Tag: سوالات

  • رضوان کی کپتانی اور پچھلے میچوں میں سفیان کی غیرموجودگی نے سوالات اٹھا دیے

    رضوان کی کپتانی اور پچھلے میچوں میں سفیان کی غیرموجودگی نے سوالات اٹھا دیے

    اسپورٹس صحافی شاہد ہاشمی نے تجریہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی ٹیم مینجمنٹ بہت غلطیاں کررہی ہے، رضوان کی کپتانی بہت ہی خراب رہی۔

    اے آر وائی کے اسپورٹس پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے شاہد ہاشمی کا کہنا تھا کہ فہیم اشرف نے خود کہا کہ جب ہم بیٹنگ کےلیے آئے تو بال پرانی ہوگئی تھی، مگر میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ فہیم اشرف نے وہاں ٹیسٹ میچز کھیلے ہوئے ہیں، وہاں اچھا اسکور کیا ہے، اس نے ٹیسٹ میچز میں سوئنگ کنڈیشن میں بیٹنگ کی ہوئی ہے۔

    شاہد ہاشمی نے کہا کہ پاکستان کی ٹیم مینجمنٹ بہت غلطیاں کررہی ہے، ان کنڈیشن میں صبح سے ابر آلود موسم تھا فلڈ لائٹس جلتی رہیں، اس میچ میں رضوان کی کپتانی بہت ہی خراب رہی۔

    انھوں نے کہا کہ سلو اوور ریٹ کی وجہ سے پاکستان ٹیم کو دوسری بار جرمانہ کیا گیا، وہ بہت مایوس ہو رہے تھے جب حارث رؤف وائیڈ بالز کروا رہے تھے۔

    شاہد ہاشمی نے نشاندہی کی کہ 27ویں اوور میں نیوزی لینڈ کی پانچویں وکٹ گر گئی تھی، اسکور اس وقت 132 رنز تھا، کیوی بیٹرز اس وقت چکرا گئے تھے تاہم کپتان نے 28واں اور 29واں اوور فاسٹ بولرز سے کروا دیا اور سفیان کو آگئے پیچھے رکھا۔

    کامران اکمل نے چیمپئنزٹرافی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ٹیم میں بہت سی چیزیں بہتر ہوسکتی تھی، فہیم اشرف کو کل کھلانے کی یہ وجہ تھی کہ ٹف کنڈیشن ہے اسے کھلائیں اور سائیڈ لائن کریں۔

    انھوں نے کہا کہ سفیان کو اپنے ٹی ٹوئنٹی میں ایک میچ کھلایا اور یہاں پر آپ پہلے ون ڈے میں صرف چار بولرز کے ساتھ جارہے ہیں، لگتا ہے کپتان بولرز کو ٹھیک طرح سے استعمال نہیں کرپارہے اور وہ اس طور پر سوچنا بھی پسند نہیں کرتے۔

  • اینکر کے سوالات پر پاکستان سے مفرور اسحاق ڈار سٹپٹاگئے

    اینکر کے سوالات پر پاکستان سے مفرور اسحاق ڈار سٹپٹاگئے

    لندن : بی بی سی کے پروگرام ہارڈٹاک میں اینکر کے سوالات پر اسحاق ڈار سٹپٹاگئے، اسحاق ڈار نے پہلے بیماری کا بتایا، پھر انسانی حقوق سے متعلق سوالات اٹھا دئیے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما و سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں اینکر کے سوالات پر ڈیر ہوگئے، اینکر نے جائیداد سے متعلق سوال کیا تو سابق وزیر خزانہ نے بیرون ملک جائیدادوں سے انکار کردیا۔

    اسحاق ڈار نے اینکر کو بتایا کہ میری صرف پاکستان میں ایک جائیداد ہے جو موجودہ حکومت نے ضبط کرلی ہے، جس پر اینکر نے کہا کہ کیا آپ کی یا خاندان کی لندن اور دبئی میں کوئی جائیداد نہیں جس پر اسحاق ڈار کہنے لگے کہ ’نہیں میرے بچوں کا ولا ہے‘۔

    اینکر نے سابق وزیر خزانہ سے وطن واپسی اور عدالتوں کا سامنا کرنے سے متعلق سوال کیا تو اسحاق ڈار نے پہلے بیماری کا بتایا اور پھر انسانی حقوق سے متعلق سوالات اٹھا دئیے۔

    اسحاق ڈار کی توجیحات پیش کرنے کے باوجود اینکر نے پھر سوال کیا کہ اگر آپ کی ایک جائیداد، اکاونٹس کلیئر ہیں تو واپس جاکر کیسز کا سامنا کیوں نہیں کرتے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ’میری طبعیت خراب ہے علاج کےلیے آیا ہوں‘۔

    بی بی سی اینکر نے طبعیت کا سن کر سوال کیا کہ آپ برطانیہ میں تین سال سے ہیں؟ اب بھی واقعی بیمار ہیں۔ اینکر کے تابر توڑ سوالات پر اسحاق ڈار نے کہا کہ جی مجھے اب بھی تکلیف ہے، دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔

    اینکر نے اسحاق ڈار سے سوال کیا کہ کیا ممکن ہے آپ وطن واپس جائیں؟ لیکن اسحاق ڈار نے بات کو انسانی حقوق کی پامالیوں کی جانب گھوماتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے انسانی حقوق کی کیا صورتحال ہے۔

