Tag: سندھ کے تاریخی شہر

  • نیرون کوٹ: نامکمل تاریخ، ادھوری کہانی…

    نیرون کوٹ: نامکمل تاریخ، ادھوری کہانی…

    سندھ، جسے ہزار ہا سال قدیم تہذیبی، ثقافتی ورثے سے مالا مال اور علم و فنون کا مرکز تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے کئی مشہور شہر ایسے ہیں‌ جن کے بارے میں تاریخ کے صفحات میں زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔ قدیم ترین اور مشہور نیرون کوٹ بھی ایسا ہی ایک شہر ہے۔ معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ یہ سندھ کے موجودہ دوسرے بڑے شہر حیدر آباد کا پرانا نام ہے جسے میاں غلام شاہ کلہوڑو نے 1768ء میں بسایا تو اسے نام بھی دے دیا۔

    ایک مؤرخ ابو عبداللہ محمد الادریسی نے نیرون کوٹ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دریا کے کنارے آباد تھا اور سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ مشہور مؤرخ شیر علی قانع ٹھٹھوی نے بھی اپنی لائقِ مطالعہ اور اہم کتاب تحفۃُ الکرام میں اس شہر کا ذکر کیا ہے۔ تاہم اس شہر کے بارے میں بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔

    نیرون کوٹ کے نام سے ظاہر ہے کہ یہاں کوئی قلعہ تھا اور قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ ایک فوج کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس مقام کے چند نام رون، ارون، ارون پور پٹالہ، پٹال پور اور پٹالہ بندر بھی تاریخی کتب میں‌ درج ہیں۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ اس شہر کے قریب دریا بہتا تھا، لہٰذا یہاں بندرگاہ بھی رہی ہوگی اور اس کا نام پٹالہ بندر ہوسکتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ اس علاقے پر صدیوں‌ کے دوران مختلف عرب حکم راں، مغل شہنشاہ اور سلاطین نے راج کیا جب کہ مشہور محقق اور مؤرخ سر چارلس ایلیٹ کے مطابق یہ سندھ کے مشہور شہر ٹھٹھہ سے شمال کی جانب منصورہ اور ٹھٹھہ کے تقریباً درمیان واقع تھا۔ یہ بستی اور بندرہ گاہ کیسے نیرون کوٹ میں تبدیل ہوئی اس پر تاریخ کے اوراق خاموش ہیں۔

    بعض مؤرخین کے مطابق چھٹی صدی عیسوی میں رائے گھرانے کا ’’رائے سمیرس ماہی‘‘ اس علاقے کا حاکم تھا۔ اسی طرح بعض نے نیرون کو ایک ہندو حکم راں لکھا ہے اور اسی نام سے یہ علاقہ بھی آباد تھا اور نیرون ایک بندرگاہ تھی جو وقت کے ساتھ سمندر برد ہوگئی، پھر اس کے نزدیک شہر تعمیر ہوا اور جب دریا کا رخ بدلا تو یہ بندرگاہ ایک بستی بنی اور پھر اسی جگہ موجودہ شہر آباد ہوگیا۔ تاہم اس حوالے سے کوئی واضح بات سامنے نہیں‌ آئی اور نیرون کوٹ یا بندرگاہ کے ختم ہونے کے حوالے سے اور اسی مقام کو حیدر آباد کے نام سے بسائے جانے پر اختلاف ہے۔

    بعض مؤرخین کے مطابق نیرون کوٹ پر عربوں کی حکومت تین سو سال تک رہی۔ بعد ازاں دہلی حکومت نے یہاں نوابوں کی تقرری کرکے قلعے کو سنبھالا اور علاقے کا انتظام چلاتے رہے۔ دہلی کا زور ٹوٹا تو یہاں سومرا نے طاقت کے زور پر اپنی حکومت قائم کرلی اور بحسن و خوبی علاقے کا انتظام چلاتے رہے اور پھر موجودہ شہر حیدر آباد کی بنیاد رکھی گئی۔ کلہوڑو خاندان کی شخصیات نے شہر آباد کرنے کے بعد یہاں کے لوگوں کا بہت خیال رکھا اور ان کے دل جیتنے میں کام یاب رہے۔

  • آثار اور کھنڈرات میں چھپی "چیچڑو” کی کہانی

    آثار اور کھنڈرات میں چھپی "چیچڑو” کی کہانی

    دریا کو انسان ہمیشہ سے "پالن ہار” مانتا آیا ہے۔ دریا کا پانی روزمرہ استعمال کے ساتھ اس دور میں‌ وہاں آباد ہونے والوں کا پیٹ بھرتا تھا۔ اسی دریا کے سینے پر کشتی ڈال کر وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے اور ہجرت سے تجارت تک اپنی ہر غرض اسی دریا سے پوری کرتے تھے۔

    سندھ کی تاریخ‌ اور قدیم دور کی تہذیبوں پر نظر ڈالیں‌ تو معلوم ہو گاکہ وہ دریا کے کنارے آباد تھیں۔ سندھ کے قدیم تہذیبی ورثے اور بستیوں میں "چیچڑو” کا نام بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔

    چیچڑو قدیم دور میں تجارت کا مرکز رہا ہے۔ اس قصبے کے مٹتے ہوئے نشانات میں قدیم زمانے کی مٹی سے تعمیر کردہ عمارتیں اور مختلف دوسرے آثار ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے پر قدیم آبادیوں کے تذکروں‌ میں‌ لکھا ہے کہ چیچڑو میں سنت ایسر داس کی مڑھی کے آثار بھی موجود ہیں جس پر مقبرہ اور اس کے ساتھ ایک کنواں بھی تھا۔

    تاریخی کتب میں لکھا ہے‌ کہ مغل دور میں اس علاقے کا حکم راں‌ مہیسر قوم کا سردار عیسیٰ خان تھا جو مغل بادشاہوں‌ کا مطیع رہا۔ پنو عاقل اور گھوٹکی کے درمیان مہیسر ریلوے اسٹیشن اسی سے منسوب ہے۔

    مؤرخین کہتے ہیں‌ کہ یہ گاؤں یا بستی رائے حکم رانوں کے دور میں ماتھیلو اور اروڑ کو ملانے والی بادشاہی سڑک پر گویا ایک منزل تھی۔ سندھ میں‌ حکم رانوں کی جنگوں اور فتوحات کے ابواب میں‌ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس مقام پر ایک جنگ لڑی گئی تھی۔ تاریخِ معصومی میں اس کے تذکرے میں آیا ہے کہ جنگ میں مارے جانے والوں کی تدفین چیچڑو کے قرب و جوار میں کی گئی تھی اور یہاں‌ اس دور کے گورستان کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔

    چیچڑو میں‌ تاریخی مدفن، اس علاقے میں‌ راجہ داہر کے قعلے اور قدیم مسجد محمد بن قاسم کے آثار بھی موجود ہیں۔ ماضی کا یہ جیتا جاگتا قصبہ اب کھنڈرات کی صورت ہماری توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے، لیکن یہ آثار بھی اب مٹتے جارہے ہیں۔