Tag: سندھ ہائی کورٹ

  • سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی ضمانت قبل ازگرفتاری منظور

    سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی ضمانت قبل ازگرفتاری منظور

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے زمین کی الاٹمنٹ سے متعلق کیس میں ضمانت قبل ازگرفتاری کے لیے درخواست دائر کی۔

    سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نیب کی انکوائری پراعتراض نہیں لیکن اسے گرفتاری سے روکا جائے۔

    قائم علی شاہ کی جانب سے درخواست میں کہا گیا کہ نیب سے انکوائری میں تعاون کرنے کو تیار ہیں لیکن عدالت نیب کو حکم دے کہ گرفتار نہ کیا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی 10 لاکھ روپے کے عوض ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کرلی، عدالت نے قائم علی شاہ کو نیب انکوائری میں تعاون کی بھی ہدایت کر دی۔

    یاد رہے کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں زمین کے گھپلوں سے متعلق نیب تفتیش کررہی ہے اور اس سلسلے میں سابق وزیراعلیٰ سندھ کو پوچھ گچھ کے لیے 2 نومبر کو طلب کیا گیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے تھے۔

  • اسکول فیس میں 5 فیصد سے زائد اضافہ،  ڈی جی پرائیویٹ  اسکولز سمیت 4اسکولوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

    اسکول فیس میں 5 فیصد سے زائد اضافہ، ڈی جی پرائیویٹ اسکولز سمیت 4اسکولوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

    کراچی : اسکول فیس میں پانچ فیصد سے زائد اضافے کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ نے ڈی جی پرائیویٹ اسکولز سمیت 4 اسکولوں کوتوہین عدالت کے نوٹس  جاری کردیئے، عدالت نے تمام اسکولوں کو حکم نامے پر مکمل عمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے سندھ حکومت سےفیس اسٹرکچر کاریکارڈ بھی مانگ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں پرائیویٹ اسکولوں کی جانب سے فیس میں پانچ فیصد سے زائد اضافے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں عدالتی حکم عدولی پر سندھ ہائی کورٹ نے ڈی جی پرائیویٹ اسکولز اور چار اسکولوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

    والدین کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر وکیل نے فل بینچ کو بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود اسکولز پانچ فیصد سے زائد اضافہ کررہے ہیں جبکہ ڈی جی اسکولز کے مطابق فیس اسٹرکچرز کا ریکارڈ بارش میں ضائع ہوگیا ہے۔

    عدالت نے تمام اسکولوں کو عدالتی حکم پر مکمل عمل درآمد کا حکم دیا اور سندھ حکومت سے منظورشدہ فیس اسٹرکچرکاریکارڈ بھی طلب کرلیا جبکہ ڈی جی پرایئویٹ اسکولز منسوب صدیقی کو انیس نومبر کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ 3 ستمبرکو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زیادہ فیس بڑھانے کا اختیارنہیں ہے۔ عدالت نے نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زائد فیس وصولی سے روک دیا تھا۔

    واضح رہے کہ والدین کے وکلاء کا موقف تھا کہ اسکول اساتذہ کی تنخواہیں مجموعی اخراجات کا 50 فیصد بھی نہیں، اخراجات کے ساتھ اسکول کی آمدنی بھی دیکھنی چاہیے، آئین کا آرٹیکل 38 تمام فریقین پرلاگو ہوتا اور سپریم کورٹ بھی قرار دے چکی کہ نجی اسکول منافع بخش کاروبارمیں آتے ہیں۔

  • سندھ ہائی کورٹ کا پروین رحمان قتل کیس 2 ماہ میں نمٹانے کا حکم

    سندھ ہائی کورٹ کا پروین رحمان قتل کیس 2 ماہ میں نمٹانے کا حکم

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس دو ماہ میں نمٹانے کا حکم دے دیا، پروین رحمان اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں پروین رحمان قتل کیس سے متعلق سماعت ہوئی، عدالتِ عالیہ نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ یہ کیس دو ماہ کے اندر نمٹایا جائے۔

    عدالت میں لیگل برانچ کی جانب سے ڈی ایس پی خالد خان نے گواہوں کی تفصیلات پیش کیں اور بتایا کہ پروین رحمان قتل کیس میں 29 گواہ تھے، 10 کے بیانات باقی ہیں۔

    پولیس حکام نے بتایا کہ گواہان کو نوٹس پہنچا دیے ہیں اور سیکیورٹی بھی دی جائے گی۔

    سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پروین رحمان کو قتل کردیا گیا اورکیس اب تک چل رہا ہے، وکلا کو بھی معاشرے میں اچھے لوگوں کا احساس ہونا چاہیے۔

    چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ملک میں اب پروین رحمان جیسی شخصیات کم ہی ملتی ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کو پروین رحمان قتل کیس 2 ماہ میں نمٹانے کا حکم دے دیا۔

    یاد رہے کہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں بنارس پل پر عبداللہ کالج کے قریب فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا۔

     ان کے قتل میں نامزد مرکزی ملزم رحیم سواتی کو مئی 2016 میں  خفیہ اطلاع پر منگھوپیر کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا ، ملزم کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا اور اس کے ریکارڈ پر قبضہ گیری اور بھتہ خوری جیسے جرائم بھی موجود تھے ۔ ملزم کا کہنا تھا کہ پروین رحمان ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھیں۔

    گزشتہ برس پولیس نے امجد نامی ایک اور ملزم کو طویل عرصے تک ریکی کی انتھک محنتوں کے نتیجے میں گرفتار کیا تھا، پولیس کےمطابق مذکورہ ملزم کے لیے تین سال تک ریکی کی گئی ہے۔

  • سندھ ہائی کورٹ نے لاوارث لاشوں کی شناخت کے میکنزم کی تفصیلات طلب کر لیں

    سندھ ہائی کورٹ نے لاوارث لاشوں کی شناخت کے میکنزم کی تفصیلات طلب کر لیں

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں لاوارث لاشوں کی شناخت کے معاملے پر سماعت کے دوران عدالت نے حکومت سندھ سے ڈی این اے لیبارٹریز کی تفصیلات طلب کر لیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاوارث لاشوں کی شناخت کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ نے چیف سیکریٹری سے کہا کہ رپورٹ دیں، لاوارث لاشوں کی شناخت کا میکنزم کیا ہے۔

    [bs-quote quote=”وقت آ گیا ہے کہ پولیس رولز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے: عدالت” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    سندھ کی عدالت نے چیف سیکریٹری سے پوچھا کہ کتنی لاوارث لاشوں کی شناخت ہوئی ہے، جب کہ مسخ شدہ لاشوں کی شناخت کیسی ہوگی؟ عدالت نے کہا ’پولیس قواعد کے مطابق عام لاشوں کی تصویر بنائی جاتی ہے، تو جلی ہوئی، کچلی اور مسخ شدہ لاشیں کیسے شناخت کی جاتی ہیں؟

    عدالت نے دریافت کیا کہ ایسی لاشوں کے اعضا کیسے حاصل کیے جاتے ہیں اور ان اعضا کو کہاں رکھا جاتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پولیس رولز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

    قبل ازیں عدالت میں عبد الکریم کی بیٹی کے کیس کی سماعت ہوئی، عبد الکریم نے اپنی بیٹی آمنہ کے اغوا اور قتل کا مقدمہ درج کرایا تھا، والد نے لاش سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ میری بیٹی نہیں ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:   عدالت کا لاوارث لاشوں کی شناخت اور ڈی این اے کیلئے میکینزم بنانے کا حکم


    دوسری جانب ڈی این اے ایکسپرٹ نے عدالت کو بتایا کہ ٹیسٹ سے ثابت ہوا ہے کہ لاش آمنہ کی ہے۔ فارنزک ایکسپرٹ نے کہا کہ موت کی وجہ کا تعین پولیس سرجن کی ذمہ داری ہے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے رولنگ دیتے ہوئے رپورٹ کو چالان کا حصہ بنانے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے حکومتِ سندھ کو رپورٹ 21 نومبر کو پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

    واضح رہے کہ ڈیڑھ سال قبل بھی عدالت نے لاوارث لاشوں کی شناخت اور ڈی این اے کے لیے میکنزم بنانے کا حکم دیا تھا، سندھ ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران پولیس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ایدھی قبرستان میں 84 ہزار لاپتا لاشیں دفن ہیں۔

  • سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ، وفاقی حکومت سندھ ہائی کورٹ میں جواب جمع نہیں کراسکی

    سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ، وفاقی حکومت سندھ ہائی کورٹ میں جواب جمع نہیں کراسکی

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں سی این جی قیمتوں میں حالیہ اضافےکے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال جواب داخل نہیں کرایا جاسکا۔

    تفصیلات کے مطابق سی این جی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے خلاف سندھ پیٹرولیم اینڈسی این جی ایسوسی ایشن ودیگر نےدرخواست دائررکھی ہے، سماعت میں سوئی سدرن گیس کمپنی اوراوگرانےجوابات جمع کرا دیے۔