    ہوسٹ نے سوال کیا کہ نواز شریف بھی آپ کی طرح میڈیکل گراونڈ پر لندن میں ہیں؟ رہنما مسلم لیگ ن نے جواب میں نیب پر دوران حراست بدسلوکی کا الزام عائد کیا جس پر اینکر نے اسحاق ڈار کو ٹوک دیا اور کہا کہ نواز شریف تو سزا یافتہ مجرم ہیں۔

    اسحاق ڈار کی سپریم کورٹ فیصلے پر تاویلیں دینے کی کوشش پر بھی اینکر نے اسحاق ڈار کو آئینہ دکھا دیا اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر بھی مفرور سابق وزیر خزانہ کی تصیح کردی۔

  • کرونا وائرس کی ویکسین کب تیار ہوگی اور کب دستیاب ہوگی؟

    کرونا وائرس کی ویکسین کب تیار ہوگی اور کب دستیاب ہوگی؟

    کرونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے حوصلہ افزا خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں، چین اور روس نے مقامی طور پر تیار کردہ ویکسین کا استعمال شروع کردیا ہے۔

    تاہم اس حوالے سے کچھ تحفظات اور سوالات بھی سامنے آرہے ہیں، ذیل میں ہم نے ایسے ہی کچھ سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

    ویکسین کے مؤثر ہونے کے بارے میں کب تک علم ہوسکے گا؟

    اس وقت دنیا بھر میں درجن بھر ادارے کرونا وائرس کی ویکسین پر کام کر رہے ہیں جبکہ ہزاروں شرکا پر ویکسینز کے ٹرائلز یا انسانی آزمائش کی جارہی ہے، ان ٹرائلز کے نتائج سال رواں کے آخر تک حتمی طور پر سامنے آجائیں گے جس سے علم ہوسکے گا کہ کون سی ویکسین کتنی مؤثر اور محفوظ ہے۔

    ان سب میں سب سے جلد بننے والی ویکسین سوئیڈش برطانوی فارما سیوٹیکل کمپنی ایسٹرا زینیکا کی ہوسکتی ہے جس کی اسٹڈی اسی ماہ مکمل ہوجانے کی امید ہے۔

    دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی کرونا وائرس ٹاسک فورس کے رکن اور امریکی ماہر وبائی امراض ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی ماڈرینا کی ویکسین کے فیصلہ کن نتائج نومبر یا دسمبر تک آجائیں گے۔

    ان کے علاوہ بقیہ تمام ویکسینز اس کے بعد آئیں گی۔

    جس طرح سے ویکسینز کے ٹرائلز جلدی جلدی نمٹائے جارہے ہیں، تو کیا ویکسین کے مضر اثرات کے بارے میں بھی مکمل طور پر اسٹڈی کی جارہی ہے؟ ماہرین اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

    ٹیکسس کے نیشنل اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے ڈین پیٹر ہوٹز کا کہنا ہے کہ کسی بھی ویکسین کو مکمل طور پر محفوظ ثابت ہونے کے لیے سنہ 2021 کے وسط تک کا عرصہ درکار ہے۔

    ویکسین کی پہلی کھیپ کب تیار ہوگی؟

    ویکسین بنانے میں مصروف ادارے اس حوالے سے بھی کام کر رہے ہیں کہ جیسے ہی ان کی ویکسین کو استعمال کی منظوری مل جائے، وہ اس کی زیادہ سے زیادہ خوراکیں بنانے پر کام شروع کردیں۔

    ان میں سے کچھ اداروں کو امریکی حکومت کے پروگرام آپریشن ریپ اسپیڈ کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

    ڈاکٹر فاؤچی کو امید ہے کہ سنہ 2021 کے آغاز تک ویکسین کی لاکھوں خوراکیں دستیاب ہوسکتی ہیں اور سال کے اواخر تک ان کی تعداد اربوں تک پہنچ سکتی ہے۔

    ماڈرینا، ایسٹرا زینیکا اور فائزر انک سمیت متعدد کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ ویکسین کی ایک ارب خوراکیں تیار کرسکتی ہیں، گویا 2021 کے آخر تک ہر ویکسین کی اربوں خوراکیں دستیاب ہوں گی۔

    کرونا وائرس کی ویکسین ہمیں کب تک مل سکے گی؟

    کرونا وائرس کی ویکسین ممکنہ طور پر سال رواں کے آخر یا اگلے برس کے آغاز تک تیار ہوجائے گی اور اس کی پہلی کھیپ امیر ممالک کو جائے گی اور وہاں پر ان افراد کو دی جائے گی جو کرونا وائرس کے خطرے کا زیادہ شکار ہیں۔

    اس میں مختلف بیماریوں کا شکار افراد، ہیلتھ ورکرز اور عسکری اہلکار شامل ہیں۔ کینیڈا، جاپان، برطانیہ اور امریکا نے اس حوالے سے اپنے شہریوں کو لائن اپ کرنا شروع کردیا ہے۔

    کچھ ویکسینز ایسی بھی ہیں جن کی 2 خوراکیں ایک ماہ کے وقفے سے دینی ہوں گی، اور دوسری خوراک لینے کے بعد ہی مذکورہ شخص ویکسی نیٹد قرار پا سکے گا۔

