Tag: سویلینز کا ٹرائل

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی استدعا مسترد

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے کیس میں زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلیئنز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث بیمار ہیں، خواجہ حارث کےمعدےمیں تکلیف ہےاس لئے پیش نہیں ہوسکتے۔

    مزید پڑھیں : فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد

    عدالت نے زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کےحوالےسےاٹارنی جنرل یقین دہانی کروا چکےہیں، مقدمہ سن رہے ہیں فی الحال کسی اور طرف نہ جائیں۔

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلیئنز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: ملزمان سے غیر انسانی سلوک نہ کرنے کا حکم

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: ملزمان سے غیر انسانی سلوک نہ کرنے کا حکم

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ نے ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ملاقاتوں میں آئندہ تعطل نہیں ہوناچاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف فیصلہ پر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے۔

    جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا آپ ملزمان کے ساتھ سلوک تو انسانوں والا کریں، جسٹس عرفان سعادت نے کہا اٹارنی جنرل صاحب انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہوسکتا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ پہلے بتاتے تھے ہر ہفتہ ملزمان کی فیملی سے ملاقات ہوتی ہے، آپ اس کو جاری کیوں نہیں رکھتے؟ اٹارنی جنرل آپ کا بیان عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

    لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ایک ملزم کو فیملی سے نہیں ملنے دیا گیا، اس کا پانچ سالہ بچہ فوت ہوگیا۔

    ملٹری کورٹس میں ملزمان سے ملاقاتوں کے فوکل پرسن برگیڈیر عمران عدالت میں پیش ہوئے، اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل دیئے۔

    جسٹس امین الدین خان نے کہا زیر حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو کہا متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ ملاقات کرانے کا حکم عدالت کا ہے، تسلیم کرتا ہوں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے تھا، آج دو بجے زیرحراست افراد کو اہلخانہ سے ملوایا جائے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جن سے تفتیش مکمل ہوچکی وہ جیلوں میں کیوں نہیں بھیجے گئے؟ تفتیش کیلئے متعلقہ اداروں کے پاس ملزم رہے تو سمجھ آتی ہے، تفتیش مکمل ہوچکی تو ملزمان کو جیلوں میں منتقل کریں۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جیلوں میں منتقلی میں کچھ قانونی مسائل بھی ہیں، جس پر جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا انسانوں کیساتھ غیرانسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے، ہم چاہتے ہیں کم از کم آج اس کیس کی میرٹ پر سماعت شروع کریں۔

    جسٹس محمد علی مظہرنے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہااپیل میں عدالت نے اصل فیصلہ میں غلطی کو دیکھنا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل آپ کو ہمیں اصل فیصلہ میں غلطی دکھانا ہوگی۔

    جسٹس شاہد وحید نے کہاہم اپیل میں آپ کو سن رہے ہیں، ساتھی جج نے آپ کو جواب دیا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ میں نے کوئی جواب نہیں دیا، ایک قانونی نکتے کی بات کی ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل دیں ہم جو ہوا فیصلے میں دیکھ لیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا عدالتی حکم پر آج ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ ملاقاتیں رکی کیوں اٹارنی جنرل نے کہا صرف لاہور میں ملاقاتوں کا ایشو بنا ایسا دوبارہ نہیں ہوگا، ملاقات کیلئے ہر مرتبہ حکم دینا مناسب نہیں ہوگا۔

    جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے تحقیقات مکمل ہو چکی تو ملزمان جیل میں کیوں ہیں ملزمان اگر جیل میں ہوتے تو ملاقاتوں کو مسئلہ پیدا نہ ہوتا تو اٹارنی جنرل نے کہا آرمی رولز میں ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ کا ذکر نہیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا سزا کے بعد جو ہولیکن رویہ انسانوں والا ہونا چاہیے جبکہ جسٹس عرفان سعادت نے کہا بھی انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا استفسار کیا ہفتے میں کتنی مرتبہ ملاقاتیں ہوتیں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا ہر ہفتہ میں ایک ملاقات کروائی جا رہی ہے تو جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہرمرتبہ 25-20 منٹ کیس انہی باتوں پر چلتا ہے، مرکزی کیس چل ہی نہیں رہا ملاقاتوں میں آئیندہ تعطل نہیں ہونا چاہیے۔

    دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے بات کرنے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے لطیف کھوسہ کو بات کرنے سے روک دیا۔

    جسٹس عرفان سعادت نے کہا کھوسہ پلیز کیس چلنے دیں، ہم ججز کی خواہش ہے کہ آج کیس کو چلائیں، لطیف کھوسہ صاحب پلیز مناسب نہیں اج مقدمہ چلنے دیں، جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا میاں عباد کا پانچ سالہ بیٹا فوت ہوا ملنے نہیں دیا گیا۔

    بریگیڈیئر عمران نے کہا میں فوکل پرسن ہوں تمام ملزمان کے وارثان کو نمبر بھی دیا گیا ہے، عدالت نے ہدایت کی کہ جس ملزم کا بچہ فوت ہوا اس کی ترجیحی بنیاد پر ملاقات کروائی جائے۔

    جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر کے درمیان پھر جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس شاہد وحید نے کہا جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ ہمیں غلطی دکھائے بغیر ہم سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں، اپیل میں اگر کیس آیا ہے، تو کھر سب کچھ کھل گیا ہے، یہ نکتہ نظر میرے ساتھی کا ہوسکتا ہے میرا نہیں، اگر اپیل میں سب کچھ ہوسکتا ہے تو کیا ہم کیس ریمانڈ بیک بھی کرسکتے ہیں؟

    جسٹس عرفان سعادت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آپ ایک جواب دے سکتے ہیں کہ یہ نظر ثانی نہیں اپیل ہے۔

    جسٹس جمال خان مندو نے کہا اٹارنی جنرل آپ یہی کہہ رہے ہیں نا کہ اپیل کا اسکوپ وسیع ہے، بس آگے چلیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی یہاں عدالت کے سامنے ایک قانون کا دفاع کرنے کھڑا ہے، عدالت کو اس بات کو سراہنا چاہیے، جس قانون کو کالعدم کیا گیا وہ ایسا تنگ نظر قانون نہیں تھا جیسا کیا گیا۔

    اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ کی کالعدم شقوں سے متعلق دلائل دیئے، جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کیا اپیل کا حق ہر ایک کو دیا جا سکتا ہے؟ ہر کسی کو اپیل کا حق دیا گیا تو یہ کیس کبھی ختم نہیں ہوگا۔

    جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کل کو عوام میں سے لوگ اٹھ کر آجائیں گے کہ ہمیں بھی سنیں، ایک قانون سارے عوام سے متعلق ہوتا ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے متاثرہ فریق ہونا ضروری ہے، اپیل دائر کرنے کے لیے جسٹس محمد علی مظہر نے کہااس حد تک جسٹس شاہد وحید سے متفق ہوں، متاثرہ فریق ہونا لازم ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کیا اس کیس میں اپیل دائر کرنے کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری ضروری نہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ منظوری لازم نہیں ہے۔

    اٹارنی جنرل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سننے کی استدعا کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے۔

    جسٹس امین الدین نے کہا خواجہ صاحب ایک دو چیزیں پہلے نوٹ کر لیں، بظاہر یہ کیس عدالت میں 9 مئ واقعات پر آیا، اس کیس میں کیا قانونی شقیں چیلنج ہوسکتی تھی۔

