Tag: سندھ ہائیکورٹ

  • پیپلز پارٹی رہنماؤں کے خلاف اقامہ رکھنے سے متعلق درخواست پر سماعت

    پیپلز پارٹی رہنماؤں کے خلاف اقامہ رکھنے سے متعلق درخواست پر سماعت

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف اقامہ رکھنے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران صوبائی الیکشن کمیشن کو 10 دن کی مہلت دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف اقامہ رکھنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔

    دوران سماعت فریقین کے وکلا میں گرما گرمی ہوگئی اور تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ عدالت نے گزشتہ سماعت پر الیکشن کمیشن کو جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحال جواب جمع نہیں کروایا گیا۔

    پی پی رہنما منظور وسان اور سہیل انور سیال کی جانب سے بھی جواب جمع نہیں کروایا گیا۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ہدایت پر جواب جمع نہیں کروایا جا رہا۔

    درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فریال تالپور کو صدارتی الیکشن میں ووٹ کاسٹ کرنے سے بھی روکا جائے، فریال تالپور کو ووٹ کی اجازت عوام کی توہین ہے۔

    وکیل نے مزید کہا کہ سندھ میں شراب کی بوتلوں سے شہد اور زیتون نکلتا ہے۔

    عدالت نے متنبہ کیا کہ ہم چیف الیکشن کمشنر کو بھی طلب کر سکتے ہیں جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

    عدالت نے صوبائی الیکشن کمیشن کو فوری طور پر طلب کیا۔ الیکشن کمیشن سے نمائندہ آنے کے بعد سماعت دوبارہ شروع کی گئی۔ عدالت نے جواب جمع نہ کروانے پر برہمی کا اظہار کیا۔

    الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ سارا عملہ صدارتی الیکشن میں مصروف ہے مہلت دی جائے، 1 ہفتے میں جواب جمع نہیں کروایا تو جو چاہے فیصلہ کردیں۔

    عدالت نے صوبائی الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو جواب دینے کی آخری مہلت دیتے ہوئے 10 دن کا وقت دیا۔

    عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جواب نہیں دیا تو چیف الیکشن کمشنر کو طلب کریں گے۔ سندھ ہائیکورٹ نے درخواستوں کی مزید سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کردی۔

  • حکومت سندھ عدالتوں کے ساتھ گیم کھیلنا بند کردے، سندھ ہائیکورٹ

    حکومت سندھ عدالتوں کے ساتھ گیم کھیلنا بند کردے، سندھ ہائیکورٹ

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے حکومت سندھ کو تنبیہ کی ہے کہ وہ عدالتوں کے ساتھ گیم کھیلنا بند کرے، انکوائری نیب کا کام ہے،اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ جبکہ عدالت نے محکمہ آبپاشی سندھ کے تین اعلیٰ افسران کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں محکمہ آبپاشی میں7ارب روپے سے زائد کرپشن کیس کی سماعت ہوئی، سماعت میں اسپیشل سیکریٹری آبپاشی جنید میمن،چیف انجینئرارشاد میمن کو ہٹانے کا حکم دیا جبکہ سپرنٹنڈنٹ انجینئر فیاض کو بھی ہٹانے کا حکم دیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ تینوں افسران کیخلاف3،3انکوائریزچل رہی ہیں، افسران انکوائریوں پراثراندازہورہےہیں، عدالتی حکم کےباوجودان کوعہدوں سے نہیں ہٹایا گیا۔

    جس پر عدالت نے حکم دیا کہ کرپشن میں ملوث افسران کوعہدوں سےہٹایاجائے، افسران کےعہدوں پر رہنے سے شفاف انکوائری کی توقع نہیں۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ کے پی ماہرین کی ٹیم کے اخراجات کس نے برداشت کئے، جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ ٹیم کے اخراجات محکمہ آبپاشی نے برداشت کئے۔

    چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات بھی آپکے خلاف،مہمان نوازی بھی آپ نے کی اور وضاحت کےلئےڈی جی نیب27 فروری کوسندھ ہائیکورٹ طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس احمد علی شیخ نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت نہروں کے سروے کیلئے تاریخیں دیکرمؤقف تبدیل کرچکی، یہ چاہتےہیں اربوں کی کرپشن کرنیوالوں کیخلاف کارروائی نہ ہو، جس پر اےجی سندھ کا کہنا تھا کہ ہم بالکل ایسانہیں چاہتے،آبادگاروں نے بھی درخواست کی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ ہم آبادگاروں کےمسائل جانتےہیں وہ کیسےدرخواست دائرکرسکتے ہیں، جس پر پراسیکیو نیب نے کہا کہ اصل ذمہ داران کو ہٹانے کے بجائے دیگر افسران کو ہٹا دیا گیا۔

    جسٹس کے کے آغا نے حکومت سندھ کو تنبیہ کی کہ عدالتوں کےساتھ گیم کھیلنابندکردے جبکہ چیف جسٹس احمد علی شیخ نے ریمارکس دیئے کہ انکوائری نیب کاکام ہے،اسےکوئی نہیں روک سکتا۔

    عدالت نے نیب کوروہڑی کینال،جھمڑاوکینال،نارہ کینال کے سروےکی اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نیب ماہرین کیساتھ جاکرنہروں پر ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ کریں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 14-2013 میں روہڑی کینال میں بندوں کی تعمیرات کیلئے رقم جاری کی گئی، ملزموں نےروہڑی کینال کی تعمیرات کے بجائے رقم ہڑپ کرلی، کرپشن میں پراجیکٹ ڈائریکٹراشفاق نورمیمن،ولی محمدسمیت دیگر شامل ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • معاشرے میں حق تلفی اور ظلم ہو رہا ہے، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ

    معاشرے میں حق تلفی اور ظلم ہو رہا ہے، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ

    حیدرآباد : چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی ایم شیخ نے کہا ہے کہ عدلیہ مظلوموں کے لیے اخری سہارا ہے، معاشرے میں عوام کے حق تلف کیے جارہے ہیں، لوگوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے حیدرآباد سول کورٹ کے ڈسٹرکٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جسٹس احمد علی ایم شیخ کا کہنا تھا کہ ہم نے آئین کی وفا داری کا حلف اٹھایا ہوا ہے، ججز سائلین کی جگہ خود کو رکھ کر انصاف کریں۔

    انہوں نے کہا کہ سول اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے درمیان رابطہ پل تعمیر کرائیں گے، کروڑوں کا فنڈ چند لوگوں کی جیب میں جائے تو غریب کیا کرے، لوگ انصاف کے لیے عدالت ہیں آئیں گے تو کہاں جائیں گے؟

    جسٹس علی ایم شیخ کا کہنا تھا کہ جلدفیصلےدیےجانے لگیں تو لوگ کیوں عدالتوں کے دھکےکھائیں، حقیقی زندگی یہ نہیں کہ مہنگی کار اوربرانڈڈ کپڑے پہنیں بلکہ حقیقی سکون لوگوں کی خدمت سےملےگا۔

  • بد سلوکی کیس: وکیل کی پولیس کیخلاف عدالت میں درخواست دائر

    بد سلوکی کیس: وکیل کی پولیس کیخلاف عدالت میں درخواست دائر

    کراچی : سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو سے متعلق خواجہ شمس الاسلام ایڈووکیٹ نے عدالت میں سندھ حکومت اور پولیس کیخلاف درخواست دائر کردی، سندھ ہائی کورٹ نے فریقین کو8 جنوری کے نوٹسز جاری کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق کلفٹن کے علاقے سی ویو پر پولیس سے بد سلوکی کے الزام میں گرفتار سندھ ہائیکورٹ کے وکیل شمس الاسلام نے اپنی گرفتاری اور رہائی کے بعد سندھ ہائیکورٹ میں تحفظ کے حصول کیلئے درخواست دائر کردی ہے۔

