Tag: سندھ ہائیکورٹ

  • کرپشن کا راز افشا کرنے والے شہری کے مبینہ قاتل تقی حیدر کی پاکستان حوالگی کیوں نہ ہو سکی؟

    کرپشن کا راز افشا کرنے والے شہری کے مبینہ قاتل تقی حیدر کی پاکستان حوالگی کیوں نہ ہو سکی؟

    کراچی: انشورنس کمپنی میں بدعنوانی کے سراغ پر شہری کو مبینہ طور پر قتل کرنے والے تقی حیدر شاہ کی پاکستان حوالگی میں تاخیر پر سندھ ہائیکورٹ نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی فرار ہونے والے مبینہ ملزم تقی حیدر شاہ کی دبئی سے پاکستان حوالگی کے کیس میں تاخیر میں سرکاری اداروں کی کارکردگی پر عدالت نے برہم کا اظہار کیا ہے، عدالت نے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو مختلف محکموں کے سیکریٹریز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا حکم دے دیا، اور سیکریٹری داخلہ اور خارجہ کو آئندہ سماعت پر ذاتی طور پر طلب کر لیا۔

    وفاقی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ تاخیر کا سبب سندھ کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مکمل دستاویزات فراہم نہ کیا جانا ہے، اس پر عدالت نے ہوم ڈیپارٹمنٹ سندھ کو 10 یوم میں کیس کی تمام دستاویزات مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ دستاویزات وصول ہونے کے بعد 15 یوم میں دستاویزات وزارت خارجہ کو فراہم کرے، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا وزارتِ خارجہ دستاویزات مکمل ہونے کے بعد مفرور ملزم کو عدالت میں پیش کرے، عدالت نے آئندہ سماعت 6 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

    وکیل درخواست گزار جبران ناصر نے کہا عدالتی احکامات کے باوجود ملزم کی حوالگی سے متعلق دستاویزات دبئی حکام کو فراہم نہیں کی گئیں، پاکستانی حکام کی تاخیر کی وجہ سے دبئی حکام نے ملزم تقی حیدر شاہ کو رہا کر دیا ہے، وکیل نے کہا 11 جولائی 2023 کو وزارت خارجہ کی جانب سے دستاویزات پر دبئی حکام کے اعتراض سے بھی آگاہ کیا گیا تھا۔

    درخواست گزار ماہم امجد کے مطابق ان کے والد کو ان کے دفتر کے ساتھی تقی شاہ نے 2008 میں قتل کر دیا تھا، ماہم امجد کے مطابق ان کے والد نے لائف انشورنس کمپنی کے دفتر میں اربوں روپے بدعنوانی کا سراغ لگایا تھا۔ قتل کی اس واردات کی مناسب پیروی نہ ہونے پر ملزم کو فرار ہونے کا موقع مل گیا تھا۔

    ماہم امجد کے مطابق انھوں نے ملزم تقی حیدر شاہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے تلاش کیا تھا کہ وہ دبئی میں ہے، جس پر انھوں نے ملزم کو دبئی میں گرفتار کروایا تھا۔

  • سندھ میں 24 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر با اثر شخصیات کے قبضے کا انکشاف

    سندھ میں 24 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر با اثر شخصیات کے قبضے کا انکشاف

    کراچی: صوبہ سندھ میں 24 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر با اثر شخصیات کے قبضے کا انکشاف ہوا ہے۔

    کراچی میں ایک شہری علی نواز انڑ نے سندھ ہائیکورٹ میں ایک متفرق درخواست دائر کی ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ گمبٹ سوبھودیرو میں جنگلات کی 24 ہزار ایکڑ زمین پر با اثر شخصیات کا قبضہ ہے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ جنگلات و دیگر کو نوٹس جاری کر دیے، عدالت نے آئندہ سماعت پر سیکریٹری قانون اور جنگلات سے رپورٹ بھی طلب کر لی اور کہا کہ اگر آئندہ سماعت تک پیش رفت نہ ہوئی تو احکامات جاری کریں گے۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ با اثر شخصیات جنگلات کی زمین پر کاشت کاری کر کے لاکھوں کما رہے ہیں۔

