Tag: سوشل میڈیا

  • سجی سجائی دلہن کے معاشرتی تصور پر سوال اٹھاتی سادگی پسند دلہن

    سجی سجائی دلہن کے معاشرتی تصور پر سوال اٹھاتی سادگی پسند دلہن

    شادی کا دن زندگی کا یادگار دن ہوتا ہے اور دلہا و دلہن اس دن کے لیے خصوصی تیاریاں کرتے ہیں جس میں شادی کا جوڑا نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔

    تاہم ایک خاتون ایسی بھی ہیں جن کی شادی عروسی لباس، زیورات یا میک اپ کے بغیر انجام پائی۔

    بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی تسنیم نامی یہ خاتون سماجی کارکن ہیں جنہوں نے اپنی شادی کے لیے کسی خاص تیاری کا اہتمام نہیں کیا۔

    اپنی شادی کے دن انہوں نے اپنی دادی کی کاٹن کی ساڑھی زیب تن کی اور بنا میک اپ اور زیورات کے شادی کی رسومات انجام دیں۔

    ان کے اس اقدام پر ان کے دوست، احباب اور عزیزوں نے بے حد تنقید کی جس کا انہوں نے ایسا متاثر کن جواب دیا جس پر سب کی زبانیں بند ہوگئیں۔

    سوشل میڈیا پر ایک طویل پوسٹ کی صورت میں انہوں نے اپنے اس اقدام کی وجہ پیش کی۔

    اپنی پوسٹ میں ان کہنا تھا، ’میں اپنے معاشرے میں رائج دلہن کے اس تصور سے سخت الجھن کا شکار تھی جس میں دلہن کا میک اپ کی دبیز تہوں، منوں زیورات اور بھاری بھرکم لباس میں ملبوس ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں میں بہت رقم خرچ ہوتی ہے اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ اسے کرنے والے خوشحال ہیں جنہوں نے باآسانی رقم کے اس اصراف کو برداشت کرلیا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا، ’بہت سے لوگ ایسا نہیں کرنا چاہتے، یا اس کی استطاعت نہیں رکھتے لیکن معاشرے کے خوف سے ایسا کرنے پر مجبور ہیں‘۔

    تسنیم نے لکھا، ’میں نے آج تک ایسی کسی شادی میں شرکت نہیں کی جہاں لوگ یہ سرگوشیاں نہ کرتے ہوں، ’کیا دلہن خوبصورت لگ رہی ہے؟ اس کا لباس کتنی قیمت کا ہے؟ اس نے کتنا سونا پہنا ہوا ہے؟‘ اس قسم کی باتوں کو سنتے ہوئے ایک لڑکی اس دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے کہ اپنی شادی کے دن اسے بے حد خوبصورت لگنا ہے جس کے لیے وہ بے تحاشہ رقم، وقت اور توانائی صرف کرتی ہے، اور یوں لگتا ہے کہ اس کی اپنی شخصیت کوئی حیثیت نہیں رکھتی‘۔

    وہ کہتی ہیں، ’معاشرہ ہر لڑکی کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اس کا اصل چہرہ اور رنگت اس کے دلہن بننے کے لیے کافی نہیں اور لاکھوں کے زیورات اور لباس اس کے لیے ضروری ہیں۔ گویا ہمارے معاشرے نے یہ طے کرلیا ہے کہ اگر خواتین پر کچھ خرچ بھی کیا جائے گا، تو وہ ان کی مرضی کے بغیر ہی کیا جائے گا‘۔

    تسنیم نے کہا، ’میں نے بزرگ خواتین سے ہمیشہ سنا ہے کہ ایک دلہن زیورات کے بغیر ادھوری ہوتی ہے۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ دلہن کے زیورات سے اس کے خاندان کی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج تک کوئی لڑکی یہ سوال اٹھانے کی جرات نہیں کر سکی کہ کہ جو بیش قیمت سونا اسے پہنایا جارہا ہے، کیا وہ اسے مستقبل میں ایک پروقار زندگی بھی دے سکتا ہے یا نہیں‘؟

    انہوں نے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کیا کہ بھاری رقم خرچ کر کے بنایا جانے والا عروسی لباس شادی کی تقریب ختم ہونے کے بعد عموماً ساری زندگی ایسا ہی رکھا رہتا ہے اور دوبارہ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ’چند گھنٹوں کے لیے لاکھوں خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے‘؟

