Tag: سوئٹزر لینڈ

  • ویڈیو : سوئٹزر لینڈ کا پورا گاﺅں صفحہ ہستی سے مٹ گیا

    ویڈیو : سوئٹزر لینڈ کا پورا گاﺅں صفحہ ہستی سے مٹ گیا

    سوئٹزر لینڈ کے گاﺅں بلاٹن کا 90 فیصد حصہ لینڈ سلائینڈنگ کی وجہ سے زمین بوس ہوگیا، برفانی تودے نے اس وجود ہی ختم کر ڈالا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر حسین ترین اور ترقی یافتہ ملک کہلائے جانے والے سوئٹزرلینڈ کے گاﺅں بلاٹن کا برفانی تودا گرنے سے 90 فیصد حصہ زمین بوس ہوگیا۔

    برف، مٹی اور پتھروں کے سیلاب سے بلاٹن کا بڑا حصہ اب دفن ہوچکا ہے جبکہ وہاں کا ایک شخص لاپتہ ہوا ہے، مقامی حکومت نے پہلے ہی سخت موسم کے خطرے کے پیش نظر گاؤں کے مکینوں بلکہ جانوروں کو بھی علاقے سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کردیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق سوئس الپس میں ایک بڑے برفانی تودے کے ٹوٹنے سے برف، مٹی اور چٹانوں کا زبردست طوفان آیا، جس نے ایک گاؤں کے بڑے حصے کو ڈھانپ دیا۔ اس گاؤں کو رواں ماہ پہلے ہی چٹانوں کے کھسکنے کے خدشے کے باعث خالی کرا لیا گیا تھا۔

    جنوبی ویلیس علاقے کے سیکیورٹی سربراہ اسٹیفان گانزر نے میڈیا کو بتایا کہ خطرہ ابھی ختم نہیں ہوا، صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق مذکورہ گاؤں کو پچھلے سال بھی برف کی چٹان گرنے کے پیش نظر خالی کرایا گیا تھا۔

  • سوئٹزر لینڈ نے حماس پر پابندی کی منظوری دیدی

    سوئٹزر لینڈ نے حماس پر پابندی کی منظوری دیدی

    سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے غزہ کے مظلوموں کی آواز حماس پر پابندی قانون کے مسودے کی منظوری دے دی گئی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پابندی قانون کے مسودے میں حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔

    سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے قید یا جرمانے کی سزا مقرر کی ہے جبکہ حماس پر پابندی قانون کے مسودے کو منظوری کیلئے پارلیمنٹ بھیجا جائے گا۔

    دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے فوجیوں کو جنوبی غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی علاقے سے اس وقت تک نہیں نکالے گا جب تک اس بات کی ضمانت نہ ہو کہ حماس اس راہداری کو کبھی استعمال نہیں کر سکتی،جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہم وہاں موجود ہیں۔

    میں صدر ہوتا تو اسرائیل میں 7 اکتوبر کو قتل عام نہ ہوتا، ٹرمپ

    یہ نیتن یاہو کا فلاڈیلفی کوریڈور سے اسرائیلی افواج کو نکالنے سے تازہ ترین انکار ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو غزہ میں جنگ بندی کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے، حماس پٹی سے اسرائیلی فوجیوں کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کر رہی ہے۔

  • سب سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنی ہے تو کس ملک میں جانا چاہیئے؟

    سب سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنی ہے تو کس ملک میں جانا چاہیئے؟

    ہم میں سے ہر شخص اپنی آمدنی کو بڑھانا اور زندگی کو بہتر کرنا چاہتا ہے، اس مقصد کے لیے لوگ ہجرت بھی کرتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں جا کر بس جاتے ہیں جہاں ان کی زندگی بہتر ہوسکے۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں دنیا میں وہ کون سے ممالک ہیں جہاں ماہانہ آمدنی کی اوسط سب سے زیادہ ہے؟