    سیکریٹری جنگلات اینڈ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ عدالت میں پیش ہوئے، اور کاربن کریڈٹ کی مد میں غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے ملنے والے فنڈز کی رپورٹ پیش کی گئی، عدالت نے سیکریٹری جنگلات کو زمینوں پر قبضے ختم کرانے کے لیے تمام اقدامات کی ہدایت کی۔

    عدالت نے کہا جنگلات کی زمینوں سے قبضہ ختم کرانے کے لیے رینجرز اور سیشن جج کی مدد لی جائے، کے پی اور پنجاب میں جنگلات کی زمین کی حفاظت کے لیے فورس موجود ہے۔ سیکریٹری جنگلات نے عدالت کو بتایا کہ قانون میں ترمیم کر کے جنگلات کی حفاظت کے لیے فورس بنائی جا رہی ہے۔

    سندھ ہائیکورٹ میں کیس کی مزید سماعت 4 ستمبر کو ہوگی۔

  • 11 سال سے لاپتا شہری کو عدالت میں پولیس نے پاگل قرار دے دیا، والد کی آہ و زاری

    11 سال سے لاپتا شہری کو عدالت میں پولیس نے پاگل قرار دے دیا، والد کی آہ و زاری

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں 11 سال سے لاپتا شہری سمیت 15 سے زائد لاپتا شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ درخواستوں کی سماعت جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی، ملیر کے علاقے سے لاپتا حبیب خان کے بزرگ والد عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے دوران شہری کے والد نے آہ و زاری کرتے ہوئے کہا میں 11 سال سے پولیس اسٹیشنز اور عدالتوں کے دھکے کھا رہا ہوں، اب تک کہیں سے انصاف نہیں ملا۔ انھوں نے بتایا 2011 میں حبیب خان ڈیوٹی سے گھر واپس آرہا تھا، اسی دوران اسے راستے سے غائب کر دیا گیا۔

    مدعی نے عدالت کو بتایا میرا بیٹا تاحال لاپتا ہے اب تک پولیس کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، 11 سال سے ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے، کیا انھوں نے اللہ کو جواب نہیں دینا؟

    عدالت نے کہا کہ بتایا جائے شہری کی بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ جے آئی ٹیز میں ان کو بلایا جاتا ہے تو یہ جے آئی ٹی اجلاس میں نہیں آتے۔ تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے بیٹے کا دماغی توازن سہی نہیں تھا۔ اس پر شہری کے والد نے کہا کہ جے آئی ٹی اجلاس کے لیے ہمیں بتایا تک نہیں جاتا اور ہماری کالز کا بھی جواب نہیں دیا جاتا۔ عدالت نے کہا کہ اب جے آئی ٹی ہوگی تو یہ خود آپ سے رابطہ کریں گے۔

    پولیس نے عدالت کو بتایا کہ جنید احمد نیو کراچی کے علاقے سے، حبیب خان ملیر کے علاقے سے، طارق خان عوامی کالونی اور دیگر شہری کراچی کے مختلف علاقوں سے لاپتا ہیں۔ حبیب خان سمیت دیگر شہریوں کی بازیابی کے لیے متعدد جے آئی ٹی اجلاس اور پی ٹی ایف سیشنز ہو چکے ہیں۔ شہریوں کی بازیابی کے لیے ملک بھر کی ایجنسیوں اور حراستی مراکز کو خطوط ارسال کیے گئے ہیں۔

    عدالت نے ایف آئی اے سے گم شدہ شہریوں کی ٹریول ہسٹری طلب کر لی، عدالت نے جے آئی ٹیز اور پی ٹی ایف سیشنز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ بھی طلب کر لی، عدالت نے درخواستوں کی سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

  • کے فور منصوبہ 2023 میں مکمل ہونا تھا، فنڈز تاحال جاری نہیں کیے گئے

    کے فور منصوبہ 2023 میں مکمل ہونا تھا، فنڈز تاحال جاری نہیں کیے گئے

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں کے فور منصوبے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہ کیے جانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، شہری واقف شاہ کی درخواست پر عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کر دیے۔

    عدالت نے درخواست پر سنوائی کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ان سے جواب طلب کر لیا، درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 2023 میں کے فور منصوبہ مکمل ہونا تھا لیکن فنڈز جاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

    درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کیا کہ کے فور منصوبے کے لیے وفاقی حکومت نے 16 بلین فنڈز دینا تھا، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز میں تاخیر کے سبب کے فور منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔

    درخواست گزار نے کہا کے فور منصوبے سے کراچی کو 250 ملین گیلن پانی ملنا ہے، جب کہ کراچی میں پانی کی قلت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، فنڈز جاری کر کے کے فور منصوبے کو فوری مکمل کیا جائے۔

    درخواست گزار نے یہ بھی بتایا کہ یہ منصوبہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے اشتراک سے شروع ہوا تھا، اور 2020 میں کے فور منصوبہ واپڈا کے سپرد کیا گیا تھا۔

  • ایف آئی اے کے لاپتا ریٹائرڈ افسر کا سراغ کیوں نہیں لگ سکا؟

    ایف آئی اے کے لاپتا ریٹائرڈ افسر کا سراغ کیوں نہیں لگ سکا؟

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کے ریٹائرڈ افسر کا سراغ لگانے کے لیے فوری جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج سندھ ہائی کورٹ میں ایف آئی اے ریٹائرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر سمیت 10 سے زائد گمشدہ افراد کی بازیابی کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے پولیس کی جانب سے روایتی کارروائی پر اظہار برہمی کیا۔

    عدالت میں دی گئی درخواست کے مطابق سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر احمد جان کو اپریل میں غائب کیا گیا تھا، وکیل نے کہا کہ متعلقہ تھانہ ایف آئی آر درج کرنے سے بھی گریزاں ہے، عدالت نے ایف آئی اے ریٹائرڈ افسر کا سراغ لگانے کے لیے فوری جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

    ایس ایس پی نے ایک اور کیس میں عدالت کو بتایا کہ بوٹ بیسن سے گمشدہ حیدر از خود لاپتا ہو گیا ہے کسی ادارے نے حراست میں نہیں لیا، اس پر عدالت نے کہا اگر وہ خود لاپتا ہو گیا ہے تو تلاش کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑ سکتی۔

    عدالت نے ایک اور گم شدہ شہری کے کیس میں کہا کہ اسٹیریو ٹائپ رپورٹ کاپی پیسٹ کر کے عدالت میں جمع کرا دی جاتی ہے، جب گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات ہی نہیں کیے گئے ہیں تو رپورٹ میں لکھنے کیا ضرورت ہے۔

    جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے استفسار کیا کہ گمشدہ شہری ارسلان کے اہلخانہ کو معاوضہ دینے کا کہا گیا تھا، کیا اہلخانہ کو معاوضہ ادا کر دیا گیا؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ ارسلان کی جبری گمشدگی کا تعین نہیں ہوا ہے۔ عدالت نے کہا جب معاوضہ نہیں دینا تو رپورٹ میں کیوں لکھا گیا؟

    عدالت نے دیگر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے 3 ہفتوں میں رپورٹس طلب کر لیں، عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو مؤثر اقدامات کرنے کا بھی حکم دیا۔

  • سپر ہائی وے کو موٹر وے قرار دینے کی بجائے نیا موٹر وے کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ سندھ ہائیکورٹ

    سپر ہائی وے کو موٹر وے قرار دینے کی بجائے نیا موٹر وے کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ سندھ ہائیکورٹ

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے موٹر وے اسکیم سے شہریوں کے متاثر ہونے کے کیس میں اہم سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ’سپر ہائی وے کو موٹر وے قرار دینے کی بجائے نیا موٹر وے کیوں نہیں بنایا جا رہا؟‘

    سندھ ہائی کورٹ میں موٹر وے ایم 5 پر سروس روڈ سمیت دیگر سہولتوں تک رسائی کے کیس میں عدالت نے سوال اٹھایا ہے کہ جن شہریوں کی جائیدادیں سپر ہائی وے کے اطراف ہیں انھیں وہاں رسائی سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

    وکیل این ایچ اے نے بتایا کہ ان شہریوں کے داخلے کے لیے انٹری گیٹ تعمیر کیے جا رہے ہیں، لیکن یہ لوگ تعمیرات کے لیے ادائیگی نہیں کر رہے ہیں۔

    جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ یہ لوگ ادائیگی کیوں کریں گے؟ کیا اسکیم میں یہ شامل نہیں؟ ایک شخص کی یہاں زمین ہے اور اچانک سڑک بن جائے تو کیا حق ملکیت ختم ہو جائے گا؟

    سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ موٹر وے بناتے ہوئے پرانی زمینوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی اسکیم کا حصہ ہونا چاہیے۔

    عدالت نے نکتہ اعتراض اٹھایا کہ سکھر حیدرآباد، لاہور اسلام آباد موٹر وے تو نئے بنائے گئے، جی ٹی روڈ کو تو موٹر وے نہیں بنایا گیا۔ کیس کی سماعت کے بعد سندھ ہائیکورٹ نے این ایچ اے سمیت دیگر فریقین سے 28 اگست کو جواب طلب کر لیا۔

  • اپنی مرضی سے گھر چھوڑکر گئی، کراچی سے گمشدہ لڑکی کا  اہم بیان سامنے آگیا

    اپنی مرضی سے گھر چھوڑکر گئی، کراچی سے گمشدہ لڑکی کا اہم بیان سامنے آگیا

    کراچی : کراچی سے گمشدہ لڑکی مصباح عدالت پہنچ گئیں اور بیان دیا کہ اپنی مرضی سےگھرچھوڑکرگئی ، والدین کےساتھ نہیں رہنا چاہتی۔

    تفصیلات کے مطابق لڑکی سمیت13 گمشدہ شہریوں کی بازیابی کیلئے سندھ ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، کراچی سے گمشدہ لڑکی مصباح عدالت پہنچ گئیں۔

    مصباح نے عدالت میں بیان دیا کہ والدین کےساتھ نہیں رہناچاہتی اپنی مرضی سےگھرچھوڑکرگئی ، جس پر والدین نے لڑکی کوساتھ لے جانے پر اصرار کیا۔

    عدالت نے استفسار کیا لڑکی آپ کےساتھ نہیں جانا چاہتی تو ہم کیسے حکم دےسکتےہیں؟

    دوران سماعت عدالت نے وزرات داخلہ کو 2بھائیوں کی بازیابی کیلئےذاتی طورپراقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے 29 اگست کو تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

    وزرات داخلہ نےحلف نامہ سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرادیا ، جس میں کہا کہ معاذاورطلحہ وفاقی حکومت کےکسی بھی ادارےکی تحویل میں نہیں ہیں، جس پر والدہ نے بیان میں کہا دونوں بیٹے دس سال سے لاپتا ہیں۔

    عدالت نے ندیم، فرقان، کامران جمال اوردیگرکی بازیابی سےمتعلق مؤثراقدامات کی ہدایت کرتےہوئےکہا کہ لاپتا افرادکی بازیابی کے لیے کچھ کرکے رپورٹس پیش کریں۔

    عدالت نے کم سن لڑکی سیما کی بازیابی کیلئے پولیس کوماڈرن ڈیوائسز کے استعمال کا حکم دیا

  • 70 لاکھ اغوا برائے تاوان کیس میں شہری کو ایف آئی آر کے لیے عدالت جانا پڑ گیا

    70 لاکھ اغوا برائے تاوان کیس میں شہری کو ایف آئی آر کے لیے عدالت جانا پڑ گیا

    کراچی: 70 لاکھ تاوان کے لیے اغوا ہونے والے شہری محمد صدیق کے کیس اندراج کے لیے مدعی کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں کراچی سے لاپتا شہری کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست کی سماعت جسٹس کوثر سلطانہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔

    درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ محمد صدیق 26 جون کو شام 6 بجے کسی کام کے سلسلے میں گھر سے نکلا تھا، اس دن سے وہ گھر واپس نہیں آیا، جب کہ پولیس نے تاحال مقدمہ درج نہیں کیا۔ وکیل نے مزید بتایا کہ چند روز قبل شہری کے والد اعظم گل کو کسی نمبر سے کال آئی تھی، جس میں 70 لاکھ تاوان کی ڈیمانڈ کی گئی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ جس نمبر سے کال آئی تھی وہ نمبر پولیس کو فراہم کر دیں تاکہ وہ ٹریس آوٴٹ کر سکیں، عدالت نے درخواست گزار وکیل کو متعلقہ نمبر پولیس کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے متعلقہ پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے درخواست کی مزید سماعت 2 ہفتوں تک ملتوی کر دی ہے۔