    تسنیم کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ انہیں میک اپ یا زیورات پسند نہیں۔ ناپسندیدہ دراصل وہ سوچ ہے جو ایک لڑکی کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر اپنی شادی کے دن اس نے ان مصنوعی اشیا کا سہارا نہ لیا تو اس کی اصل شکل و صورت اس کی شادی کے لیے کافی نہیں۔

    بقول تسنیم، اسی سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی شادی میں نہایت سادہ روپ اختیار کریں گی۔ ’یہ بظاہر سادگی لگتی ہے۔ لیکن یہی میرے لیے سب سے خاص ہے‘۔

    تسنیم نے یہ بھی کہا کہ ان کے اس فیصلے کے بعد ان کے خاندان نے ان کی بے حد مخالفت کی۔ بعض لوگوں نے یہ تک کہا کہ وہ اتنی سادہ دلہن کے ساتھ تصویر نہیں کھنچوائیں گے، لیکن ان کے شوہر نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور معاشرے میں رائج ان بے مقصد روایات و خیالات کے خلاف آواز اٹھانے میں ان کی بھرپور مدد کی۔

    ہمارے معاشروں میں قائم وقت اور رقم ضائع کرنے والی ان رسوم و روایات کے خلاف آواز اٹھاتی یہ سادہ سی دلہن ہمیں تو بہت پسند آئی، آپ کو کیسی لگی؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مجمع بڑا دکھانے کے لیے خواجہ آصف نے جنازے کی تصاویر ٹوئٹ کردیں

    مجمع بڑا دکھانے کے لیے خواجہ آصف نے جنازے کی تصاویر ٹوئٹ کردیں

    اسلام آباد: وزیر خارجہ خواجہ آصف نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ریلی میں لاکھوں عوام ظاہر کرنے کے لیے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جنازے کی تصاویر پوسٹ کردیں۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اسلام آباد سے لاہور واپسی تک کی جی ٹی روڈ ریلی نے پورے پنجاب کو مفلوج کردیا ہے۔

    ریلی کے لیے جہاں ایک طرف سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے وہیں وفاقی وزرا بھی کار مملکت چھوڑ کر نواز شریف اور ان کی ریلی کی حمایت میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا میدان سنبھالے ہوئے ہیں۔

    ایسے موقع پر وفاقی وزیر خواجہ آصف بھی پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے نواز شریف کو عوام کا پسندیدہ لیڈر دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے ریلی کی کچھ تصاویر ٹویٹ کیں جن میں لوگوں کا جم غفیر نظر آرہا ہے۔

    تاہم ان میں سے صرف ایک تصویر حالیہ ریلی کی ہے، بقیہ دیگر تصاویر کے بارے میں قیاس ہے کہ وہ کسی جنازے کی ہیں۔ ایک تصویر مسلم لیگ ن ہی کے ماضی میں کیے جانے والے کسی جلسے کی ہے۔

    ٹویٹ کے سامنے آتے ہی خواجہ آصف تنقید کی زد میں آگئے۔ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ کسی ملک کا وزیر خارجہ اس قسم کے خیالات کا اظہار کیسے کر سکتا ہے۔

    اس موقع پر مسلم لیگ ن کے حمایتیوں اور کارکنان نے بھی خواجہ آصف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

    گزشتہ روز وزیر مملکت عابد شیر علی نے بھی پارٹی قائد سے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے ایک شعر ٹویٹ کیا تھا جس میں انہوں نے نواز شریف کو یہودی سردار سے تشبیہہ دی تھی۔

    تاہم بعد ازاں ٹوئٹر پر تنقید کا نشانہ بننے کے بعد انہوں نے ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • انسٹاگرام فلٹرز دماغی خلل کی طرف اشارہ

    انسٹاگرام فلٹرز دماغی خلل کی طرف اشارہ

    سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس آج کل ہر شخص کی زندگی کا اہم حصہ بن چکی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا کا استعمال ہماری جسمانی، نفسیاتی اور دماغی صحت پر مختلف اثرات مرتب کرنے کا باعث بنتا ہے۔

    حال ہی میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کسی شخص کی انسٹا گرام پروفائل اس میں ڈپریشن کی نشاندہی کرسکتی ہے۔

    امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کسی شخص کی انسٹاگرام پروفائل ایک ڈاکٹر سے زیادہ بہتر طریقے سے اس میں ڈپریشن کی تشخیص کرسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: آپ کی فیس بک پروفائل آپ کی شخصیت کی عکاس

    تحقیق میں شامل پروفیسرز کے مطابق انسٹاگرام کے بعض فلٹرز شدید ڈپریشن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کا شکار افراد سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے یا تو فلٹرز کا بالکل استعمال نہیں کرتے، یا پھر تصویر کو سیاہ و سفید کرنے والے فلٹر ’انک ویل‘ استعمال کرتے ہیں۔

     ان کے مطابق اس فلٹر کا سیاہ و سفید رنگ ڈپریشن کا شکار شخص کے ذہن میں پلنے والے منفی اور ناامیدی کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تصویر کو ذرا سا بہتر کرنے والا فلٹر جیسے ویلینیسا کا استعمال دماغی طور پر صحت مند افراد کی نشانی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کے سبب یہ اب ہماری نفسیاتی و ذہنی صحت کا آئینہ دار بن گیا ہے اور اس کی بنیاد پر کسی بھی شخصیت کے بارے میں خاصی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    ڈپریشن کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عابد شیر علی نے نواز شریف کو یہودی سردار سے تشبیہہ دے ڈالی

    عابد شیر علی نے نواز شریف کو یہودی سردار سے تشبیہہ دے ڈالی

    لاہور: وزیر مملکت برائے توانائی عابد شیر علی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹویٹ میں فاش غلطی کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو یہودیوں کے سردار سے تشبیہہ دے ڈالی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ریلی کے موقع پر جہاں مسلم لیگ ن کے رہنما و وزرا اپنے قائد سے وفاداری کا اظہار کر رہے ہیں وہیں وزیر مملکت عابد شیر علی نے بھی اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور نواز شریف کی تصویر کے ساتھ ایک شعر ٹویٹ کر ڈالا۔

    تاہم وزیر مملکت اس بات سے شاید بے خبر تھے کہ شعر میں جس ’مرحب‘ کا ذکر کیا گیا وہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں یہودیوں کا ایک سورما ہوا کرتا تھا۔

    مرحب غزوہ خیبر میں خلیفہ راشد چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔

    ٹویٹ کے سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر تنقید اور مذاق کا طوفان امڈ آیا۔ کسی نے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو جاہل قرار دیا تو کسی نے کہا کہ ایسے دوستوں کی موجودگی میں نواز شریف کو دشمنوں کی کوئی ضرورت نہیں۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف اسلام آباد سے لاہور جارہے ہیں اور اس موقع پر مسلم لیگ ن کے کارکنان بڑی تعداد میں جمع ہو کر ریلی کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ اور ہزاروں رشتے آگئے

    سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ اور ہزاروں رشتے آگئے

    رشتہ کرانے والی ویب سائٹس اور آنٹیوں کا کاروبار فیس بک کے سبب شدید خطرے میں ہے کیونکہ فیس بک کے ذریعے ایک نوجوان کو دنیا بھر سےدرجنوں رشتوں کی آفر مل گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ جوان رنجیش منجیری نے کئی رشتوں کی سائٹس پر ناکامی کے بعد ایک دوست کے مشورہ پر فیس بک سے رجوع کیا۔

    نوجوان کی فیس بک پر ڈالی پوسٹ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہونے لگی اور بہت سے لوگ اسے رشتوں کی آفر کرنے لگے ‘ یہاں تک کہ اسے انڈیا سے باہر سعودی عرب‘ امریکہ اور آسٹریلیا تک سے شادی کی آفریں موصول ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

    رنجیت پیشے کے لحاظ سے فوٹو گرافر ہیں اور اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں‘ ان کی ایک ہی بہن ہیں جو اپنے گھر کی ہیں یعنی کے ذمہ داریوں کے اعتبار سے وہ ایک آئیڈیل رشتہ ہیں۔ سونے پر سہاگہ رنجیت نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ وہ ہندو ہیں اور انہیں ذات پات کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ وہ کسی بھی ذات کی لڑکی سے شادی کرسکتے ہیں جس کے بعد ان کے لئے امکانات مزید بڑھ گئے۔