    فیصل صدیقی ایڈوکیٹ وڈیو لنک پر پیش ہوئے، فیصل صدیقی نے کہا.میں نے متفرق درخواست دائر کر رکھی ہے کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے نہیں آسکتا، خواجہ حارث کے دلائل سے پہلے میری درخواست نمٹائیں ورنہ غیر موئثر ہوجائے گی۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پہلی بار تو نہیں ہوا کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے آیا ہو، فیصل صدیقی نے کہا عدالت کی بار اس پریکٹس کی حوصلہ شکنی کر چکی ہے، نجی وکیل کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بطور جج دیا تھا، فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کے پاس متعلقہ کیس پر مہارت نہ ہو تو ہی نجی وکیل کیا جا سکتا ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کو لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ ان کے پاس متعلقہ مہارت نہیں ہے، موجودہ کیس آئینی نکات کا جس پر اٹارنی جنرل خود پیش ہو رہے ہیں، اٹارنی جنرل کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا وکیل پیش نہیں ہو سکتا، جس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا اٹارنی جنرل کو اختیار ہے جس وکیل سے چاہے معاونت لے سکتا ہے، عدالت نے خواجہ حارث کو وزارت دفاع کی جانب سے دلائل دینے کی اجازت دے دی۔

    سپریم کورٹ نے ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ملاقاتوں میں آئندہ تعطل نہیں ہوناچاہیے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ فیصلہ سنادیا گیا

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ فیصلہ سنادیا گیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کا فیصلہ مشروط  طور پر معطل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    بینچ میں جسٹس امین الدین ،جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق محفوظ فیصلہ سنا دیا ،انٹراکورٹ اپیل پر فیصلہ 1-5 سے سنایا، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا گیا۔

    سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے ملٹری کورٹس سے متعلق فیصلہ مشروط طورپرمعطل کیا اور کہا فوجی عدالتیں ٹرائل شروع کر سکتی ہیں تاہم حتمی فیصلہ اپیل سے مشروط ہو گا۔

    سپریم کورٹ کے جسٹس مسرت ہلالی نے انٹراکورٹ اپیل پر فیصلے سے اختلاف کیا۔

    یاد رہے 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے 5رکنی لاجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کو غیرآئینی قرار دیا تھا، جس کے بعد انٹراکورٹ اپیلیں وفاقی حکومت،وزارت دفاع اور ،صوبائی حکومتوں کی جانب سےدائرکی گئی ہیں۔

    یاد رہے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فیصلہ چار ایک کی بنیاد پر سنایا، فیصلے میں سپریم کورٹ نے ملڑی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی کو ائین کے بر خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے جرم کی نوعیت کےاعتبارسےمقدمات عام عدالتوں میں چلائیں جائیں گے۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت آج ہوگی

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت آج ہوگی، عدالت نے مقدمے کے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر رکھا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی۔

    جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا، جسٹس امین الدین خان،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

    سپریم کورٹ نے مقدمے کے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر رکھا ہے جبکہ جواد ایس خواجہ نے بنچ سربراہ جسٹس سردار طارق کی موجودگی پراعتراض اٹھا رکھا ہے۔

    جوادایس خواجہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں سے متعلق 9 رکنی بنچ بنایاتھا، اُس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جسٹس سردار طارق نےسننے سے معذرت کی، جسٹس سردار طارق 26 جون کو نوٹ میں رائے دے چکے کہ معاملہ ہائیکورٹ میں چیلنج ہونا چاہیے تھا۔

    یاد رہے 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے 5رکنی لاجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل کو غیرآئینی قرار دیا تھا، جس کے بعد انٹراکورٹ اپیلیں وفاقی حکومت،وزارت دفاع اور ،صوبائی حکومتوں کی جانب سےدائرکی گئی ہیں۔

    یاد رہے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فیصلہ چار ایک کی بنیاد پر سنایا، فیصلے میں سپریم کورٹ نے ملڑی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی کو ائین کے بر خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے جرم کی نوعیت کےاعتبارسےمقدمات عام عدالتوں میں چلائیں جائیں گے۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کیخلاف اپیل دائر

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کیخلاف اپیل دائر

    اسلام آباد : نگراں سندھ حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کیخلاف اپیل دائر کر دی ، جس مین کہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کیخلاف اپیل دائر کر دی ، سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں بذریعہ ایڈووکیٹ جنرل درخواست دائرکی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہوناچاہیے۔

    ،درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے قانون اور حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا، استدعا ہے کلہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کی جائے۔

    سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ ملزمان نے خود درخواست دی کہ انکا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی کیاجائے، فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنےکافیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے۔

