونسلرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ آوارہ کتے پکڑے جائیں۔
محکمہ بلدیات سندھ نے میئر کراچی سمیت لاڑکانہ، سکھر اور حیدرآباد کے میئرز کو بھی ہنگامی مراسلہ ارسال کر دیا ہے۔
مراسلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ سندھ میں آوارہ کتوں کے خلاف مؤثر مہم شروع کی جائے۔
کتوں کے کاٹے کے کیسز بڑھنے کی روک تھام کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے یہ مراسلہ ضلعی میونسپل کارپوریشنز، ڈی سیز، میونسپل کمیٹیز و دیگر کو بھی ارسال کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز شکارپور میں کتے کے کاٹے کی وجہ سے 10 سال کا ایک بچہ جاں بحق ہو گیا تھا، جسے بروقت ویکسین نہیں مل سکی تھی۔
معلوم ہوا ہے کہ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں کرپشن کے باعث کتے کے کاٹے کی ویکسین کمشنر آفس میں رکھی جاتی ہیں، جہاں مریضوں سے شناختی کارڈ اور کتے کی صحت کے بارے میں معلومات کے بعد انجکشن فراہم کیے جاتے ہیں، حکومت سندھ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ویکسین موجود ہے۔
کمشنر آفس میں کہا جاتا ہے کہ پہلے زخم دکھاؤ اور شناختی کارڈ لاؤ پھر اس کے بعد اس بات کی جانچ پڑتال ہوتی ہے کہ کاٹنے والا کتا پاگل تھا یا نہیں؟ اس دوران تکلیف میں مبتلا متاثرہ مریض کمشنر آفس کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر اور رکن صوبائی اسمبلی حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ سندھ کے اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین موجود نہیں ہے۔
لاڑکانہ: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کراچی کے تین بڑے اسپتالوں پر حکومت نے اپنا نوٹی فکیشن واپس نہ لیا تو سندھ کے عوام کے ساتھ اسلام آباد پہنچوں گا۔
تفصیلات کے مطابق لاڑکانہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے جناح اسپتال میں معیار برقرار رکھا تھا، اس کے باوجود جے پی ایم سی چھین لیا گیا، اگر اسپتالوں کا انتظام سنبھالنے کا نوٹیفکیشن واپس نہیں لیا گیا تو احتجاج کریں گے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم بھیک نہیں این ایف سی کے مطابق حق مانگ رہے ہیں، وفاقی حکومت ہمیں پانی کی کمی کا حساب نہیں دیتی، ون یونٹ لانے کی کوشش کی گئی تو پی پی دیوار بن کر کھڑی ہوگی۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ عوام کو پتا ہونا چاہیے کہ ان کا حق کہاں کہاں چھینا جا رہا ہے، عوام کو اس بارے بتایا جائے، اسلام آباد میں بیٹھ کر فیصلے کٹھ پتلی کر رہا ہے جسے ہم برداشت نہیں کر سکتے، وفاقی حکومت جان بوجھ کر خوف پھیلا رہی ہے، ایچ آئی وی وائرس اور ایچ آئی وی ایڈز میں فرق ہے۔
انھوں نے کہا کہ کل ہم رتو ڈیرو میں تھے آج لاڑکانہ میں ہیں، ہمارا مقصد اپنے ماں و بچوں کی صحت کا خیال رکھنا ہے، پورے کراچی میں ہر بچہ ایمرجنسی ریسپانس تک پہنچ سکتا ہے، ای آر بچوں کے لیے فراہم ایک سہولت ہے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر میں ہمارے سندھ کا چھٹے نمبر پر شمار ہوتا ہے، اس کے تحت ہم نے بہت سے منصوبے کیے۔
انھوں نے تنقید کی کہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کو رشتے دار کے حوالے کر دیا گیا، جس کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ ملتان میں ایچ آئی وی کے 1280 کیسز پر شور نہیں ہوتا۔
دریں اثنا، پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر سے متعلق ایک صحافی کے سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ علی وزیر ایک منتخب رکن ہے، وہ کس طرح چیک پوسٹ پر حملہ کرسکتا ہے۔