    انہوں نے اپنی پوسٹ میں اپنا نمبر بھی لکھا تھا جس کے بعد انہیں دنیا بھر سے سنجید ہ آفرز موصول ہوئیں ہیں‘ رنجیت نے بتایا محض آدھے درجن کے قریب افراد نے ازراہِ مذاق بھی انہیں کال کی لیکن اب ان کے پاس مناسب تعداد میں رشتے موجود ہیں اور انہیں ان میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہے ۔

    رنجیت کی فیس بک پوسٹ پر اب تک 4000 سے زائد شیئرز‘ 16000 سے زائد لائکس اور 1000 سے اوپر کمنٹ آچکے ہیں اور یہ پوسٹ ابھی بھی وائرل ہورہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • فیس بک کا روبوٹ سائنسدانوں کے قابو سے باہر

    فیس بک کا روبوٹ سائنسدانوں کے قابو سے باہر

    فیس بک کے لیے ڈیزائن کردہ مصنوعی ذہانت کے شاہکار روبوٹ کو سائس دانوں نے بند کردیا ہے اور اس کی وجہ روبوٹ کا اپنی ’لینگوئج از خود تیار کرنا ‘ بتایا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سائسنسدانوں نے محسوس کیا کہ فیس بک کے لیے بنائے جانے والے روبوٹ اپنے خود کے کوڈ تشکیل دے رہا ہے‘ اس خبر کے منظرِ عام پر آتے ہی آرٹیفشل ذہانت سے جڑی تخیلاتی فلمیں گویا حقیقت کا روپ دھار گئی ہیں۔

    سائنسدانوں نے جب روبوٹ کی زبان سمجھنے کی کوشش کی تو ابتدا میں وہ انہیں کچھ مہمل الفاظ لگے تاہم مزید تحقیق سے ثابت ہوا کہ بوب اور ایلس نامی روبوٹ آپس میں ایک دوسرے سے از خود رابطہ کررہے ہیں۔


    بے خوابی کا شکار افراد کے لیے روبوٹک تکیہ


     تحقیق کے اندر پیش آنے والے اس خطرنا ک موڑ پر سائنسدانوں کو سمجھ آیا کہ روبوٹ نے انگریزی زبان کا استعمال ترک کرکے ایسی زبان کا استعمال شروع کردیا ہے جسے مصنوعی ذہانت کا حامل دوسرا روبوٹ ہی سمجھ پارہا تھا۔

    facebook robot

    ڈیجیٹل جرنل نامی سائنسی جریدے کو فراہم کردہ تفصیلات میں سائسنس دانوں نے بتایا کہ باب نے ایک جملہ کہا جس کے جوان میں ایلس نے بھی ایک جملہ کہا اور ان دونوں جملوں میں گرائمر کے بنیادی قوائد کی غلطی تھی جس کے سبب سائنس داں ایسا سمجھنے پر مجبور ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا شاہ کار یہ روبوٹ خود کو درپیش آنے والی مشکلات کا حل نکالنے کے پہلے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔

    سائنسدانو ں نے یہ روبوٹ اس لیے بنائے تھے کہ مصنوعی ذہانت کے اعلیٰ درجے کے حامل یہ روبوٹ احکامات کو تیزی سے سمجھ کر ان کی تکمیل کرسکیں لیکن وہ ایسی زبان استعمال کرنے لگےجو انسانوں کے لیے ناقابلِ فہم تھیں اور اسی سبب انہیں فی الحال بند کردیا گیا ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • رابی پیرزادہ کس چیز سے خوفزدہ ہیں؟

    رابی پیرزادہ کس چیز سے خوفزدہ ہیں؟

    پاکستان کی معروف اداکارہ اور گلوکارہ رابی پیرزادہ کی انجکشن سے خوفزدہ ہونے کی ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا پر بے پناہ وائرل ہورہی ہے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح رابی انجکشن سے خوفزدہ ہوکر کسی بچے کی طرح برتاؤ کررہی ہیں ‘ ان کے اس رویے نے نرس کو حیرت میں ڈال دیا۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ رابی مسلسل کوشش کررہی ہیں کہ خون کا سیمپل لینے کے لیے انہیں انجکشن نہ لگایا جائے یہاں تک کہ ویڈیو میں موجود ایک خاتون کو نرس کی مدد کرنا پڑی۔

