Tag: سوانح عمری

  • ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    مولانا حبیب الرّحمٰن کے بیٹے عزیز الرّحمٰن جامعی نہایت ہوشیار نوجوان تھے، انہیں شوق تھا کہ بڑے بڑے آدمیوں سے ملتے، والد کا ذکر کرتے اور کوئی نہ کوئی خبر اڑا لاتے، ان دنوں زعمائے احرار کی خبروں کا منبع عزیز الرّحمٰن ہی تھے۔ گاندھی، نہرو آزاد وغیرہ کے ہاں تو ان کا آنا جانا روز ہی کا تھا، ان سے ملاقات نہ ہوتی، ان کے سیکرٹریوں سے مل آتے، سیکرٹریوں سے نہ ملتے، تو ان کے سٹینو گرافروں سے مل آتے لیکن خبریں زور کی لاتے اور اکثر خبریں صحیح نکلتی تھیں۔

    ایک دن میں نے اور نواب زادہ نصر اللہ خاں نے ان سے کہا کہ گاندھی جی سے ملنے کی راہ نکالو، عزیز نے کہا کہ ’’ابھی چلو، گاندھی جی نے بھنگی کالونی میں کٹیا ڈال رکھی ہے، کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی۔‘‘ ہم تیار ہو گئے۔

    میں، نواب زادہ، انور صابری اورعزیز الرّحمٰن بھنگی کالونی پہنچے تو گاندھی جی وائسریگل لاج گئے ہوئے تھے۔ ان کی کٹیا ہری جنوں کی بستی کے بیچوں بیچ لیکن کھلے میدان میں تھی۔ کوئی تیس گز ادھر بانس بندھے ہوئے تھے اور یہ کھلا دروازہ تھا۔ یہاں سے قریب ہی ایک خیمہ تھا، جس میں رضاکاروں کا سالار رہتا، ادھر ادھر کچھ چارپائیاں پڑی تھیں۔ کرسیوں کا نشان تک نہ تھا، گاندھی جی کی بیٹھک کا تمام حصہ فرشی تھا، کچھ دیر تو ہم بعض دوسرے مشتاقین کے ساتھ بانس کے دروازے پر کھڑے رہے، پھر عزیز الرّحمن نے ہمت کی اور پیارے لال کو کہلوایا، اس نے بلوایا، پیارے لال گاندھی جی کا سکریٹری تھا، عزیز الرّحمٰن نے اس سے کہا کہ ’’ہم اس غرض سے آئے ہیں۔‘‘ وہ نیم راضی ہوگیا، کہنے لگا ’’آپ سامنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھیں، باپو ابھی آتے ہیں، ان کی مصروفیتیوں کا تو آپ کو اندازہ ہے، ممکن ہے کوئی اور وقت دیں۔‘‘

    ہم ٹھہر گئے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے ترکی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ میں ان دنوں کھدر پہنتا لیکن سر پر جناح کیپ رکھتا تھا۔ انور صابری نے قلندروں کا جھول پہن رکھا اور عزیز الرّحمٰن مولویوں کے چغہ میں تھا۔ کوئی چالیس منٹ ٹھہرے ہوں گے کہ گاندھی جی کی کار کی آمد کا غل ہوا۔ اتنے میں درجن ڈیڑھ درجن دیویاں بھی آگئیں، گاندھی جی کی کار سڑک سے اندر داخل ہوئی، دیویوں نے پاپوشی کرنی چاہی لیکن گاندھی جی تیر کی طرح نکل کر ہمارے پاس رک گئے۔ ہم نے ہاتھ اٹھا کر آداب کیا، مسکرائے۔

    ’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

    ’’پنجاب سے۔‘‘

    ’’آپ نے بہت تکلیف کی؟‘‘۔

    ’’جی نہیں، ہم آپ کے درشن کرنے آئے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے کہا: ’’مہاتما جی! میں مولانا حبیب الرّحمٰن لدھیانوی کا بیٹا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا! وہ مولوی صاحب جو مجھ سے بہت لڑتے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے ہم تینوں کا تعارف کرایا، گاندھی جی مسکراتے رہے۔ ملاقات کا وقت مانگا، گاندھی جی نے ہامی بھر لی، کہا: ’’آپ لوگ پرسوں شام پانچ بجے آدھ گھنٹے کے لیے آجائیں۔‘‘

    عزیز نے کہا:’’آپ کے سیکریٹری ٹرخا دیتے ہیں، ذرا ان سے بھی کہہ دیں۔‘‘

    گاندھی جی نے کہا:’’کوئی بات نہیں، یہ کھڑے ہیں، ان سے میں نے کہہ دیا ہے۔‘‘ مزید کہا: ’’کل بھی میں آپ کو بلا سکتا ہوں لیکن کل میرا مون برت ہے۔ آپ باتیں کریں، تو میں سلیٹ پر لکھ کر جواب دوں گا، کچھ کہنا سننا ہے، تو پرسوں کا وقت ٹھیک رہے گا۔‘‘

    ہم نے صاد کیا ، گاندھی جی نے ہاتھ باندھ کر پرنام کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کٹیا میں داخل ہوگئے۔ دوسرے لوگ ہمیں حیرت سے تکتے رہے۔

    (1946 میں شورش کاشمیری نے دہلی میں قیام کے دوران کئی قومی لیڈروں اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں جن کا ذکر اپنی کتاب بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل میں کیا ہے، یہ پارہ اسی کتاب سے لیا گیا ہے)

  • جب کراچی کی دیواریں کسی ”ظِلُّ اللہ“ کو پکارتی نظر آئیں!

    پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسکندر مرزا کے دور میں ایک سنسنی خیز اور ڈرامائی باب اُس وقت رقم ہوا تھا، جب اپنے سیاسی مستقبل کی خاطر ان کا بنایا گیا منصوبہ ناکام ہوگیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اسکندر مرزا متحدہ مملکت میں مختلف اعلیٰ عہدوں اور منصب پر فائز رہے اور 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے۔ انھوں نے سیاسی بحران کی آڑ لے ملک کو پہلے مارشل لا کی طرف دھکیلا اور 1958ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے جلا وطن کردیا۔ اسکندر مرزا کبھی وطن واپس نہ آسکے اور لندن میں عمر تمام کی۔

    کہتے ہیں اپنے دور میں اسکندر مرزا خود کو اس قدر مضبوط کر چکے تھے کہ سیاست داں، نواب اور عمائدین سمیت بڑے لوگ ان کی نظرِ کرم کے خواہاں‌ رہتے، لیکن پھر حالات بدلے اور وہ اپنے ہی جال میں پھنس گئے۔

    یہاں‌ ہم مولوی محمد سعید کی خود نوشت آہنگِ بازگشت سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جس سے اسکندر مرزا کے ہوسِ اقتدار اور اس وقت کے سیاسی حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "مشرقی بازو کے سیاست دان یہ چاہنے لگے تھے کہ مغرب کو ایک وحدت میں سمونے کے بہ جائے کیوں نہ پورا ملک وحدانی طرزِ حکومت کے تحت کر دیا جائے۔”

    "الطاف نے ”تصورِ عظیم“ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔ جو طائفہ اب تک وفاقی طرز کا داعی تھا، وہ مغرب کو وحدت میں ڈھلتے دیکھ کے اس سے بدکنے لگا حتیٰ کہ ون یونٹ کے مؤیَّد جناب حسین سہروردی بھی اس کے مخالف ہو گئے۔ چوہدری محمد علی بہرکیف ایک دستور بنانے میں کام یاب ہوگئے۔”

    "چوہدری صاحب کا یہ کارنامہ واقعی قابلِ داد تھا کہ جس جنس کی تلاش میں قوم 10 برس سے نکلی ہوئی تھی، وہ ان کے عہد میں دست یاب ہوگئی، لیکن قوم کے سر سے شامتِ اعمال ابھی ٹلی نہیں تھی۔ اس کاروانِ بے موسیٰ کو ابھی کچھ اور ویرانوں میں بھٹکنا تھا۔ 1956ء کا دستور ایک کشتی میں سجا کے اسکندر مرزا کے محل تک لے جایا گیا۔ انھوں نے دستخط تو اس پر کر دیے اور اس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت کا تاج اپنے فرقِ فرخ جمال پر سجا بھی لیا، لیکن ان کی نیت کچھ اور تھی۔ اعمال اگر نیتوں ہی کی ایک جھلک ہوتے ہیں، تو کراچی کے در و بام سے وہ نیتیں عیاں تھیں۔ رات کے سناٹوں میں اس شہر کی دیواریں پکار اٹھیں کہ اسکندر مرزا کو بادشاہ بنایا جائے۔”

    "یہ اشتہار اس کثرت سے دیواروں کی زینت بنے کہ فلمی ستاروں، مہ پاروں، شمشیر زنوں اور تاج داروں سے جو جگہ بچ گئی، وہ اسکندر مرزا کے نقیبوں نے اپنے شاہ کی آمد کے اعلان کے لیے وقف کر لی۔ صبح تک جگہ جگہ پوسٹر چسپاں ہوگئے اور یوں دکھائی دینے لگا کہ جیسے کراچی کی ہر دیوار کسی ”ظِلُّ اللہ“ کی منتظر ہے۔”

  • ہماری ایک شرط ہے!

    ہماری ایک شرط ہے!

    خود نوشت اپنی حیات کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کا آئینہ بھی ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تو مصنّف اشفاق محمد خاں کی خود نوشت ’’اپنی بیتی‘‘ سے غلام ہندوستان کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

    اگر کسی کو انگریزوں کے عہد میں ریکروٹمنٹ کے طریقۂ کار کو جاننے کی خواہش ہو تو اس کتاب میں اس ضمن کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے، جس سے اس کے طریقۂ کار کو جانا جا سکتا ہے۔ اپنے بابا جان علی محمد خاں کے پولیس میں جانے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ابا جان ابھی 16 ہی برس کے تھے لیکن چونکہ وہ کھاتے پیتے ایک چھوٹے زمین دار گھرانے کے فرد تھے اس لیے ڈیل ڈول کے اعتبار سے 25 کے دکھتے تھے۔ ایک دن ایک انگریز پولیس افسر نے ان کو دیکھ کر پولیس کی نوکری کی پیشکش کر ڈالی۔ بابا جان نے کہا کہ جب تک میں اپنے والدین سے پوچھ نہ لوں اس وقت تک ہاں نہیں کہہ سکتا۔ جب والدین سے انہوں نے پوچھا تو جواب ملا:

