Tag: سوشل میڈیا انفلوئنسرز

  • نیو میڈیا کو پہلی بار وائٹ ہاؤس بریفنگ میں شرکت کی اجازت

    نیو میڈیا کو پہلی بار وائٹ ہاؤس بریفنگ میں شرکت کی اجازت

    واشنگٹن : امریکا کی نئی ٹرمپ انتظامیہ نے نیو میڈیا کو وائٹ ہاؤس بریفنگ میں شرکت کی اجازت دے دی ہے۔ نشستیں بھی مختص کردی گئیں۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق وائٹ ہاؤس نے ایک نئی پالیسی متعارف کروائی ہے جس کے تحت "نیو میڈیا” آؤٹ لیٹس اور مواد تخلیق کرنے والوں کو پریس بریفنگز کے دوران سوالات کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

    اس حوالے سے اعلان کیا گیا ہے کہ کانٹینٹ کریئٹرز، پوڈ کاسٹرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز وائٹ ہاؤس بریفنگ میں شرکت کرسکیں گے۔

    اس اقدام کا اعلان وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے اپنی پہلی بریفنگ میں کیا، ان کا کہنا تھا کہ نیو میڈیا کے لوگ بریفنگ میں سوالات بھی کرسکیں گے۔

    پریس سیکریٹری وائٹ ہاؤس کیرولین لیویٹ نے کہا کہ آزاد صحافیوں، پوڈ کاسٹرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

    صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیومیڈیا منظر نامے کے مطابق اپنی انتظامیہ کی ازسر نوترتیب چاہتے ہیں۔

    TRUMP

    21یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف برداری کے بعد سوشل میڈیا پر اپنا پہلا پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے بائیڈن دور کے چار عہدیداران کو برطرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورک ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے تقرر کیے جانے والے ان ایک ہزار سے زیادہ افراد کو برطرف کرنا شروع کردیا جو ان کے ’امریکہ کو عظیم بنانے کے نظریے سے متفق نہیں ہیں۔

  • سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے متعلق امریکی یونیورسٹی کی تشویش ناک تحقیق

    سوشل میڈیا انفلوئنسرز سے متعلق امریکی یونیورسٹی کی تشویش ناک تحقیق

    شکاگو: امریکی یونیورسٹی کے ایک تشویش ناک تحقیقی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز بچوں کو موٹاپے کا شکار کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مشہور امریکی شخصیات سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے دانستہ اور غیر دانستہ طور پر بچوں کو موٹاپے کی جانب مائل کر رہے ہیں، یہ بات شگاگو یونیورسٹی کی جانب سے ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے کی گئی ہے۔

    اس سلسلے میں محققین نے مشہور ترین شخصیات (سیلیبریٹیز) کی جانب سے سوشل میڈیا خصوصاً انسٹاگرام پر اسنکیس، کھانوں، اور مشروبات کے حوالےسے کی جانے والی پوسٹس کا جائزہ لیا، اور ان کو غذائی اشیا کے لیے متعین کردہ تشہیری معیار پر جانچا گیا۔

    یہ بات سامنے آئی کہ 90 فی صد شخصیات کی سوشل میڈیا پوسٹس جَنک (الم غلم) اور فاسٹ فوڈ جیسے غیر صحت بخش کھانوں اور پینے کی اشیا پر مشتمل ہوتی ہیں، معلوم ہوا کہ سیلیبریٹیز کے 87 فی صد اکاؤنٹس کو غیر صحت بخش غذاؤں کے حوالے سے اسکور کیا گیا، جب کہ مشروبات میں یہ شرح 89.5 رہی۔

    ریسرچ اسٹڈی کے نتائج کے مطابق سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی جانب سے 21.2 فی صد پوسٹس بیکری آئٹم (کیک، ڈونٹس اور براؤنیز)، 12.7 فی صد پھلوں، 8.1 فی صد سبزیوں، 6.5 فی صد ٹافی، 4.5 فی صد اسنیکس (چپس، پاپ کارن)، 4 فی صد بریڈز، 3.9 فی صد آئس اور اس نوعیت کی دیگر اشیا، 3.4 سینڈوچ اور چیز برگر وغیرہ، 3 فی صد پولٹری اور 2.8 فی صد لسانے اور چاول سے بنی ڈشوں سے متعلق تھیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ امریکا میں سگریٹ، اور الکوحل جیسی نشہ آور اشیا کے لیے سخت اشتہاری معیارات نہیں ہیں، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی اسٹار بچوں کو غیر صحت مند غذاؤں کی جانب راغب کر رہے ہیں۔

    اگرچہ اس مطالعے میں سیلیبریٹیز کا نام نہیں دیا گیا تاہم ممکنہ طور پر ان میں پاپ سنگر آریانا گرینڈی، ہالی وڈ سینسیشن ڈیوائن جانسن ’دی راک‘ اور ریئلٹی ٹی وی اسٹار کم کارڈیشین بھی شامل ہیں، کیوں کہ یہ سیلیبریٹیز مجموعی طور پر 650 ملین سے زائد فالوورز رکھتے ہیں۔