    خون کا نمونہ حاصل کرنے کے دوران رابی پیرزادہ کسی بچے کی طرح چلاتی رہیں تاہم نرس نے بھی ان کی ایک نہ سنی اور خون لے کر ہی دم لیا۔

    دیکھا جائے تو یہ ایسی کوئی بری بات بھی نہیں ہے کیا ہے اگر وہ سانپ سے خوفزدہ نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ کسی بھی شے سے خوفزدہ نہیں ہوں گی۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • سوشل میڈیا شہرت یافتہ دیوہیکل شارک اپنے انجام کو پہنچی

    سوشل میڈیا شہرت یافتہ دیوہیکل شارک اپنے انجام کو پہنچی

    کینبرا: آسٹریلیا کے سرفنگ کے لیے مشہور ساحل پردہشت پھیلانے والی دیو قیامت خوں آشام شارک اپنے انجام کو پہنچ گئی‘ مذکورہ شارک کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر پہلے ہی وائرل ہوچکی ہے۔

    تفصیلا ت کے مطابق آسٹریلیا کے علاقے نیو ساؤ تھ ویلز کے گاؤں لینوکس ہیڈ کے ساحل پر ایک خوش آشام شارک کی موجودگی نے دہشت پھیلا رکھی تھی‘ شارک کی موجودگی کے سبب سرفنگ کے شوقین افراد گہرے پانی میں جانے سے گریز کررہے تھے۔

    تاہم اب ان کا خوف دور ہوگیا ہے کہ کیونکہ اٹھارہ فٹ طویل یہ دیو قامت شارک ماری جاچکی ہے۔مری ہوئی شارک کو ایک کشتی کے ذریعے لینوکس ہیڈ کے ساحل پر منتقل کیا گیا۔

    میتھیو نامی ایک شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خطرناک شارک کا شکار کیا ہے‘ مذکورہ شخص کا کہنا ہےکہ وہ ایک چھ فٹ کی ہیمر ہیڈ شارک کا شکار کررہا تھا کہ یہ بڑی شارک اچانک نمودار ہوئی اور چھوٹی شارک کو کھاگئی‘ شارک جب اپنے شکار کے ساتھ مشغول تھی اس وقت میں اسے شارک کو نشانہ بنانے کا موقع مل گیا۔

    سات میل طویل یہ ساحل سرفنگ کے لیے مشہور ہے ‘ تاہم آسٹریلیا کے اس ساحل پر کئی مرتبہ شارک کو دیکھا گیا تھا اور حملوں کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔

    کہا جارہا ہے کہ اس شارک کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی تھی‘ اس وقت یہ شارک زندہ تھی اور پورے طمطراق کے ساتھ سمندر میں دندناتی پھرتی تھی تاہم اب یہ خطرہ نہیں رہا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • لڑکی نے شہرت کے چکر میں بوائے فرینڈ کی جان لے لی

    لڑکی نے شہرت کے چکر میں بوائے فرینڈ کی جان لے لی

    امریکہ میں لڑکی نے سوشل میڈیا پر شہرت پانے کے لیے اسٹنٹ کرتے ہوئے اپنے دوست پرگولی چلادی، جس کے نتیجے میں نوجوان موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق  امریکہ  19 سالہ لڑکی نے  سماجی رابطے کے لیے ویڈیوز کی ویب سائٹ یو ٹیوب پر شہرت حاصل کرنے کے لئے اپنے ہی دوست پرفائرکرکے اس کی جان لے لی۔

    مذکورہ واقعہ پیر کی شام ساڑھے چھ بجے پیش آیا، اسٹنٹ کو شوٹ کرنے کے لیے مونا نے ایک کیمرہ گاڑی کے پیچھے اور ایک قریب ہی رکھا ، جس کے بعد مونا نے گولڈ ڈیزرٹ ایگل نامی پچاس بور کی ہینڈگن سے اپنے دوست کے سینے پرفائرکیا، جس پرنوجوان موقع پرہی دم توڑگیا۔

    دوسری جانب مونا لیزا پیرز کو پیڈرو نامی نوجوان کے قتل کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا اورملزمہ کو دس سال قید کی سزا کے ساتھ بیس ہزار ڈالر جرمانہ بھی عائد کردیا گیا ہے۔