     درخواست میں ہوم سیکریٹری، آئی جی سندھ، ڈی ایس پی اورنگزیب، ایس ایس پی ساؤتھ جاوید اکبر،ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد خان بھی فریق ہیں، اس کے علاوہ درخشاں تھانے کےاہلکاروں بھی درخواست میں فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ پولیس نے واقعے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اس لیے مجھ پر مزید جھوٹے مقدمات قائم کیے جاسکتے ہیں لہٰذا پولیس کو پابند کیا جائے۔

    جس پر سندھ ہائیکورٹ نے فریقین کوطلبی کے لیے8 جنوری کے نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔


    مزید پڑھیں : پولیس سے بدسلوکی کرنے والے وکیل کی گرفتاری و رہائی


    واضح رہے کہ پولیس نے خواجہ شمس الاسلام ایڈووکیٹ کو قابل ضمانت مقدمے میں گرفتار کیا تھا، پیشی کے موقع پر عدالت نے وکیل کی گرفتاری غیرقانونی قرار دیتے ہوئے پولیس سے وضاحت بھی طلب کر رکھی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔ 

  • ماتحت عدالتوں کی جانب سے انوکھی سزائیں، ہائیکورٹ کا نوٹس

    ماتحت عدالتوں کی جانب سے انوکھی سزائیں، ہائیکورٹ کا نوٹس

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ماتحت عدالتوں کی جانب سے انوکھی سزاؤں کا نوٹس لے لیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سزائیں قانون کے مطابق نہیں ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی جانب سے دی جانے والی انوکھی سزاؤں پر سندھ ہائیکورٹ نے نوٹس لے کر رپورٹ طلب کرلی۔

    ضلع شرقی کی عدالتوں کی جانب سےکچھ دن پہلے ملزمان کو اصلاحی سزائیں دینے کے نام پرکسی کو پلے کارڈ لے کرسڑک پر کھڑے ہونے کی سزا سنائی، تو کسی کو مسجد کی صفیں بچھانے پر لگا دیا۔

    ایک ملزم کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے پر 3 سال باجماعت نماز ادا کرنے کی سزا سنائی گئی۔

    سندھ ہائیکورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایسی سزاؤں سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، سزائیں قانون کےمطابق نہیں ہیں۔ ایسی سزاؤں سے عدلیہ کی بدنامی ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عدالت کے حکم پر عائشہ باوانی کالج کا تالہ توڑ دیا گیا

    عدالت کے حکم پر عائشہ باوانی کالج کا تالہ توڑ دیا گیا

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں واقع عائشہ باوانی کالج کو عدالتی حکم کے باجود کھولا نہیں گیا جس کے بعد عدالت نے عمارت کا تالا توڑ کر کل ہر صورت میں تدریسی عمل بحال کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی مرکزی شاہراہ فیصل پر واقع عائشہ باوانی کالج میں عائشہ باوانی ٹرسٹ اور محکمہ تعلیم کے درمیان کالج کے کرائے کا معاملہ ماتحت عدالت تک جا پہنچا تھا جس پر عدالت نے کالج کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔

    تاہم اگلے ہی روز 2 ہزار سے زائد طلبا کے احتجاج اور ان کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے فوری طور پر فیصلے کو معطل کرتے ہوئے کالج کھولنے اور پیر سے تدریسی عمل شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔

    بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے کالج کو فوری طور پر کھولنے کا حکم دیا تھا۔

    مزید پڑھیں: طلبا کے احتجاج کے بعد وزیر اعلیٰ کا عائشہ باوانی کالج کھولنے کا حکم

    تاہم ان تمام احکامات کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور کالج میں تدریسی عمل تاحال معطل ہے جس کے بعد اب سندھ ہائیکورٹ نے عمارت کا تالہ توڑ دینے کا حکم دیا۔

    عدالت کے حکم کے مطابق ہائیکورٹ کے ناظر کی موجودگی میں عائشہ باوانی کالج کا دروازہ کھول دیا گیا۔ اس موقع پر عدالتی عملہ اور پولیس کی نفری عائشہ باوانی کالج میں موجود رہی۔

