Tag: سوموٹو نوٹس

  • جب ضروری ہوگا تب ہی عدالت سو موٹو نوٹس لے گی: چیف جسٹس

    جب ضروری ہوگا تب ہی عدالت سو موٹو نوٹس لے گی: چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ کسی کے مطالبے پر لیا جانے والا سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا، جب ضروری ہوا عدالت سو موٹو نوٹس لے گی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ سوسائٹی کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹو ازم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے اور وہی طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹو ازم پر تنقید کرتا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آئین و قانون کے مطابق کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ عدالتی عمل میں دلچسپی رکھنے والے درخواست دیں، سن کر فیصلہ ہوگا۔ تقریر میں کہہ چکا ہوں سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے امور پر استعمال ہوگا۔ جو کسی کے مطالبے پر لیا جائے وہ سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا۔ جب ضروری ہوا عدالت سو موٹو نوٹس لے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سو موٹو پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ ہے اور کم نقصان دہ ہے۔ جوڈیشل ایکٹو ازم کے بجائے جوڈیشل ازم کو فروغ دے رہے ہیں۔ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر زیر التوا مقدمات کی تعداد 1.81 ملین (18 لاکھ 10 ہزار) تھی۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق یہ تعداد کم ہو کر 1.78 ملین (17 لاکھ 80 ہزار) رہ گئی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 19 ہزار 751 مقدمات کا اندراج ہوا، گزشتہ سال عدالت عظمیٰ نے 57 ہزار 684 مقدمات نمٹائے۔ دنیا بھر میں پہلی بار سپریم کورٹ نے ای کورٹ سسٹم متعارف کروایا۔ ای کورٹ سے سپریم کورٹ پرنسپل سیٹ اور رجسٹریاں منسلک ہوئیں۔ امریکا میں سول ججز کی تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس دنیا کا مستقبل ہے۔ از خود نوٹس سے متعلق مسودہ آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک تیار کر لیا جائے گا۔ مسئلے کو بھی ایک دفعہ ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو مشکل ترین کام قرار دے دیا، انہوں نے کہا کہ آئین صدر کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کا اختیار دیتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کر سکتی۔ صدر کی کسی جج کے خلاف شکایت جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی، دوسری جانب کونسل اپنی کارروائی میں آزاد اور با اختیار ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال سپریم جوڈیشل کونسل میں نجی درخواستوں کی تعداد 56 تھی، گزشتہ سال کونسل میں 102 شکایات کا اندراج ہوا۔ گزشتہ عدالتی سال میں کونسل میں 149 شکایات نمٹائی گئیں۔ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں صرف 9 شکایات زیر التوا ہیں۔ 9 شکایات میں صدر مملکت کی جانب سے دائر 2 ریفرنس بھی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صدر کی جانب سے بھجوائے گئے دونوں ریفرنسز پر کونسل کارروائی کر رہی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ارکان اور چیئرمین اپنے حلف پر قائم ہیں۔ کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر کام جاری رکھے گی۔ انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی توقع نہ رکھی جائے۔

  • بلوچستان میں پانی کی قلت: سابق وزرائے اعلیٰ سپریم کورٹ میں پیش

    بلوچستان میں پانی کی قلت: سابق وزرائے اعلیٰ سپریم کورٹ میں پیش

    اسلام آباد: بلوچستان میں پانی کی قلت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سابق وزیر اعلیٰ سے استفسار کیا کہ بلوچستان میں جھیلیں سوکھ گئی ہیں، آپ نے کیا اقدامات کیے؟ عبد المالک بلوچ نے کہا کہ لا اینڈ آرڈر کے بغیر کچھ درست نہیں ہوسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صوبہ بلوچستان میں پانی کی قلت سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران سابق وزرائے اعلیٰ ثنا اللہ زہری اور عبد المالک بلوچ عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنے صوبے میں پانی کی صورتحال سے مطمئن ہیں؟ بلوچستان میں جھیلیں سوکھ گئی ہیں، آپ نے کیا اقدامات کیے؟

    انہوں نے کہا کہ بجٹ کا ایشو مت بتائیے گا کہ پیسہ نہیں ہے۔

    سابق وزیر اعلیٰ عبد المالک بلوچ نے کہا کہ حکومت کو فعال کرنے کی بہت کوشش کی۔ لا اینڈ آرڈر کے بغیر کچھ درست نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں پانی ختم ہو رہا ہے۔ آپ اپنی حکومت میں پانی کی قلت ختم کرتے، لوگوں کو پانی فراہم کر دیتے۔ آپ اپنے 5 سالہ دور میں صحت، تعلیم اور پانی پر اپنے اقدامات بتائیں۔ عدلیہ بلوچستان کے حالات سے متعلق کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

    عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جن لوگوں نے کام کیا عدالت ان کی ستائش کرے۔ جن لوگوں نے کام نہیں کیا ان کی سرزنش کریں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو وفاق سے اس کا حصہ نہیں ملتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سیاسی بات نہیں کرتے۔

    سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پانی کے لیے بجٹ میں ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا۔ ہم نے بڑے اور چھوٹے ڈیمز پر کام شروع کیے تھے۔ کچھ ڈیمز مکمل اور کچھ پر کام ہو رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کا ڈیم 35 فیصد مکمل ہوچکا ہے جبکہ گوادر ڈیم کا تعمیراتی کام بھی مکمل ہوچکا۔

    سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ سنہ 2013 سے 2015 تک جرائم کی شرح میں کمی ہوئی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ان دنوں ہزارہ برادری کے قتل عام میں کمی ہوئی؟ جس پر عبد المالک بلوچ نے کہا کہ 258 قتل کی وارداتیں کم ہو کر 48 پر آگئی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ جب اقتدار سنبھالا تو فرقہ واریت سے 248 افراد ہلاک ہوئے۔

    عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ کہ سابق آئی جی کو بلا کر پوچھ لیں میں نے پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں کی۔ تعلیم کے بجٹ کو 4 فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد تک کردیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں 6054 اسکولوں کی دیوار اور ٹوائلٹ نہیں ہیں۔

    عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ابھی بھی کئی علاقوں میں شر پسند موجود ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ دونوں آئی جی ایف سی کو بلالیں۔

    سابق وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری نے کہا کہ ہمارے دور میں حالات بہتر ہوتے ہیں۔ ہم نے سب سے پہلے لا اینڈ آرڈر کو بہتر کیا۔ ’5 بجے کے بعد لوگ گھروں میں چلے جاتے تھے‘۔

    انہوں نے کہا کہ سریاب کے علاقے میں لوگ جا نہیں سکتے تھے۔ سریاب کا نام لوگوں نے فضائی مٹی رکھ دیا تھا۔

    بعد ازاں عدالت نے امن و امان سے متعلق جنوبی اور شمالی آئی جیز فرنٹیئر کورپس (ایف سی) کو جمعہ طلب کرلیا۔

    پانی کی قلت سے متعلق کیس کی مزید سماعت کل شام 7 بجے تک ملتوی کردی گئی۔ عدالت نے حکم دیا کہ سابق وزیر اعلیٰ سفارشات کے ساتھ حاضری یقینی بنائیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