    تم ضرور نوکری قبول کر لو مگر ہماری ایک شرط ہے کہ تم کبھی بھی کسی سے رشوت یا کمیشن نہیں لو گے اور نہ ہی کسی کا دل دکھاؤ گے اور ہمیشہ نماز کے پابند رہو گے۔

    علی محمد خاں نے ان شرائط کو بخوشی قبول کیا اور اس پر کار بند رہنے کے عہد کے ساتھ پولیس میں نوکری کے لیے انگریز افسر کو ہاں کہہ دی۔ ٹریننگ کے بعد بہت جلد قیصر باغ کوتوالی کے سب انسپکٹر بنا دیے گئے لیکن ہمیشہ اپنے عہد پر کار بند رہے۔ جب ان کو احساس ہوا کہ رشوت یا کمیشن کے بغیر بہت دنوں تک پولیس کی نوکری نہیں کی جا سکتی تو انہوں نے نوکری کو خیرآباد کہا اور 1932ء میں وظیفہ لے کر اپنے وطن قائم گنج واپس ہوگئے۔

    اس واقعے میں جہاں پولیس کے ریکروٹمنٹ کے نظام پر روشنی پڑتی ہے وہیں اس زمانے میں چل رہی رشوت اور کمیشن کے بول بالے کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا بھی علم ہوتا ہے کہ انھیں کراہیت و خدشے کی وجہ سے مسلمان اپنے بچوں کو پولیس کی نوکری سے دور رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے جیسا کہ آج بھی ہوتا ہے۔

    (محقق شاہد حبیب کے مضمون سے اقتباس)

  • کٹک کی آسیب زدہ کوٹھی اور بملا کماری کی چِتا

    کٹک کی آسیب زدہ کوٹھی اور بملا کماری کی چِتا

    قدرت اللہ شہاب پاکستان کے نام وَر ادیب اور مشہور بیورو کریٹ تھے۔ ’’شہاب نامہ‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے جو بہت مقبول ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ادب کے میدان میں اور بیوروکریسی میں رہتے ہوئے اپنی خدمات اور کاموں‌ کے وہ نقوش چھوڑے جو دوسروں کے لیے چراغِ راہ ثابت ہوئے۔

    قدرت اللہ شہاب کو پاکستان بننے سے قبل کٹک (انڈیا) میں جو سرکاری رہائش گاہ ملی وہ کوٹھی آسیب زدہ مشہور تھی۔ اس کا ایڈریس 81 سول لائنز تھا۔ اس رہائش گاہ میں پیش آنے والے بعض دہشت انگیز اور سنسنی خیز واقعات کا بھی قدرت اللہ شہاب نے اپنی اس کتاب میں تذکرہ کیا ہے جو ہر نہایت دل چسپ بھی ہے۔ یہاں ہم بملا کماری کا آسیب نامی واقعے کی تفصیل قارئین کی توجہ کے لیے پیش کررہے ہیں۔

    قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت کے اس پراسرار اور آسیبی واقعات کے باب میں بتایا ہے کہ ہلکے زرد رنگ کی خوش نما کوٹھی کے اطراف ڈیڑھ دو ایکڑ پر وسیع لان پھیلا ہوا تھا، جس میں گھٹنوں گھٹنوں تک گھاس اگی تھی، ہر طرف سوکھے کالے اور پیلے پتوں کے انبار، ایک طرف آم اور جامن کے کچھ درخت جن کے نیچے کتّے اور بلیاں روتے رہتے تھے۔ دوسری طرف برگد کا ایک گھنا پیڑ تھا جس سے سیکڑوں چمگادڑیں الٹی لٹکی رہتی تھیں۔

    کوٹھی کے عقب میں ایک کچا تالاب تھا جس پر سرسبز کائی کی دبیز تہ جمی ہوئی تھی۔ کوٹھی سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر باورچی خانہ اور سرونٹ کوارٹرز تھے جہاں میرا خانساماں اور ڈرائیور رہائش پذیر تھے۔

    یہ ایک طویل باب ہے جس میں کئی محیّرالعقل اور خوف زدہ کردینے والے واقعات لکھے ہوئے ہیں کہ شہاب صاحب کے بیڈ روم کی روشنی خود بخود جلتی بجھتی رہتی اور سوئچ کے اوپر نیچے ہونے کی آواز آتی۔ عطر حنا اور انگریزی پرفیوم کی خوشبو پھیل جاتی۔ ایک لڑکی کا ہیولا بھی نظر آتا۔ اس کے بعد اچانک غیظ وغضب کا طوفان آجاتا۔ پتھروں کی بارش ہونے لگتی۔ کمرے کا فرنیچر فضا میں معلق ہو جاتا۔ شہاب صاحب صبح سویرے یہ پتھر ٹوکروں کے حساب سے اٹھا کر تالاب میں ڈال آتے تاکہ خانساماں اور ڈرائیور یہ سب دیکھ کر خوف زدہ نہ ہوں۔