خیرپور: وزیر آب پاشی سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ وفاق کا سندھ کے 3 بڑے اسپتال اپنے زیر انتظام رکھنا زیادتی ہے، جن اسپتالوں کا انتظام سنبھالا جا رہا ہے انھیں فنڈز بھی دیے جائیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر آب پاشی ناصر حسین شاہ نے درگاہ دستگیر آمد کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاق نے سندھ کے تینوں بڑے اسپتالوں کا کنٹرول واپس لے لیا ہے، یہ سندھ کے ساتھ زیادتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جن اسپتالوں کا انتظام وفاق سنبھال رہا ہے، انھیں فنڈز بھی دیے جائیں، خیال رہے کہ وفاق نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، این آئی سی وی ڈی، اور این آئی سی ایچ کا انتظامی کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وفاق سندھ کے 40 ارب روپے نہیں دے رہا، پیسے نہ ملنے سے سندھ کے اہم منصوبے مکمل نہیں ہو رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ نیب نے پیپلز پارٹی سے کوئی رعایت نہیں کی، آصف زرداری اور بلاول بھٹو روز نیب میں پیش ہو رہے ہیں، اب چیئرمین نیب خود اسکینڈل میں پھنس گئے ہیں۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب سے متعلق انکوائری پارلیمانی کمیٹی سے کرائی جائے، پتا چلے کس کے اشارے پر ویڈیو منظر عام پر لائی گئی۔
یاد رہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بھی تین اسپتالوں کا کنٹرول واپس لینے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کا اقدام صوبائی خود مختاری پر حملے کے مترادف ہے، وفاقی حکومت عوامی ردعمل سے پہلے اسپتالوں پر اپنا فیصلہ واپس لے۔
اسلام آباد: وفاق نے سندھ کے 3 بڑے اسپتالوں کا انتظامی کنٹرول واپس لے لیا، وزارت قومی صحت نے اس سلسلے میں نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے کراچی کے تینوں بڑے اسپتالوں کا انتظامی کنٹرول سنبھال لیا ہے، نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کا انتظامی کنٹرول وفاق کو منتقل ہو گیا۔
امراض قلب کے قومی ادارے این آئی سی وی ڈی کا انتظامی کنٹرول بھی وفاقی حکومت نے واپس لے لیا، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ) کا کنٹرول بھی وفاقی حکومت کو منتقل ہو گیا۔
وزارت قومی صحت کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق تینوں اسپتالوں کے انتظامی و مالی معاملات، ملازمین اور اثاثے وفاقی حکومت کو منتقل ہو گئے۔
خیر پور: صوبہ سندھ کے ضلع خیر پور کے شہر گمبٹ میں قائم پیر سید عبد القادر شاہ جیلانی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسپتال کی گرانٹ حکومتِ سندھ نے 1500 ملین سے بڑھا کر 2000 ملین روپے کر دی۔
تفصیلات کے مطابق گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اپنی نوعیت کا ایک نہایت جدید ترین اور ہزاروں مریضوں کے لیے زندگی کی نوید بن گیا ہے، رواں سال حکومتِ سندھ نے بھی اسپتال کے گرانٹ میں اضافہ کر دیا۔
[bs-quote quote=”گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اعضا کی پیوند کاری کے سلسلے میں مثال بن گیا ہے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]
پاکستان میں جہاں اعضا کی خرابی کے باعث ہر سال ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جن کا علاج اعضا کی پیوند کاری ہی سے ممکن ہو، وہاں گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اعضا کی پیوند کاری کے سلسلے میں ایک مثال بن گیا ہے۔
