Tag: سندھ کے تاریخی مقامات

  • "چوکنڈی” کو تحفظ، دیکھ بھال کی ضرورت ہے!

    "چوکنڈی” کو تحفظ، دیکھ بھال کی ضرورت ہے!

    نیشل ہائی وے پر کراچی شہر سے رزاق آباد کی طرف جائیں تو آپ ایک شہرِ خموشاں تک پہنچ سکتے ہیں جو "چوکنڈی” کے نام سے مشہور ہے۔

    قدیم آثار اور تاریخی مقامات کی حفاظت، دیکھ بھال اور تزئین و مرمت پر بدقسمتی سے ہمارے یہاں کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ تاہم حکومتِ سندھ کے محکمہ ثقافت و نوادرات نے حال ہی میں اس تاریخی قبرستان کی تزئین اور آثار کے تحفظ کا کام شروع کیا ہے جسے ستمبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔

    قبرستان کا نام چوکنڈی پڑجانے کی کوئی خاص وجہ نہیں بلکہ قبر اور زرد پتھروں کے اوپر بنی ہوئی چھت کا مخصوص انداز ہی چوکنڈی پکارنے کی وجہ ہے۔ اس میں کوئی بحث نہیں‌ کہ یہ نام چھت کے چار کونوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے پڑا ہوگا۔ تاہم یہاں کون لوگ دفن ہیں اور ان کا تعلق اس دور کے سماج کے کس طبقے، قبیلے، اور پیشے سے تھا اس پر تحقیق کرنا زیادہ اہم ہے۔

    مشہور ہے کہ یہاں جوکھیو قبیلے کے علاوہ بلوچ بھی دفن ہیں۔ چوکنڈی میں قبروں کی تعمیر کا سلسلہ 15 ویں صدی سے شروع ہوا اور خیال ہے کہ یہ سلسلہ سترھویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔

    مکلی اور ٹھٹھہ کے مشہور قبرستان کی طرح یہاں بھی اس وقت کے صناع اور کاری گروں کی مہارت، ان کی ہنر مندی کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔

    اس قبرستان میں تحقیق اور مشاہدے کی غرض سے جانے والے ماہرین کے مطابق یہاں مَردوں اور عورتوں کی قبروں میں تمیز کرنے کے لیے نقش و نگار کا سہارا لیا گیا ہے۔ مرد کی قبر پر تلوار، گھڑ سوار اور خنجر وغیرہ کے نقش ہیں، جب کہ عورتوں کی قبروں پر زیورات دیکھے جاسکتے ہیں۔

    ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت قدیم آثار اور تاریخ کے ماہرین کی مدد لے کر اس شہرِ خموشاں کے اسرار جاننے اور معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کرے اور اس تاریخی قبرستان کی باقاعدہ حفاظت اور دیکھ بھال کی جائے۔

  • سندھ دھرتی کیسی تھی، لوگ یہاں‌ کے کیسے تھے؟

    سندھ دھرتی کیسی تھی، لوگ یہاں‌ کے کیسے تھے؟

    سندھ کے چند اہم، جید اور باکمال تاریخ نویسوں کی بات کی جائے تو ان میں کئی ایسے نام ہیں جن سے ہماری نئی نسل ناواقف ہے اور یہ بدقسمتی ہی ہے کہ تاریخ جیسے اہم ترین، حساس اور وسیع موضوع پر ہمارے ہاں وہ توجہ نہیں دی جارہی جو اس کا مقتضا ہے۔

    سماجی اور معاشرتی علوم میں تاریخ کا مضمون بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسے مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ وہ علم ہے جو اقوامِ عالم میں ایک دوسرے کے لیے رشک و حسد کے جذبات ابھارتا اور موازنے و مقابلے پر اکساتا ہے۔

    کسی بھی دور کا تاریخ نویس اگر بددیانتی اور تعصب و رقابت کے جذبے کو کچل کر بساط بھر کوشش اور تمام ضروری تحقیق کے ساتھ حالات و واقعات کو سامنے لائے اور کسی عہد کا ذکر کرے تو اس سے آنے والوں کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور ان کے لیے اپنی سمت و منزل کا تعین کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت میں مؤرخ کی بدنیتی اور تنگ نظری کسی بھی خطے کے باشندوں کو گم راہ کرنے اور ان میں نفرت و عناد کا سبب بن سکتی ہے۔