    حال ہی میں ورلڈ آف سٹیٹسٹکس نے ٹویٹر پر سب سے زیادہ اوسط تنخواہ والے ممالک کی فہرست جاری کی ہے۔ اس میں سوئٹزر لینڈ، لکسمبرگ، سنگاپور، امریکا، آئس لینڈ، قطر، ڈنمارک، متحدہ عرب امارات، ہالینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک شامل ہیں۔

    اس معاملے میں سوئٹزر لینڈ دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے جہاں لوگوں کی اوسط نیٹ ماہانہ تنخواہ 6 ہزار 96 ڈالر ہے۔

    دوسرے نمبر پر لکسمبرگ ہے جہاں اوسط آمدنی 5 ہزار 15 ڈالرز، سنگاپور میں 4 ہزار 989 ڈالرز، امریکا میں 4 ہزار 245 ڈالرز اور آئس لینڈ میں 4 ہزار7 ڈالرز تنخواہ ہے۔

    ان کے علاوہ قطر اور آسٹریلیا بھی اس فہرست میں شامل ہیں، یاد رہے کہ جن ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے وہاں ملازمین کو ملنے والی سہولیات بھی دیگر ممالک سے زیادہ ہیں۔

  • سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    یورپ میں سوئٹزر لینڈ کو قریب قریب وہی حیثیت حاصل ہے جو ایشیا میں ہمالیہ اور کاکیزس ماؤنٹین (کوہ قاف) کی وادیوں کو، بلکہ بعض انگریزی سیّاح تو دعویٰ کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کی نزہت و شادابی اور وہاں کی سینریوں کی خوش نمائی و نظر فریبی دنیا بھر کے ممالک سے بڑھی ہوئی ہے۔

    خیر اس کو تو ہم اسی خود پسندی کے اصول پر مبنی سمجھتے ہیں جس بنا پر کہ بعض وطن دوست انگریز لندن کے گرجے سینٹ پال کو روم کے سینٹ پیٹرس اور مِلا ن کے بڑے کنیسہ پر ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے سواد میں خدا نے بہت کچھ دل فریبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔

    کوہسار آلپس کا سلسلہ ملک کو ایک طرف سے دوسری طرف تک قطع کرتا چلا گیا ہے اور اسی کوہستان کے دامنوں اور اونچے اونچے سر بہ فلک قلوں کی گھاٹیوں میں یہ چھوٹا سا ملک آباد ہے۔

    تاہم کوہ قاف کی گھاٹیوں اور سرکیشیا کی سرزمین کی طرح یہاں یہ بات کہاں کہ نباتی پھولوں اور سبز پوشانِ چمن کی طرح انسانی چہرے بھی ہر طرف دل فریبیاں کر رہے ہوں۔ وہ پری جمال اور دل رُبا چہرے جو صد ہا سال سے ایران اور روم کی حرم سراؤں کی رونق رہا کیے ہیں اور وہ نازک اندام اور آفت زمانہ لڑکیاں جو کوہِ البرز وغیرہ کی گھاٹیوں کے لطیف آبشاروں میں ہاتھ منہ دھوتی اور مویشیوں کے گلے چراتی نظر آتی ہیں، ان کا سوئٹزر لینڈ کی بھدّی مگر توانا و تن درست عورتوں میں کہیں پتہ نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آلپس کی گھاٹیوں میں چاہے وہ دل فریب حسن و جمال نہ ہو، مگر ایسے ایسے نظر فریب منظر اور اس طرح کی جاں بخش سینریاں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ ہر مقام پر یہی جی چاہتا ہے کہ دین و دنیا چھوڑ کے یہیں بیٹھ رہیے۔

    الغرض یہ اور ایسا روح افزا اور فرحت بخش ملک ہے جہاں ہم مِلان سے ریل پر سوار ہو کے اور اٹلی کی سرحد سے نکل کے پہنچے۔ مِلان سے 4 بجے کے قریب تیسرے پہر کو سوار ہوئے تھے۔ رات ہونے تک بلکہ اس وقت تک جب کہ ہم نے لیٹ کے سونے کا تہیہ کیا، وہی اٹلی کے خوش نما، تر و تازہ اور انگور کی بیلوں سے گھرے ہوئے کھیت نظر کے سامنے تھے، جن کے دیکھنے سے آنکھیں سیر ہو گئی تھیں اور جن میں اب کوئی جدّت نہیں نظر آتی تھی۔

