Tag: سوات

  • گھر اور عمر بھر کی کمائی سب بہہ گئی، سوات کے سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے (ویڈیو)

    گھر اور عمر بھر کی کمائی سب بہہ گئی، سوات کے سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے (ویڈیو)

    سوات (29 اگست 2025) کے پی میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے بربادی کی نئی داستان رقم کی سوات میں متاثرین کی مشکلات ختم نہ ہوئیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کے پی میں گزشتہ دنوں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب اور کلاؤڈ برسٹ نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ سیاحوں کے لیے پاکستان کا پیرس کہلانے والی وادی سوات کا حسن بھی سیلاب نے ماند کر دیا۔

    اسی سوات کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں بربادی کے مناظر آج بھی لوگوں کے دل دہلا رہے ہیں اور لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی سیلاب کی نذر ہونے کے بعد اب کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔

    ان ہی میں ایک عمر زادہ ہیں، جنہوں نے دن رات محنت کر کے چار کمروں کا گھر بنا کر اپنے خوابوں کی تعبیر پائی تھی۔ لیکن بے رحم سیلاب کی موجیں اس کا گھر بہا کر لے گئیں، اب یہاں صرف ویران چوکھٹیں بچی ہیں جب کہ دیواریں مٹی میں دب چکی ہیں۔

    سیلاب صرف عمر زادہ کا گھر ہی نہیں بلکہ کمائی کا واحد ذریعہ رکشا، 4 بھینسیں، فرنیچر اور دیگر سامان بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔

    کھلے آسمان تلے اپنے گھر کے ملبے پر ٹینٹ لگا کر بیٹھے عمر زادہ آہ بھر کر کہتے ہیں کہ لوگ تو کبھی ہزار اور کبھی پندرہ سو روپے دے جاتے ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے اب تک کوئی امداد نہیں دی گئی ہے۔

    عمر زادہ کا کہنا ہے کہ ہم اپنا سب کچھ سیلاب میں گنوا کر اس ویران جگہ پر بیٹھے ہیں، مگر اب تک حکومت کی جانب سے کوئی امداد نہیں آئی ہے۔

    عمر زادے کا کزن شیر محمد خان بھی اپنی کمائی کا ذریعہ سیلاب کی نذر کر چکا ہے۔ شیر محمد کا کہنا ہے کہ اس کی ایک دکان یہاں تھی، جس میں تقریباً 10 لاکھ روپے کا سامان تھا، سب سیلاب کی لہریں بہا کر لے گئیں۔ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ ہماری دادرسی کرے۔

    سیلاب کی ان کی زندگی بھر کی کمائی خوشیاں اور امیدیں سب چھین لیں۔ یہ بے آسرا اور بے چھت متاثرین اب حکومت کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھے۔

     

  • سوات : سیلاب متاثرہ علاقے کی صفائی میں مصروف رضاکاروں کو 20 تولے سونا مل گیا

    سوات : سیلاب متاثرہ علاقے کی صفائی میں مصروف رضاکاروں کو 20 تولے سونا مل گیا

    سوات: سیلاب متاثرہ علاقے کی صفائی میں مصروف رضاکاروں کو 20 تولے سونا مل گیا تاہم ملنے والا سونا اصل مالک کو شناخت کے بعد واپس لوٹا دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سوات میں سیلاب متاثرہ علاقوں میں ریلیف کام کے دوران ایک مقامی مدرسے کے طلبہ نے دیانت داری کی شاندار مثال قائم کرتے ہوئے 20 تولہ سونا اس کے اصل مالک کو واپس کردیا۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیچڑ اور ملبے سے اٹے طلبہ ایک تباہ شدہ گھر سے طلائی زیورات برآمد کر رہے ہیں، بعدازاں یہ زیورات مدرسے کے مہتمم کے حوالے کیے گئے، جنہوں نے تصدیق کے بعد امانت اصل مالک تک پہنچا دی۔