    پوری دنیا کو کرونا وائرس کی ویکسین کب ملے گی؟

    کرونا وائرس کی ویکسین کا انتظار ان ترقی پذیر ممالک کو کرنا پڑ سکتا ہے جنہوں نے تاحال اس کی خریداری کی ڈیل نہیں کی۔ پیٹر ہوٹز کا کہنا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کرونا وائرس ویکسین ترقی پذیر ممالک تک بہت دیر سے پہنچے گی۔

    گاوی کے نام سے قائم کیا جانے والا ایک ویکسین الائنس (جو ترقی پذیر ممالک تک ویکسین پہنچانے کے لیے قائم کیا گیا ہے) 2 ارب خوراکوں کی ڈیل کرنا چاہتا ہے، اگر وہ اس میں کامیاب رہتا ہے تو ترقی پذیر ممالک کی اس 20 فیصد آبادی کے لیے ویکسین حاصل کرلی جائے گی جو کرونا وائرس کے خطرے کا زیادہ شکار ہیں۔

    اسی طرح سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا بھی ویکسین کو غریب اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مقامی طور پر مینو فیکچر کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

    کیا چینی ویکسین پوری دنیا کو مل سکے گی؟

    چینی حکومت نے کچھ تجرباتی ویکسینز کو استعمال کرنے کی منظوری دے دی ہے اور وہ یہ کام کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔

    تاہم فی الحال یہ ویکسین چین سے باہر استعمال نہیں ہوسکے گی کیونکہ مغربی ممالک اس ویکسین کے مقامی ٹرائلز کرنا چاہیں گے جس میں وقت لگے گا، ان ٹرائلز کے انعقاد پر کام کیا جارہا ہے۔

    روسی ویکسین کا استعمال

    روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ روس کرونا وائرس ویکسین کی ریگولیٹری منظوری دینے والا پہلا ملک بن چکا ہے، ویکسین کی انسانی آزمائش کو فی الحال 2 ماہ سے بھی کم کا عرصہ گزرا ہے اور اس کا حتمی مرحلہ ابھی باقی ہے۔

    ماہرین اس ویکسین کے استعمال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، ایک روسی بزنس مین نے اعلان کیا ہے کہ وہ سال رواں کے آخر تک اس ویکسین کی بڑے پیمانے پر مینو فیکچرنگ شروع کردیں گے۔

  • ثانیہ نشتر نے احساس کیش پروگرام کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دے دیا

    ثانیہ نشتر نے احساس کیش پروگرام کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دے دیا

    اسلام آباد: وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے احساس کیش پروگرام کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے احساس کیش پروگرام سے متعلق پیش آنے والے مسائل کا ذکر کرنے کے ساتھ ان کے حل سے متعلق مفید معلومات بھی شیئر کیں۔

    وزیراعظم کی معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ آپ کسی ضرورت مند کو جانتے ہیں جسے احساس کیش ی ضرورت ہے تو اس 8171 پر شناختی کارڈ نمبر بھجیں، ایس ایم ایس کی آخری تاریخ 19 اپریل کی رات 12 بجے تک ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر آپ کو احساس کیش کی ضرورت ہے یا آپ کسی مستحق کو جانتے ہو تو 8171 پر شناختی کارڈ نمبر بھیجیں اور اگر آپ کو ایس ایم ایس موصول جس میں اہلیت اور کوائف کی جانچ پڑتال کے بارے میں بتایا جائے تو دوسرے ایس ایم ایس کا انتظار کریں جو 8171 سے آپ کو 10 دن کے اندر موصول ہوگا۔

    ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے مطابق اگر آپ کو احساس کیش پروگرام کی جانب سے اپنے والدین یا شریک حیات کی اہلیت کا پیغام موصول ہو اور ان کا انتقال ہوچکا ہے تو اس سے متعلق آپ 080026477 پر رابطہ کریں۔


    انہوں نے بتایا کہ مرحومین کے نام اہلیت کا پیغام جاری ہونے کی وجہ ان کے ورثا کی جانب سے نادرا میں اموات کا اندراج نہ کروانا ہے۔

    وزیراعظم کی معاون خصوصی نے بتایا کہ اگر ادائیگی کے وقت آپ کی بائیو میٹرک تصدیق نہیں تو آپ کو نادرا کے قریبی دفتر سے تصدیق کروانی ہوگی، اس کے لیے نادرا کے دفاتر کھلوائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا شناختی کارڈ زائد المعیاد ہے تو وہ پرانے شناختی کارڈ پر رقم وصول کرسکتا ہے۔

    انہوں نے واضح کیا کہ صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں حبیب بینک کے نامزد ریٹیلرز جبکہ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بینک الفلاح کے نامزد ریٹیلرز سے رقوم وصول کی جاسکتی ہیں۔


    ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جن کے شناختی کارڈ پر درج پتہ ان کی موجودہ رہائش گاہ کے پتے سے مختلف ہے تو وہ ادائیگی کے لیے نامزد بینکوں میں ایس ایم ایس دکھا کر بائیو میٹرک تصدیق کے بعد رقم وصول کرسکتے ہیں۔