    اس عمارت میں رہائش کے دوران مصنّف کو مختلف واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعات تواتر سے رات دس ساڑھے دس بجے شروع ہوتے اور صبح تین بجے تک جاری رہتے۔ اس کے بعد مکمل امن ہوجاتا تھا۔ ایک رات پتھروں کے بجائے انسانی ہڈیوں کی برسات شروع ہوگئی جن میں چند انسانی کھوپڑیاں بھی شامل تھیں۔ یہ منظر ایسا کریہہ اور گھناؤنا تھا کہ شہاب صاحب نے صبح کا انتظار کیے بغیر ان ہڈیوں کو ایک چادر میں لپیٹا اور تالاب میں ڈالنے کی غرض سے پچھلے حصّے کی طرف نکلے تو تالاب سے سبز کائی میں لپٹا ایک ہیولا ان کی جانب بڑھا۔ یہ جناب ہڈیوں کو وہیں پھینک کر گرتے پڑتے اپنے کمرے کی طرف بھاگے۔ یہ شہاب نامہ کے کئی صفحات پر پھیلے ہوئے واقعات ہیں جن کے پیش آنے کا سبب قدرت اللہ شہاب نے یوں بیان کیا ہے:

    "کئی ماہ کی لگاتار ہیبت، وحشت اور آسیب کی تہ میں انجامِ کار یہ راز کھلا کہ اٹھارہ بیس برس پہلے اس گھر میں آئی سی ایس کا ایک اوباش افسر رہا کرتا تھا۔شادی کا جھانسہ دے کر اس نے الٰہ آباد میں کالج کی ایک طالبہ بملا کماری کو ورغلایا اور خفیہ طور پر اسے اپنے ساتھ کٹک لے آیا۔ شادی اس نے کرنی تھی نہ کی۔ سات آٹھ ماہ بعد جب بملا ماں بننے کے قریب ہوئی تو ظالم نے اس کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور لاش کو ڈرائنگ روم کے جنوب مشرقی کونے میں دفن کر دیا۔”

    "اس وقت سے بملا کی نخیف و نزارماں الٰہ آباد میں بیٹھی بڑی شدّت سے اپنی بیٹی کا انتظار کر رہی تھی۔ اُسی وقت سے بملا کماری بھی اسی کوشش میں سرگرداں تھی کہ کسی طرح وہ اپنی ماں تک صحیح صورت حال کی خبر پہنچا دے تاکہ انتظار کے اس کرب ناک عذاب سے اسے نجات حاصل ہو۔ اس کے علاوہ اس کی اپنی خواہش بھی تھی کہ اس کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھود کر باہر نکالا جائے اور اس کے دھرم کے مطابق اس کا کِریا کرم کیا جائے۔ اس عرصہ میں قاتل خود بھی مر چکا تھا اور اب بملا کی طرف سے پیغام رسانی کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم عمل تھا۔”

    "جس روز بملا کی ماں کو اصل صورتِ حال کی خبر ملی اور بملا کی بوسیدہ لاش کو چِتا میں رکھ کر جلا دیا گیا اسی روز 81 سول لائنز کے در و دیوار، سقف و فرش سے آسیب کا سایہ اس طرح اٹھ گیا جیسے آسمان پر چھائے ہوئے بادل یکایک چھٹ جاتے ہیں۔ اس رات نہ مینڈکوں کا ٹرّانا بند ہوا نہ جھینگروں کی آواز خاموش ہوئی، نہ پیپل کے درخت سے لٹکی ہوئی چمگادڑوں کا شور کم ہوا۔”

    "صبح تین بجے کے قریب اچانک فضا میں لا الٰہ الا اللہ کی بے حد خوش الحان صدا بلند ہوئی، ایسے محسوس ہوتا تھا کہ یہ آواز مشرق کے افق سے اُبھرتی ہے، 81 سول لائنز کے اوپر قوس بناتی ہوئی گزرتی ہے اور مغرب کے افق کو جا کر چھوتی ہے۔ تین بار ایسے ہی ہوا اور اس کے بعد اس مکان پر امن اور سکون کا طبعی دور دورہ از سرِ نو بحال ہو گیا۔ اس عجیب وغریب واقعہ نے ایک طرف تو خوف و ہیبت کے تھپیڑوں سے میرا اچھا خاصا کچومر نکال دیا اور دوسری طرف اس کی بدولت مجھے حقیقتِ روح کا قلیل سا ادراک حاصل ہوا۔”

  • ایک ہزار روپیہ

    ایک ہزار روپیہ

    ’’حضرت احسان دانش کون تھے؟ کیا تھے؟ نئی نسل کو یہ بتانے، جتانے کے لیے ’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو‘ کہنا پڑ رہا ہے۔ احسان دانش شاعر تھے، ادیب تھے، محقق تھے، نقاد تھے، لُغت نویس تھے، ماہرِ لسانیات تھے، صاحبِ فن تھے۔ وہ استادوں کے استاد تھے۔