    مقامی ذرائع ک نے بتایا کہ طلبہ کو اس عمل پر 10 ہزار روپے بطور انعام دیے گئے، تاہم انہوں نے یہ رقم بھی چندے میں دے دی۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں فی تولہ 24 قیراط سونے کی موجودہ قیمت 3 لاکھ 55 ہزار 700 روپے ہے، جس حساب سے برآمد ہونے والا یہ سونا کئی ملین روپے مالیت کا تھا۔

    مدرسے کے طلبہ کے اس اقدام کو عوام اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

  • شہزاد رائے سوات کے مدرسے میں جاں بحق طالبعلم کے لیے انصاف کی آواز بن گئے

    شہزاد رائے سوات کے مدرسے میں جاں بحق طالبعلم کے لیے انصاف کی آواز بن گئے

    (27 جولائی 2025): سماجی کارکن اور زندگی ٹرسٹ کے بانی شہزاد رائے سوات کے مدر سے میں استاد کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے بچے کی آواز بن گئے۔

    پاکستان کے معروف گلوگار شہزاد رائے نے مدرسے میں استاد کے تشدد سے جاں بحق طالبعلم فرحان کو انصاف دلانے کے لیے ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ سیکشن 89 کا قانون جو طالبعلموں پر اساتذہ کے تشدد کو جواز فراہم کرتا تھا وہ 2019 میں ختم ہوچکا ہے، مدرسے میں تشدد سے فرحان کی جان لینے والے بچ نہیں سکتے۔

    انہوں نے کہا کہ طالبعلموں پر تشدد قانوناً جرم ہے طلبہ اساتذہ کے تشدد پر خاموش رہنے کے بجائے شکایات کریں، اور اس قسم کے واقعات پر خاموشی اختیار نہ کریں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے اور کسی بھی قسم کے تشدد پر فوری شکایت درج کروانی چاہیے۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ کے ایک مدرسے میں استاد کے مبینہ تشدد سے فرحان نامی طالبعلم جان کی بازی ہار گیا تھا، پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا ہے جبکہ قانونی کارروائی جاری ہے۔

  • سوات : مدرسے میں استاد کی تشدد سے جاں بحق  فرحان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آگئی

    سوات : مدرسے میں استاد کی تشدد سے جاں بحق فرحان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آگئی

    سوات: مدرسے میں استاد کے تشدد سے جاں بحق بچے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آگئی ، رپورٹ میں طالب علم سے زیادتی ثابت نہیں ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق سوات میں مدرسے میں استاد کے تشدد سے جاں بحق لڑکے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آگئی ، جس میں بتایا گیا کہ تشدد کی وجہ سے طالب علم کی موت ہوئی تاہم طالب علم سے زیادتی ثابت نہیں ہوئی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ طالب علم کی تفصیلی پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی آنا باقی ہے۔

    دوسری جانب سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ کے مدرسے کے تمام استاد گرفتار کرلیے گئے ہیں ، ڈی پی اوسوات محمد عمر خان نے بتایا کہ مدرسے کے دوسرے بچوں پر بھی تشدد کے شواہد ملے ہیں۔

    مزید پڑھیں : فرحان نے جو بتایا تھا وہ بیان کرنے کے قابل نہیں، مقتول کے دادا

    ڈی پی او کا کہنا تھا کہ فرحان کے قتل میں نامزد چار میں سے دو ملزم گرفتار ہیں، ایک اور ایف آئی آر درج کرکے مزید نو معلم بھی گرفتارکرلیے۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ مدرسے میں موجود ایک سوستر بچے و الدین کےحوالےکردیے، مدرسہ مخزن العلوم سےلاٹھیاں اورزنجیریں بھی ملی ہیں۔

  • اے آر وائی کی خبر پر ایکشن، وزیراعلیٰ کا سوات میں تجاوزات کیخلاف آپریشن دوبارہ شروع کرنیکا حکم

