Tag: سندھ ہائیکورٹ

  • 80 سالہ خاتون سے والدین کے شناختی کارڈ طلب، خاتون کی عدالت میں دہائی

    80 سالہ خاتون سے والدین کے شناختی کارڈ طلب، خاتون کی عدالت میں دہائی

    کراچی: ڈیٹا بیس اتھارٹی نادرا نے 80 سالہ خاتون کو اپنے والدین کے شناختی کارڈ فراہم نہ کرسکنے پر ان کا کارڈ بلاک کردیا، متاثرہ خاتون دہائی دیتی سندھ ہائیکورٹ پہنچ گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے خلاف 80 سالہ خاتون سندھ ہائیکورٹ پہنچ گئیں۔ متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ نادرا نے ان کا شناختی کارڈ بلاک کردیا ہے جس سے وہ سخت پریشانی کا شکار ہیں۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ میرے شوہر ریلوے کے ملازم تھے، ان کی پنشن بھی لیتی تھی، تاہم نادرا نے سنہ 2012 میں کارڈ بلاک کردیا اور تاحال بحال نہیں کیا گیا۔

    ان کے مطابق کارڈ بلاک ہونے کی وجہ سے پنشن بھی بند کردی گئی، میری زندگی کے آخری دن ہیں اور نادرا نے تکلیفوں میں اضافہ کردیا ہے۔ مذکورہ خاتون کے مطابق وہ ہیپاٹائٹس کا شکار بھی ہیں۔

    عدالت نے معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نادرا سے جواب طلب کرلیا، جسٹس محمد علی مظہر نے نادرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ خاتون کا کارڈ کیوں بلاک کیا گیا ہے۔

    وکیل نے بتایا کہ کاغذات مکمل نہ ہونے اور ان کے والد و والدہ کا شناختی کارڈ نہ ہونے پر کارڈ بلاک کردیا گیا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ خاتون کے بیٹوں کا کارڈ کیسے بنا دیا گیا؟ بیٹوں کا کارڈ بن گیا لیکن ماں کا کارڈ بلاک کردیا، 80 سال کی خاتون اپنے والد و الدہ کا شناختی کارڈ اب کہاں سے لائے۔

    عدالت نے درخواست کی مزید سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی۔

  • پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو نکالنے کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج

    پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو نکالنے کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج

    کراچی: پاکستان اسٹیل کی نج کاری اور ملازمین کو نکالنے کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان اسٹیل کی نج کاری اور ملازمین کو فارغ کرنے کے معاملے پر پاکستان اسٹیل لیبر یونین پاسلو کے صدر عاصم بھٹی و دیگر نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔

    درخواست میں وفاقی حکومت اور وزارت پیداوار و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اسٹیل کو اس حالت میں پہنچانے کے ذمہ دار ملازمین نہیں، ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں سے اسٹیل ملز کو خسارہ ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت نے بھی 2 سال میں اسٹیل ملز چلانے کا اقدام نہیں کیا، وفاقی حکومت اب اسٹیل ملز نجی شعبے کو دینا چاہتی ہے، اور ہزاروں ملازمین کو نکالنے کا غیر قانونی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

    وفاقی کابینہ اجلاس، حکومت کا پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا اصولی فیصلہ

    درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور اس کو نج کاری اور ملازمین نکالنے سے روکا جائے۔

    درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے وفاقی حکومت، وزارت پیداوار، اور اے جی سمیت دیگر کو نوٹس جاری کر دیا، اور فریقین سے 23 جون کو جواب طلب کر لیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے اسٹیل مل کی نج کاری سے متعلق تفصیل بھی طلب کر لی ہے، اس سلسلے میں عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل پاکستان کو وفاقی حکومت سے جواب لے کر جمع کرانے کا حکم دیا گیا۔

    اسٹیل مل سے متعلق سپریم کورٹ میں زیر سماعت معاملے کی بھی تفصیل طلب کر لی گئی ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کیا اسٹیل ملز کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے؟

    یاد رہے کہ 9 جون کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدرات منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کا اصولی فیصلہ کیا تھا، اجلاس میں ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دینے پر اتفاق کیا گیا۔

    پیپلز پارٹی کا اسٹیل ملز ملازمین کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان

    پاکستان اسٹیل ملز کے 8884 میں سے 7784 ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس سلسلے میں انتظامیہ نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اسٹیل میں صرف ایک ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔

    دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو فارغ کرنے کے فیصلے کی مزاحمت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ملازمین کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

  • عدالت نے مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کے خلاف درخواست مسترد کر دی

    عدالت نے مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کے خلاف درخواست مسترد کر دی

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے شہر قائد میں لاک ڈاؤن کے دوران مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کے خلاف درخواست مسترد کر دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی، عدالت کا کہنا تھا کہ انسانی زندگی محفوظ رکھنے کے لیے ایگزیکٹو اختیارات استعمال کیے جا رہے ہیں، اور عدالت اس پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

    سندھ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ مساجد میں عبادات کے سلسلے میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے علما کا اجلاس بھی طلب کر رکھا ہے، علما کرام کے فتوؤں کی روشنی میں وبا کی وجہ سے عبادات محدود کی جا سکتی ہیں۔

    کوشش ہےکہ رمضان میں مساجدکی رونقیں بحال ہوں، نور الحق قادری

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 18 اپریل کو صدر مملکت کی زیر صدارت مختلف مکاتب فکر کے علما کا اجلاس ہے، جس میں مساجد میں نماز اور رمضان سے متعلق پالیسی وضع کی جائے گی۔

    ایڈیشنل اے جی سندھ جواد ڈیرو نے عدالت کے روبرو پیش ہوتے ہوئے کہا کہ مساجد کو بند نہیں کیا گیا صرف محدود کیا گیا ہے، دنیا بھر میں 20 ملین افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں، پاکستان میں بھی وائرس پھیل رہا ہے، یہ اقدام عوام کو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

  • ڈینیل پرل قتل کیس کے 3 ملزمان 18 سال بعد بری

    ڈینیل پرل قتل کیس کے 3 ملزمان 18 سال بعد بری

    کراچی: امریکی صحافی ڈینیل پرل قتل کیس کے ملزمان کی اپیلوں پر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے تینوں ملزمان کو بری کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیل پرل قتل کیس میں احمد عمر شیخ کے علاوہ تینوں ملزمان کو بری کر دیا ہے، سزا کے خلاف اپیلوں پر 18 سال بعد یہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو بھی 7 سال قید میں تبدیل کر دیا، عدالت کا کہنا تھا کہ احمد عمر شیخ پر اغوا کا الزام ثابت ہوا ہے، تاہم ڈینیل پرل کے قتل کا الزام کسی ملزم پر ثابت نہیں ہوا جس پر دیگر تینوں ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ برطانوی شہریت رکھنے والے احمد عمر شیخ کو انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے سزائے موت سنائی تھی، جب کہ ملزمان فہد سلیم، سید سلمان ثاقب اور شیخ محمد عادل کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی، یہ سزائیں ملزمان کو 15 جولائی 2002 کو سنائی گئی تھیں۔

    ملزمان پر امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا اور قتل کا الزام تھا، ڈینیل پرل امریکی جریدے وال اسٹریٹ جنرل جنوبی ایشیا ریجن کے بیورو چیف تھے، ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں 2002 سے تعطل کا شکار تھیں، آج اس کیس کا فیصلہ جسٹس کے کے آغا اور جسٹس ذوالفقار سانگی پر مشتمل بینچ نے سنایا۔

  • زیادتی کیسز میں 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آتی: عدالت برہم

    زیادتی کیسز میں 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آتی: عدالت برہم

    کراچی: خواتین سے زیادتی کے متعلق قانون سازی کے کیس میں عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آئے گی تو ملزمان کو سزا کیسے ہوگی؟

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں خواتین سے زیادتی کے ملزمان کو سخت سزا دلوانے پر قانون سازی سے متعلق کیس کے دوران، انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے خلاف عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ کیسز کے متعلق اصلاحات نہیں ہوئیں، 6، 6 ماہ تک مقدمات درج نہیں ہوتے۔ عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ سندھ اور آئی جی سندھ سماعت میں پہنچے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ سیکریٹری داخلہ صاحب بتائیں، کیا فنڈز کا کوئی ایشو ہے گواہوں کے تحفظ کا قانون بنایا مگر کیا عمل کر رہے ہیں؟ ریپ کیسز میں اسکریننگ تک نہیں ہو رہی، آئی جی صاحب، تفتیشی افسر ڈی این اے لینے سے انکار کردے تو کیا کریں گے؟

    آئی جی سندھ نے کہا کہ بہت سے کیسز میں ڈی این اے کیے گئے ہیں، ہمارا ایک ایس او پی ہے اس پر عمل کر رہے ہیں۔