    وزیراعظم کی معاون خصوصی کی جانب سے جاری پیغام میں بتایا گیا کہ مثال کے طور پر آپ کے شناختی کارڈ کا پتہ خیبرپختونخوا کا ہے اور آپ اس وقت کراچی میں تو آپ بینک الفلاح کی کسی بھی برانچ میں جا کر پیسے نکالنے کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

  • سال 2018 کی اہم کتابیں اور چند سوالات

    سال 2018 کی اہم کتابیں اور چند سوالات

    تحریر و تجزیہ: سیمیں کرن

    ایک ایسے وقت میں، جب یہ شوروغوغا ہے کہ ادب پھل پھول نہیں رہا، کتاب کلچر کو انٹر نیٹ نگل لیا ہے، دنیا ایک بالکل نئی کروٹ لے چکی، وہاں موجودہ اردو ادب کو پرکھنے اور اُس پر بات کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

    کیا اُردو ادب تخلیق نہیں ہو رہا؟ ایسا ادب جو بین الاقوامی معیارات کا مقابلہ کر سکے، کیا کتاب کلچر ہمارے بیچ سے غائب ہو چکا ہے؟ کیا کتاب کی جگہ واقعی نیٹ اور سوشل میڈیا لے چکا ہے؟

    اِن سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ناگزیر اِس لیے بھی ہو جاتا ہے کہ نئی صدی کی دوسری دہائی اختتام پذیر ہے اور گذشتہ بیس تیس برس ایک مکمل بدلے اورنئے سماج کے دعوے دار ہیں، جہاں سیاست ہماری جذباتی دنیا میں بری طرح داخل ہو چکی ہے، عام شخص کا سیاسی شعور مزید بالغ ہو چکا ہے۔

    [bs-quote quote=”قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    اُردو زبان کا شمار برصغیر کی اہم زبانوں میں ہوتا ہے، ایک ایسی زبان جسے پڑھنے اور بولنے والے دُنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں، جو پاکستان کی قومی زبان ہے، یہ ہندوستان میں ایک بڑی آبادی میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، ہندوستان اُردو ادب میں مسلسل حصہ بھی ڈالا جا رہا ہے، لیکن اِس کے باوجود اُردو ادب زوال پذیر ہے کا سلوگن کیوں گردش عام ہے؟

    اِن حالات میں اس سوال کے معنی خیزی نہ صرف ادب کے لکھاری کے لیے بڑھ جاتی ہے بلکہ قاری بھی اس سوال کوپوچھنے میں حق بجانب ہے، اس خطے کا سماج ایک گھٹن، انتشار اور شدت پسندانہ رویوں کا ثمرکاٹ رہا ہے، پاکستان میں غیر مستحکم جمہوری اقدار اور ہندوستان میں شدت پسند ہندو سیاست، جو اُردو کو ایک اقلیت کی زبان بنانے کے درپے ہے، یہ وہ مسائل، چیلنجز اور سوال ہیں جو اُردو ادیب کو درپیش ہیں اور جن کو جواب ڈھونڈنے میں شاید اس کا حل بھی پنہاں ہے۔

    یہ سوال اہم ہے کہ کیا آج کا ادیب موجودہ سوالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمارے پاس اِس سوال کا کوئی واضح جواب ہے ،تو یقیناً ہم باقی سوالوں اور  مسائل کی جانب مثبت پیش رفت کے قابل ہوں گے۔

    یہ سوال اپنی جگہ ہیں، مگر کتابوں کی اشاعت، اُس کاتذکرہ ناگزیر ہی نہیں، بلکہ خوش آئند بھی ہے اور اِس دعوے کی نفی بھی کہ ادب زوال پذیر ہے اور ناپید ہو رہا ہے۔

    فکشن کے میدان میں قابل ذکر کتب

    سال 2018 میں سامنے آنے والی کتب و جرائد کا جائزہ لیا جائے، تو ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، صورت حال یقینا خوش آئند اور اُمید افزا ہے۔ قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں۔ اِس سال ایسا بہت کام ہوا جو نہ صرف قابلِ ذکر ہے، بلکہ اُردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھا جائے گا۔

    سب سے پہلا تذکرہ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ”منطق الطیر ، جدید “کا ہے۔ تارڑ صاحب کے ناول کے کچھ اِختصاصات ہیں، جن میں پرندے سرفہرست ہیں۔ فریدالدین عطا رکے یہ پرندے مستنصر حسین تارڑ کی باطنی دنیا میں ہی نہیں پھڑپھڑاتے، بلکہ یہ پرندے ان کی ادبی کائنات میں بھی پرواز کرتے ملتے ہیں۔ یہ پرندے ” خس و خاشاک زمانے میں “ بھی منسوب ٹھہرتے ہیں۔ یہ تارڑ کے ساتھ ساتھ محوِپرواز رہتے ہیں۔ ایسا ناول لکھنے کی ہمت مستنصر حسین تارڑ جیسا کہنا مشق ادیب ہی کر سکتا تھا۔ جس کے ساتھ مطالعہ کی کثرت ہم رکاب ہے وہ چاہے سفر کی صورت ہو یا کتاب کی۔ تارڑ ہر صورت مطالعہ کے خوگر ہیں اور یہی اُس کی تحریر کو ایک لازوال چاشنی عطا کرتی ہے۔ اُنھوں نے ان گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب کو بلا مبالغہ ایسے بڑے ناولز سے نوازا، جس کو اہم عالمی ادب کے سامنے فخر سے رکھ سکتے ہیں۔