    اے آر وائی کی خبر پر ایکشن، وزیراعلیٰ کا سوات میں تجاوزات کیخلاف آپریشن دوبارہ شروع کرنیکا حکم

    اے آر وائی نیوزکی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے سوات میں تجاوزات کیخلاف آپریشن فوری دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیدیا۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کےخلاف آپریشن کو سیاسی مداخلت کے باعث روک دیا گیا تھا، تاہم اب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے مذکورہ آپریشن فوری طور پر دوبارہ شروع کرنے کے احکامات دیے ہیں۔

    وزیراعلیٰ کےپی کے ترجمان نے کہا کہ تجاوزات کیخلاف آپریشن میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائےگی، کسی بھی شخصیت کی تجاوزات ہوں تو ان کو مسمار کیا جائےگا۔

    سوات: بااثر سیاسی شخصیات کی تعمیرات تک پہنچنے پرآپریشن روک دیاگیا

    ترجمان نے کہا کہ کسی افسر نے کوتاہی برتی تو اس کو بھی نہیں بخشا جائےگا، 10منٹ میں آپریشن دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔

    سوات میں تجاوزات کیخلاف آپریشن میں سیاسی اثرو رسوخ آڑے آیا، بااثر سیاسی شخصیات کی تعمیرات تک پہنچنے پر آپریشن روک دیا گیا تھا۔

    تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن بااثر سیاسی شخصیات کی وجہ سے روکا گیا تھا، 4 گھنٹے انتظار کے بعد کارروائی روکنے کا کہا گیا اور تجاوزات کےخلاف آپریشن کرنے والی ٹیموں کو واپس جانے کی ہدایت کی گئی۔

    کمشنر ملاکنڈ کی زیرصدارت 3 گھنٹے جاری اجلاس بھی بےنتیجہ ختم ہوا، سیاسی شخصیت کی تعمیرات پر اجلاس کے شرکا کی مختلف رائے تھی۔

    https://urdu.arynews.tv/anp-plaintiff-murder-case-should-registered-cm-gandapur/

  • سوات: بااثر سیاسی شخصیات کی تعمیرات تک پہنچنے پرآپریشن روک دیاگیا

    سوات: بااثر سیاسی شخصیات کی تعمیرات تک پہنچنے پرآپریشن روک دیاگیا

    سوات میں تجاوزات کیخلاف آپریشن میں سیاسی موڑ آگیا، بااثر سیاسی شخصیات کی تعمیرات تک پہنچنے پر آپریشن روک دیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سانحہ سوات کے بعد تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن بااثر سیاسی شخصیات کی وجہ سے روک دیا گیا، 4 گھنٹے انتظار کے بعد کارروائی روکنے کا کہا گیا اور تجاوزات کےخلاف آپریشن کرنے والی ٹیموں کو واپس جانے کی ہدایت کی گئی۔

    کمشنر ملاکنڈ کی زیرصدارت 3 گھنٹے جاری اجلاس بےنتیجہ ختم ہوگیا، سیاسی شخصیت کی تعمیرات پر اجلاس کے شرکا کی مختلف رائے ہے۔

    افسران کا کہنا ہے کہ سیاسی شخصیت کے پاس این او سی موجود ہے جبکہ شرکا کہنا تھا کہ دیگر لوگوں کے پاس این اوسی کےساتھ اسٹے آرڈر بھی موجود تھے۔

    سانحہ سوات میں وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر ریسکیو کیلئے کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟ ترجمان نے بتادیا

    سانحہ سوات کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر دریائے سوات کے کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا۔

    ترجمان وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ آپریشن میں ضلعی انتظامیہ، پولیس اور متعلقہ ادارے شریک ہیں، کسی کو بھی رعایت نہیں دی جائے گی، تجاوزات کے خلاف کارروائیوں کو جلد مکمل کیا جائے گا۔