    یہ سطور ناصر زیدی کے سوانحی کالم سے لی گئی ہیں، وہ مزید لکھتے ہیں، ’’احسان دانشؔ ادب کی دنیا میں، اس مقام بلند پر پہنچے جس کی ہر شاعر حسرت، تمنّا ، خواہش ہی کرسکتا ہے۔‘‘

    احسان دانش برصغیر پاک و ہند کے مایۂ ناز، کہنہ مشق، پُر گو، صاحبِ فن شاعر تھے، اس عظیم مرتبے اور آفاقی شہرت کے حامل شاعر کو بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے لیے انہوں نے بڑی جدوجہد کی، بڑے پاپڑ بیلے، اس مقامِ عظمت تک پہنچنے کی مختصر روداد انہوں نے یوں بیان کی:

    ’’میں تو صرف محبت کا بندہ ہوں اور خلوص کو انسانیت کا زیور گردانتا ہوں، یہی میری کام یابی کا راز ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میں کام یاب ہوں بھی یا نہیں یہ فیصلہ بہرحال قارئین کے کرنے کا ہے۔ بحمدِاللہ نہ تو مَیں کہیں ملازم ہوں نہ مجھے کوئی سرکاری وظیفہ ملتا ہے۔ نہ کوئی خطاب، نہ سند اور نہ کوئی ایسی جائیداد جو میرے کنبے کی کفالت کر سکے، لیکن وہ ذاتِ پاک جو ہر شے کو اس کی مختلف حالتوں میں ضرورتوں کے مطابق نشوونما دے کر اسے اپنے حدِ کمال تک پہنچاتی ہے، وہی میری نگہبان ہے۔ میرا قلم میری کفالت کررہا ہے۔ ہر چند کہ مَیں افلاس کے اونچے نیچے ٹیلوں میں بھٹک رہا ہوں لیکن مایوسی کا سایہ تک مجھ پر نہیں پڑتا شاید اس لیے کہ میں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنی صداقت کو داغ دار نہیں کیا اور میری پوری زندگی قرض کی ندامت سے پاک ہے۔ حافظے میں فاقوں کے بے شمار نشان دھندلی دھندلی صورت میں موجود ہیں جو مجھ سے شکر گزاری کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘

    احسان دانش کی اسی بے لوث محبّت، ان کے اخلاص اور درد مندی کو اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے بھی رقم کیا ہے جو ناصر زیدی کی پیشِ نظر تحریر کو تقویت بخشتا ہے۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں:

    ’’یہ 1949ء کا ذکر ہے جب میرے ایک عم زاد محمد حیات، دق کے مرض میں مبتلا ہو کر لاہور تشریف لائے۔ نہایت پیارے اور خوب صورت انسان تھے۔ میں نے جی بھر کر ان کی خدمت کی مگر آخر وہ جاں بَر نہ ہو سکے اور میری ہی قیام گاہ (نسبت روڈ) پر ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘

    ’’میں جب ان کی میّت کو اپنے گاؤں انگہ (ضلع خوشاب) میں دفنا کر لاہور واپس آیا تو ایک ڈاکٹر نے میری چھاتی کی اسکریننگ کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پھیپھڑوں پر ایک دو داغ سے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ شاید دِق کے ایک مریض کے ساتھ شب و روز گزارنے کا نتیجہ ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ تم فوراً مری یا ایبٹ آباد یا کوئٹہ چلے جاؤ، وہاں دو تین ماہ کے قیام کے بعد یہ داغ مٹ جائیں گے۔ بہ صورتِ دیگر یہ داغ دِق میں بھی بدل سکتے ہیں۔‘‘

    ’’میں اُن دنوں بالکل بیکار تھا۔ اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ مکتبۂ اُردو کے مالک کے حوالے کر رکھا تھا اور اس کی طرف سے معاوضے کا منتظر تھا ورنہ میرے لیے کسی صحت افزا مقام کا رُخ کرنا مشکل تھا۔‘‘

    ’’نجانے میری اس دشواری کی اطلاع احسان صاحب تک کیسے پہنچی۔ ایک صبح کو میرے گھر کی گھنٹی بجی۔ کھڑکی میں سے جھانکا تو گلی میں حضرت احسان دانش کھڑے نظر آئے۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا اور احسان صاحب سے اندر آنے کو کہا مگر انہوں نے فرمایا، ’نہیں ندیم! یہیں گلی میں میری بات سن لو۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر نے تمہیں مری یا کوئٹہ جانے کا مشورہ دیا ہے مگر تمہاری جیب خالی ہے۔ میرے پاس اس وقت ایک ہزار روپیہ ہے۔ یہ لو اور فوراً کسی صحّت افزا مقام پر چلے جاؤ اور یاد رکھو، تمہارا وجود نہایت قیمتی ہے۔‘…..“