    سندھ حکومت نے اپیل پر فیصلےتک سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنےکی بھی استدعا کی۔

    خیال رہے 23 اکتوبرکو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینزکا ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔

  • 9 مئی: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع، حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

    9 مئی: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع، حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

    اسلام آباد: سانحہ 9 مئی سے متعلق فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع ہوگیا اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت کو متفرق درخواست میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق  آگاہ کیا ہے۔

    وفاقی حکومت کی متفرق درخواست کے مطابق 9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں 102 افراد گرفتار کیے گئے، گرفتار کیے گئے افراد کے انصاف کے حق کیلئے فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع کیا گیا ہے، زیر حراست افراد کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل میں جو قصور وار ثابت نہیں ہو گا وہ بری ہو جائے گا، فوجی عدالتوں میں ہونیوالا ٹرائل سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوگا اس واقعات میں ملوث جو افراد جرم کے مطابق قید کاٹ چکے انہیں رہا کر دیا جائے گا۔

    سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

    متفرق درخواست میں کہا گیا کہ فوجی ٹرائل کے بعد سزا یافتہ قانون کے مطابق سزاؤں کیخلاف متعلقہ فورم سے رجوع کر سکیں گے۔

    درخواست کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 اگست کے حکم نامےکی روشنی میں عدالت کو ٹرائلزکے آغاز سے مطلع کیا جارہا ہے، فوجی تحویل میں لیے گئے  افراد کوپاکستان آرمی ایکٹ 1952 اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت گرفتارکیا گیا تھا، گرفتار افراد جی ایچ کیو راولپنڈی اور کورکمانڈر ہاؤس لاہورپر حملے میں ملوث ہیں، گرفتار افراد پی اے ایف بیس میانوالی، آئی ایس آئی سول لائنز فیصل آباد پرحملے میں بھی ملوث ہیں۔

    درخواست کے مطابق گرفتار افراد حمزہ کیمپ، بنوں کیمپ اورگوجرانوالہ کیمپ پرحملے میں ملوث ہونے پرتحویل میں ہیں۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل :  فل کورٹ سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : فل کورٹ سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل میں فل کورٹ کی درخواست پر محفوظ کرلیا ، محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی نے ملٹری کورٹس کے معاملے پر فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے،ہم جواد ایس خواجہ کے وکیل کو سنیں گے، جس پر وکیل درخواست گزار خواجہ حسین احمد نے بتایا کہ میرے موکل سابق چیف جسٹس ہیں، میرےموکل کی ہدایت ہے عدالت میرے ساتھ برتاؤ عام شہری کی طرح کرے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سابق چیف جسٹس جوادایس خواجہ گوشہ نشین انسان ہیں ، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی آئینی درخواست غیر سیاسی ہے، کیا فیصل صدیقی صاحب چھپ رہےہیں تو وکیل جوادایس خواجہ نے کہا کہ میرے موکل چاہتے ہیں ان کے نام کے ساتھ چیف جسٹس نہ لگایا جائے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اسی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں۔

    فیصل صدیقی نے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست پر دلائل شروع کر دئیے اور کہا حکومت کی جانب سےبینچ پر جو اعتراضات اٹھائےگئےہماری درخواست کا اس سےتعلق نہیں ، پہلے میں واضح کروں گاکہ ہماری درخواست الگ کیوں ہے۔

    سپریم کورٹ نے پہلے فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق درخواستوں کو سننے کا فیصلہ کرلیا ، فیصل صدیقی نے بتایا کہ ہم نےفل کورٹ تشکیل دینےمیں 3وجوہات بیان کیں، پرویز مشرف بھی فل کورٹ فیصلے کی مخالفت نہ کر سکا ، جسٹس منصور علی شاہ جسٹس یحییٰ آفریدی نےبھی فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی۔

    فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل بتا چکے ہیں کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمر قید نہیں ہو گی اور اٹارنی جنرل یقین دہانی کرا چکے عدالت کے علم میں لائے بغیر ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہو گا، فیصل صدیقی