     مونا لیزا کا اپنے بوائے فرینڈ روئزکو گولی مارنے والے واقعہ سے قبل کہنا تھا کہ ’’ہماری ویڈیوز کو تین لاکھ لوگ اب تک دیکھ چکے ہیں‘‘۔ اس ٹویٹر پر اپنے پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’وہ اور اس کا دوست اب تک کی سب سے خطرناک ویڈیو شوٹ کرنے جارہے ہیں‘‘ اوریہ کہ ’’یہ  پیڈرو کا آئیڈیا ہے میرا نہیں‘‘ اوریہ ہم دونوں کی ایک ساتھ آخری ویڈیو ہوگی۔

     مقامی حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ واقعے کی ویڈیو شیئر نہیں کی جاسکتی ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • سچی محبت کی لازوال داستاں

    سچی محبت کی لازوال داستاں

    میں بتاتا ہوں سچی محبت کیا ہوتی ہے!۔ ڈاکٹر نے مسکرا کر ہماری طرف دیکھا اورکافی کے مگ سے کھیلنے لگا ۔ہم غور سے اس کی بات سننے لگے۔ وہ گویا ہوا کہ ”میں ایک دن کلینک میں بیٹھاتھا . یہ صبح کے ساڑھے سات بجے کا وقت تھا . ایک بوڑھامریض بھاگتا ہوا کلینک میں داخل ہوا. اس کے ماتھے پر پسینہ تھا . سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اور وہ باربار دل پر ہاتھ رکھتا تھا . میراسٹاف تیزی سے اس کی طرف بڑھا ۔بوڑھے کی عمر اسی برس سے زائد تھی لیکن وہ اس کے باوجود چلنےپھرنے کی پوزیشن میں تھا ۔وہ نرس اور وارڈ بوائے سے بحث کرنے لگا‘‘۔ میں دفتر کے شیشے سے انہیں الجھتے ہوئے دیکھنے لگا‘ ذرا دیر بعد وارڈ بوائے میرے پاس آ گیا ۔میں اس وقت اخبار پڑھ رہا تھا . میں نے اخبار ایک طرف رکھا اور استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔ وارڈ بوائے نے بتایا بابا جی کے انگوٹھے پرچوٹ لگی تھی‘ ہم نے تین ہفتے پہلے ان کے ٹانکے لگا دیے تھے ۔وہ ٹانکے کھلوانے آئے ہیں ۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا اور وارڈ بوائے سے کہا کہ بابا جی سے کہو میں آٹھ بجے کام شروع کروں گا وہ آدھ گھنٹہ انتظار کر لیں میں سب سے پہلے ان کے ٹانکے کھولوں گا۔ وارڈ بوائے گیا اور فوراً واپس آ گیا میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا وہ گھبرا کر بولا بابا جی کو بہت جلدی ہے انہوں نے آٹھ بجے کہیں پہنچنا ہے وہ ہماری منت کر رہے ہیں ۔

    مجھے بابا جی اور وارڈ بوائے دونوں پرغصہ آ گیا میں نے اخبار میز پر پٹخا اور شیشے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا بابا جی دروازے کے بالکل سامنے کھڑے تھے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ باربار گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے۔میں نے انہیں ڈانٹنے کی کوشش کی لیکن پھر ان کی حالت دیکھ کر ضبط کر گیا میں نے انہیں بتایا کہ کلینک کا وقت آٹھ بجے شروع ہوتا ہے میں صرف اخبار پڑھنے کیلئے آدھ گھنٹہ پہلے آ جاتا ہوں آپ اطمینان سے بیٹھ جائیں جوں ہی آٹھ بجیں گے میں سب سے پہلے آپ کودیکھوں گا ۔