  • کلرک بھرتی ہونے والے ملازم کی ڈائریکٹر لیگل ایم ڈی اے تقرری عدالت میں چیلنج

    کلرک بھرتی ہونے والے ملازم کی ڈائریکٹر لیگل ایم ڈی اے تقرری عدالت میں چیلنج

    کراچی: ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کلرک بھرتی ہونے والے ملازم عرفان بیگ کی سیکریٹری اور ڈائریکٹر لیگل تقرری عدالت میں چیلنج کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سیکریٹری اور ڈائریکٹر لیگل ایم ڈی اے عرفان بیگ کی تقرری سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کی گئی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 اگست کو جواب طلب کر لیا ہے۔

    وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ عرفان بیگ کو ایم ڈی اے میں کلرک بھرتی کیا گیا تھا، اور دستاویزات سے معلوم ہوا کہ عرفان بیگ ایک وقت میں 2 پوسٹوں پر تعینات ہیں۔

    وکیل نے مزید بتایا کہ عرفان بیگ کو سیکریٹری ایم ڈی اے اور ڈائریکٹر لیگل کا چارج دیا گیا ہے، جب کہ قانون کے مطابق نچلے گریڈ کے ملازم کو اعلیٰ عہدے کا چارج نہیں دیا جا سکتا۔

    وکیل درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ عرفان بیگ کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا جائے۔

    واضح رہے کہ عرفان بیگ کو لوکل گورنمنٹ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں گریڈ 5 میں تعینات کیا تھا، لیکن اس کے برعکس وہ غیر قانونی طور پر گریڈ 19 کے مختلف اعلیٰ مناصب پر براجمان رہے، ان پر غیر قانونی کاموں اور زمینوں کے قبضوں میں براہِ راست ملوث ہونے کے الزامات بھی لگتے رہے۔ ماضی میں حکومت سندھ نے انھیں بہ طور ڈائریکٹر لیگل افیئر معطل بھی کیا تھا۔

  • عدالتی احکامات کے باوجود ایکس سروس معطل، عدالت میں فوری سماعت کے لیے درخواست منظور

    عدالتی احکامات کے باوجود ایکس سروس معطل، عدالت میں فوری سماعت کے لیے درخواست منظور

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ایکس سروس معطل ہونے کے خلاف فوری سماعت کے لیے دائر درخواست منظور کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں پی ٹی اے کی جانب سے ٹوئٹر / ایکس کی بندش پر عدالتی احکامات کے باوجود ایکس کو بحال نہیں کیا گیا، ایکس سروس معطل ہونے کے خلاف فوری سماعت کے لیے ایک درخواست دائر کی گئی ہے جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے 27 جون کی تاریخ مقرر کر دی۔

    یہ درخواست سینئر صحافی ضرار کھوڑو اور دیگر کی جانب سے عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ کی توسط سے دائر کی گئی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے جان بوجھ کر درخواست گزاروں کے معاشی اور قانونی حق تلفی کی جا رہی ہے، وکیل درخواست گزارنے عدالت میں کہا کہ وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور دیگر فریقین کے غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی فیصلوں سے شہریوں کے آئینی اور معاشی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

    وکیل نے کہا ایکس کی بندش تاحال جاری ہے، فریقین با رہا درخواست گزار کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں، اس لیے عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ فریقین کے غیر قانونی اقدامات کو فوری طور پر روکنے کے احکامات دیے جائیں، اگر فوری طور پر فریقین کو روکنے کا حکم نہ دیا گیا تو غیر قانونی اقدامات میں مزید اضافہ ہوگا۔

    عدالت سے استدعا کی گئی کہ درخواست کی فوری سماعت کی جائے۔ واضح رہے کہ عدالت نے ایکس سروس فوری طور پر بحال کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