Tag: سنگین غداری کیس

  • ٹی وی نہیں دیکھتا، اسپورٹس چینل پر کبھی ریسلنگ دیکھ لیتا ہوں: جسٹس وقار سیٹھ

    ٹی وی نہیں دیکھتا، اسپورٹس چینل پر کبھی ریسلنگ دیکھ لیتا ہوں: جسٹس وقار سیٹھ

    پشاور: جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے کیس میں سزائے موت سنانے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا ہے کہ وہ ٹی وی نہیں دیکھتے، کبھی کبھی اسپورٹس چینل پر ریسلنگ دیکھ لیتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کوہاٹ اور مردان میں ویڈیو لنک کے ذریعے کیسز کی سماعت کے دوران سینئر وکیل معظم بٹ نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار سیٹھ سے مکالمہ کیا، معظم بٹ نے کہا سر آپ اچھے فیصلے کرتے ہیں، خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

    معظم بٹ نے کہا سخت حالات میں بھی آپ کے چہرے پر اطمینان اور سکون نظر آ رہا ہے۔ اس پر جسٹس وقار نے کہا کہ حالات کو کیا ہوا ہے، صبح آتے وقت تو حالات ٹھیک تھے۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا، اسپورٹس چینل پر کبھی ریسلنگ دیکھ لیتا ہوں۔

    معظم بٹ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان حالات میں آپ کا مطمئن رہنا بڑی بات ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ نے کہا کہ آپ نے بھی تو کچھ نہیں کہنا؟ اس پر معظم بٹ نے کہا نہیں میں کچھ نہیں کہتا، صرف آپ کو خراج تحسین پیش کرنے آیا ہوں۔

    یہ بھی پڑھیں:  پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

    خیال رہے کہ جسٹس وقار سیٹھ اس تین رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی، 169 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار نے لکھا کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک لا کر تین دن تک لٹکائی جائے۔ تاہم جسٹس شاہد کریم نے اس نکتے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

    واضح رہے کہ تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

  • پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی مقدمے کا تفصیلی فیصلہ آج جاری ہوگا

    پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی مقدمے کا تفصیلی فیصلہ آج جاری ہوگا

    اسلام آباد: سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کا تفصیلی فیصلہ آج جاری کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت اپنے عبوری حکم میں سابق آرمی چیف کو سنگین جرم کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت سنا چکی ہے، تین رکنی بنچ نے فیصلہ دو ایک کی بنیاد پر دیا تھا۔

    خصوصی عدالت کا بینچ جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل ہے۔

    جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے فیصلے پر رد عمل میں کہا ہے کہ مجھے ان لوگوں نے ٹارگٹ کیا جو اونچے عہدوں پر فائز اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  ذاتی عداوت کا نشانہ بنایا گیا، پاکستانی عدلیہ سے انصاف امید ہے، پرویز مشرف

    خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد پرویز مشرف نے اے آر وائی نیوز کو خصوصی پیغام دیتے ہوئے کہا خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو مشکوک سمجھتا ہوں، ایسے فیصلے کی مثال نہیں ملتی جہاں دفاع کا موقع نہیں دیا گیا، کیس میں قانون کی بالا دستی کا خیال نہیں رکھا گیا۔

    پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ وہ جج جنھوں نے میرے زمانے میں فوائد اٹھائے وہ کیسے میرے خلاف فیصلے دے سکتے ہیں، اس کیس کو سننا ضروری نہیں تھا، اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد کروں گا، پاکستانی عوام اور فورسز کا شکر گزار ہوں، جنھوں نے مجھے یاد رکھا، یہ میرے لیے تمغا ہے اسے قبر میں لے کر جاؤں گا۔