    درخواست گزار نے کہا کہ ایک تفتیشی افسر نے 6 ماہ تک ڈی این اے نہیں کروایا جس پر عدالت نے آئی جی سے دریافت کیا کہ آپ اپنے تفتیشی افسر کا کیا کریں گے جو ایس او پی پر عمل نہیں کرتا۔

    عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے ایس ایچ او کو کوئی ہدایات جاری کیں؟ لوگوں کو تو سادہ ایف آئی آر تاخیر سے کٹنے کی شکایت ہوتی ہے۔

    عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈی این اے کے لیے لکھا جاتا ہے، ’اگر ضروری ہو تو‘، ان الفاظ پر آپ کے تفتیشی افسران فائدہ اٹھاتے ہیں، ریپ کیسز میں ڈی این اے میں ’اگر ضروری ہو‘ کہاں سے آگیا؟

    عدالت نے کہا کہ سندھ میں 598 تھانے ہیں مگر ڈی این اے ٹیسٹ کتنوں میں ہوا۔ درخواست گزار نے کہا کہ ڈی این اے کروانے کے بعد تفتیشی افسر 6 ماہ تک کٹ لے کر گھومتے رہے، جس پر وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ڈی این اے رپورٹ اس لیے نہیں دی کہ پیسے نہیں تھے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ کیا پولیس کے پاس فنڈز نہیں؟ جامعہ کراچی میں جامعہ جامشورو کے فنڈز سے ڈی این اے ہو رہے ہیں۔ اس طرح آپ کیس خراب کر رہے ہیں، ملزمان بری ہو جائیں گے۔ الزام عدالت پر آتا ہے کہ ملزمان کی ضمانتیں منظور ہوگئیں۔

    آئی جی سندھ نے کہا کہ زیادتی کے 796 کیسز زیر سماعت ہیں ان کی پوری طرح ذمہ داری لینے کو تیار ہیں، ایک ہفتہ دیں پوری تیاری کر کے عدالت کو آگاہ کردیں گے۔

    عدالت نے کہا کہ 2، 2 سال رپورٹ نہیں آئے گی تو زیادتی کیسز میں سزا کیسے ہوگی، 2016 اور 2017 کے کیسز میں رپورٹس نہیں آئیں۔ بچوں کے کیسز میں اس طرح مت کریں۔

    جج نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی اور جامشورو یونیورسٹی نے بھی مذاق بنا رکھا ہے، یونیورسٹیز نے کیوں 2، 2 سال سے رپورٹس کو دبائے رکھا ہے۔

    عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی سندھ کو فوری اجلاس طلب کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے زیادتی کے کیسز میں سندھ حکومت کو فنڈز کا جائزہ لینے کا حکم بھی دیا۔

    عدالت نے زیادتی کے کیسز میں مربوط نظام وضع کرنے اور ڈی این اے ٹیسٹ بروقت کروانے کو یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔

  • بھائی کی موت اذیت ناک تھی، گٹکے پر پابندی عائد کی جائے: بہن عدالت میں روپڑی

    بھائی کی موت اذیت ناک تھی، گٹکے پر پابندی عائد کی جائے: بہن عدالت میں روپڑی

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں گٹکے سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران مدعی کی بہن عدالت کو گٹکے کے استعمال کے اذیت ناک انجام اور بھائی کی موت کی تفصیل بتاتے ہوئے آب دیدہ ہو گئیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق گٹکے، مین پوری اور ماوے پر پابندی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کیس کی سماعت ہوئی، وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس کے مدعی مقدمہ نسیم حیدر منہ کے کینسر کے باعث انتقال کر گئے ہیں۔

    عدالت میں نسیم حیدر کی بہن اور والدہ بھی پیش ہوئیں، متوفی کی بہن نے روتے ہوئے استدعا کی کہ میرے دو بھائی تھے، دونوں ہی کینسر سے انتقال کر گئے، میرے بھائی کی بہت اذیت ناک موت ہوئی، گٹکے کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔

    مدعی کے وکیل مزمل ممتاز نے عدالت کو بتایا کہ نسیم حیدر کے منہ میں کیڑے پڑ گئے تھے، غسل دیتے ہوئے لوگ گھبرا رہے تھے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اب تک پابندی سے متعلق بل کیوں منظور نہیں ہوا ہے؟ سندھ حکومت نے جواب دیا کہ بل کابینہ سے منظوری کے بعد گورنر سندھ کو بھیجا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ شہر میں گٹکے اور ماوے کے خلاف آپریشن سست روی کا شکار ہے، شہر میں گٹکے کے خلاف آپریشن تیز کیا جائے، کیا گٹکا استعمال کرنے والوں نے منہ کے کینسر میں مبتلا لوگوں کی تصاویر دیکھی ہیں؟

    مدعی کے وکیل نے کہا کہ جوڑیا بازار میں گٹکے کی فروخت اور اس کے کارخانے چل رہے ہیں، پولیس حکام نے بتایا کہ پورے صوبے میں گٹکے کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ عدالت نے کہا کہ رینجرز بھی گٹکا فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور پولیس کی مدد کرے، آیندہ سماعت تک بتایا جائے پولیس نے کتنے آپریشن کیے، کتنی ایف آئی آر کاٹیں، آئی جی سندھ بھی گٹکے، مین پوری کے خلاف کارروائی تیز کر دیں، آیندہ سماعت تک قانون سازی کے حوالے سے بھی حتمی رپورٹ پیش کی جائے۔ بعد ازاں، سندھ ہائی کورٹ میں مزید سماعت 3 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔

    خیال رہے کہ کورنگی کے رہایشی نسیم حیدر نے گٹکا مافیا کے خلاف جنگ شروع کر دی تھی، وہ یہ کیس عدالت میں لے گئے تھے، تاہم نسیم حیدر جو منہ کے کینسر کا شکار تھے، یکم فروری کو زندگی کی جنگ ہی ہار گئے۔

  • سندھ حکومت کو ایک اور دھچکا، عدالت نے بھی پولیس افسران کے تبادلے کالعدم قرار دے دیے

    سندھ حکومت کو ایک اور دھچکا، عدالت نے بھی پولیس افسران کے تبادلے کالعدم قرار دے دیے

    کراچی: عدالت نے سندھ پولیس کے دو افسران کے تبادلے کالعدم قرار دے دیے ہیں جو سندھ حکومت کے لیے ایک اور دھچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے ایس پی ڈاکٹر رضوان اور ڈی آئی جی خادم حسین کے تبادلے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا، درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ دونوں افسران کا تبادلہ غیر قانونی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پولیس افسران کے تبادلے کے طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا، سندھ حکومت آئی جی کی مشاورت کے بغیر افسران کے تبادلے نہیں کر سکتی، ڈی آئی جی خادم حسین اور ایس پی ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ غیر قانونی ہے۔

    یاد رہے کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر دونوں افسران کے تبادلوں کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا، افسران کی معطلی کے خلاف دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ حالیہ دنوں میں 80 پولیس افسران کے تبادلے کیے جا چکے ہیں، سندھ حکومت نے اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کی۔

    وزیراعظم عمران خان کی آج آئی جی سندھ کلیم امام سے اہم ملاقات ہوگی

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ ڈی آئی جی خادم حسین کا تبادلہ آئی جی کے علم میں لائے بغیر کیا گیا، ضابطے کے مطابق ڈی آئی جی کے تبادلے کے لیے آئی جی سے مشاورت لازمی ہے۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کی تبدیلی کے لیے رضا مندی ظاہر کی جا چکی ہے، نئے آئی جی کے انتخاب کے سلسلے میں وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان بات چیت جاری ہے۔

  • تفتیشی افسر نے میری بیٹی کو اغوا کیا ہے: والد کی عدالت میں دہائی

    تفتیشی افسر نے میری بیٹی کو اغوا کیا ہے: والد کی عدالت میں دہائی

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے مبینہ طور پر اغوا شدہ لڑکی کے والد نے عدالت کے سامنے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر نے میری بیٹی کو اغوا کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں مبینہ طور پر اغوا شدہ لڑکی کی عدم بازیابی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ لڑکی کے والد اور تفتیشی افسر عدالت میں پیش ہوئے۔

    لڑکی کے والد نے عدالت میں موجود تفتیشی افسر پر اغوا کا الزام عائد کردیا۔ والد نے کہا کہ میری بیٹی کو سعید آباد سے سنہ 2014 میں اغوا کیا گیا۔

    تفتیشی افسر نے عدالت میں کہا کہ لڑکی نے پسند کی شادی کی ہے اور اب وہ اٹک بھاگ گئی ہے۔ افسر نے والد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ چلیں ہم لڑکی کو بازیاب کرواتےہیں۔

