Tag: سندھ کے مزارات

  • دریا پار کرنے والا نوجوان اور مائی ڈگھی

    دریا پار کرنے والا نوجوان اور مائی ڈگھی

    سرزمینِ سندھ کو امن اور محبت کی دھرتی کہا جاتا ہے جہاں مسلمان بزرگانِ دین اور صوفیا نے اپنی تعلیمات سے لاکھوں چراغ روشن کیے- سندھ کے صوفیائے کرام اور برگزیدہ ہستیوں کے کئی واقعات اور ان کے ارادت مندوں کے تذکرے تاریخی کتب میں محفوظ ہیں-

    ڈگری اسی سندھ دھرتی کا وہ علاقہ ہے جو کسی زمانے میں ایک طویل القامت خاتون سے منسوب ہوا تھا، جنھیں‌ مقامی لوگ’’مائی ڈگھی‘‘ کہتے تھے-

    وہ دریا میں کشتی کے ذریعے لوگوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہچانے کا کام انجام دیتی تھیں-

    مائی ڈگھی سرفراز واہ کے دونوں کناروں کے گھاٹ پر مسافروں کو سفر کی سہولت دیتی تھیں-

    اسی عرصے میں ایک روز سرفراز واہ کے شمالی کنارے پر ایک سیدھا سادہ سا نوجوان، ہاتھ میں کتابیں لیے ان کے پاس آیا اور کہا کہ وہ سیّد زادہ ہے، نہر کے دوسرے کنارے جانا ہے، مگر جیب میں کچھ نہیں‌، وہ معاوضہ نہیں‌ دے سکے گا۔ اگر مائی بغیر معاوضہ پار پہنچا دے تو یہ ان کا احسان گا۔

    مائی ڈِگھی نے اس نوجوان کو اپنی کشتی میں بٹھا کر دوسرے کنارے تک پہنچا دیا-

    مشہور ہے کہ اُس نوجوان نے گھاٹ پر اترنے کے بعد مائی ڈگھی سے ممنونیت کا اظہار کیا اور جاتے ہوئے انھیں اپنا نام "محمد شاہ جیلانی” بتایا- اسی مائی ڈگھی نے اس زمانے کے ایک سفاک لٹیرے اور اس کے پورے کو انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اسی لیے وہ ایک بہادر خاتون کے طور پر مشہور ہیں-

    بعد کے برسوں میں اسی نوجوان کو سندھ کی ایک روحانی شخصیت کے طور پر جانا گیا-

    محمد شاہ جیلانی یہاں ایک بزرگ اور درویش کے طور پر مشہور ہوئے اور لوگ ان کے ارادت مند ہوتے چلے گئے-

    آج ڈَگری کے میر محل سے پہلے نظر آنے والا مزار انہی کا ہے- سندھ کے باسی ‌ایک برگزیدہ ہستی کے طور پر انھیں‌ یاد کرتے ہیں-

  • سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کے مولائی شیدائی نے 12 فروری کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں اور اس کے ساتھ ہی تحقیق اور تاریخ نویسی کا ایک درخشندہ باب بند ہو گیا۔

    آج سندھی زبان کے اسی معروف ادیب، مؤرخ، صحافی اور مترجم کی برسی ہے۔

    ان کا اصل نام تو میر رحیم داد خان تھا، لیکن مولائی شیدائی سے معروف ہوئے۔ سنِ پیدائش 1894، اور شہر سکھر تھا۔ ان کے والد کا نام میر شیر محمد خان تھا۔ مولائی شیدائی نے ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی۔

    مطالعے کے شوق نے لکھنے لکھانے پر اُکسایا اور پھر قرطاس و قلم سے ایسے جڑے کہ متعدد کتب کے مصنف اور ہم عصروں میں نام وَر ہوئے۔

    1934 میں مولائی شیدائی کا پہلا مضمون ‘‘ممتاز محل’’ کے عنوان سے شایع ہوا جسے پڑھ کر مولانا دین محمد وفائی نے بہت حوصلہ افزائی کی اور مزید لکھنے کی ترغیت دی۔ اب انھوں نے مولائی شیدائی کے قلمی نام سے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا۔

    رحیم داد خان مولائی شیدائی نے متعدد ملازمتیں کیں اور محکمۂ ٹریفک سے ریلوے میں نوکر ہوئے 1939 میں اس محکمے سے ریٹائر ہو کر صحافت کی طرف آگئے۔