  • پرویز مشرف کےخلاف سنگین غداری کیس،  رضا بشیر وکیل دفاع مقرر

    پرویز مشرف کےخلاف سنگین غداری کیس، رضا بشیر وکیل دفاع مقرر

    اسلام آباد : سابق صدر پرویز مشرف کےخلاف سنگین غداری کیس میں رضا بشیر کو وکیل دفاع مقرر کردیا، دور ان سماعت وزارت قانون نے 14 ناموں پر  مشتمل وکلاءپینل عدالت میں جمع کروا یا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف سنگین غداری کیس کی سماعت جسٹس طاہرہ صفدر کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے کی، دور ان سماعت وزارت قانون نے 14 ناموں پر مشتمل وکلاءپینل عدالت میں جمع کروا دیا ۔

    عدالت نے مشرف کے دفاع کیلئے وکلاءکی فہرست مانگی تھی، جسٹس طاہرہ صفدر نے کہاکہ فہرست میں سے کسی ایک نام کا انتخاب عدالت کرےگی، جس پر سر کاری پراسیکیوٹر نے کہاکہ فہرست میں شامل کسی نام پر اعتراض نہیں، ملزم کیلئے وکیل مقرر کرنا عدالت کی صوابدید ہے۔

    بعد ازاں پرویز مشرف سنگین غداری کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا، جس میں کہاگیاکہ رضابشیرکو وکیل دفاع مقرر کیا جاتاہے، حکمنا مے کے مطابق اس کا کا نوٹیفیکیشن تین دنوں میں جاری کیا جائے اور رضا بشیر کو وزارت قانون اخراجات ادا کرے گی۔

    یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیا تھا، مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔

    بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

  • ججوں کی عدم دستیابی : پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ملتوی

    ججوں کی عدم دستیابی : پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ملتوی

    اسلام آباد : سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ججز کی عدم دستیابی کے باعث 23جولائی تک ملتوی کردی گئی ، رجسٹرار خصوصی عدالت نے کہا گزشتہ سماعت پر عدالت نے وزارت قانون کو وکلاءکا پینل فراہم کرنے کا کہا تھا تاہم پینل ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں ججوں کی عدم دستیابی پر سابق صدر پرویز مشرف کےخلاف آئین شکنی کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی ، بینچ میں شامل تینوں جج رخصت پرہیں

    رجسٹرار خصوصی عدالت نے کہا فاضل ججز موجود نہیں اس لیے سنگین غداری کیس کی آئندہ سماعت 23 جولائی کو ہوگی۔

    رجسٹرار خصوصی عدالت راؤ عبدالجبار کے مطابق گزشتہ سماعت پر عدالت نے وزارت قانون کو وکلاءکا پینل فراہم کرنے کا کہا تھا تاہم پینل ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا۔

    خصوصی عدالت نے 12 جون کو ملزم پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کی تھی جس پر ملزم کے وکیل نے التوا کی ایک اور درخواست دائر کی تھی۔ عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کروانے کا موقع دیا گیا تھا لیکن انھوں نے اس پیشکش کا فائدہ نہیں اٹھایا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم نے عدالت میں پیش نہ ہو کر اپنے دفاع کا حق کھو دیا، اب عدالت کیس کی کارروائی کو چلانے کے لیے وکیل صفائی مقرر کرےگی،اس مقصد کے لیے وزارت قانون وکلا کا پینل تجویز کرے۔

    یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شروع کیا تھا، مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔

    بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

  • پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت 20 اگست کوہوگی

    پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت 20 اگست کوہوگی

    لاہور: سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت رواں ماہ 20 اگست کو ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خصوصی عدالت سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت 20 اگست کرے گی۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد یاور علی کی سربراہی میں قائم بینچ میں بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر شامل ہیں۔

    خصوصی عدالت کے رجسٹرار سیشن جج راؤ عبدالجبار نے متعلقہ فریقین کو سماعت سے متعلق آگاہ کردیا ہے۔

    سیشن جج راؤ عبدالجبار خان خصوصی عدالت کے رجسٹرار مقرر

    خیال رہے کہ دو روز قبل سیشن جج راؤ عبدالجبار خان کو سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کے لیے قائم خصوصی عدالت کا رجسٹرار مقرر کیا گیا تھا۔

    سیشن جج راؤ عبدالجبار خان خصوصی عدالت کی کارروائی کے دوران رجسٹرار کے فرائض سرانجام دیں گے۔

