Tag: سندھ کے شہر

  • دوسری شادی کا ارادہ رکھنے والی ساس کو داماد نے قتل کردیا

    دوسری شادی کا ارادہ رکھنے والی ساس کو داماد نے قتل کردیا

    لاڑکانہ: سندھ کے شہر میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں دوسری شادی کا ارادہ رکھنے والی ساس کو داماد نے قتل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے صوبہ سندھ کے لاڑکانہ تھانہ ایئرپورٹ کی حدود سے 45 سالہ خاتون کی تشدد زدہ لاش ملی ہے، پولیس موقع پر پہنچ گئی جہاں لاش تحویل میں لیکر پوسٹ مارٹم  کیلئے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ خاتوں کی لاش ملنے کے بعد کارروائی کی گئی اس دوران مقتولہ کے داماد شوکت سومرو کو گرفتار کیا گیا  جس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔

    لاڑکانہ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا کہ ساس دوسری شادی کرنے کا ارادہ رکھتی تھی جس پر گلہ دبا کر قتل کیا۔

    https://urdu.arynews.tv/honor-crime-in-bhalwal-punjab/

  • "ڈگری” مائی ڈگھی کی یاد دلاتا رہے گا!

    "ڈگری” مائی ڈگھی کی یاد دلاتا رہے گا!

    سندھ کے مختلف شہروں کے اضلاع اور تعلقہ کی مختلف سیاسی ادوار میں حد بندیاں ہوتی رہی ہیں اور ان علاقوں کی انتظامی لحاظ سے حیثیت بدلتی رہی ہے- کبھی کسی علاقے کو آبادی اور وسائل کی وجہ سے ضلع کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو کبھی کوئی قصبہ ضلعی ہیڈ کوارٹر اور کبھی سب ڈویژن اور تعلقہ بن جاتا ہے-

    الغرض سیاسی اور انتظامی امور چلانے کے لیے علاقوں کی حدود اور حیثیت تبدیل کی جاتی رہتی ہے، لیکن یہ تقسیم کبھی شہروں اور قدیم علاقوں کے نام اور ان کی شناخت پر اثر انداز نہیں ہوتی- اس تمہید کے ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ میر پور خاص سندھ کا وہ شہر ہے جو پھلوں کے بادشاہ آم کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے اور "ڈگری” اسی میر پور خاص کا ایک چھوٹا شہر ہے-

    کیا آپ جانتے ہیں کہ سندھ کے اس ہزاروں نفوس پر مشتمل شہر کا یہ نام کیسے پڑا؟

    ڈگری اس شہر کی رہائشی ایک غریب اور بہادر خاتون کے نام سے منسوب علاقہ ہے-

    سندھی زبان میں ڈگھو اور ڈگھی کسی طویل القامت انسان کے لیے بولا جاتا ہے-

    ڈگری کا علاقہ ایک ایسی خاتون کے نام سے مشہور ہوا جو طویل القامت تھیں- انھیں مقامی لوگ’’مائی ڈگھی‘‘ کے نام سے پکارتے اور جانتے تھے-

    مذکورہ خاتون اس زمانے میں سندھ کے حکم راں سرفراز کلہوڑو سے منسوب "سرفراز واہ” کے گھاٹ پر کشتی کے ذریعے لوگوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہچانے کا کام انجام دیتی تھیں-

    دریا میں کشتی چلانے والے اور ماہی گیروں یا مسافروں کو آمدورفت کی سہولت دینے والوں کو میر بحر بھی کہا جاتا ہے- مائی ڈگھی بھی میر بحر برادری سے تعلق رکھتی تھیں-

    اس زمانے میں اس علاقے کے سارے ہی لوگ مائی ڈگھی کو جانتے تھے- آبادی بہت کم تھی اور اکثر کشتی میں سفر کے دوران مقامی لوگوں کا مائی ڈگھی سے واسطہ پڑ ہی جاتا تھا-

    مائی ڈگھی نے اس زمانے میں ایک سفاک لٹیرے اور اس کے پورے گروہ کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا- ڈاکوؤں کے خلاف کوشش اور دلیری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے انھیں خوب شہرت ملی اور اس علاقے کی پہچان ہی بن گئیں- بعد میں یہ ڈگری کہلایا اور آج تک اس کی یہ شناخت قائم ہے-

  • سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی نے 12 فروری کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں اور اس کے ساتھ ہی تحقیق اور تاریخ نویسی کا ایک درخشندہ باب بند ہو گیا۔

    آج سندھی زبان کے اسی معروف ادیب، مؤرخ، صحافی اور مترجم کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام تو میر رحیم داد خان تھا، لیکن مولائی شیدائی سے معروف ہوئے۔ سنِ پیدائش 1894، اور شہر سکھر تھا۔ ان کے والد کا نام میر شیر محمد خان تھا۔ مولائی شیدائی نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی۔

    مطالعے کے شوق نے لکھنے لکھانے پر اُکسایا اور پھر قرطاس و قلم سے ایسے جڑے کہ متعدد کتب کے مصنف اور ہم عصروں میں نام وَر ہوئے۔

    1934 میں مولائی شیدائی کا پہلا مضمون ‘‘ممتاز محل’’ کے عنوان سے شایع ہوا جسے پڑھ کر مولانا دین محمد وفائی نے بہت حوصلہ افزائی کی اور مزید لکھنے کی ترغیت دی۔ اب انھوں نے مولائی شیدائی کے قلمی نام سے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔

    رحیم داد خان مولائی شیدائی نے متعدد ملازمتیں کیں اور محکمۂ ٹریفک سے ریلوے میں نوکر ہوئے 1939 میں اس محکمے سے ریٹائر ہو کر صحافت کی طرف آگئے۔

    قابل اور باصلاحیت مولائی شیدائی نے سندھی کے متعدد معروف جرائد کی ادارت کی جن میں کاروان، مہران اور ہلالِ پاکستان شامل ہیں۔ ان سے متعلق تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ روزنامہ آزاد میں معاون مدیر بھی رہے اور یہ 1941 کی بات ہے۔

    جنتُ السندھ اور تاریخ تمدن سندھ مولائی شیدائی کی وہ دو تصانیف ہیں جنھیں اہم اور گراں قدر علمی سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مولائی شیدائی نے تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخ بھکر، تاریخِ قلات اور متعدد دیگر تصانیف چھوڑی ہیں جو بہت مستند اور قابلِ ذکر ہیں۔

    مولائی شیدائی نے 1987 میں‌ وفات پائی اور ٹیکری آدم شاہ، ضلع سکھر میں انھیں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