    صبح کو تڑکے ہی اٹھائے گئے، اس لیے کہ ٹرین چیاسو میں کھڑی ہوئی تھی جو جنوب کی طرف سوئٹزر لینڈ کا سرحدی اسٹیشن ہے اور جہاں مسافروں کے اسباب کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم سب اپنا اسباب لے لے کے گاڑی سے اترے اور قیدیوں کی طرح ایک بڑے کمرے میں بند کر دیے گئے۔ چنگی وصول کرنے والوں نے صندوقوں کو کھول کھول کے دیکھا اور پاس کیا۔ اس سخت امتحان سے نجات حاصل کرتے ہی ہم ایک دوسرے دروازے سے پھر پلیٹ فارم پر آئے اور گاڑی میں اسباب رکھا۔

    یہاں کی زندگی بخش آب و ہوا نے اتنا اثر یہیں ظاہر کر دیا کہ صبح کو ہم خلافِ معمول بہت بھوکے اٹھے، کھانا ملنے میں ابھی دیر تھی اور انتظار کی طاقت نہ تھی۔ اسٹیشن پر نہایت عمدہ تر و تازہ اور شاداب انگور بکنے کو آئے جو بہت سستے تھے، ہم نے لے کے خوب سیر ہو کے کھائے اور گاڑی آگے کو روانہ ہوئی۔
    تھوڑی دیر تک تو وہی اٹلی کی سواد نظر آتی رہی، مگر دو چار گھنٹے کے بعد ہمیں کوہستان آلپس کے سلسلے کی چوٹیاں نظر آنے لگیں اور زیادہ انتظار نہیں کرنے پائے تھے کہ انھیں پہاڑیوں کے اندر ہماری ٹرین گھسنے لگی اور وہ قدرتی مناظر ہماری نظر کے سامنے تھے، جن میں انسانی کاری گری کا ہاتھ بالکل نہیں لگا تھا۔

    ریل سر سبز اور تر و تازہ پہاڑیوں کے اندر چلی جاتی ہے، کبھی بلندی پر چڑھتی ہے اور کبھی نشیب میں اترتی ہے اور پھر اسی نشیب و فراز کے درمیان میں ایسے خوش سواد اور دل میں ولولہ پیدا کرنے والے مرغزار اور قدرت کے لگائے ہوئے چمن نظر کے سامنے آتے ہیں اور کچھ ایسی کشش سے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ہمارے ایک ہم سفر انگلش دوست بار بار چلّا کے کہہ اٹھتے ہیں: “مجھے نہ پکڑنا، میں یہیں کودا پڑتا ہوں”۔

    جا بجا بڑے بڑے آبشار پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے اور لہراتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور ان سبزہ زاروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ اکثر جگہ جہاں کہیں کوئی مسطح تختہ ہے، وہاں ایک چھوٹا شہر آباد ہے جس کی سفید سفید اور برف میں دھوئی ہوئی پختہ عمارتیں کچھ ایسی دل فریبی کرتی ہیں کہ ان پر سرور بخش اور جاں افزا وادیوں اور مرغزاروں سے بھی زیادہ بہار نظر آتی ہے۔ ہر چہار طرف سَر بہ فلک پہاڑ جو قوی ہیکل دیوؤں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں، انھوں نے بھی انسان کے مانوس بنانے کے لیے برف کے سفید اور اجلے کپڑے پہن کے بہت کچھ مہذب صورت بنالی ہے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، مشہور ناول نگار اور جیّد صحافی عبدالحلیم شرر کے سفر نامے سے انتخاب)