    مذکورہ مقدمے میں وفاقی حکومت کی جانب سےتاحال جواب داخل نہ کرایاجا سکا، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں وفاقی حکومت جواب جمع کرادےگی۔ اس پر عدالت کاوفاقی حکومت کو 9 نومبرتک جواب داخل کرانےکاحکم دے دیا۔

    اوگرا نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ گیس نرخ عالمی مارکیٹ کومدنظررکھ کر ڈالر کی قیمت میں اضافے کے سبب بڑھائےگئے اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ قانون کے مطابق کیا گیا ہے۔

    اس موقع پر اسٹیشن مالکان کے وکیل بیرسٹر محسن شہوانی کا کہنا تھا کہ سی این جی کےپیٹرول سےزائدنرخ کاعام آدمی کیسےبوجھ اٹھائےگا؟۔پہلی بارپیٹرول سستااورسی این جی مہنگی کردی گئی ہے۔

    درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ پیٹرول درآمد کیا جاتا ہے جبکہ گیس توسندھ خودپیداکرتاہے، سی این جی نرخ بڑھانےسےمتعلق اوگراکانوٹیفکیشن غیرقانونی ہے۔

    ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست کے مطابق اوگرانےسوئی سدرن گیس کی قیمت17فیصدبڑھانےکی سفارش کی، اوگرانےسوئی ناردرن گیس کی نرخ30فیصدبڑھانےکی سفارش کی تھی تاہم حکومت نےاوگرا سفارش کےبرخلاف40فیصدیکساں نرخ بڑھادیے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کےنرخ یکساں بڑھاناخلاف قانون ہے کیونکہ دونوں کے خسارے میں فرق ہے۔

    وکیل نے یہ بھی کہا کہ اوگراقیمت طےکرنےسےمتعلق آزادادارہ ہے،حکومت اوگراکےطےکردہ نرخ بڑھانےیاکم کرنےکی مجازنہیں۔ سی این جی کی قیمتیں پیٹرول سےتجاوزکرنےپرسی این جی سیکٹرتباہ ہوجائےگا ،لہذا ان قیمتوں پر فی الفور نظرِ ثانی کی جائے۔

  • پی ٹی آئی رہنما زہرہ شاہد قتل کیس،  سزائے موت پانے والے ملزمان نے اپیل دائر کردی

    پی ٹی آئی رہنما زہرہ شاہد قتل کیس، سزائے موت پانے والے ملزمان نے اپیل دائر کردی

    کراچی : پاکستان تحریک انصاف کی رہنما زہرہ شاہد کے قتل میں سزا موت پانے والے ملزمان نے اپیل دائرکردی، ملزمان کی اپیل پر  پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو نوٹس جاری کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کی رہنما زہرہ شاہد کے قتل میں سزا پانے والے ملزمان نے اپیل دائرکردی، ملزمان کی اپیل پر سندھ ہائی کورٹ نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔

    یاد رہے انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایم کیو ایم کے کارکن راشد ٹیلر اور زاہد عباس کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ جبکہ 2 مزید ملزمان عرفان اور کلیم کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں : زہرہ شاہد قتل کیس: ایم کیو ایم کے 2 کارکنان کو سزائے موت

    ملزمان نے عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ تحریک انصاف کو خوفزدہ کرنے کے لیے قیادت کے حکم پر زہرہ شاہد کو قتل کیا۔

    واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما زہرہ شاہد کو عام انتخابات کے چند روز بعد 18 مئی 2013 کو ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا، حکومت نے ملزمان کی نشاندہی کے لیے 25 لاکھ روپے انعام رکھا تھا۔

    پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے زہرہ شاہد کے قتل کا الزام ایم کیو ایم پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ زہرہ آپا کو انتخابات میں ایم کیو ایم کی دھاندلی کے خلاف احتجاج کی وجہ سے قتل کیا گیا۔

  • اغوااور گمشدہ بچوں کی عدم بازیابی، آئی جی سندھ کلیم امام  کو  پیش ہونے کا حکم

    اغوااور گمشدہ بچوں کی عدم بازیابی، آئی جی سندھ کلیم امام کو پیش ہونے کا حکم

    کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے گمشدہ بچوں کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کرتے آئی جی سندھ کو طلب کرکے بچوں کی بازیابی کے لئے ٹیم تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں اغوا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، سماعت میں فوکل پرسن ڈی آئی جی کرائم برانچ غلام سرور جمالی پیش ہوئے۔

    عدالت نے فوکل پرسن سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں، کیا پیشرفت ہوئی، غلام سرور جمالی نے بتایا کہ تئیس میں سے ایک بچی واپس گھر آئی۔

    جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ باقی بچوں کا کیا ہوا؟ بازیابی کیلئے اجلاس کب ہوا؟ آئی جی سندھ کو کہا تھا کسی فعال ڈی آئی جی کو لگائیں اور بچوں کی بازیابی کے لیے ٹیم تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی تھی، آپ نے اجلاس کرکے رسمی کارروائی پوری کردی۔

    عدالت نے آئی جی سندھ کو کیس فعال کرنے اور ڈی آئی جی کے سپرد کرنے کی ہدایت جاری کی اور حکم دیا کہ بچوں کی بازیابی کے لئے ٹیم بھی تشکیل دیں اور لاپتا بچوں کی بازیابی کو جلد سے جلد یقینی بنائیں۔

    عدالت نے حکم دیا کہ آئی جی کلیم امام کوآئندہ سماعت پرذاتی حیثیت میں پیش وضاحت کریں۔

    سندھ ہائیکورٹ نے بچوں کی بازیابی کے لیے پولیس کو تمام جدید ٹیکنیکس استعمال کرنے اور بچوں کو بازیاب کراکے تین ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا بھی حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

    یاد رہےآج صبح  آئی جی سندھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا  کہ غیر جانبدار رہتے ہوئے پولیس اپنا کام جاری رکھے گی، پولیس پر کوئی دباؤ نہیں، اچھا کام کرنے والے کو انعام دیا جائے گا۔

    ئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ کراچی بڑا شہر ہے، پولیس کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے۔ ہماری کوتاہی کی نشاندہی کریں، عوام کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ نیک نیتی سے کام کریں گے۔

  • سانحہ بارہ مئی: ازسرِنو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم

    سانحہ بارہ مئی: ازسرِنو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی اور انکوائری ٹربیونل تشکیل دینے کا حکم دے دیا، تحقیقات کی مانیٹرنگ کےلیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے سینئر جج مقرر کرنے کی سفارش بھی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں عدالت نے سانحہ کی از سر نو تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی اور انکوائری ٹربیونل ٹربیونل تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے مانیٹرنگ کے لیے سینئرجج مقرر کرنےکی سفارش کردی جبکہ صوبائی حکومت کو حکم دیا گیا کہ انکوائری کے حوالے سے  سندھ ہائی کورٹ کو انکوائری کو خط لکھا جائے۔

    عدالت نے ٹربیونل کے دائرہ کار کا بھی تعین کردیا اور کہا کہ تحقیقاتی ٹریبونل امن و امان خراب کرنے اور ذمہ داران کا تعین کرے اور یہ بھی تعین کرے  کہ کس کے حکم پر راستے بند اور شہر کا امن خراب کیا گیا۔

    عدالت نے اب تک ہونے والی تحقیقات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ  کیا اس وقت کے چیف جسٹس کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کا گٹھ جوڑ تھا؟ ملیر، سٹی کورٹ اور ہائیکورٹ کو مشتعل ہجوم نے کس کے حکم یرغمال بنایا؟ پولیس شرپسندوں پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہوئی؟

    سندھ ہائی کورٹ نے 12مئی اور اس سے قبل اداروں میں رابطوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور کہا 12 مئی کو ممکنہ صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے حکام نے کیا احکامات دیے؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا بھی تعین کیا جائے اور بتایا جائے پولیس نے بند راستے کھولنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے؟

    عدالت نے کہا کہ  بتایا جائے  کہ چیف جسٹس کی کراچی آمد کے لیے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے؟ استقبال کرنے والوں کو کسی خاص جماعت نےنشانہ بنایا؟ کسی خاص جماعت کے کارکنان نے نشانہ بنایا تو جماعت و ذمہ دران کا تعین کیا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والےادارےشہریوں کی جان ومال کےتحفظ میں کیوں ناکام ہوئے؟ سندھ حکومت نے 12 مئی 2007 کو پولیس کی مدد کے لیے رینجرز کی مدد لی تھی؟ کیاسندھ حکومت امن وامان کی ممکنہ صورتحال سےآگاہ تھی؟ اور اے این پی، پی پی، ایم کیو ایم و دیگر کو 12مئی کو ریلی کی اجازت کیوں دی گئی؟

    خیال رہے درخواست گزاراقبال کاظمی نے کیس دوبارہ سننے اور سانحے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنانے کی استدعا کی تھی جبکہ عدالتی معاونین نے کمیشن بنانے کے حق میں دلائل دیے کہ دو رکنی بینچ ازسر نو تحقیقات کے لئے کمیشن بناسکتی ہے۔