    انھوں نے بتایا کہ دریائے سوات کے کنارے غیر قانونی مائننگ مکمل طور پر بند کی جا رہی ہے، تمام ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی کی جائے گی، دریائے سوات کے اطراف بیریئرز کی تعمیر کا بھی آغاز کیا جائے گا۔

    https://urdu.arynews.tv/swat-mafia-extracting-gravel-from-river-death-wells-citizens/

  • گورنر کے پی کا سوات واقعے میں سیاحوں کی جان بچانے والے نوجوانوں کو عمرہ پر بھیجنے کا اعلان

    گورنر کے پی کا سوات واقعے میں سیاحوں کی جان بچانے والے نوجوانوں کو عمرہ پر بھیجنے کا اعلان

    گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے سوات واقعے میں سیاحوں کی جان بچانے والے دونوں نوجوانوں کو عمرے کی ادائیگی کے لیے بھجوانے اور سول ایوارڈ دینے کے لیے وزیراعظم کو سفارش کرنے کا اعلان کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی سے سوات میں سیاحوں کی جان بچانے والے نوجوانوں نے ملاقات کی، گورنر کے پی نے محمد ہلال خان اور عصمت علی کی بہادری پر انھیں زبردست خراج تحسین پیش کیا اور دونوں کی بہادری اور انسانی امداد کے جذبے کو سراہا۔

    گورنر فیصل کریم کنڈی نے نوجوانوں کو بہادری اور انسانی خدمت کے جذبے پر تعریفی شیلڈ بھی پیش کی، کے پی کے گورنر نے نوجوانوں کو اپنی جانب سے عمرہ پر بھیجنے اور سول ایوارڈ دینے کیلئے وزیراعظم کو سفارش بجھوانے کا بھی اعلان کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: سانحہ سوات میں وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر ریسکیو کیلئے کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟ 

    دریائے سوات حادثہ، عینی شاہدین نے دل دہلا دینے والا آنکھوں دیکھا حال بتا دیا

    اس موقعے پر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ مقامی نوجوانوں نے مصنوعی کشتی کے ذریعے سیاحوں کی جان بچائی، انسانی امداد اور بہادری کی یہ مثال قابلِ فخر ہے۔

    گورنر فیصل کریم کنڈی نے ہلال احمر سوات آفس کو مزید مستحکم بنانے اور آفس میں ایمبولینسز کے ساتھ کشتی لگانے کی ہدایت بھی کی ہے، انہوں نے کہا کہ کشتیوں کی مدد سے سیلابی صورتحال میں بروقت ریسکیو ممکن ہوگا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے دریائے سوات میں طغیانی اور سیلابی ریلے میں بہہ کر کئی سیاح ڈوب گئے تھے، جن میں سے 12 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں، تاہم ایک بچہ ان بھی لا پتا ہے۔

  • سوات میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 4 خوارج مارے گئے

    سوات میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 4 خوارج مارے گئے

    سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع سوات میں انٹیلی جنس بیسڈ مشترکہ آپریشن کیا۔

    سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر ضلع سوات میں انٹیلی جنس بیسڈ مشترکہ آپریشن کیا، سیکیورٹی اہلکاروں کی خوارج کے ٹھکانے پر مؤثر کارروائی کے نتیجے میں 4 خوارج مارے گئے۔

      آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک ہونے والے خوارج کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا، ہلاک خوارج علاقے میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث تھے۔

    آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ علاقے میں پائے جانے والے کسی بھی ممکنہ خارجی کے خاتمے کے لئے کلیئرنس آپریشن بھی کیا گیا، کیونکہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔

    دوسری جانب وزیراعظم  شہباز شریف نے سوات میں خارجیوں کیخلاف کامیاب آپریشن پر سیکیورٹی فورسز  کی پذیرائی کی ہے، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے ملک سے مکمل خاتمے تک خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہاکہ مجھ سمیت پوری قوم وطن عزیز کی خاطر افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