    خالد فتح محمد بھی اُن ناموں میں شامل ہیں جنھوں نے اُردو ادب میں معتبر اضافہ کیا ہے۔ اُن کا اسلوب سادہ و دل نشین ہے، بغیر کسی اُلجھا وے کے وہ اپنی بات و سوچ قاری تک پہنچا دیتے ہیں۔ ”شہر مدفون“ اور ” خلیج “کے بعد اُن کا تازہ ناول ”سانپ سے زیادہ سراب “ سامنے آیا ہے۔

    محمد الیاس بھی اُن معتبر ناموں میں شامل ہیں، جنھوں نے گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ متعدد افسانوی مجموعے اور ناول اُن کے کریڈٹ پر ہیں۔ کہر، برف، بارش، پروا اور دھوپ جیسے بڑے ناول وہ اردو اَدب کو دے چکے ہیں اور امسال اُن کا ناول ” عقوبت“ اُمید ہے کہ اشاعت ہو کر سامنے آ جائے گا۔

    اختر رضا سلیمی بھی ایک اہم ناول نگار کی صورت اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ برس اُن کے پہلے ناول ”جاگے ہیں خواب میں“ کا تیسراایڈیشن شائع ہوا، جب کہ دوسرا ناول ”جندر“ بھی سامنے آیا، اس سال اِن کے دو ناولوں کا خوب تذکرہ رہا۔ ہزارہ کے پس منظر میں لکھے گئے یہ دونوں ناولز یقیناً ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔

    سید کاشف رضا کا ناول ”چاردرویش اور کچھوا“ اِس برس کا ایک اہم اور عمدہ ناول ہے۔ ناول، آغاز میں دیے ژاں بودریلارد کے اِس بیان کی بہترین مثال ہے کہ آج کا فن حقیقت میں مکمل طور پر گھس گھسا چکا ہے اور دوسرے باب کے آغاز میں ژاں بودریلارد کا کہنا ہے کہ اول تو یوں کہ فن بنیادی حقیقت کا عکس ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ اِس کا بیانیہ حقیقت میں گھس گھسا چکا ہے یا کسی حقیقت کا عکس ہے۔ پاکستان کا سیاست کا ایک باب بے نظیر کی شہادت اور طالبان کی کاشت کاری ایسے موضوعات کی عکس بنیادی مصنف کچھ ایسے کی ہے کہ گویا کوئی قلم سامنے چل رہی ہے، جس میں مصنف خود کسی کچھوے کے خول میں جا چھپا ہے۔

    [bs-quote quote=”تمام تر مسائل کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    آمنہ مفتی کا ناول ”پانی مر رہا ہے“ بھی قابلِ تذکرہ ہے، وہ ایک عمدہ لکھاری اور ڈرامہ رائٹر ہے، فارس مغل بھی ایک تیز رفتار لکھاری ہیں اور یکے بعد دیگرے اُن کے دو ناول سامنے آئے ہیں۔ ”ہم جان“ اُن کا پہلا ناول تھا اور اِس برس اُن کا ناول ”سوسال وفا“ سامنے آیا ہے، جس میں ایک حساس اور سنجیدہ موضوع کو ایک محبت کی کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔

    مشرف عالم ذوقی افسانے اور ناول کی دنیا کاوہ اہم نام ہے، جو اب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، گذشتہ دودہائیوں میں وہ سلگتے مسائل اور عالمی و سماجی بدلاؤ کو اپنے ناولز کا موضوع بناتے رہے ہیں، اِس برس اُن کی ایک ہی تسلسل میں پانچ طویل کہانیاں، ہندوستان کے سیاسی پس منظر اور گھٹن کی بہترین عکاس رہیں۔

    ڈاکٹر ناصر عباس منیر جو ایک معتبر ادبی نقاد ہیں کا افسانوی مجموعہ ”راکھ سے لکھی گی کتاب “ قابلِ ذکر اضافہ ہے، سید ماجدشاہ کے افسانوی مجموعے ”ق“ کے بعد”ر“ ان کا دوسرا مجموعہ ہے۔ جو اُن کے مختصر افسانوں و افسانچوں پہ مشتمل ہے۔

    امین ھایانی کایہ دوسرا افسانوی مجموعہ ”بے چین شہر کی ُپرسکون لڑکی“ سامنے آیا ہے۔ محترم حمید شاہد کے رائے فلیپ پر شامل ہے۔ امین ھایانی کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک دردمند اور حساس لکھاری ہیں۔

    سبین علی نوجون لکھاریوں میں ایک عمدہ اضافہ اور اہم نام ہیں مختلف اور اہم موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں۔ صاحبِ مطالعہ اور عمدہ تنقیدی فکر رکھتی ہیں۔

    جواد حسنین بشر جواد جو ابن مسافر کے قلمی نام سے لکھتے ہیں، ان  کے یکے بعد دیگرے دو افسانوی مجموعے آئے ہیں۔ پہلا مجموعہ ”سفرناتمام “تھا اور اِس برس دوسرا مجموعہ ”ہاتھ ملاتا دریا اور مقدس بیٹی“ منظرعام پر آیا ۔ جواد ایک جرات آمیز افسانہ نگار ہیں اور نئے موضوعات پہ لکھنے کے خوگر روایتی موضوعات کے علاوہ جدید موضوعات و مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ 