    ’’میں احسان صاحب کی اس پیش کش پر حیران رہ گیا۔ میں ان کا عقیدت مند ضرور تھا مگر ہمارے درمیان ابھی محبت کا وہ رشتہ قائم نہیں ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک غریب شاعر اس والہیت سے دوسرے غریب شاعر کی مدد کو پہنچتا۔ میں نے احسان صاحب کو بتایا کہ مکتبۂ اردو میرے افسانوں کا مجموعہ شائع کر رہا ہے اور آج کل میں مجھے اس مجموعے کا معاوضہ ملنے والا ہے۔ اگر نہ ملا تو میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے یہ ایک ہزار روپیہ وصول کر لوں گا۔ تب احسان صاحب نے فرمایا، ”دیکھو ندیم! اگر تمہیں اپنی کتاب کا معاوضہ ملتا ہے تو ٹھیک ہے۔ میں پرسوں تک انتظار کروں گا۔ اس کے بعد تمہیں یہ رقم لینا ہی ہو گی۔“ میں نے احسان صاحب کی تائید کی۔‘‘

    ’’دوسرے روز مجھے معاوضہ مل گیا تو میں احسان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہیں معاوضے کی رقم دکھائی تو ان کی تسلّی ہوئی اور مجھے سینے سے لگا کر اور میرے ماتھے کو چوم کر مجھے رخصت کیا۔ میں اس محبت کے نشے میں چُور یہ سوچتا ہوا واپس آیا کہ احسان نے بے لوث پیار کی کتنی بلیغ مثال قائم کر دی ہے!‘‘

  • وزیرِ اطلاعات اور ڈائریکٹر

    وزیرِ اطلاعات اور ڈائریکٹر

    نصف صدی تک پاکستان ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ رہنے والے آغا ناصر کی آپ بیتی ”آغا سے آغا ناصر“ میں پاکستان کی چند اہم شخصیات کا تذکرہ اور مختلف واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    یہاں ہم اسی کتاب سے ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ایک ساتھی ڈائریکٹر کو خود نمائی کا کافی شوق تھا۔ وزیرِ اطلاعات کا دورہ ہوا تو وہ اپنا نام لے کر بار بار وزیر صاحب کے ذہن میں اپنا نام رجسٹر کروانا چاہ رہے تھے۔”

    "کہنے لگے سر، آپ کو کوئی کام ہو تو پی اے سے صرف اتنا کہ دیں کہ زبیر علی سے ملا دو۔ اور میں نے پی اے کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ زبیر علی نہ ملیں تو ان کے اسسٹنٹ سے بات کر لیں کہ زبیر علی نے کہا تھا زبیر علی کی غیر موجودگی میں آپ کو بتا دیا جائے کہ زبیر علی اس وقت موجود نہیں ہیں اور آپ وزیر صاحب کو بتا دیں کہ زبیر علی کسی میٹنگ میں گئے ہوئے ہیں اور جیسے ہی زبیر علی واپس آئیں گے آپ کو اطلا ع کر دی جائے گی۔”

    "وزیر صاحب ساری بات سمجھ گئے اور جب جاتے ہوئے زبیر علی صاحب سامنے آئے تو مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا اور کہا، اچھا صدیقی صاحب پھر ملیں گے۔”

  • حجاب امتیاز علی، گوشت پوست سے عاری ڈھانچے اور انسانی ہڈیاں!

    حجاب امتیاز علی نے تاریخ، نفسیات، سائنس، علمِ نجوم اور مذاہبِ عالم کا مطالعہ جم کر کیا تھا، اِس لیے وہ کردار نگاری کی سطح پر دادی زبیدہ، جسوتی، سر جعفر، ڈاکٹر گار، زوناش اور چچا لوث جیسے بڑے رومانی کردار خلق کر پائیں۔

    یہ سب کردار حجاب کے تخلیق کردہ فنٹاسٹک ماحول میں جیتے ہیں۔ یہ حجاب کی خیالی ریاستوں شموگیہ اور کیباس کے باشندے ہیں جو اکثر چہل قدمی کرتے ہوئے حجاب کے خلق کردہ خیالی جنگل ناشپاس تک چلے جاتے ہیں۔

    حجاب امتیاز علی اپنی افتادِ طبع کی تشکیل سے متعلق خود بتاتی ہیں، ’’میری ادبی زندگی کا گہرا تعلق میرے بچپن کی تین چیزوں سے ہے۔ فضا، ماحول اور حالات۔ میرے بچپن کا ابتدائی زمانہ جنوب میں دریائے گوداوری کے ہوش رُبا کناروں پر گزرا۔

    ہوتا یہ تھا کہ کالی اندھیری راتوں میں گوداوری کے سنسان کناروں پر ہندوﺅں کی لاشیں جلائی جاتی تھیں۔ جلانے کے دوران ہڈیاں اور سَر اس قدر ڈراﺅنے شور کے ساتھ چیختے تھے کہ انہیں سن کر ہوش اڑ جاتے تھے۔ اس سرزمین پر گوشت پوست سے عاری انسانی ڈھانچے اور ہڈیاں جگہ جگہ پڑی رہتی تھیں اور چیخ چیخ کر انسان کے فانی ہونے کا یقین دلایا کرتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جب ان ساحلوں پر رات پڑتی تو ہڈیوں کا فاسفورس اندھیرے میں جل اٹھتا تھا اور میلوں فاصلے سے غولِ بیابانی کی طرح ان ویرانوں میں روشنیاں رقصاں نظر آتی تھیں۔ یہ دہشت خیز منظر ہیبت ناک کہانیوں کے لکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ غرض ان کا حسن اور رات کی خوف ناکی، یہ تھی فضا۔ ایسی فضا میں جو شخص بھی پلے اور بڑھے اس میں تھوڑی بہت ادبیت، شعریت اور وحشت نہ پیدا ہو تو اور کیا ہو۔