    بابا جی نے گھڑی کی طرف دیکھا اور لجاجت بھری آواز میں بولے ‘ بیٹا جی! میں نے آٹھ بجے دوسرے ہسپتال پہنچنا ہے میں لیٹ ہو رہا ہوں اگر میں پانچ منٹ میں یہاں سے نہ نکلا تومیں وقت پر وہاں نہیں پہنچ سکوں گا اور اس سے میرا بہت بڑا نقصان ہو جائے گا ۔پلیز میرے اوپر مہربانی کریں‘ بابا جی نے اس کے ساتھ ہی میری ٹھوڑی پکڑ لی میرا غصہ آسمان کو چھونے لگا لیکن میں بابا جی کی عمر دیکھ کر چپ ہو گیا میں انہیں کلینک میں لے آیا ٹرے منگوائی اور احتیاط سے ان کے ٹانکے کھولنے لگا بابا جی اس سارے عمل کے دوران بار بار گھڑی دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر ایک لمحے کو سانس لینے کے لیے رکا‘ اس نے لمبا سانس بھرا اور دوبارہ بولا ”میں نے ٹانکے کھولتے ہوئے بابا جی سے پوچھا آپ نے کہاں جانا ہے بابا جی نے بتایا فلاں ہسپتال میں ان کی بیوی داخل ہے اور وہ ہر صورت آٹھ بجے اس کے پاس پہنچنا چاہتے ہیں . میں نے پوچھا‘ خدانخواستہ! آپ کی بیگم کا آپریشن تو نہیں بابا جی نے جواب دیا نہیں میں روز صبح آٹھ بجے ہسپتال پہنچ کر اسے ناشتہ کراتا ہوں۔

    مجھے ان کے جواب نے حیران کر دیا میں نے پوچھا کیوں بابا جی بولے‘وہ پانچ سال سے ہسپتال میں ہے اور میں پچھلے پانچ سال سے روز آٹھ بجے اس کے ہسپتال پہنچتا ہوں اور اپنے ہاتھ سے اسے ناشتہ کراتا ہوں میں نے حیرت سے پوچھا ‘پانچ سال میں آپ کبھی لیٹ نہیں ہوئے بابا جی نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا‘ جی نہیں آندھی ہو طوفان ہو سیلاب بارش ہو سردی ہو یا گرمی میں کبھی لیٹ نہیں ہوا میں نے پوچھا لیکن کیوں ؟ بابا جی مسکرائے میں اس کا قرض ادا کر رہا ہوں ۔ہم نے پچاس برس اکٹھے گزارے ہیں ان پچاس برسوں میں اس نے مجھے روزانہ آٹھ بجے ناشتہ کرایا تھاہمارے گھر میں نوکروں اورخادموں کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن سردی ہو گرمی ہو بارش ہو سیلاب ہو طوفان ہو یا آندھی وہ ساڑھے چھ بجے جاگتی تھی اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بناتی تھی۔اور ٹھیک آٹھ بجے جب میں اوپر سے نیچے آتا تھا تو وہ میز پر ناشتہ لگاکر میرا انتظار کرتی تھی‘ ہم دونوں اکٹھے ناشتہ کرتے تھے اس نے پچاس برسوں میں کبھی اس معمول میں تعطل نہیں آنے دیا وہ میرے ناشتے کی وجہ سے کبھی میکے نہیں گئی ‘پانچ برس پہلے وہ ہسپتال میں داخل ہوئی تو یہ ڈیوٹی میں نے سنبھال لی . اب میں روزانہ ساڑھے چھ بجے جاگتا ہوں اور آٹھ بجے سے پہلے اس کے کمرے میں پہنچ جاتاہوں‘میں اپنے اور اس کےلئے ناشتہ بناتا ہوں اور پھر ہم دونوں اکٹھے ناشتہ کرتے ہیں‘میری حیرت پریشانی میں داخل ہو گئی اور میں نے بابا جی سے پوچھا‘ آپ کی بیگم کو کیا بیماری ہے . بابا جی نے حسرت سے میری طرف دیکھا اور سسکی لے کر بولے‘ ان کی یادداشت ختم ہو گئی ہے . وہ اپنا ماضی ‘ حال اور مستقبل بھول گئی ہیں انہیں اپنا نام تک یاد نہیں وہ دنیا کے کسی شخص کو نہیں پہچانتی ۔ وہ بولنا تک چھوڑ چکی ہیں۔ انہیں پچھلے ایک سال سے کسی زبان کا کوئی لفظ یاد نہیں‘ ڈاکٹر انہیں جیلی پرسن کہتے ہیں“۔

