Tag: سولر پینل

  • سورج مکھی کی طرح سورج کا تعاقب کرتا شمسی پینل

    سورج مکھی کی طرح سورج کا تعاقب کرتا شمسی پینل

    توانائی کے تیزی سے گھٹتے وسائل کے باعث دنیا بھر میں اب قابل تجدید اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں شمسی توانائی گو کہ مہنگا ذریعہ ہے، تاہم ماحول دوست اور نہایت فائدہ مند ہے۔

    حال ہی میں ماہرین نے شمسی توانائی کے ایسے پینل بنائے ہیں جو سورج مکھی کے پھول کی طرح سورج کا تعاقب کریں گے اور اس سے روشنی حاصل کر کے توانائی پیدا کریں گے۔

    solar-2


    اسمارٹ فلاور

    اسمارٹ فلاور نامی یہ پینل عام شمسی پینلوں سے 40 فیصد زیادہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    یہ پینل خود بخود کھلنے اور بند ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سورج نکلتے ہی یہ کھل کر پھیل جاتے ہیں اور دن بھر سورج کی حرکت کے ساتھ ساتھ گردش کرتے ہیں۔ سورج ڈھلتے ہی یہ خود کار طریقے سے بند ہوجاتے ہیں۔

    solar-4

    اسی طرح بادلوں، تیز ہوا یا بارش کے وقت بھی یہ خود ہی بند ہوجاتے ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس شمسی پھول کا خیال قدرتی پھولوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ پھول بھی سورج سے توانائی حاصل کر کے اپنی غذا بناتے ہیں جسے فوٹو سینتھسس کا عمل کہا جاتا ہے۔

    solar-3

    یہ شمسی پھول فی الحال تجرباتی مراحل میں ہے اور بہت جلد اسے عام افراد کے لیے پیش کردیا جائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زندگی کو بدلنے کا عزم مبارک گوٹھ کے اس رہائشی سے سیکھیں

    زندگی کو بدلنے کا عزم مبارک گوٹھ کے اس رہائشی سے سیکھیں

    آپ نے علامہ اقبال کا وہ شعر تو ضرور سنا ہوگا

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

    یہ نظریہ قوم و ملت سے لے کر انفرادی طور پر ہر شخص پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہیں اور اسے بدلنا چاہتے ہیں تو رونے دھونے اور شکوے شکایات کرنے کے بجائے اسے بدلنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک باعزم شخص سے ملوانے جارہے ہیں جس نے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا اور خدا نے اس کا ساتھ دیا۔

    مبارک گوٹھ جسے عموماً مبارک ویلج کہا جاتا ہے، کراچی کے باسیوں کے لیے پسندیدہ ترین تفریح گاہ ہے، لیکن شاید بہت کم لوگ یہاں آباد ان کچی بستیوں سے واقف ہیں جو آج کے جدید دور میں بھی سترہویں صدی کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    کچے پکے، ٹوٹے پھوٹے مکانات بلکہ زیادہ تر جھونپڑیوں میں رہائش پذیر یہ لوگ پاکستان کے ہر اس گاؤں کی طرح جدید دنیا کی تمام تر سہولیات سے محروم ہیں جو گزشتہ 70 سال سے گاؤں ہی رہے اور کسی حکومت نے انہیں جدید دور کی سہولیات تو دور، بنیادی انسانی ضروریات تک فراہم کرنے کی زحمت نہ کی۔

    یہ گاؤں ابھی تک فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی نگاہوں سے بھی اوجھل ہے لہٰذا یہاں کوئی غیر سرکاری تنظیم سرگرم عمل نہیں نظر آئی۔

    یہیں ہماری ملاقات حاتم سے ہوئی۔ پیشہ وارانہ امور کے سلسلے میں مبارک گوٹھ جانے پر یہی شخص ہمارا میزبان تھا اور گاڑی سے اترتے ہی سب سے پہلی شے جو ہمارا مرکز نگاہ بنی، وہ ایک جھونپڑی پر لگا ہوا شمسی توانائی سے بجلی بنانے والا سولر پینل تھا۔

    ایک ایسا گاؤں جہاں بجلی و باتھ روم کی بنیادی سہولت تک میسر نہ تھی، اور نہ وہاں کوئی غیر سرکاری تنظیم سرگرم عمل نظر آتی تھی، وہاں بھلا سولر پینل کیسے آسکتا تھا، اور تب ہی حاتم کے بارے میں علم ہوا کہ بظاہر بدحال سا دکھنے والا یہ شخص اپنی قسمت پر رو دھو کر صابر ہوجانے والا نہیں، بلکہ اس میں آگے بڑھنے کا جذبہ موجود ہے۔