    تیسری بات حالات کی تھی۔ جنھوں نے مجھے کتاب و قلم کی قبر میں مدفون کر دیا۔ مدفون کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ اگر میں نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ادبی مشاغل میں دفن نہ کردیا ہوتا تو میں کبھی کی ختم ہوگئی ہوتی۔ وہ زمانہ مرے لیے بے حد حزن و ملال کا تھا۔ مری والدہ ابھی جواں سال ہی تھیں کہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ان کی موت مرے خرمن پر بجلی بن کر گری۔ اس زمانے میں میرا ذہنی توازن درست نہ تھا۔ لڑکپن تھا، اس پر شدید ذہنی دھچکا ماں کی موت کا تھا۔ ان دونوں نے مل کر مجھے اعصابی بنا دیا تھا۔‘‘

    (ممتاز ادیب حجاب امتیاز علی کی کتاب’’میری ادبی زندگی‘‘ سے اقتباس)

  • سوانح عمری اور آپ بیتی لکھنے کا فن

    سوانح عمری اور آپ بیتی لکھنے کا فن

    اردو ادب میں سوانح عمری لکھنے کی روایت پرانی ہے۔ حالی کی یادگارِ غالب، حیاتِ جاوید، شبلی نعمانی کی سیرۃُ النّبی، الفاروق، المامون، النّعمان ،الغزالی، سوانح مولانا روم، مولانا سیّد سلیمان ندوی کی حیاتِ شبلی ، سیرتِ عائشہ سوانحی حالات و کوائف سے بھری ہوئی مکمل سیرتیں ہیں۔

    ناقدوں کی رائے ہے کہ خود نوشت سوانح حیات انسانی زندگی کی وہ روداد ہے، جسے وہ خود رقم کرتا ہے اور اس میں سوانح حیات کی کسی دوسری شکل سے زیادہ سچائی ہونا چاہیے، اگر کوئی کسر رہ جائے یا مبالغہ در آئے تو وہ اچھی خود نوشت قرار نہیں پاتی۔

    خود نوشت سوانح کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ صرف ناموں کی کتھونی نہ ہو، اس میں تاریخ، سماج اور ادب کی آمیزش بھی نظر آئے، حقیقت دل کش پیرایہ میں بیان ہو، فنِ اظہار ذات کا دوسرا نام ہے، خود نوشت کا تعلق انسان کے گہرے داخلی جذبات سے ہے۔

    لہٰذا اسے فن کی اعلیٰ قدروں کا حامل ہونا چاہیے، اسی لیے خود نوشت لکھنا سوانح لکھنے سے زیادہ مشکل فن مانا جاتا ہے۔ ایک معیاری خود نوشت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف کسی فرد کے بارے میں بیان نہ کرے، اس کے ماحول، عہد، اس دور کے رجحانات و میلانات اور معاشرتی، معاشی، ادبی اور تہذیبی پہلوؤں کو بھی سامنے لائے تاکہ اس عہد کا پورا منظر نامہ سامنے آ جائے جس میں شخص مذکور نے اپنی زندگی گزاری اور اس کی شخصیت تشکیل پائی، اس کے برعکس خود پر توجہ مرکوز کرنے سے بات نہیں بنتی، خود نوشت نگاری کا یہ بڑا نازک مقام ہوتا ہے کہ کوئی فرد اپنی شخصیت کو خود سے جدا کر کے معروضیت سے کام لے اور بے لاگ پیرایہ میں اپنی زندگی کی داستان بیان کر دے۔

    یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں خود نوشت یا آپ بیتیاں کم سپردِ قلم کی گئیں اور جو لکھی گئیں ان میں سے بیشتر مذکورہ شرائط پر پوری نہیں اترتیں۔ اردو سے پہلے فارسی میں آپ بیتی کی روایت موجود تھی۔ بادشاہوں کے حالاتِ زندگی اور صوفیائے کرام کے ملفوظات میں آپ بیتی کے ابتدائی نقوش مل جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ شیخ حزیں، میر تقی میر نے بھی فارسی میں آپ بیتی لکھی ہے۔ لیکن اردو میں آپ بیتی کے فن کو 1857ء کے خونی انقلاب کے بعد فروغ ملا۔ جب اس معرکہ کے مجاہدوں اور سپاہیوں نے اپنی یادداشتیں لکھیں، ان کے علاوہ جعفر تھانیسری کی آپ بیتی ‘تواریخِ عجیب’ (کالا پانی)، نواب صدیق حسن خاں کی ‘البقاء لمن بالقا المحن’، ظہیر دہلوی کی ‘داستانِ غدر’ اور عبدالغفور نساخ کی ‘حیات نساخ’ سپردِ قلم کی گئیں۔ جن میں ‘حیات نساخ ‘ کو اردو ادب کی پہلی آپ بیتی تسلیم کیا جاتا ہے۔