    ایک نظر شعری مجموعوں‌ پر

    شعری دنیا پہ نظر ڈالیں تو کئی مجموعے منظرعام پر آئے، امجد اسلام امجد جیسے سینئر شاعر کی کتاب امجد فہمی حال ہی میں شایع ہوئی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا نیا شعری مجموعہ انتشار آیا، نصیر احمد ناصر کے کلیات کے علاوہ ملبے میں ملی چیزیں کا نیا ایڈیشن سامنے آیا۔ نئی نسل و نئے شعرا بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیں، ڈاکٹر جواز جعفر کی نظموں کا مجموعہ ”متبادل دنیا کاخواب“ قابلِ ذکر ہے۔

    شہزاد نیر جو ایک اہم اور کہنہ مشق شاعر ہیں، اُن کا شعری مجموعہ خواہشار بھی قابلِ ذکر ہے۔ ارشد معراج کی نظموں کا مجموعہ ”دوستوں کے درمیاں“ قابلِ ذکر ہے۔ حفیظ تبسم کا نظموں کا مجموعہ ”دشمنوں کے لےے نظمیں“اِک نئے ذائقے کا آہنگ ہے۔

    ظہور چوہان جن کے تین مجموعے اِس سے پہلے آ چکے، اُن کا شعری مجموعہ ”رودنی دونوں طرف“ اِس برس منظرعام پر آیا۔ شوزیب کاشر،اک جواں سالہ خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر ہیں اور شعری دنیا میں عمدہ اضافہ ہیں۔ اُن کا شعری مجموعہ ”خمیازہ“ اِس برس شایع ہوا۔

    ثمینہ تبسم ایک منجھی ہوئی شاعرہ ہیں، چار کتب پہلے منظر عام پر آ چکیں، اِس برس اُن کی کتاب ”سربلندی تیری عنایت ہے اشاعت پذیر ہوئی ہے، ناز بٹ کی نظموں و غزلوں کا پہلا مجموعہ ”وارفتگی“ منظرعام پر آیا ہے.

    شعر و ادب کی تخلیقی کتب کے علاوہ کچھ اور اہم قابلِ ذکر کتابیں ہیں، جن کا ذکر ہونا چاہیے۔

    جبار مرزا ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں ہیں،اُن کی کتاب ”نشانِ اِمتیاز“ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر سے متعلق چار عشروں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، جمیل احمد عدیل کے فن پر شایع ہونے والی کتاب ”صاحبِ اسلوب“ کے نام سے اُن کے ادبی محاسن کا احاطہ کیا گیا ہے، یاسرجواد جو کہ ایک معروف مترجم و محقق ہیں، اِس برس اُن کی سرائیکی ویب کی تاریخ، نوبیل اِنعام یافتہ ادیبوں کے خطبات، پنجاب میں دیسی تعلیم (سرلائنز)، ضرب الامثال اور محاورے (فرہنگِ آصفیہ سے ماخوذ) منظرعام پر آئیں۔

    ”فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت“ فرخ ندیم کی کاوش ہے جو نئے تنقیدی فریم میں ادب کو دیکھنے کی کاوش ہے۔

    حرف آخر

    جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، جہاں اِسے کتاب کلچر کو نگلنے کا ملزم ٹھہرایا جا رہا ہے، وہیں اسی سوشل میڈیا کے مختلف فورمز اردو ادب کے فروغ کے لئے اپنا سود مند حصہ ڈال رہے ہیں، یہ اردو ادب کی نئی بستیاں ہیں، جہاں نیا لکھاری بھی پیدا ہوا رہا ہے اور قارئین بھی ۔ ہاں، لکھاری کنفیوز ہے کہ نہیں جانتا کہ اسے کیا لکھنا ہے، کہاں لکھنا ہے اور کہاں چھپنا ہے مگر اس کے سامنے امکانات کی وسیع تردنیا ہے۔

    اِس منظر نامے پہ نگاہ دوڑائیں تو ایک اور دروزہ کھلتا ہے۔ اِک اور منظرنگاہوں کے سامنے ہے وہ یہ کہ تمام تر مسائل اور  کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں، ہاں اِک گھٹن زدہ اور انتشار کے شکار معاشرے کے ادیب کو دھند کے اِس بار نئے افق تلاش کرنے ہیں۔

    کیا وہ ایسا کر پائے گا یہ سوال باقی رہے گا؟

  • امریکا کو ایک پیج پر ہونے کا پیغام دیا گیا: شاہ محمود کی صحافیوں سے گفتگو

    امریکا کو ایک پیج پر ہونے کا پیغام دیا گیا: شاہ محمود کی صحافیوں سے گفتگو

     امریکی سیکریٹری مائیکل رچرڈ پومپیو سے دارالحکومت میں ہونے والی اہم ترین ملاقات سے متعلق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس کے بعد انھوں نے صحافیوں کے ساتھ سوالات کے سیشن میں کہا کہ امریکا کو اس ملاقات کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ ’ہم سب ایک پیج پر ہیں۔‘

