Tag: سوشیالوجی

  • عقیلہ برلاس کیانی: سائنس اور تحقیق کے میدان کا ایک روشن حوالہ

    عقیلہ برلاس کیانی: سائنس اور تحقیق کے میدان کا ایک روشن حوالہ

    سائنس اور تحقیق کا شعبہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فعال و سرگرم خواتین سے محروم ہی کہا جائے گا کہ ہمارے یہاں سماجی سائنس ہو یا اس کے دیگر شعبے خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ ملک میں خواتین نے فزکس، کیمسٹری جیسے مضامین اور دوسرے سائنسی علوم میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں قدم نہیں رکھا، مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ہمارے ہاں تسنیم زہرا حسین کو پاکستان کی پہلی سائنس داں مانا جاتا ہے جب کہ عقیلہ برلاس کیانی، عذرا قریشی نے بھی مختلف سائنسی علوم اور تحقیقی شعبوں میں مقام بنایا۔

    ہم بات کر رہے ہیں عقیلہ برلاس کیانی کی جو جامعہ کراچی کی ایک محسن اور نہایت قابل خاتون تھیں۔ 1921 میںٰ پیدا ہونے والی عقیلہ کیانی کے والد کا نام مرزا شاکر حسین برلاس تھا جو وکالت کے پیسے سے وابستہ تھے۔ عقیلہ کیانی کی والدہ کا نام بی بی محمودہ بیگم تھا۔

    عقیلہ کیانی نے سوشیالوجی کے مضمون میں سند حاصل کر کے جامعہ کراچی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان کا تعلیمی کیریر بہت متاثر کن ہے ۔ انھوں نے 1943 میں آگرہ یونیورسٹی سے بی ۔ اے اور بی۔ ٹی کی ڈگریاں حاصل کی تھیں، مگر مزید پڑھنے کا شوق اور سیکھنے کی لگن تھی اور 1949 میں لندن یونیورسٹی سے تعلیم کے مضمون میں ایم۔ اے کیا۔ یہ تعلیمی سلسلہ یہاں نہ رکا اور 1953 میں انھوں نے امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے عمرانیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی جس کے دو سال بعد امریکا ہی سے ڈاکٹریٹ کیا۔

    تدریس کے ساتھ خود کو تحقیقی کاموں میں مصروف رکھا اور پھر کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے سوشل ورک کے مضمون میں ایم۔ اے کیا۔ امریکا سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد عقیلہ کیانی پاکستان آکر جامعہ کراچی کے سوشیالوجی کے شعبے کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ انھوں نے نصاب کی تیاری اور تحقیقی سرگرمیوں کے حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان کا نام سوشیالوجی، خصوصا دیہاتی زندگی اور علم البشریات کے حوالے سے بھی متعبر جانا جاتا ہے۔

    کراچی یونیورسٹی میں عقیلہ کیانی سوشیالوجی کے شعبے میں چیئرپرسن رہیں۔ وہ صرف ایک استاد ہی نہیں تھیں بلکہ اپنے مضامین اور شعبوں کی فعال ترین شخصیت تھیں اور یہی وجہ ہے کہ مقامی اورغیر ملکی سطح پر سیمینارز اور لیکچرز میں شریک ہوتیں۔

    لندن میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار کلچرل ریسرچ نے سماجی تبدیلیوں اور ثقافت کے موضوع پر اُن کے کام کو نہ صرف سراہا بلکہ انھیں اپنا فیلو مقرر کیا۔ عقیلہ کیانی کا علمی اور تحقیقی کام معتبر اور نہایت وقیع جریدوں میں شایع ہوا۔ ان کا اہم کام سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں سے متعلق تھا جس میں انھوں نے خاص طور پر دیہات کے حوالے سے معاشرت کو سمجھنے کی کوشش کی۔

    انھوں نے عمرِ عزیز کے آخری ایّام کینیڈا میں گزارے۔ نہایت قابل، باصلاحیت استاد اور جامعہ کراچی کی محسن 2012 میں مارچ کے مہینے میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

  • لڑکیوں کو’مثالی بہو‘ بنانے کے لیے یونی ورسٹی نے کورس متعارف کرادیا

    لڑکیوں کو’مثالی بہو‘ بنانے کے لیے یونی ورسٹی نے کورس متعارف کرادیا

    بھارتی ریاست بھوپال کی ایک یونیورسٹی نے لڑکیوں کے لئے ایک منفرد مضمون پڑھانے کا اعلان کیا ہے، جس کا نام ’آدرش بہو‘یا ’مثالی بہو‘ رکھا گیا ہے۔ بھارت میں اس مضمون پر ملا جلا رحجان سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ریاست بھوپال کی ’برکت اللہ یونی ورسٹی‘ کی جانب سے شادی سے قبل گھریلو امور پر لڑکیوں کی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مثالی بہو نام کا یہ کورس متعارف کرایا گیا ہے۔

    بھارتی عوام کے لئے یہ ایک بالکل نیا، غیر روایتی اور دلچسپ مضمون ہے جس کی وجہ سے اس میں ابھی سے دلچسپی لی جا رہی ہے اور کہیں کہیں اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کورس میں سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والی لڑکیاں مستقبل کی مثالی بہو ثابت ہوسکتی ہیں۔تین ماہ کےاس کورس میں مستقبل کی دلہنوں کو سسرال میں رہنے، بسنے اور سسرالیوں کا دل جیتنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔

    یونیورسٹی کے سائیکولوجی، سوشیالوجی اور ’ویمنز اسٹڈی ڈپارٹمنٹ‘ میں ’آدرش بہو‘ کے کورس کا آغاز بطور پائلٹ پروجیکٹ آئندہ تعلیمی سال سے ہونے والا ہے۔ وائس چانسلر نے کورس سے متعلق گفتگو میں کہا ہےکہ کورس کا مقصد لڑکیوں کو شادی کے بعد نئے ماحول میں کیسے ایڈجسٹ کیا جائے، یہ سکھانا ہے تاکہ نئی دلہنیں خاندانوں سے خود بھی جڑی رہیں اورخاندانوں کو یکجا بھی رکھ سکیں۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل ایک اور شہر کاشی میں ’وینیتا انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائنز‘ نے ’میری بیٹی ،میرا فخر‘ کے نام سے ایک کورس متعارف کرایا تھا جس کا مرکزی خیال ’آئیڈیل بہو کیسے بنا جائے‘ تھا۔

    یہ کورس انسٹی ٹیوٹ نے والدین اور لڑکیوں سے ایک سروے کے بعد لانچ کیا تھا۔ سروے میں دعوی ٰکیا گیا تھا کہ 75 فیصد لڑکیوں میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے، حتیٰ کہ پڑھی لکھی لڑکیوں میں بھی یہ خوف پایا جاتا ہے کہ شادی کے بعد ان کا مستقبل کیا ہوگا۔