    ڈاکٹر رکا ‘ اس نے ایک بار پھر لمبی سانس لی اور دوبارہ گویا ہوا ”میں نے بابا جی سے کہا اس کا مطلب ہے آپ کی بیگم کو الزمائیر ہے! بابا جی نے سر ہلا کر تصدیق کر دی میں نے بابا جی سے پوچھا کیا وہ آپ کو پہچانتی ہیں.بابا جی نے فوراً انکار میں سر ہلایا اور دکھی آواز میں بولے وہ پچھلے پانچ سال سے مجھے نہیں پہچان رہی وہ یہ جانتی ہی نہیں میں کون ہوں اور روز صبح آٹھ بجے اس کے پاس کیوں آ جاتا ہوں“ ڈاکٹر نے رک کر ہماری طرف دیکھا اور اس نے کہانی کے سرے جوڑتے ہوئے بتایا”بابا جی کے ٹانکے اتر چکے تھے میں نے سپرٹ سے ان کا زخم صاف کیا اس پر پاؤڈر چھڑکا اور ان سے عرض کیا آپ ہماری طرف سے فارغ ہیں آپ جا سکتے ہیں بابا جی نے اپنی چھڑی اٹھائی اور باہرکی طرف چل پڑے میں ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا جب وہ باہر کے دروازے کے پاس پہنچے تو میں نے ان سے آخری سوال پوچھا ۔میں نے ان سے پوچھا جب آپ کی بیگم آپ کوپہچانتی ہی نہیں جب ان کی نظر میں وارڈ بوائے اور آپ میں کوئی فرق نہیں تو آپ روزآٹھ بجے یہ تکلیف کیوں کرتے ہیں بابا جی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے لیکن میں اسے پہچانتا ہوں میں یہ جانتا ہوں وہ کون ہے اور میری زندگی میں اس کی کیا اہمیت اس کی کیا حیثیت ہے ۔

    وہ رکے اور دوبارہ بولے یادداشت اس کی ختم ہوئی ہے میری نہیں لہٰذا وہ آخری سانس تک میری بیوی ہے۔اور میں اسی طرح اس کی خدمت کرتا رہوں گا ۔بابا جی رکے اور دوبارہ بولے محبت کا تعلق یادداشت سے نہیں ہوتا‘ اس کا جسم اور دماغ سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ یہ دل میں پیدا ہوتی ہے اور دل کی آخری دھڑکن تک قائم رہتی ہے لہٰذا اگر آپ کا ساتھی آپ کو نہیں پہچانتا تو آپ کے دل میں اس کی محبت کم نہیں ہونی چاہیے وہ رکے‘ انہوں نے سانس لیا اور دوبارہ بولے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر اس کی جگہ میں ہوتا تو کیا وہ مجھے فراموش کر دیتی؟ نہیں وہ مجھے کبھی فراموش نہ کرتی‘ وہ ٹھیک آٹھ بجے ناشتے کی ٹرے لے کرروز میرے سرہانے کھڑی ہو جاتی لہٰذا اگر میری یادداشت جانے سے اس کی محبت کم نہیں ہوسکتی تو میری محبت کیسے کم ہو سکتی ہے ۔بابا جی کلینک کی سیڑھیاں اترے باہر ٹیکسی کھڑی تھی وہ ٹیکسی کی اگلی سیٹ پر بیٹھے انہوں نے کھڑکی سے ہاتھ نکال کر مجھے ”وش“ کیا اور وہاں سے روانہ ہو گئے لیکن میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور مجھے اس لمحے محسوس ہوا سچی محبت کیا ہوتی ہے!“۔

    ڈاکٹر رکا اس نے آنسو پونچھے اور ہماری طرف دیکھ کربولا ”اس کے بعد وہ بابا جی مجھے کبھی نہیں ملے۔لیکن جوں ہی آٹھ بجتے ہیں. مجھے فوراً وہ یاد آ جاتے ہیں اور میں محبت کے تصور میں گم ہو جاتا ہوں میری زندگی میں آٹھ بجے کا لمحہ ہمیشہ محبت لے کر آتا ہے اورمیں اپنے ساتھ عہد کرتاہوں میری بیوی مجھ سے جتنی محبت کرتی ہے میں اسے یہ محبت لوٹا کر اس دنیا سے رخصت ہوں گا میں اس کا قرض چکائے بغیر دنیا سے نہیں جاؤں گا“ ڈاکٹر خاموش ہوا تو ہم سب کی آنکھیں بولنے لگیں اور ہم انہیں خاموش کرنے کےلئے ٹشو تلاش کرنے لگے..!!!۔


    یہ کہانی سوشل میڈیا سے منقول ہے اور فی الحال اس کا مصنف نامعلوم ہے‘ جیسے ہی ہمیں مصنف کا نام معلوم ہوگا ہم اسے اپ ڈیٹ کردیں گے‘ اگرآپ کو یہ کہانی پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