گمبٹ انسٹی ٹیوٹ کو ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی نے 43 برس میں اپنی پُر عزم ٹیم کے ساتھ مل کر صرف 2 کمروں پر مشتمل ڈسپنسری سے ترقی دیتے ہوئے 800 بستروں پر مشتمل جدید اسپتال میں تبدیل کیا۔
یہاں جدید ترین مشینری کے ذریعے جنرل میڈیسن کے علاوہ مختلف سرجریز، ڈائیلیسز، انجیو گرافی، انجیو پلاسٹی، بائی پاس اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولیات مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔
گمبٹ انسٹی ٹیوٹ میں نو مولود بچوں کے لیے وینٹی لیٹرز، انکیوبیٹرز، ایڈوانس آئی سی یو اور خواتین کے تمام آپریشنز بھی مفت کیے جاتے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ میں خطے کا جدید ترین اینمل ہاؤس اور ٹری پلانٹ قائم کیا گیا ہے، جہاں آنے والے دور میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کو ریسرچ کے بہترین مواقع میسر آئیں گے۔
ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایمان داری، ارادے اور جنون سے کام کریں تو ہر چیز ممکن ہے، سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔
سندھ حکومت ہر سال اربوں روپے کا بجٹ پیش کرتی ہے، اس بجٹ میں مخصوص رقم صحت کے شعبے کے لیے مختص کی جاتی ہے تاکہ شہریوں کو علاج معالجے کی مفت سہولیات میسر ہو سکیں، لیکن سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کیا ہے، آئیے اس رپورٹ میں دیکھتے ہیں۔
سندھ کے طبی مراکز میں کرپشن عروج پر ہے، بچوں کی ویکسی نیشنز تک نہیں چھوڑی جاتیں اور وہ اسپتال کے ملازمین باہر فروخت کردیتے ہیں، اے آر وائی ٹیم نے اس پر اسٹنگ آپریشن کر کے یہ ویکسی نیشن خریدیں اور چوروں کو بے نقاب کیا۔
قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ سندھ جس کی زمین میں معدنی ذخائر کے مجموعے کا تخمینہ کھربوں روپے سے بھی زائد ہے، بندرگاہوں، صنعتوں، اور دیگر کاروباری مراکز سے ملک کو کروڑوں روپے کی محصولات موصول ہوتی ہیں، وہیں دوسری طرف اس صوبے کے عوام غربت اور کسمپرسی کی اس آخری سطح سے بھی نیچے جا رہے ہیں جہاں عوام کو مفت سرکاری علاج کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔
صوبائی حکومت شعبہ صحت پر کتنا پیسا لگا رہی ہے، سرکاری کھاتے میں ہیلتھ یونٹس اور مضافاتی اسپتالوں کا نظام کس طرز کا ظاہر کیا گیا ہے، اور دیہی مراکز صحت ضلعی اسپتالوں کی حقیقی صورت حال کیا ہے، یہ آپ ہماری اس ویڈیو رپورٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔
سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار نہایت مخدوش ہے، ان دنوں سکھر سول اسپتال کی بازگشت سپریم کورٹ میں بھی ہے، سپریم کورٹ نے اس کی حالت پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور حکومت اور اسپتال انتظامیہ کو پابند کیا ہے کہ اسپتال کی حالت کو بہتر بنایا جائے۔
ذمہ دار کون کی ٹیم سکھر سول اسپتال پہنچی تو وہاں ایمرجنسی میں اے سی ٹوٹا ہوا تھا، مریضوں کو لٹانے کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی، اس کے برعکس اسپتال کے ایم ایس کے کمرے میں وزیر اعلیٰ آفس طرز کا اعلیٰ فرنیچر موجود تھا، اے سی لگا تھا، جب کہ اسپتال میں طبی ساز و سامان سب خراب پڑا ہوا تھا۔