    درخواست میں سابق صدر پرویز مشرف ، بانی ایم کیو ایم، سابق مشیر داخلہ اور میئر کراچی وسیم اختر کو بھی فریق بنایا گیا ہے اور کہا کہا گیا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے حکم پر ایم کیو ایم نے کراچی میں قتل عام کیا، 2008 میں سندھ ہائی کورٹ کےلارجر بینچ نے درخواستوں کو ناقابل قرار دے دیا تھا۔

    سندھ حکومت کی جانب سے کمیشن بنانے کی مخالفت کی گئی اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ تمام متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی بھی کی جاچکی ہے۔

    یاد رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 12 مئی 2018 کو ہائی کورٹ کو تین ماہ میں مقدمہ نمٹانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد سانحہ بارہ مئی کی از سر نو تحقیقات کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ نے فریقین کے وکلاء سمیت عدالتی معاونین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

    واضح رہے 12 مئی 2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی آمد پر ہنگامہ آرائی ہوئی اور چیف جسٹس کو کراچی ائیر پورٹ پر روک دیا گیا تھا، اس دوران مختلف مقامات پر فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کے واقعات میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

  • عدالتی احکامات نظرانداز‘ پرائیوٹ اسکولوں کی جانب سے اضافی فیسوں کی وصولی  جاری

    عدالتی احکامات نظرانداز‘ پرائیوٹ اسکولوں کی جانب سے اضافی فیسوں کی وصولی جاری

    کراچی : پرائیوٹ اسکولوں کی فیسوں میں اضافے کو غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود اسکولوں کی جانب سے اضافی فیسوں کی وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رواں ہفتے 3 ستمبرکو سندھ ہائی کورٹ نے نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں پانچ فیصد سے زیادہ اضافے کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔

    عدالتی احکامات کے باوجود پرائیوٹ اسکولوں کی جانب سے اضافی فیسیں وصول کی جا رہی ہیں، والدین کا کہنا ہے کہ جون جولائی کی فیس اورسالانہ چارجز بھی وصول کیے جا رہے ہیں۔

    دوسری جانب ڈائریکٹرجنرل پرائیوٹ اسکول کے مطابق عدالتی احکامات کی کاپی موصول نہیں ہوئی ہے، عدالتی حکم کی کاپی ملتے ہی عملدرآمد کیا جائے گا۔

    نجی اسکولوں کی فیسوں میں 5 فیصد سے زائد اضافہ غیرقانونی قرار‘ سندھ ہائی کورٹ

    یاد رہے کہ 3 ستمبرکو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زیادہ فیس بڑھانے کا اختیارنہیں ہے۔ عدالت نے نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زائد فیس وصولی سے روک دیا تھا۔

    واضح رہے کہ والدین کے وکلاء کا موقف تھا کہ اسکول اساتذہ کی تنخواہیں مجموعی اخراجات کا 50 فیصد بھی نہیں، اخراجات کے ساتھ اسکول کی آمدنی بھی دیکھنی چاہیے۔

    والدین کے وکلاء کے مطابق آئین کا آرٹیکل 38 تمام فریقین پرلاگو ہوتا اور سپریم کورٹ بھی قرار دے چکی کہ نجی اسکول منافع بخش کاروبارمیں آتے ہیں۔

  • نجی اسکولوں کی فیسوں میں 5 فیصد سے زائد اضافہ غیرقانونی قرار‘ سندھ ہائی کورٹ

    نجی اسکولوں کی فیسوں میں 5 فیصد سے زائد اضافہ غیرقانونی قرار‘ سندھ ہائی کورٹ

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں پانچ فیصد سے زیادہ اضافے کو غیرقانونی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس عقیل احمد عباسی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اشرف جہاں پرمشتمل سندھ ہائی کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے رواں سال 6 جون کو اسکولوں کی فیسوں میں اضافے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنا دیا۔

    عدالت نے فیصلے میں نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں پانچ فیصد سے زیادہ اضافے کو غیرقانونی قرار دے دیا۔

    سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زیادہ فیس بڑھانے کا اختیارنہیں۔ عدالت نے نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زائد فیس وصولی سے روک دیا۔

    واضح رہے کہ والدین کے وکلاء کا موقف تھا کہ اسکول اساتذہ کی تنخواہیں مجموعی اخراجات کا 50 فیصد بھی نہیں، اخراجات کے ساتھ اسکول کی آمدنی بھی دیکھنی چاہیے۔

    والدین کے وکلاء کے مطابق آئین کا آرٹیکل 38 تمام فریقین پرلاگو ہوتا اور سپریم کورٹ بھی قرار دے چکی کہ نجی اسکول منافع بخش کاروبارمیں آتے ہیں۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ متعلقہ قانون میں یہ نہیں لکھا کہ اسکولوں کو فیس میں سالانہ اضافے کا اختیار ہے۔