    دریافت کرنے پر وہی پرانی سی کہانی سننے کو ملی، کہ جہاں سورج ڈھلا وہیں گاؤں میں اندھیرے اور خوف کے بادل چھا جاتے تھے۔ گاؤں والے مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹینوں سے ضروری کام نمٹا لیا کرتے تھے۔ گویا یہاں دن سورج ڈھلنے تک کا تھا۔ سورج ڈھلنے کے بعد یہاں صرف اندھیرا تھا، ناامیدی تھی اور شاید کہیں کسی دل میں اپنے دن بدلنے کی خوش فہمی کی مدھم سے ٹمٹماتی لو۔۔

    لیکن حاتم نے اس خوش فہمی کو پہلے امید اور پھر حقیقت میں بدل دیا۔ ایک دفعہ کسی کام سے جب وہ شہر (کراچی) آیا تو اسے ان سولر پینلز کے بارے میں پتہ چلا جو دن بھر سورج سے بجلی بناتے ہیں، اور شام میں ان میں نصب بیٹریاں سورج کی روشنی کو بکھیر کر دن کا سا اجالا پھیلا دیتی ہیں۔

    حاتم نے سوچا کہ اگر اس کے گاؤں میں بھی یہ سہولت آن موجود ہو تو ان لوگوں کی زندگی کس قدر آسان ہوجائے۔ لیکن سرمایے کی کمی اس کی راہ کی رکاوٹ تھی۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    اس نے مکمل معلومات حاصل کیں تو ایک چھوٹا سا سولر پینل اسے 8 ہزار روپے میں پڑ رہا تھا جو صرف گاؤں کے کسی ایک گھر کو روشن کرسکتا تھا۔ مزید برآں اس میں کسی خرابی کی صورت میں نہ صرف شہر سے کسی ماہر کو بلوانا پڑتا بلکہ اس پر خرچ کی جانے والی رقم الگ ہوتی۔

    لیکن حاتم اس عزم کے ساتھ واپس لوٹا کہ وہ بجلی کی اس نعمت کو ضرور اپنے گھر لائے گا۔

    اس کے بعد اس نے اپنی محنت مزدوری کے کام میں اضافہ کردیا اور اضافی حاصل ہونے والی آمدنی کو جمع کرنے لگا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں رہتے ہوئے اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہوئے کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ 8 ہزار روپے کا حصول کسی کی زندگی کا مقصد بھی ہوسکتا ہے؟ اتنی رقم تو شاید شہر کراچی کے لوگ ایک وقت کے کھانے یا شاپنگ پر خرچ کردیا کرتے ہیں۔

    بہرحال حاتم کے پاس رقم جمع ہونے لگی اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ 8 ہزار روپے جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن اس سے قبل وہ ایک اور کام چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سولر پینل کی تنصیب کے بعد اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہو تو اسے کسی کا محتاج نہ ہونا پڑا، اور وہ خود ہی اسے درست کر سکے۔

    سولر پینل کے سسٹم کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اسے کراچی آنے اور مزید کچھ رقم کی ضرورت تھی اور وہ جلد ہی وہ بھی حاتم نے حاصل کرلی۔

    پھر ایک دن وہ بھی آیا جب وہ شہر سے واپس آیا تو اس کے ساتھ یہ سولر پینل اور ایک شخص تھا جو ایک جھونپڑی پر اس کی تنصیب کر کے چلا گیا۔

    اتنی محنت اور مشقت سے حاصل کیا جانے والا یہ سولر پینل حاتم نے اپنی جھونپڑی پر نصب نہیں کروایا، بلکہ جس جھونپڑی پر یہ سولر پینل نصب کیا گیا ہے اسے اس گاؤں کے اوطاق کی حیثیت دے دی گئی ہے۔

    سولر پینل لگنے کے بعد اب اس اوطاق میں سر شام خواتین کی محفل جمتی ہے، جبکہ رات میں مرد اکٹھے ہو کر ایک دوسرے سے اپنے دکھ سکھ بیان کرتے ہیں۔ سولر پینل سے آراستہ یہ جھونپڑی اندر سے نہایت خوبصورت ہے اور اس میں جا بجا روایتی کڑھائی سے مزین فن پارے اور طغرے آویزاں ہیں جو خواتین کی اس جھونپڑی سے محبت کا ثبوت ہیں۔

    ذرا سے فاصلے پر واقع چند گھروں پر مشتمل مختلف گاؤں دیہاتوں میں اس جھونپڑی کے علاوہ ایک اور جھونپڑی بھی ایسی ہے جس پر سولر پینل نصب ہے۔

    یہ گھر بھی تقریباً اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں باقاعدہ کسی کی رہائش نہیں ہے۔