خیال رہے کہ جب چیف جسٹس نے سکھر اسپتال کا دورہ کیا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ اسپتال میں ڈاکٹرز نہیں، پیرا میڈیکل اسٹاف نہیں، وینٹی لیٹرز نہیں۔ اسپتال میں جگہ جگہ گندگی پڑی تھی، دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا تھا، انھوں نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس کے نوٹس کے بعد اسپتال کی حالت زار بدلنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔
اسی طرح بدین کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال 14 سال سے زیر تعمیر ہے، اس کی تعمیر کا ابتدائی بجٹ تیس کروڑ روپے تھا، جس کے خرچ ہونے کے بعد اب اسپتال کی تعمیر رک چکی ہے، اور اب اس کا تخمینہ ایک ارب دس کروڑ تک پہنچ چکا ہے، یہ اسپتال اب انڈس اسپتال کی زیر نگرانی دوبارہ بن رہا ہے۔
مفت سرکاری علاج
امیر صوبے کی غریب عوام مفت سرکاری علاج سے بھی محروم ہے، دنیا کے دیگر 115 ممالک کی بہ نسبت پاکستان کے تمام صوبائی اور وفاقی آئین میں مفت سرکاری علاج کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہر الیکشن میں غریب عوام کو مفت سرکاری علاج کی فراہمی کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاسی جماعتوں نے 72 برسوں میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں بنایا، جس میں واضح طور پر مفت سرکاری علاج کو شہریوں کا بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہو۔
دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے اقوام متحدہ کے کسی خصوصی پروگرام یا وباؤں کے پھوٹ پڑنے پر ہیلتھ سے متعلق اپنے قوانین میں ترامیم کرتی رہتی ہے۔
گزشتہ 72 برسوں میں سندھ کی صوبائی حکومتیں سرکاری سطح پر چھوٹے بڑے طبی ادارے قائم کرتی رہی ہے، سندھ کی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں پرائمری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد ایک ہزار 782 ہے، جن میں 125 دیہی ہیلتھ سینٹرز، 757 بیسک ہیلتھ یونٹس، 792 ڈسپنسریاں، 67 مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹرز، تین سب ہیلتھ سینٹرز یا کلینکس، ایک ہومیو پیتھک ڈسپنسری، ایک اربن ہیلتھ سینٹر، اور 36 یونانی دواخانے شامل ہیں۔
سیکنڈری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد 90 ہے، جن میں 14 ضلعی اسپتال، 79 تعلقہ ہیڈکوارٹر اسپتال، اور 27 بڑے یا اسپیشلائزڈ اسپتال شامل ہیں۔ ہر سال بجٹ میں ان اسپتالوں کے لیے بھاری رقم مختص کی جاتی ہے، بجت 2018-19 میں صحت کے لیے 96 ارب 38 کروڑ مختص کیے گئے۔
کیوں؟
صوبے کے 1782 ہیلتھ کیئر کیئر یونٹس این جی اوز کو دیے گئے، صوبائی محکمہ صحت کی تحویل میں صرف 655 طبی مراکز رہ گئے ہیں دوسری طرف چند ایک کے علاوہ کہیں بھی این جی اوز عملا فعال نہیں۔ ۔ سوال یہ ہے کہ اگر 1127 طبی مراکز این جی اوز کے حوالے ہیں تو بجٹ کم کیوں نہیں ہوا؟ ہر سال بجٹ میں پندرہ بیس کروڑ کا اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
ٹنڈو محمد خان کے طبی مراکز پر سالانہ 49 کروڑ سے زائد خرچ ہوتے ہیں، کھنڈر نما اسپتال میں سات روز سے بجلی غائب، ادویات ناکارہ ہوچکی ہیں۔ تعلقہ ہیڈ کوارٹر اسپتال کوٹ ڈیجی میں اسپتال کا ایک بھی اسٹاف موجود نہ تھا۔ جب کہ سابق صوبائی وزیر دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمام ملازمین اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔
سندھ حکومت نے 2016 میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ نظام متعارف کرایا، اس نظام کا مقصد تعلیم و صحت کے شعبوں میں جدت اور بہتری لانا تھا لیکن یہ منصوبہ بھی بدترین کرپشن اور بد انتظامی کا شکار ہوگیا۔