    سندھ دھرتی نے ہزاروں سال کے دوران لاتعداد تہذیبوں اور معاشروں کے رنگ دیکھے اور نجانے یہ خطہ آسمان سے اترنے والی کتنی ہی آفات اور مصیبتوں کا گواہ ہے جن میں کچھ کا تذکرہ ہمیں تواریخ میں ملتا ہے جب کہ بہت کچھ رقم نہیں کیا جاسکا۔ ہم یہاں ان چند مؤرخین کی یاد تازہ کر رہے ہیں جنھوں نے اپنی ذہانت، علمیت اور قابلیت سے کام لے کر سندھ کی ہزاروں سال پرانی تہذیبوں اور ثقافتوں کے بارے میں مواد اکٹھا کیا اور اسے قطع و برید سے گزار کر نہایت دیانت داری اور غیرجانب داری سے ہمارے سامنے رکھا۔

    سندھ سے متعلق چند اہم کتب کے مصنفین اور اپنے وقت کے نام ور مؤرخین میں میر سید معصوم شاہ بکھری، عبدالحلیم شرر، سید سلیمان ندوی، میر علی شیر قانع ٹھٹوی، سید طاہر محمد نسیانی ٹھٹوی، اعجاز الحق قدوسی، پیر حسام الدین شاہ راشدی اور رحیم داد خان مولائی شیدائی شامل ہیں۔

    اگر ہم کتب کی بات کریں تو تحفۃ الکرام، تاریخِ معصومی، سندھ کی تاریخی کہانیاں، تذکرۂ صوفیائے سندھ، چچ نامہ، مقالاتُ الشعرا سندھی، تذکرۂ مشاہیرِ سندھ اور تاریخِ سندھ کے عنوان سے مختلف مؤرخین نے اس سرزمین پر سیاست، ادب، علم و فنون، تہذیب، ثقافت، مذہب اور شخصیات و آثار پر نظر ڈالی ہے اور نہایت جامع اور مستند کتب چھوڑی ہیں۔

  • پانی والی مسجد اور انگریز سرکار

    پانی والی مسجد اور انگریز سرکار

    ضلع شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے جسے پانی والی مسجد کہا جاتا ہے۔

    یہ مسجد کھیر تھر کینال کے بیچ میں ہے اور یہ صرف ایک عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے تحریکِ آزادیٔ ہند کی اہم یادگار ہے اور ایک موقع پر اسی مسجد نے دینِ اسلام پر مَر مٹنے والوں کا جذبہ اور اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے کی سچی آرزو بھی دیکھی ہے۔

    اس مسجد کو شمالی سندھ میں انگریزوں کے خلاف ایک سیاسی قوت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    1932 میں برطانوی راج میں جب سکھر بیراج اور کینال پراجیکٹ کا کام شروع کیا گیا تو بلوچستان تک نہری پانی پہنچانے کے لیے کھیر تھر کینال کی کھدائی کی جانے لگی۔ اس وقت یہ چھوٹی سی مسجد کھیر تھر کینال کے منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھی گئی اور انگریز سرکار نے منہدم کرنے اور کینال پراجیکٹ کو اسی جگہ سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا، مگر حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے جو ایک عالم اور نہایت دین دار شخص مانے جاتے تھے، انھوں نے کینال کا رخ تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے مسجد کو شہید نہ کرنے کا کہا۔

    انگریز انتظامیہ نے ان کا مشورہ مسترد کر دیا تو مولانا امروٹی نے متعلقہ امور کے ماہرین اور افسران کو تحریری طور پر اس مسئلے سے آگاہ کیا اور اپنا مشورہ ان کے سامنے رکھا، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ تب مولانا امروٹی نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ان کی آواز پر ہزاروں لوگ جمع ہو گئے اور ایک ایسی دینی اور سیاسی تحریک شروع ہوئی کہ برطانوی سرکار مشکل میں پڑ گئی۔

    مولانا صاحب کے حکم پر مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ نوجوانوں نے مختلف اوقات میں مسجد کا پہرہ دینے کی ذمہ داری اٹھا لی۔ مسلمانوں کو یوں اکٹھا ہوکر مسجد کی حفاظت کرتا دیکھ کر انگریز انتظامیہ نے فیصلہ ترک کر دیا۔

    ماہرین سے مشاورت اور منصوبے کے انجینئر کی ہدایت پر کھیر تھر کینال کو مسجد کے دونوں اطراف سے گزارا گیا اور یوں مسجد پانی کے بیچ میں آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پانی والی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