    لڑکی کے اہلخانہ نے پولیس کے ساتھ اٹک جانے سے انکار کردیا، لڑکی کے والد نے کہا کہ جس تفتیشی افسر نے بیٹی اغوا کی اس کے ساتھ کیسے جائیں۔

    عدالت نے ڈی آئی جی ویسٹ کو لڑکی کی تلاش سے متعلق نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

  • خورشید شاہ کی رہائی کا حکم معطل

    خورشید شاہ کی رہائی کا حکم معطل

    سکھر: سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کی رہائی کا حکم معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے سامنے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں خورشید شاہ کی ضمانت پر رہائی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ نے خور شید شاہ کی رہائی کا حکم معطل کر دیا۔

    احتساب عدالت نے 17 دسمبر کو خورشید شاہ کی رہائی کا حکم دیا تھا، جس پر نیب نے ان کی رہائی کے حکم کو چیلنج کر دیا تھا، نیب کی جانب سے نیب پراسیکیوٹر اور خورشید شاہ کے وکلا عدالت میں پیش ہوئے، پی پی رہنما کے وکیل نے کہا احتساب عدالت نے خورشید شاہ کی رہائی کا حکم دیا تھا، میرے مؤکل کو نوٹس کی تعمیل نہیں ہوئی۔

    یہ بھی پڑھیں:  احتساب عدالت میں خورشید شاہ کی ضمانت منظور

    عدالت نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کر کے کیس کی سماعت 16 جنوری تک ملتوی کر دی۔ خیال رہے کہ سماعت سندھ ہائی کورٹ سکھر کی دو رکنی بینچ نے کی۔

    دریں اثنا، خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں شامل 5 ملزمان نے ضمانت کی درخواست دے دی، ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں قبل از گرفتاری کی درخواست جمع کرا دی۔

    یہ بھی پڑھیں:  خورشید شاہ کے خلاف سوا ارب روپے کا ریفرنس دائر

    یاد رہے کہ سترہ دسمبر کو سکھر کی احتساب عدالت میں خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت کے دوران وکیل صفائی رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ خورشید شاہ کو گرفتار کیے 90 روز گزر گئے ہیں اور نیب کوئی ثبوت نہ ریفرنس پیش کر سکی، خورشید شاہ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، استدعا ہے قانون کے مطابق کیس خارج کیا جائے۔

    مد نظر رہے کہ 19 دسمبر کو قومی احتساب بیورو نے خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ایک ارب 23 کروڑ سے زائد کا ریفرنس دائر کر دیا ہے۔

  • سندھ میں امتحانات کے دوران نقل کی روک تھام نہ ہونے پر عدالت سخت برہم

    سندھ میں امتحانات کے دوران نقل کی روک تھام نہ ہونے پر عدالت سخت برہم

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے صوبے میں امتحانات کے دوران نقل کی روک تھام نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معیاری تعلیم حاصل کرنا سندھ کے عوام کا بھی حق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے صوبے میں نقل کی روک تھام نہ ہونے کے معاملے پر متعلقہ حکام کو طلب کرلیا۔ عدالت نے امتحانات کے دوران نقل کی روک تھام کے لیے میکنزم بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں تعلیمی بورڈ کی تجاویز کو مدنظر رکھ کر میکنزم بنائیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ غیر تربیت یافتہ عملے کو امتحانی مراکز میں تعینات نہ کیا جائے۔ ہائیکورٹ نے چیئرمین تعلیمی بورڈز، چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، ایم ڈی سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور سیکریٹری بورڈ اینڈ یونیورسٹی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

    عدالت نے متعلقہ اداروں اور فریقین سے 11 دسمبر تک رپورٹ بھی طلب کی ہے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ سنہ 2020 کے سالانہ امتحانات نئی پالیسی کے تحت کروائے جائیں، جبکہ وفاقی ایجوکیشن پالیسی 2006 کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنانے کا بھی حکم دیا۔ کمیٹی میں تعلیمی بورڈز کے سربراہ، یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز اور دیگر کو شامل کرنے کا حکم دیا گیا۔

    کمیٹی کی تشکیل پر چیف سیکریٹری سندھ سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی گئی۔

    جسٹس صلاح الدین پنہور کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت اچھی تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے، اعلیٰ تعلیم کے بغیر زندگی بسر کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ معیاری تعلیم حاصل کرنا سندھ کے عوام کا بھی حق ہے۔