Tag: سوئز کینال

  • نہر سوئز کی مختصر کہانی جو تعمیر کا شاہ کار اور عجوبہ ہے

    نہر سوئز کی مختصر کہانی جو تعمیر کا شاہ کار اور عجوبہ ہے

    بحیرۂ احمر کو بحرِ اوقیانوس سے ملانے والی نہر سوئز یورپ سے ایشیا کے درمیان تیز ترین آبی گزرہ گاہ ہے اور اس سے یومیہ اربوں روپے کا مالی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔

    اس آبی گزرہ گاہ کے ذریعے دنیا کا سات فی صد تجارتی سامان گزرتا ہے جو مصر کے لیے زرِمبادلہ کمانے کا بڑا ذریعہ ہے۔

    یہ نہر کئی حوالوں سے مشہور ہے جس میں اس کا اہم ترین آبی گزر گاہ ہونا اور اس کی تعمیر پر فرانس اور برطانیہ میں کشمکش اور پھراس کا فنِ تعمیر کا عجوبہ ہونا شامل ہیں۔ دو سمندروں کو جوڑنے والی اس نہر سوئز کو تعمیر ہوئے اب ڈیڑھ سو سال سے زائد ہوچکے ہیں۔

    1956ء میں اس دور کے مصری صدر جمال عبدالناصر نے اسے ریاستی ملکیت میں لینے کا جو اعلان کیا تو یورپ میں اس پر ناامیدی کا اظہار کیا گیا تھا۔

    مصر میں قومیائے جانے سے پہلے اس نہر کی ملکیت زیادہ تر برطانوی فرانسیسی کمپنی سوئز سوسائٹی کے پاس تھی۔ برطانیہ اور فرانس نے اس دور کی قاہرہ حکومت کو مذاکرات کے ذریعے اس اقدام سے روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔

    سوئز کینال کی تعمیر سے قبل بحیرہ روم اور بحیرہ احمر سے آبی گزرگاہ جو تجارتی مقاصد کی تکمیل کرسکے، اس کا تصور صدیوں پرانا تھا۔ اسے مسلمانوں کی خلافتِ راشدہ کے دور میں‌ بھی زیرِ غور لایا گیا اور بعد کے ادوار میں بھی اس حوالے سے کوشش کی گئی، لیکن نہر سوئز کے موجودہ آبی راستے پر کام شروع نہیں‌ کیا جاسکا۔ پھر 1798ء میں نیپولین کے دور میں فرانسیسی ماہرین تعمیرات مصر گئے اور انھوں نے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ حقیقت پسندانہ نہیں ہو گا۔ اس کے بعد برطانوی ماہرین نے بھی اس حوالے سے یہی رپورٹ تیّار کی، لیکن بعد میں اسے حقیقت کی شکل دے دی گئی۔

    جدید نہرِ سوئز کا منصوبہ 19 ویں صدی کے وسط میں فرانسیسی سفارت کار فرڈیننڈ دے لیسپ نے تیار کیا تھا۔ اس منصوبے کو عملی پیش رفت کے لیے اس زمانے میں مصری خدیو سعید پاشا کے سامنے رکھا گیا تو انھوں نے اجازت دی اور تب نہر کھودنے کے لیے سوئز کینال کمپنی قائم کی گئی۔

    اس نہر کی تعمیر کے لیے لاکھوں مزدوروں نے دس سال کی مشقّت اٹھائی اور ہزاروں یورپی کارکن وہاں لائے گئے تھے۔ اس دوران متعدد مسائل اور حادثات کے ساتھ تکمیل کے حوالے سے تنقید اور مایوسی کا اظہار بھی کیا گیا، لیکن مصری حکم ران محمد سعید نے 1861ء میں بالائی مصر سے مزید مزدوروں کو بلوایا اور کام جاری رکھا گیا۔ بالآخر نہر تعمیر کرلی گئی۔

    17 نومبر 1869ء کو جدید نہر سوئز کا افتتاح کیا گیا اور یہ کام فرانسیسیوں کی بدولت ممکن ہوا۔

  • دنیا کے اہم ترین سمندری راستے نہر سوئز میں پھنسے بحری جہاز کو نکال لیا گیا

    دنیا کے اہم ترین سمندری راستے نہر سوئز میں پھنسے بحری جہاز کو نکال لیا گیا

    قاہرہ: دنیا کے اہم ترین سمندری راستے کی بندش سے متعلق بڑی خبر آ گئی، کوششیں رنگ لے آئیں اور سوئز کینال میں پھنسے تائیوان کے بحری جہاز کو نکال لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نہر سوئز میں پھنسے ایور گرین نامی بحری جہاز کو نکالنے کا آپریشن کامیابی سے ہم کنار ہو گیا ہے، بحری جہاز نکال لیا گیا، سوئز کینال میں بحری جہاز پھنسنے سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق دنیا کی اہم تجارتی گزرگاہ بند ہونے سے یومیہ 9 ارب ڈالر مالیت کی تجارت متاثر ہوئی، تجارتی نقل و حمل کے نقصان کا تخمینہ 400 ملین ڈالر فی گھنٹہ لگایا گیا ہے۔

    سوئز کینال کی بندش سے دونوں طرف 300 سے زائد جہاز پھنس گئے تھے، یہاں سے یومیہ 18 لاکھ بیرل تیل کی ترسیل کی جاتی ہے۔

    عالمی بحری تجارت کا 12 فی صد حصہ سوئز نہر سے گزرتا ہے، سوئز کینال 193 کلو میٹر طویل، اور اس کی چوڑائی 205 میٹر ہے، کینال بند ہونے سے تیل کی ترسیل اورگاڑیوں کی فراہمی زیادہ متاثر ہوئی۔

    ایور گرین نامی مال بردار بحری جہاز تائیوان سے تعلق رکھنے والی کمپنی ایور گرین کی ملکیت ہے، کارگو جہاز کی لمبائی فٹ بال کے 4 میدانوں کے برابر ہے اور اس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے کنٹینر بردار جہازوں میں ہوتا ہے، 2 لاکھ ٹن وزنی اس مال بردار جہاز پر 20 ہزار کنٹینر لادے جا سکتے ہیں۔

    یہ دیو ہیکل بحری جہاز منگل 23 مارچ کو نہر سوئز میں واقع بندرگاہ کے شمال میں پھنسا تھا، جہاز ایور گرین چین سے نیدرلینڈز کے شہر راٹرڈیم جا رہا تھا۔ بحیرہ روم کی جانب گامزن جہاز مقامی وقت کے مطابق صبح 7.40 پر تکنیکی خرابی کے باعث توازن اور سمت برقرار نہ رکھ سکا اور نہر میں آڑھا ترچھا پھنس گیا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ جہاز ہوا کے تیز جھکڑ کی وجہ سے پھنس۔