    سندھ ہائی کورٹ نے کل ہر حال میں عائشہ باوانی کالج میں تدریسی عمل بحال کروانے کا حکم دیا ہے جبکہ عدالت نے کالج کا قبضہ سندھ حکومت کے حوالے کرنے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔

    ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق عائشہ باوانی ٹرسٹ کو بھی 25 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کردیا گیا ہے جبکہ ایس ایس پی سینئر پولیس افسر کو کالج پر تعیناتی کا آرڈر بھی دیا گیا۔

    عدالت نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ حکم میں عملدر آمد پر رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سندھ ہائیکورٹ میں کےالیکٹرک کےخلاف درخواست، فیصلہ محفوظ

    سندھ ہائیکورٹ میں کےالیکٹرک کےخلاف درخواست، فیصلہ محفوظ

    کراچی : کےالیکٹرک کےخلاف درخواست پر نیپراحکام نے عجیب منطق پیش کی ہے، نیپرا کے وکیل نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک کیخلاف شکایت آئے تو پھر کارروائی کرینگے۔ عدالت نے کے الیکٹرک کےخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق کےالیکٹرک کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کےخلاف شہری کرامت علی کی درخواست پرسماعت ہوئی۔ نیپرا کے موقف پرسندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس عرفان سعادت نے نیپرا وکیل سے سخت سوالات کرڈالے۔

    انہوں نے کہا کہ نیپرا کوخبرہی نہیں کےالیکٹرک نےکراچی والوں کی زندگی عذاب بنارکھی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ میں نیپرا وکیل کی وضاحت نے سب کو حیران کردیا، جسٹس عرفان سعادت نےنیپرا کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا نیپرا کے الیکٹرک کےخلاف خود کارروائی کااختیارنہیں رکھتی؟

    نیپرا وکیل نےعدالت کو بتایا کہ ادارے کے خلاف نیپرا کے پاس کوئی شکایت آئےگی تو کارروائی کریں گے، نیپرا وکیل سے مکالمے میں جسٹس عرفان نے دریافت کیا کہ آپ اتنے لاچار ہیں کہ کارروائی کیلئے شکایت کا انتظارکررہے ہیں؟

    عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگرنیپرا اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہوتا تو اس درخواست کی نوبت ہی نہ آتی۔ جسٹس عرفان سعادت کےاستفسار پر کے الیکٹرک کے سربراہ ڈسٹری بیوشن نے عدالت کو یقین دلایا کہ نیپرا کی ہدایات پرعمل کرنے کوتیار ہیں، بعد ازاں عدالت نے کے الیکٹرک کےخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا

  • لاپتہ افراد کا کیس: تفتیشی افسران کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار

    لاپتہ افراد کا کیس: تفتیشی افسران کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں تفتیشی افسران کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار دے دی۔ عدالت نے کہا کہ جسے چاہتے ہیں پانچ منٹ میں ڈھونڈ لیتے ہیں اور کئی لوگ 5، 5 سال سے لاپتہ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے تفتیشی افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان اور برہمی کا اظہار کیا۔

    دو رکنی بینچ نے ریمارکس میں کہا کہ تفتیشی افسران کسی کام کے نہیں، کیا انہیں نا اہل قرار دے دیں؟ جے آئی ٹی میں شریک افسران بھی نا اہل اور کام کے قابل نہیں، ان افسران کو عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔

    مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کی بازیابی کی کسی کو پرواہ نہیں، عدالت برہم

    عدالت کا کہنا تھا کہ جسے چاہتے ہیں 5 منٹ میں ڈھونڈ لیتے ہیں اور کئی لوگ پانچ پانچ سال سے لاپتہ ہیں۔ ٹاسک فورس اور جے آئی ٹی کے باوجود لوگوں کو تلاش نہیں کیا جاسکا۔