  • مختلف ممالک کی پولیس کا ایک دوسرے کو ڈانس کرنے کا چیلنج

    مختلف ممالک کی پولیس کا ایک دوسرے کو ڈانس کرنے کا چیلنج

    برن: سوئٹزر لینڈ پولیس کی مشہور افریقی گانے پر ڈانس کی ویڈیو دنیا بھر میں وائرل ہوگئی جس کے بعد مختلف ممالک کی پولیس نے اس گانے پر رقص کرنا شروع کردیا۔

    سوئٹزر لینڈ پولیس کی یہ ڈانس ویڈیو سوشل میڈیا پر چند روز قبل سامنے آئی جس میں مشہور افریقی گانے پر رقص کیا جارہا ہے۔ ویڈیو میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کے افسران ہم آہنگ ہو کر تھرکتے دکھائی دے رہے ہیں۔

    یہ ویڈیو مختلف ویڈیوز کا مجموعہ ہے جس میں فیلڈ میں کام کرنے والے اہلکار، دفاتر میں بیٹھے افسران اور مانیٹرنگ اسکرینز کے سامنے موجود سیکیورٹی عملہ ڈانس کر رہا ہے۔

    یہ ویڈیو بے حد وائرل ہوئی تاہم اس کی مقبولیت میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب آئرلینڈ پولیس کو اسے بطور چیلنج قبول کرنے کا کہا گیا۔

    پرتگال میں مقیم ایک آئرش ریڈیو جوکی (آر جے) فرینکی بیٹس نے ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ سوئس پولیس نے اس مشکل وقت میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ خاص کرنے کا فیصلہ کیا، کیا آئرش پولیس بھی اس چیلنج کو قبول کرے گی؟

    اس ٹویٹ کو متعدد افراد نے ری ٹویٹ کیا یہاں تک کہ سوئس پولیس کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھی کہا گیا کہ وہ اس چیلنج کو پورا کیے جانے کے منتظر ہیں۔

    صورتحال اس وقت مزید دلچسپ ہوگئی جب آئر لینڈ کے ڈپارٹمنٹ آف جسٹس نے بھی اپنے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا اور آئر لینڈ پولیس کو اکساتے ہوئے اس چیلنج کو پورا کرنے کا کہا۔

    بالآخر آئرش پولیس کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ٹویٹ کیا گیا اور کہا گیا کہ ہمیں چیلنج قبول ہے۔

    تاحال آئرش پولیس نے اپنے ڈانس کی ویڈیو جاری نہیں کی، قیاس ہے کہ پولیس افسران ڈانس اسٹیپس کی تیاریوں میں مصروف ہوں گے، تاہم ٹویٹر پر ہونے والی اس گفتگو سے دنیا بھر کے افراد محفوظ ہوئے۔

    یہی نہیں مختلف ممالک کی پولیس نے بھی اس ڈانس چیلنج کو پورا کرنا شروع کردیا۔

    فرینکی بیٹس نے ہی مختلف ویڈیوز ٹویٹ کیں جن میں سے ایک فرانسیسی پولیس اور ایک جنوبی افریقی شہر جوہانسبرگ کی پولیس کی ہے جس میں پولیس اہلکار اس گانے پر ڈانس کر رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ افریقی زبان کا یہ گانا سنہ 2019 میں ریلیز کیا گیا تھا جس کے بعد فروری 2020 میں چند افریقی نوجوانوں نے اس پر ڈانس کیا جس کی ویڈیو بے حد وائرل ہوئی تھی۔

  • 95 سالہ خاتون جنہوں نے کرونا وائرس کو شکست دے دی

    95 سالہ خاتون جنہوں نے کرونا وائرس کو شکست دے دی

    برن: سوئٹزر لینڈ میں کرونا وائرس سے صحتیاب ہونے والی 95 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ مرنے سے بالکل بھی خوفزدہ نہیں تھیں، تاہم اس موذی وائرس کے خلاف جنگ جیت کر وہ بے حد خوش ہیں۔

    95 سالہ گرٹروڈ فیٹن چند روز قبل کرونا وائرس کا شکار ہوئیں، حکام کو اطلاع دینے پر ایک ایمبولینس ان کے گھر پہنچی اور انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔

    اسپتال میں وہ ایک ہفتہ آئی سی یو میں رہیں جہاں انہوں نے کرونا وائرس کو شکست دی اور اب وہ صحتیاب ہو کر اپنے گھر پر ہیں۔

    فیٹن بتاتی ہیں کہ آئی سی یو میں ایک موقع پر انہوں نے ڈاکٹرز کو منع کردیا کہ وہ انہیں مصنوعی سانس نہ دیں۔ ’میں نے ان سے کہا کہ میں اپنی زندگی جی چکی ہوں اور مجھے سکون سے جانے دو‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز انہیں دن میں 3 بار اینٹی بائیوٹکس دیتے تھے جو براہ راست ان کی رگوں میں انجیکٹ کیے جاتے تھے، انہیں ملیریا کی دوا کلوروکوئن بھی دی گئی۔

    فیٹن اب گھر لوٹ آئی ہیں جہاں وہ اپنے آئی پیڈ پر اپنے پوتے، پوتیوں اور پڑپوتے، پڑپوتیوں سے روزانہ بات کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں مرنے سے بالکل خوفزدہ نہیں تھی۔ ’میری عمر اب 95 سال ہے، اب تو جانے کا وقت ہی ہے‘۔

    ان کی بیٹی نے بتایا کہ جب انہیں اسپتال سے فون آیا کہ ان کی والدہ کی حالت بگڑ چکی ہے اور انہیں بچانے کے لیے ڈاکٹرز کے پاس صرف 24 گھنٹوں کا وقت ہے تو مجھے لگا کہ ہم انہیں کھو دیں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ میں روز اپنی والدہ سے بات کرتی تھی اور جس دن میں نے دیکھا کہ وہ بغیر کھانسے بات کر پارہی ہیں تو میں جان گئی کہ ہم جیت گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ سوئٹزر لینڈ میں کرونا وائرس سے 12 ہزار 161 افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ وائرس سے اب تک 197 افراد کی ہلاکت ہوچکی ہے۔

  • الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    آئیے سوئٹزرلینڈ کی ایک قدیم اور پُرشکوہ عمارت کی سیر کو چلتے ہیں۔

    اس عمارت میں‌ ایک کتب خانہ ہے جو ایبے لائبریری کے نام سے مشہور ہے۔ عمارت کا منفرد طرزِ تعمیر، خوب صورتی اور سجاوٹ دیکھ کر آپ دم بخود رہ جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اندر جاکر آپ خوف زدہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر داخل ہونے سے پہلے آپ یہ جان لیں‌ کہ اس عظیم الشان عمارت میں چند حنوط شدہ جسم بھی رکھے ہوئے ہیں تو فیصلہ کرسکتے ہیں‌ کہ اندر داخل ہونا ہے یا نہیں، مگر ہمیں یقین ہے کہ تجسس خوف پر غالب آجائے گا اور آپ سوئٹزر لینڈ کے علاقے سینٹ گالیں‌ کی اس لائبریری کے اندر  ضرور جائیں گے۔

    یہ کتب خانہ قدیم رسائل، نوادر اور حیرت انگیز موضوعات پر کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کئی مخطوطات اور قدیم نقشے بھی محفوظ ہیں۔ صدیوں پہلے یہاں ایک معبد قائم کیا گیا تھا اور بعد کے ادوار میں یہاں کتب خانہ بنا دیا گیا۔ آج اس دو منزلہ کتب خانے کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔

    یہ کتب خانہ ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس میں ہر طرف لکڑی کی الماریوں میں کتابیں محفوظ ہیں۔ یہاں کے در و دیوار سے اس عمارت کی شان و شوکت اور اس کا حسن جھلکتا ہے۔ یہاں لکڑی کا کام نہایت نفیس اور باریکی سے کیا گیا ہے۔ الماریوں کے علاوہ زینے اور چھت کو جس مہارت سے منقش اور مزین کیا گیا ہے اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہ عمارت فنِ تعمیر کا ایک شاہ کار بھی مانی جاتی ہے جس میں ہوا اور روشنی کی آمدورفت کا خاص اہتمام کیا گیا ہے جب کہ اس کے ہال کی بناوٹ بھی ایک خاص پیمائش اور ڈھب سے کی گئی ہے۔ 1983 میں اسے عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں لائبریری میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی طرف۔ کہتے ہیں کہ یہ لگ بھگ تیرہ سو برس پہلے حنوط کیے گئے جسم ہیں جو مرکزی ہال میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔

  • وزیر اعظم عمران خان سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا پہنچ گئے

    وزیر اعظم عمران خان سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا پہنچ گئے

    جنیوا: وزیر اعظم عمران خان سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا پہنچ گئے، ایئرپورٹ پر پاکستانی سفیر نے ان کا استقبال کیا، وزیر اعظم آج اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان سوئٹزر لینڈ میں منعقد ہونے والے عالمی مہاجرین فورم میں شرکت کے لیے جنیوا پہنچ گئے ہیں، جنیوا میں وزیر اعظم پاکستان یو این سیکریٹری جنرل سمیت عالمی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

    وزیر اعظم گلوبل رفیوجی فورم میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق خطاب کریں گے، اور فورم میں پاکستانی مؤقف پیش کریں گے۔

    خیال رہے کہ سوئٹزرلینڈ میں اقوام متحدہ کمیشن برائے مہاجرین اور سوئس حکومت کے اشتراک سے عالمی مہاجرین فورم کا آغاز ہو گیا ہے، یہ فورم کل 18 دسمبر تک جاری رہے گا، وزیر اعظم عمران خان عالمی مہاجرین فورم میں خصوصی شرکت کر رہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  سوئٹزر لینڈ میں عالمی مہاجرین فورم، وزیر اعظم شرکت کریں گے

    گزشتہ روز وزیر اعظم آفس کے ترجمان نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم سوئٹزر لینڈ میں عالمی مہاجرین فورم کی مشترکہ صدارت بھی کریں گے، ترک صدر طیب اردگان، کوسٹاریکا، ایتھوپیا اور جرمنی کے سربراہان بھی اس فورم کا حصہ ہوں گے۔

    وزیر اعظم آفس ترجمان کا کہنا تھا کہ عمران خان فورم میں 40 سال تک افغان مہاجرین کی میزبانی کا ذکر کریں گے، وزیر اعظم فورم کے شرکا کو مہاجرین کے حوالے سے تجربات، اپنی رائے اور حکومتی کاوشوں سے بھی آگاہ کریں گے۔

    ادھر اقوام متحدہ کمیشن برائے مہاجرین کی جانب سے فن کاروں کی مہاجرین یک جہتی ویڈیو جاری کر دی گئی ہے جس میں مہاجرین کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے، اس فورم کے مقاصد میں مہاجرین کی صحت، تحفظ، تعلیم، روزگار اور اقامت کی بہتری شامل ہیں، خیال رہے کہ پاکستان 40 سال سے مہاجرین کا میزبان رہا ہے۔

  • سوئٹزر لینڈ میں عالمی مہاجرین فورم، وزیر اعظم شرکت کریں گے

    سوئٹزر لینڈ میں عالمی مہاجرین فورم، وزیر اعظم شرکت کریں گے

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان سوئٹزر لینڈ میں منعقد ہونے والے عالمی مہاجرین فورم میں شرکت کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم آفس کے ترجمان نے کہا ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں اقوام متحدہ اور سوئس حکومت کے اشتراک سے 17 اور 18 دسمبر کو عالمی مہاجرین فورم کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس کے لیے وزیر اعظم عمران خان بھی 17 دسمبر کو جنیوا، سوئٹزرلینڈ پہنچیں گے۔

    ترجمان کے مطابق وزیر اعظم سوئٹزر لینڈ میں عالمی مہاجرین فورم کی مشترکہ صدارت کریں گے، ترک صدر طیب اردگان، کوسٹاریکا، ایتھوپیا اور جرمنی کے سربراہان بھی اس فورم کا حصہ ہوں گے۔

