Tag: سندھ کے مشہور شہر

  • آثار اور کھنڈرات میں چھپی "چیچڑو” کی کہانی

    آثار اور کھنڈرات میں چھپی "چیچڑو” کی کہانی

    دریا کو انسان ہمیشہ سے "پالن ہار” مانتا آیا ہے۔ دریا کا پانی روزمرہ استعمال کے ساتھ اس دور میں‌ وہاں آباد ہونے والوں کا پیٹ بھرتا تھا۔ اسی دریا کے سینے پر کشتی ڈال کر وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے اور ہجرت سے تجارت تک اپنی ہر غرض اسی دریا سے پوری کرتے تھے۔

    سندھ کی تاریخ‌ اور قدیم دور کی تہذیبوں پر نظر ڈالیں‌ تو معلوم ہو گاکہ وہ دریا کے کنارے آباد تھیں۔ سندھ کے قدیم تہذیبی ورثے اور بستیوں میں "چیچڑو” کا نام بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔

    چیچڑو قدیم دور میں تجارت کا مرکز رہا ہے۔ اس قصبے کے مٹتے ہوئے نشانات میں قدیم زمانے کی مٹی سے تعمیر کردہ عمارتیں اور مختلف دوسرے آثار ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے پر قدیم آبادیوں کے تذکروں‌ میں‌ لکھا ہے کہ چیچڑو میں سنت ایسر داس کی مڑھی کے آثار بھی موجود ہیں جس پر مقبرہ اور اس کے ساتھ ایک کنواں بھی تھا۔

    تاریخی کتب میں لکھا ہے‌ کہ مغل دور میں اس علاقے کا حکم راں‌ مہیسر قوم کا سردار عیسیٰ خان تھا جو مغل بادشاہوں‌ کا مطیع رہا۔ پنو عاقل اور گھوٹکی کے درمیان مہیسر ریلوے اسٹیشن اسی سے منسوب ہے۔

    مؤرخین کہتے ہیں‌ کہ یہ گاؤں یا بستی رائے حکم رانوں کے دور میں ماتھیلو اور اروڑ کو ملانے والی بادشاہی سڑک پر گویا ایک منزل تھی۔ سندھ میں‌ حکم رانوں کی جنگوں اور فتوحات کے ابواب میں‌ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس مقام پر ایک جنگ لڑی گئی تھی۔ تاریخِ معصومی میں اس کے تذکرے میں آیا ہے کہ جنگ میں مارے جانے والوں کی تدفین چیچڑو کے قرب و جوار میں کی گئی تھی اور یہاں‌ اس دور کے گورستان کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔

    چیچڑو میں‌ تاریخی مدفن، اس علاقے میں‌ راجہ داہر کے قعلے اور قدیم مسجد محمد بن قاسم کے آثار بھی موجود ہیں۔ ماضی کا یہ جیتا جاگتا قصبہ اب کھنڈرات کی صورت ہماری توجہ اپنی جانب کھینچتا ہے، لیکن یہ آثار بھی اب مٹتے جارہے ہیں۔

  • دریا پار کرنے والا نوجوان اور مائی ڈگھی

    دریا پار کرنے والا نوجوان اور مائی ڈگھی

    سرزمینِ سندھ کو امن اور محبت کی دھرتی کہا جاتا ہے جہاں مسلمان بزرگانِ دین اور صوفیا نے اپنی تعلیمات سے لاکھوں چراغ روشن کیے- سندھ کے صوفیائے کرام اور برگزیدہ ہستیوں کے کئی واقعات اور ان کے ارادت مندوں کے تذکرے تاریخی کتب میں محفوظ ہیں-

    ڈگری اسی سندھ دھرتی کا وہ علاقہ ہے جو کسی زمانے میں ایک طویل القامت خاتون سے منسوب ہوا تھا، جنھیں‌ مقامی لوگ’’مائی ڈگھی‘‘ کہتے تھے-

    وہ دریا میں کشتی کے ذریعے لوگوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہچانے کا کام انجام دیتی تھیں-

    مائی ڈگھی سرفراز واہ کے دونوں کناروں کے گھاٹ پر مسافروں کو سفر کی سہولت دیتی تھیں-

    اسی عرصے میں ایک روز سرفراز واہ کے شمالی کنارے پر ایک سیدھا سادہ سا نوجوان، ہاتھ میں کتابیں لیے ان کے پاس آیا اور کہا کہ وہ سیّد زادہ ہے، نہر کے دوسرے کنارے جانا ہے، مگر جیب میں کچھ نہیں‌، وہ معاوضہ نہیں‌ دے سکے گا۔ اگر مائی بغیر معاوضہ پار پہنچا دے تو یہ ان کا احسان گا۔

    مائی ڈِگھی نے اس نوجوان کو اپنی کشتی میں بٹھا کر دوسرے کنارے تک پہنچا دیا-

    مشہور ہے کہ اُس نوجوان نے گھاٹ پر اترنے کے بعد مائی ڈگھی سے ممنونیت کا اظہار کیا اور جاتے ہوئے انھیں اپنا نام "محمد شاہ جیلانی” بتایا- اسی مائی ڈگھی نے اس زمانے کے ایک سفاک لٹیرے اور اس کے پورے کو انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اسی لیے وہ ایک بہادر خاتون کے طور پر مشہور ہیں-

    بعد کے برسوں میں اسی نوجوان کو سندھ کی ایک روحانی شخصیت کے طور پر جانا گیا-

    محمد شاہ جیلانی یہاں ایک بزرگ اور درویش کے طور پر مشہور ہوئے اور لوگ ان کے ارادت مند ہوتے چلے گئے-

    آج ڈَگری کے میر محل سے پہلے نظر آنے والا مزار انہی کا ہے- سندھ کے باسی ‌ایک برگزیدہ ہستی کے طور پر انھیں‌ یاد کرتے ہیں-