    آزادی کے بعد حسرت موہانی کی ‘قیدِ فرنگ’ مولانا ابوالکلام آزاد کی ‘تذکرہ’ دیوان سنگھ مفتون کی ‘ناقابلِ فراموش’ معیاری خود نوشتوں میں شمار کرنے کے لائق ہیں۔

    ‘کاروانِ زندگی’ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی خود نوشت کئی جلدوں پر محیط اور اپنے پورے عہد کی معلومات فراہم کرتی ہے۔ ‘کاروانِ حیات’ قاضی اطہر مبارکپوری کی خود نوشت مختصر اور کتابی شکل میں غیر مطبوعہ ہے جو ماہنامہ ‘ضیاء الاسلام’ میں شائع ہوئی ہے۔ خواجہ حسن کی نظامی کی ‘آپ بیتی’، چودھری فضلِ حق کی ‘میرا افسانہ، بیگم انیس قدوائی کی ‘نیرنگیٔ بخت’، مولانا حسین احمد مدنی کی ‘نقشِ حیات’، رضا علی کی ‘اعمال نامہ’، کلیم الدین احمد کی ‘اپنی تلاش میں’، یوسف حسین خاں کی ‘یادوں کی دنیا’ بھی قابلِ ذکر خود نوشتیں ہیں۔

    رشید احمد صدیقی کے باغ و بہار قلم نے ‘آشفتہ بیانی میری’ میں بچپن کے حالات، ابتدائی تعلیم، خاندان کی معلومات تو کم لکھیں، اپنے وطن جونپور کی تاریخ و تہذیب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کا نصف سے زیادہ حصہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے زمانۂ تعلیم کی سرگرمیوں پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین، اقبال سہیل، ثاقب صدیقی جیسی شخصیات سے ان کے رشتہ پر روشنی پڑتی ہے۔

    ان کے علاوہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی ‘یادوں کا جشن’ میں ان کے خاندانی احوال، فارغ البالی، رئیسانہ مشاغل کا تفصیلی بیان ہے۔ وزیر آغاز کی ‘شام کی منڈیر سے’ ان کی نجی زندگی کے ساتھ پورے عہد کے اہم واقعات پر محیط ہے۔ رفعت سروش کی ‘ممبئی کی بزم آرائیاں’ میں ان کی زندگی، نوکری اور ترقی پسند تحریک کے حوالے کافی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ اخترُ الایمان کی ‘اس آباد خرابے میں’ زندگی کے واقعات و مسائل کے بیان میں جس صداقت سے کام لیا گیا ہے وہ کم خود نوشتوں میں ملتا ہے۔

    (عارف عزیز کے مضمون سے چند پارے، مصنّف کا تعلق بھارت کے شہر بھوپال سے ہے)

  • فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ ان خوش نصیب قلم کاروں میں سے ایک ہیں جن کی اوّلین تصنیف ہی ’بیسٹ سیلر‘ قرار پائی اور انھیں‌ پلٹزر پرائز کا حق دار ٹھہرایا۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا فرینک میکورٹ 2009ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    فرینک میکورٹ کی کتاب کا نام تھا ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) جو دراصل ان کے بچپن کی یادداشتوں پر مشتمل تھی۔

    فرینک میکورٹ 19 اگست 1930ء کو امریکا کی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور میں‌ امریکا شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا جس کے باعث بالخصوص عام لوگوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ تب اس خاندان نے امریکا سے ہجرت کی اور آئرلینڈ جا بسا۔ فرینک میکورٹ نے انہی دنوں کو اپنی کتاب میں‌ پیش کیا تھا۔

    فرینک کا خاندان آئر لینڈ کے شہر کی ایک چھوٹی سی بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا جہاں انتہائی غربت اور مشکل حالات سے لڑتے ہوئے ان کے والدین نے زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد شروع کی۔ مصنّف نے کئی برس بعد ان دنوں کو اپنے حافظے سے نکال کر لفظی منظر کشی کی اور اسے کتابی شکل میں‌ شایع کروایا جو دنیا بھر میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ امریکا منتقل ہوگئے، کتاب کی اشاعت سے پہلے فرینک میکورٹ 30 سال تک نیویارک کے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    آئرلینڈ میں ان کے بچپن کی یادوں پر مبنی کتاب انجلاز ایشز کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور 1996ء میں انھیں پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    اس کتاب پر 1999ء میں ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی تھی۔ فرینک میکورٹ کی اس کتاب کو آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔

    بعد میں‌ مصنّف نے ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے نیویارک میں گزرے ہوئے ایّام کو محفوظ کیا تھا۔

    وفات کے وقت اس آئرش نژاد امریکی مصنّف کی عمر 78 سال تھی۔