    حاتم چاہتا ہے کہ اس کے گاؤں کو بجلی سے روشن کرنے کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ مخیر حضرات بھی آگے آئیں تاکہ ان کا دن بھی روشنی کی وجہ سے دن اور رات پر مشتمل ہوسکے، بغیر بجلی کے سورج کی روشنی اور صرف رات کے گھپ اندھیرے اور مایوسی تک نہ محدود رہے۔

  • جنوبی پنجاب کے اسکولوں میں سولر پینل لگانے کی منظوری

    جنوبی پنجاب کے اسکولوں میں سولر پینل لگانے کی منظوری

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے کے 17 ہزار اسکولوں میں سولرپینل لگانے کا اعلان کیا ہے ، پہلے مرحلے میں جنوبی پنجاب کے اسکولوں میں سولر پینل لگانے کی منظوری دے دی۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا جس میں صوبے میں تعلیم کے فروغ کے لیے مختلف اقدامات کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔

    اجلاس میں اسکولوں میں اضافی کمروں کی تعمیر،سولر پینلز پروگرام پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا، پہلے مرحلے میں جنوبی پنجاب کے اسکولز میں سولر پینلز لگانے کی منظوری دے دی گئی۔

    وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ صوبے کے 17 ہزار اسکولوں میں سولر پینلز لگائے جائیں گے،جنوبی پنجاب میں چھٹی سے دسویں تک طالبات کا وظیفہ ایک ہزار کردیا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ پروگرام کے لیے 5 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔

    یہ پڑھیں: پنجاب کے اسکولوں میں‌ قرآن مجید کی تعلیم لازمی قرار

    پنجاب حکومت کی جانب سے اسکولوں میں تعمیری اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، قبل ازیں پنجاب حکومت نے سرکاری تعلیمی نصاب میں قرآن مجید کی تعلیم کو لازمی قرار دیا،پہلی سے پانچویں جماعت تک ناظرہ کی جبکہ چھٹی سے دسویں جماعت تک کے طلبہ کو ترجمے کے ساتھ قرآن مجید کی تعلیم دی جائے گی تاہم دس سے بارہویں جماعت تک قرآنی احکامات پر مبنی سورتیں پڑھائی جائیں گی۔

    یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے اسکولوں میں‌ ٹریفک قوانین پڑھانے کا فیصلہ

    قبل ازیں پنجاب حکومت نے ٹریفک قوانین کی آگاہی دینے کے لیے اسے اسکولوں میں پڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

  • اے سی جیسی ٹھنڈک پہنچانے والا مٹیریل تیار

    اے سی جیسی ٹھنڈک پہنچانے والا مٹیریل تیار

    میامی: امریکی سائنسدانوں نے ایک ایسی باریک تہہ تیار کی ہے جو گرمیوں میں کسی بھی قسم کی توانائی استعمال کیے بغیر کسی ایئر کنڈیشنر جیسی ٹھنڈک فراہم کرسکتی ہے۔

    گلاس اور پولیمر سے تیار کی جانے والی یہ تہہ 50 مائیکرو میٹرز سے بھی باریک ہے۔ اسے تیار کرنے کا طریقہ بھی نہایت آسان اور سستا ہے۔

    یونیورسٹی آف کولوراڈو میں مذکورہ پروجیکٹ پر کام کرنے والے ایک محقق کہتے ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دیکھتے ہوئے ایسی اشیا کی ضرورت میں اضافہ ہوگا جو عمارتوں کو ٹھنڈا رکھ سکیں۔

    ac-1

    اس مٹیریل کو نہ صرف بڑی عمارتوں میں ٹھنڈک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا بلکہ یہ شمسی توانائی کے پینلز کو بھی ٹھنڈا رکھ کر ان کی عمر بڑھانے میں معاون ثابت ہو گا۔

    اس کا استعمال ان پاور پلانٹس اور صنعتوں کے لیے بہترین ہوگا جہاں بھاری مشینری کو سرد رکھنے کے لیے بڑے بڑے پنکھے اور ایئر کنڈیشنرز نصب کیے جاتے ہیں۔ ان مقامات پر اس مٹیریل کی تنصیب توانائی اور پیسے دونوں کی بچت میں مددگار ہوگی۔

    مزید پڑھیں: ماحول دوست پورٹیبل اے سی تیار

    اسے تیار کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 10 سے 20 اسکوائر میٹر کی سطح پر اس کی تنصیب ایک چھوٹے گھرانے کی ٹھنڈک پہنچانے کی ضروریات پوری کرسکتی ہے۔

    یہ مٹیریل وزن میں نہایت ہلکا ہے جبکہ اس کو بآسانی موڑا جاسکتا ہے۔ تاحال اسے فروخت کے لیے پیش نہیں کیا گیا، البتہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس میں مزید تبدیلیاں کر کے بہت جلد اسے مارکیٹ میں پیش کردیں گے۔