    تازہ ترین:  وزیر اعظم بحرین روانہ، روانگی سے قبل امریکی سینیٹر سے ملاقات

    وزیر اعظم آفس ترجمان کا کہنا ہے کہ عمران خان فورم میں 40 سال تک افغان مہاجرین کی میزبانی کا ذکر کریں گے، وزیر اعظم فورم کے شرکا کو مہاجرین کے حوالے سے تجربات، اپنی رائے اور حکومتی کاوشوں سے بھی آگاہ کریں گے۔

    وزیر اعظم جنیوا میں قیام کے دوران عالمی رہنماؤں اور اقوام متحدہ حکام سے ملاقاتیں کریں گے، پروگرام کے مطابق وزیر اعظم، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ظہرانے میں بھی شرکت کریں گے۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان آج دورے پر بحرین چلے گئے ہیں، زلفی بخاری بھی ان کے ہم راہ ہیں، بحرین کے فرماں روا احمد بن عیسیٰ الخلیفہ نے وزیر اعظم کو دورے کی دعوت دی تھی۔

  • سوئٹزر لینڈ میں‌ پالتو بلیوں کے لیے سیڑھیاں!

    سوئٹزر لینڈ میں‌ پالتو بلیوں کے لیے سیڑھیاں!

    دنیا بھر میں سوئٹزر لینڈ کی شہرت دل کش جھیلیں، خوب صورت وادیاں، فلک بوس پہاڑ اور دوسرے سیاحتی مقامات ہیں۔ سوئس باشندے اپنی خوش اخلاقی اور فطرت سے پیار کرنے کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ سوئٹزر لینڈ میں پالتو بلیوں کی گھروں میں آمدورفت کے لیے الگ راستہ رکھا جاتا ہے۔ گھر کے عقبی حصّے میں یا مرکزی دروازے کے ساتھ اس پالتو جانور کے لیے باقاعدہ سیڑھی موجود ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ دوسری منزل پر رہائش پذیر اپنے مالک کے گھر میں داخل ہوتی ہے۔


    ماہرینِ حیوانات کے مطابق بلیوں کی باڈی لینگویج کافی پیچیدہ ہوتی ہے۔ بلی کی خرخراہٹ کوعام طور پر محبت اور اس کے اطمینان کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم کسی بھی جانور کے موڈ کے بارے میں کوئی بھی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔

    بلیاں انسانوں سے مانوس ہیں اور اسی لیے گھروں میں رہنے سے نہیں گھبراتیں۔ سوئٹزر لینڈ میں بلیاں پالنا پسند کیا جاتا ہے. اس جانور کے گھر میں داخلے کا الگ راستہ ایک طرف تو اس کی آزادی کا احترام اور دوسری جانب گھر میں موجود پالتو پرندوں کا تحفظ ہے جن پر یہ کبھی بھی جھپٹ سکتی ہے۔

    بلیاں پالنے کے شوقین افراد کا کہنا ہے کہ اگر کوئی خاندان کہیں گیا ہوا ہو اور گھر بند ہو تو پالتو بلیوں کو مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی مخصوص سیڑھی یا ریمپ کے ذریعے گھر کے اس حصّے میں پہنچ جاتی ہیں جس کی عادی ہوتی ہیں۔ اس طرح کم از کم ان کے رہنے کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور ہم بھی ان کے لیے پریشان نہیں ہوتے۔

    یوں تو بلیوں کے لیے سیڑھیاں یا مخصوص چڑھائی(ریمپ) یورپ بھر میں عام ہیں، مگر سوئٹزر لینڈ میں اس کا انتظام خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ بلیوں کو پالتو جانور کے طور پر گھر میں رکھنے کے شوقین ان کے لیے دھاتی یا لکڑی کی سیڑھیاں بہت شوق سے بنواتے ہیں۔ سوئس باشندوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ یہ اس پالتو جانور کی صحت اور اس کی خوشی کے لیے ضروری ہے۔