    واضح رہے کہ رواں سال مارچ میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پرویزمشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا

    پرویزمشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف آئین شکنی کیس میں خصوصی عدالت بنچ ایک با رپھر ٹوٹ گیا، خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے مشرف کے وکیل کے اعتراض پر مقدمہ سننے سے انکار کر دیا ہے۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے 3 نومبر کے اقدام کے خلاف بطور وکیل درخواست دائر کی تھی، انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے پرویزمشرف کی درخواست پر علیحدگی اختیار کی۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کی جانب سے جسٹس یحیٰی آفریدی پر جانبداری کا الزام لگایا گیا، اعتراض لگایا گیا کہ جسٹس آفریدی، افتخارچوہدری کے وکیل رہ چکےہیں، ملزم کا الزام حقائق کےبرعکس ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی کبھی افتخار چوہدری کے وکیل نہیں رہے۔

    تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی تین نومبر 2007 کے اقدامات کے خلاف صرف شریک پٹیشنر تھے، انصاف کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر جانبداری اور فیئر ٹرائل کو یقینی بنانے کیلئے جسٹس یحییٰ آفریدی خود کو اس کیس سے الگ کر رہے ہیں۔

    پرویز مشرف کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی تین نومبر کی ایمر جنسی کے خلاف مقدمے میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کے وکیل تھے، انہیں اس کیس سے الگ ہو جانا چاہیئے، عدالت پرویز مشرف کی گرفتاری سے متعلق 8 مارچ کا حکم نامہ بھی واپس لے۔

    خیال رہے کہ جسٹس یحیٰی آفریدی پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ تھے جبکہ جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی بنچ کے ممبر تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سنگین غداری کیس میں غیر حاضری، پرویز مشرف کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم

    سنگین غداری کیس میں غیر حاضری، پرویز مشرف کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم

    اسلام آباد: خصوصی عدالت میں سابق صدرپرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت، عدالت نے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں مظہرعالم میاں خیل کی سربراہی میں3 رکنی خصوصی عدالت نےسنگین غداری کیس کی سماعت کی، دوران سماعت عدالت نے ملزم کی عدم موجودگی پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا۔

    پرویز مشرف کے وکیل جسٹس یاور علی نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا عدالت نے خود نہیں کہا تھا کہ 342 کے تحت ملزم کا بیان ریکارڈ کیا جائے ؟

    استغاثہ کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے عدالت کو کہا کہ 342 کے بیان کو ریکارڈ کرنا استغاثہ کی ذمہ داری نہیں ہے، پرویز مشرف دبئی جاکر نہ تو اسپتال میں داخل ہوئے اور نہ ہی اُن کو صحت کے حوالے سے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سپریم کورٹ میں ملزم کی جانب سے جواب دائر کیا گیا تھا کہ اگر علاج کے لیے بیرون نہ بھیجا گیا تو صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

    دوران سماعت جج نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف کی عدم موجودگی میں اُن کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا اور نہ ہی دفعہ 342 کے تحت ملزم کا بیان اسکائپ پر لیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ عدالت ضابطہ فوجداری کے تحت آگے نہیں بڑھ سکتی ، ملزم کے خلاف آئین و قانون کی روشنی میں ہی فیصلہ کیا جائے گا۔

    ملزم کی مسلسل عدم موجودگی کے باعث عدالت نے اسٹیٹ بینک کے ذریعے ملزم کی تمام جائیداد ضبط کرنے کا حکم دہتے ہوئے کہا کہ اگر اس میں کوئی شراکت دار ہے تو وہ 6 ماہ کے اندر عدالت سے رجوع کرکے اپنا مؤقف پیش کرے۔

    اس موقع پر پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کی جائیداد میں اُن کے اہل خانہ سمیت دیگر افراد کے حصے بھی موجود ہیں، ہم اس حکم کے خلاف اعتراض جمع کروائیں گے، عدالت نے سیشن جج کے ذریعے مشرف کی جائیداد کا ریکارڈ عدالت میں جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت مشرف کی گرفتاری یا عدالت میں پیش ہونے تک ملتوی کردی۔