  • سوات: مینگورہ اور گرد ونواح میں زلزلہ

    سوات: مینگورہ اور گرد ونواح میں زلزلہ

    سوات: مینگورہ اور گرد ونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں، جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سوات مینگورہ اور گرد ونواح میں زلزلے کے باعث لوگوں میں خوف ہراس پھیل گیا اور لوگ گھروں سے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔

    زلزلہ پیما مرکز کا کہنا ہے کہ زلزلے کی شدت 4.5 ریکارڈ کی گئی، جبکہ زلزلے کا مرکز کوہ ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ تھا۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں بلوچستان کے شہر سبی اور گردونوح میں بھی شدید زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے تھے، جس کی شدت 4.7 ریکارڈ کی گئی تھی۔

    جاپان میں 6.9 شدت کا زلزلہ، سونامی کی وارننگ جاری

    زلزلہ پیما مرکز کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ زلزلے کی گہرائی 18 کلومیٹر اور مرکز سبی سے 22 کلومیٹر جنوب مشرق میں تھا۔

  • تقسیم کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستیں

    تقسیم کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستیں

    1857ء کی جنگ آزادی اور ہندوستان کی تقسیم تک برصغیر میں جہاں‌ سیاست داں، دانش ور اور بااثر سماجی شخصیات دن رات تحریکِ‌ آزادی میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئے، وہیں‌ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اکابرین نے اس وقت کی اسلامی ریاستوں کے سربراہوں اور نوابین کو بھی قائل کیا اور انھیں مسلمانوں کی الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد میں شامل کیا۔

    یہ ایک تاریخی اور اہم موضوع ہے جس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ہندوستانی اہل قلم شخصیات کے علاوہ انگریز مؤرخین اور دوسرے غیر ملکی محققین نے بھی اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن تقسیم ہند کے لیے آزادئ ہند ایکٹ 1947ء متعارف کروایا گیا تھا جس کے تحت تقسیم کے معاملات طے ہونے تھے۔ اس وقت ہندوستان میں 562 شاہی ریاستیں تھیں جو زیادہ تر اپنے ریاستی معاملات میں آزاد تھیں اور مختلف معاہدوں اور شرائط کے تحت برطانوی سامراج نے ان پر اپنا اثر رسوخ قائم کر رکھا تھا۔ راجے، مہاراجے، شہزادے، نواب یا امیر اپنے فیصلوں میں آزاد تھے۔ ان ریاستوں کو بہت حد تک خود مختاری بہرحال حاصل رہی، لیکن کچھ ریاستوں کو نیم خود مختاری حاصل تھی۔ اس کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہ یہ شاہی ریاستیں انتظامی، قانونی اور جغرافیائی طور پر تین درجوں میں تقسیم رہی تھیں۔ ان میں لگ بھگ 150 ریاستیں برطانوی حکومت سے معاہدے کے بعد قانونی و انتظامی امور پر مکمل اختیار رکھتی تھیں۔ اور یہ ریاستِ جموں و کشمیر، ریاست بہاولپور، ریاست جے پور، جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن وغیرہ تھیں۔ دوسرے درجے کی ریاستوں کے چند داخلی معاملات میں برطانوی سامراج کو اختیارات حاصل تھے۔ اور تیسرے درجے کی تقریباً‌ 300 ایسی ریاستیں تھیں جو بلحاظِ رقبہ کم تھیں اور خود مختار بھی نہ تھیں۔

    پاکستان سے کل 13 ریاستوں نے الحاق کیا۔ ان میں پہلے تذکرہ کرتے ہیں ریاست بہاولپور کا جو 150 فرسٹ کلاس ریاستوں میں سے ایک اور رقبے کے لحاظ سے بڑی تھی۔ یہی نہیں‌ اس کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جو معیشت کے اعتبار سے بھی خوش حال تھی۔ ریاست بہاولپور کے سربراہ مسلمان تھے اور اس وقت اس کی 83 فیصد آبادی مسلمان تھی۔ یوں اس مسلم اکثریتی ریاست کا رقبہ 17226 مربع میل بتایا جاتا تھا۔ ریاست بہاولپور کے نواب کی قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات ہوئی جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہرو نے نواب صاحب کو بھارت میں شامل ہونے کی پیشکش کرتے ہوئے خاص عہدہ اور ریاست کی حیثیت کا یقین دلایا تھا۔ لیکن نواب آف بہاولپور نے انکار کر دیا۔