    ان کا کہنا تھا کہ امریکی وفد کے ساتھ ملاقات میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل خصوصی طور پر شریک ہوئے، اس مشترکہ نشست سے امریکا کو واضح پیغام گیا کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں۔ خیال رہے کہ اس ملاقات میں امریکی جنرل جوزف ڈنفورڈ بھی شریک تھے۔

    انھوں نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاک امریکا تعلقات میں تعطل ٹوٹ گیا ہے یہ اچھی پیش رفت ہے، تاہم چیلنجز کا سامنا اب بھی ہے، ہوسکتا ہے کئی معاملات پر ہماری سوچ مختلف ہو، دوسری طرف ہمارے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات بھی وابستہ ہیں۔

    [bs-quote quote=”پاک امریکا تعلقات میں تعطل ٹوٹ گیا ہے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ایک اور صحافی کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ امداد روکنے کا معاملہ زیرِ بحث نہیں لایا جائے گا، ہمارا رشتہ لین دین کا نہیں، خود دار قوموں کی سوچ مختلف ہوتی ہے، ہم اصولوں اور مستقبل کے سمت کی بات کرنا چاہتے تھے اس لحاظ سے یہ نشست مفید رہی، یہ تاثر دیا گیا تھا کہ نئی حکومت کے آنے سے قبل امریکا نے ایک قسط روکی، لیکن 300 ملین ڈالر روکنے کا فیصلہ نئی حکومت سے پہلے کا ہے۔

    ایک اور سوال پر وزیرِ خارجہ نے سارا زور خواہشات پر ڈالتے ہوئے کہا ’آج کی نشست میں سننے، سمجھنے اور آگے بڑھنے کی خواہش تھی، ہماری خواہش ہے کہ آج امریکا کے ساتھ تعلقات کو پُر امن انداز میں آگے بڑھائیں، سیکریٹری پومپیو سے کہا کہ الزام تراشیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، آج کی نشست میں کوئی منفی پہلو دکھائی نہیں دیا۔‘

    [bs-quote quote=”پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ امداد روکنے کا معاملہ زیرِ بحث نہیں لایا جائے گا” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    افغانستان کے ساتھ تعلقات کی نزاکت پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کے پاس افغانستان سے ڈائیلاگ کے لیے بنیادی ڈھانچا موجود ہے، مغربی سرحد پر چیلنج سے نمٹنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جا چکے، پاک فوج نے بھی بارڈر مینجمنٹ کے لیے اپنا کردار ادا کیا، امریکا سے کہا مغربی جانب (افغانستان) توجہ دینی ہے تو مشرقی جانب (بھارت) سے ہمیں سہولت درکار ہے۔


    امریکی وفد نے ڈو مور کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی


    انھوں نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس سے معصوم لوگ متاثر ہوتے ہیں، ہم ایل او سی کی صورتِ حال کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ہم دیکھیں گے کہ اس کی بہتری کے لیے کون کیا کر سکتا ہے، یہ واضح ہے کہ تالی دو ہاتھوں ہی سے بجتی ہے۔

    [bs-quote quote=”وزیرِ خارجہ شاہ محمود نے امریکا کے ساتھ اختلافات کے خاتمے کے تاثر کو مسترد کر دیا” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ایک سوال کے جواب میں وزیرِ خارجہ نے امریکا کے ساتھ اختلافات کے خاتمے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’میں نہیں کہہ سکتا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا کسی بھی معاملے پر اختلاف نہیں، امریکا سے بھی کہا تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے، ماحول ساز گار بنائیں۔‘

    ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے اس تاثر سے بھی انکار کیا کہ وہ اس ملاقات کے ذریعے کسی چیز کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ابھی مستقبل کا لائحۂ عمل بھی طے کرنا ہے جس کے لیے واشنگٹن میں اگلی نشت ہوگی، تاہم انھوں نے حیرت انگیز طور پر وزیرِ اعظم عمران خان اور امریکی وزیرِ خارجہ کی ٹیلی فونک گفتگو کو مثبت قرار دیا۔

  • مالم جبہ لیز، ہیلی کاپٹرکیس: وزیراعلیٰ پرویزخٹک نےنیب کو جواب جمع کرا دیا

    مالم جبہ لیز، ہیلی کاپٹرکیس: وزیراعلیٰ پرویزخٹک نےنیب کو جواب جمع کرا دیا

    پشاور : وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے دیے گئے سوال نامے پرتفصیلی جواب جمع کرادیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک نے پشاور میں نیب ہیڈکوارٹرمیں نیب کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات جمع کرا دیے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ سے مالم جبہ لیزاورعمران خان کے ہیلی کاپٹر استعمال سے متعلق سوال کیے گئے تھے۔

    ذرائع کے مطابق پرویز خٹک کی جانب سے جمع کرائے گئے تفصیلی جوابات کا نیب کی تحقیقاتی ٹیم جائزہ لے گی اور اگرجوابات تسلی بخش نہ ہوئے تو وزیراعلیٰ کے خلاف ریفرنس بنایا جائے گا۔

    خیال رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک گزشتہ ماہ 25 اپریل کو طلبی پر نیب دفتر میں پیش ہوئے تھے۔

    قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو دونوں الزامات کا جواب دینے کے لیے سوال نامہ دیا گیا تھا۔

    نئے پاکستان میں نواز شریف جیل میں ہوں گے: پرویز خٹک

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 28 اپریل کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کا کہنا تھا کہ نئے پاکستان میں نواز شریف جیل میں ہوں گے، وہ ہمیشہ بے ساکھیوں کے سہارے حکومت میں آئے.