    عدالت نے لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

    اس سے قبل ایک سماعت کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ کراچی میں لاپتہ افراد کی تعداد 500 تک پہنچ چکی ہے۔ جسٹس فاروق شاہ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ میں 495 لاپتہ افراد کی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔

  • شہریوں کی بلا جواز گمشدگی پر سندھ ہائیکورٹ سخت برہم

    شہریوں کی بلا جواز گمشدگی پر سندھ ہائیکورٹ سخت برہم

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور جعلی مقابلوں میں شہریوں کی ہلاکت کے کیس میں عدالت نے شہریوں کی بلا جواز گمشدگی اور جعلی مقابلوں پر شدید اظہار برہمی کیا۔ عدالت نے لاپتہ شہریوں کی بازیابی کے لیے فوری اقدامات کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں 100 سے زائد لاپتہ افراد کی بازیابی اور جعلی مقابلوں شہریوں کی ہلاکت کے کیس کی سماعت ہوئی۔ شہریوں کی بلا جواز گمشدگی اور جعلی مقابلوں پر عدالت نے شدید اظہار برہمی کیا۔

    عدالت نے رینجرز سے مقابلوں میں ہلاک دہشت گردوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے رینجرز سے 27 اپریل تک تحریری جواب بھی طلب کیا۔

    مزید پڑھیں: کراچی میں لاپتہ افراد کی تعداد 500 ہونے کا انکشاف

    عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لاپتہ شہریوں کی بازیابی اور اس پر پولیس کی ناقص تفتیش سے بظاہر لگتا ہے کہ پولیس چاہتی ہے کہ لاپتہ شہریوں کو لاپتہ ہی رہنے دیا جائے۔ گمشدہ شہریوں کی بازیابی کے مقدمے کی تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔

    عدالت نے مقابلے میں جاں بحق شہری ایجبا احمد کی پولیس رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔

    ایجبا کے والد کا کہنا تھا کہ میرے 2 بیٹوں کو ایس ایچ او شعیب نے 2015 میں حراست میں لیا۔ ایجبا جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا، جبکہ دوسرا بیٹا ابھی تک لاپتہ ہے۔

    اس سے قبل سماعت میں کراچی میں لاپتہ افراد کی تعداد 500 تک پہنچنے کا انکشاف ہوا تھا۔

  • جسٹس سجاد علی شاہ اور نئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی حلف برادری

    جسٹس سجاد علی شاہ اور نئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی حلف برادری

    اسلام آباد: سابق چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ نے سپریم کورٹ کے جج کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ ان کی جگہ جسٹس احمد علی ایم شیخ نے بھی سندھ ہائیکورٹ کے 23 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس سجاد علی شاہ کی تقریب حلف برداری سپریم کورٹ میں ہوئی۔ تقریب میں سپریم کورٹ کے ججز، اٹارنی جنرل اور سینئر وکلا شریک ہوئے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے جج تعینات ہونے سے قبل چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی تقرری کی سفارش جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی نے دی تھی۔

     نئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی حلف برادری

    دوسری جانب چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی حلف برداری کی سادہ و پروقار تقریب ہائیکورٹ میں منعقد ہوئی۔ جسٹس احمد علی ایم شیخ نے سندھ ہائیکورٹ کے 23 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔

    تقریب میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، ہائی کورٹ کے ججز اور وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

    جسٹس احمد علی ایم شیخ 3 اکتوبر سنہ 1961 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لاڑکانہ میں گریجویشن تک تعلیم حاصل کی، بعد ازاں شاہ لطیف یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا اور 1990 میں بطور وکیل پریکٹس شروع کی۔

    جسٹس احمد علی ایم شیخ 1994 سے 1995 کے دوران لاڑکانہ بار کے سیکریٹری اور نائب صدر بھی رہے۔ بعد ازاں وہ ہائیکورٹ بار لاڑکانہ کے صدر بھی منتخب ہوئے۔