    قیام پاکستان کے بعد مالی مشکلات کے موقع پر نواب آف بہاولپور نے اپنا ذاتی سونا بینک آف انگلینڈ میں بطور ضمانت جمع کروایا اور اس کے بعد پاکستان کو کرنسی چھاپنے کی اجازت ملی۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کی سہولیات عام کرنے کے لیے زمین دینے اور مالی امداد کا سلسلہ جاری رکھا۔

    دوسری طرف ریاست سوات تھی جس کا قیام 1849ء میں عمل میں آیا تھا اور وہاں اخند حکمران ہوئے۔ یہ ریاست موجودہ ریاست خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ والیٔ سوات میاں گل عبدالودود نے بطور مقتد ر حکم ران الحاق کی دستاویز قائد اعظم محمد علی جناح کو بھیجی تھی جس کی قبولیت کے بعد ریاست کا الحاق پاکستان سے ہوا۔ اسی طرح ریاست چترال جس کا محل وقوع بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اور اس کی مشرقی حدود گلگت بلتستان سے ملتی ہیں جب کہ ریاست کی شمال مغربی سرحد افغانستان کے صوبوں سے ملی ہوئی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد چترال کے مہتر (نواب)، مہتر مظفر الملک تھے اور ریاست چترال پاکستان میں شامل ہوئی۔ اس کے لیے 1948ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے دستاویز پر دستخط کیے۔ سندھ میں ایک زرخیز ریاست خیر پور تھی اور یہ زرعی پیداوار کے لیے اس وقت بہت اہمیت کی حامل تھی۔ میر غلام حسین تالپور نے ریاست خیر پور کے حکمران کے نمائندے کے طور پر پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ دوسری طرف بلوچستان کی کچھ چھوٹی ریاستیں جن میں‌ مکران، خاران اور لسبیلہ شامل تھیں پاکستان میں شامل ہوگئیں۔

    ریاست جونا گڑھ اور مناودر کی بات کریں تو جنوری 1945ء میں قائداعظم نے مناودر کے علاقے بانٹوا کا دورہ کیا تھا۔ حاجی موسیٰ لوائی اپنی کتاب عکسِ بانٹوا میں لکھتے ہیں کہ یہ ان کا کاٹھیاواڑ کا پہلا دورہ تھا۔ قائداعظم کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ تقسیم ہند کے وقت ریاست کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور بھارت نے جارحیت کی اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر اس پر قبضہ کر لیا۔ آج بھی نواب خاندان اسے پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں اور اس پر قانونی چارہ جوئی کی ہے۔ ریاست امب کے علاوہ ریا ستِ دیر، ہنزہ و نگر بھی پاکستان کا حصہ بنیں۔

    اگر ان ریاستوں کے الحاق کا مطالعہ کیا جائے تو اس حوالے سے کچھ تنازعات بھی سامنے آتے ہیں اور یہ پاکستان مخالف برطانوی افسر شاہی اور بھارت کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ہے جب کہ مختلف ریاستوں کے حکمرانوں پر یہ بات واضح تھی کہ ان کا مستقبل صرف پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں ہے اور وہاں کی مسلمان اکثریت جناح صاحب کو اپنا قائد مانتی ہے۔ تاریخِ پاکستان یہ ثابت کرتی ہے کہ ان ریاستوں نے پاکستان کی تسخیر کو ناممکن بنایا اور ان ریاستوں کے غیور شہریوں نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