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خالد لطیف کی اینٹی کرپشن ٹربیونل کےسامنے پیشی

    خالد لطیف کی اینٹی کرپشن ٹربیونل کےسامنے پیشی

    لاہور: پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ اسکیندل میں معطل کیےجانے والے کرکٹرخالد لطیف آج اینٹی کرپشن ٹربیونل کےسامنے پیش ہوئے جہاں انہیں ٹربیوبل کی جانب سے سوالنامہ دے دیاگیا۔

    تفصیلات کےمطابق پاکستان سپرلیگ ٹو کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں معطل کرکٹر خالد لطیف آج پی سی بی اینٹی کرپشن ٹربیونل کےسامنے ہوئے۔

    پی سی بی اینٹی کرپشن بورڈ کی جانب سے معطل کرکٹر کو سوالات کی فہرست فراہم کردی گئی اورانہیں ان سوالوں کاجواب جمع کرانےکے لیے 5مئی تک کی مہلت دی گئی۔


    خالد لطیف کا دعویٰ مسترد، پی سی بی نے دوبارہ نوٹس بھیج دیا


    خیال رہےکہ اس سے قبل معطل کرکٹر کی جانب سےپی سی بی کے نام ایک خط لکھا تھا اور اینٹی کرپشن ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے کی شرط رکھی تھی۔


    خالد لطیف اور ناصرجمشید کا تحقیقات پرعدم اعتماد کا اظہار


    خالد لطیف نےموقف اپنایا تھا کہ انہیں اینٹی کرپشن ٹریبونل پر اعتماد ہے اس کے ایک رکن کرنل ریٹائرڈ اعظم پر اعتماد نہیں۔

    واضح رہے کہ26 اپریل کو اینٹی کرپشن یونٹ کےسامنے پیش نہیں ہوئے تھے اور پی سی بی نےیونٹ کےسامنےپیش نہ ہونےپرمزیداپریل کوکارروائی کا نوٹس جاری کیا تھا۔

  • لندن فلیٹس : حسین نوازنے بی بی سی کے سوالات کا اب تک جواب نہ دیا

    لندن فلیٹس : حسین نوازنے بی بی سی کے سوالات کا اب تک جواب نہ دیا

    اسلام آباد: بی بی سی نے بھی لندن اپارٹمنٹس کے حوالے سے حسین نواز سے سوالات کردیئے، اپنی اسٹوری میں کہا ہے کہ دو ہفتے گزر گئے لیکن حسن نواز اورحسین نواز نے اس حوالے سے اب تک کوئی جواب داخل نہیں کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو نے شریف خاندان کے پارک لین فلیٹس کا معاملہ اٹھادیا، بی بی سی نے سوال کیا ہے کہ ریکارڈ میں نوے کی دہائی سے فلیٹس ان کی ملکیت ہیں، دوہزار چھ میں خریداری کا کیوں کہا؟

    مذکورہ سوالات کا حسین نواز نے اب تک جواب نہیں دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں، نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی فیملی کے زیر تصرف فلیٹس انیس سو نوے کی دہائی میں خریدے گئے تھے اور اس کے بعد سے اب تک ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

    بی بی سی اردو کو حاصل شدہ سرکاری دستاویزات کے مطابق انیس سو نوے کی دہائی سے یہ چار فلیٹس نیسکول اور نیلسن کے نام پر ہی ہیں اور ان دونوں کمپنیوں کی ملکیت کا اعتراف وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کر چکے ہیں۔

    bbc-post-01

    برطانیہ میں کاروباری کمپنیوں کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے کی دستاویزات کے مطابق حسن نواز نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ لیمٹڈ کمپنی سنہ 2001 میں کھولی تھی اور اس پر ان کا جو پتہ درج ہے وہ پارک لین کے فلیٹ کا ہی ہے۔

    اس حوالے سے بی بی سی نے وزیرِاعظم پاکستان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز سے تحریری طور پر رابطہ کیا تھا اور ان سے ان فلیٹس کی ملکیت اور خریداری کی تاریخ سے متعلق اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

    حسین نواز کو لکھے گئے خط میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہ فلیٹ سنہ 2006 میں خریدے گئے تھے لیکن برطانوی حکومت کے محکمہ لینڈ رجسٹری کے ریکارڈ کے مطابق ان فلیٹس کی ملکیت نوے کی دہائی سے تبدیل نہیں ہوئی ہے، اس حوالے ان کا کیا مؤقف ہے؟

    بی بی سی کی رپورٹ کا مکمل احوال جاننے کیلئے لنک پر کلک کریں 

    بی بی سی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات میں آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے بارے میں بھی سوال شامل تھا جس میں سب سے اہم بات ان کمپنیوں کی خریداری کی تاریخ کے حوالے سے تھی۔ لیکن دو ہفتے گزرنے کے باوجود تاحال وزیراعظم کے صاحبزادے کی جانب سے اب کسی سوال کا جواب نہیں دیا جا سکا۔