    قابل اور باصلاحیت مولائی شیدائی نے سندھی کے متعدد معروف جرائد کی ادارت کی جن میں کاروان، مہران اور ہلالِ پاکستان شامل ہیں۔ ان سے متعلق تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ روزنامہ آزاد میں معاون مدیر بھی رہے اور یہ 1941 کی بات ہے۔

    جنتُ السندھ اور تاریخ تمدن سندھ مولائی شیدائی کی وہ دو تصانیف ہیں جنھیں اہم اور گراں قدر علمی سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مولائی شیدائی نے تاریخِ خاصخیلی، تاریخِ سکھر، تاریخ بھکر، تاریخِ قلات اور متعدد دیگر تصانیف چھوڑی ہیں جو بہت مستند اور قابلِ ذکر ہیں۔

    مولائی شیدائی نے 1987 میں‌ وفات پائی اور ٹیکری آدم شاہ، ضلع سکھر میں انھیں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سندھ دھرتی کیسی تھی، لوگ یہاں‌ کے کیسے تھے؟

    سندھ دھرتی کیسی تھی، لوگ یہاں‌ کے کیسے تھے؟

    سندھ کے چند اہم، جید اور باکمال تاریخ نویسوں کی بات کی جائے تو ان میں کئی ایسے نام ہیں جن سے ہماری نئی نسل ناواقف ہے اور یہ بدقسمتی ہی ہے کہ تاریخ جیسے اہم ترین، حساس اور وسیع موضوع پر ہمارے ہاں وہ توجہ نہیں دی جارہی جو اس کا مقتضا ہے۔

    سماجی اور معاشرتی علوم میں تاریخ کا مضمون بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اسے مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ وہ علم ہے جو اقوامِ عالم میں ایک دوسرے کے لیے رشک و حسد کے جذبات ابھارتا اور موازنے و مقابلے پر اکساتا ہے۔

    کسی بھی دور کا تاریخ نویس اگر بددیانتی اور تعصب و رقابت کے جذبے کو کچل کر بساط بھر کوشش اور تمام ضروری تحقیق کے ساتھ حالات و واقعات کو سامنے لائے اور کسی عہد کا ذکر کرے تو اس سے آنے والوں کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور ان کے لیے اپنی سمت و منزل کا تعین کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت میں مؤرخ کی بدنیتی اور تنگ نظری کسی بھی خطے کے باشندوں کو گم راہ کرنے اور ان میں نفرت و عناد کا سبب بن سکتی ہے۔

    سندھ دھرتی نے ہزاروں سال کے دوران لاتعداد تہذیبوں اور معاشروں کے رنگ دیکھے اور نجانے یہ خطہ آسمان سے اترنے والی کتنی ہی آفات اور مصیبتوں کا گواہ ہے جن میں کچھ کا تذکرہ ہمیں تواریخ میں ملتا ہے جب کہ بہت کچھ رقم نہیں کیا جاسکا۔ ہم یہاں ان چند مؤرخین کی یاد تازہ کر رہے ہیں جنھوں نے اپنی ذہانت، علمیت اور قابلیت سے کام لے کر سندھ کی ہزاروں سال پرانی تہذیبوں اور ثقافتوں کے بارے میں مواد اکٹھا کیا اور اسے قطع و برید سے گزار کر نہایت دیانت داری اور غیرجانب داری سے ہمارے سامنے رکھا۔

    سندھ سے متعلق چند اہم کتب کے مصنفین اور اپنے وقت کے نام ور مؤرخین میں میر سید معصوم شاہ بکھری، عبدالحلیم شرر، سید سلیمان ندوی، میر علی شیر قانع ٹھٹوی، سید طاہر محمد نسیانی ٹھٹوی، اعجاز الحق قدوسی، پیر حسام الدین شاہ راشدی اور رحیم داد خان مولائی شیدائی شامل ہیں۔

    اگر ہم کتب کی بات کریں تو تحفۃ الکرام، تاریخِ معصومی، سندھ کی تاریخی کہانیاں، تذکرۂ صوفیائے سندھ، چچ نامہ، مقالاتُ الشعرا سندھی، تذکرۂ مشاہیرِ سندھ اور تاریخِ سندھ کے عنوان سے مختلف مؤرخین نے اس سرزمین پر سیاست، ادب، علم و فنون، تہذیب، ثقافت، مذہب اور شخصیات و آثار پر نظر ڈالی ہے اور نہایت جامع اور مستند کتب چھوڑی ہیں۔