    انھوں نے مزید کہا کہ سیاستدانوں اور وزرا کی جانب سے عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے گئے، جب اداروں کے درمیان تصادم کا خطرہ ہو تو فل کورٹ بنانی چاہئے، فل کورٹ کا بنایا جانا ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کچھ ججز نے کیس سننے سے معذرت کی ہے تو فل کورٹ کیسے بنائیں تو فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کا جواب ایف بی علی کیس میں ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ دونوں بنیادی سوالات پر اٹارنی جنرل کا مؤقف ابھی سامنے آنا ہے، فل کورٹ درخواست بہترین لکھی گئی ہےاس لئے دلائل سننا چاہیں گے۔

    جس پروکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ فل کورٹ کی درخواست کا بینچ پر اعتراض سے کوئی تعلق نہیں، فل کورٹ کی درخواست کا مقصد موجودہ بینچ پر عدم اعتماد نہیں، حکومتی وزرانے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا۔

    فیصل صدیقی نے کہا کہ انتخابات کیس میں بھی حکومت نےفیصلے پر تاحال عمل نہیں کیا، فل کورٹ فیصلے کو فوجی آمروں نے بھی ہمیشہ تسلیم کیا ہے، انتظامیہ کے ساتھ مقابلہ پوری سپریم کورٹ ہی کرسکتی ہے،دنیا بھر میں عدلیہ اور حکومت کی محاذ آرائی ہوتی رہی ہے، دیگرممالک میں بھی عدلیہ نے سامنے آکرانتظامیہ کاسامنا کیا تھا۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ فل کورٹ سے مقدمہ تاخیر کا شکار نہیں ہوگا، پہلے تو علم ہی نہیں تھا کہ ملزمان کہاں ہیں، ملزمان کے سامنے آنے پر معمولی تاخیر بھی قابل قبول ہے،اٹارنی جنرل ٹرائل شروع نہ ہونے،سزائے موت یالمبی قید نہ ہونے کی یقین دہانی کرا چکے۔

    فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ عدالت فل کورٹ کیلئےمعاملہ چیف جسٹس کوبھجوا کر ٹرائل پرحکم امتناع دے سکتی ہے، جو ججز بینچ سے علیحدہ ہوچکے ان کے سوا دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایاجائے، یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی وجہ سے بہت اہم ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کے لیے یہ پہلی درخواست آئی ہے، ہم باقی درخواست گزاروں کا موقف بھی سننا چاہتے ہیں۔

    درخواست گزار اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ یہ سب میرے لیے حیران کن ہے کہ اس مرحلے پر بینچ کی تشکیل کو چیلنج کیا گیا، ہم سپریم کورٹ کی تکریم کے لیے جیلوں میں گئے، اعتزاز احسن

    اعتزاز احسن نے فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا کی مشروط حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل سے مقدمہ تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے، ملزمان کو عدالتی تحویل میں جیل بھیجا جائے توفل کورٹ پر آمادہ ہوں، پہلے ہم نے خود فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔

    اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سینئر وکلاعدلیہ میں اسٹیک ہولڈر ہیں،عدلیہ اور بینچ پر مکمل اعتماد ہے، ضیاالحق دور میں بھی عدلیہ کیخلاف اقدامات پر احتجاج کیا اور جیل گیا، یہ سن کر تکلیف ہوئی کہ دو ججز نے کہا وہ بینچ کو تسلیم ہی نہیں کرتے ، عدلیہ کو بینچ کے تنازعات پر اسٹینڈ لینا ہوگا، فوجی حراست میں موجود ملزمان کیخلاف ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔

    دوران سماعت لطیف کھوسہ نے کہا کہ فوجی تحویل میں ملزمان کی حالت اچھی نہیں ہے، ایک مجسٹریٹ نے ملزم کا اعترافی بیان لینے سے بھی انکار کیا تھا، مجسٹریٹ نے کہا ملزم تو اپنے پاؤں پر کھڑا تک نہیں ہوسکتا بیان کیسےلوں۔

    وکیل لطیف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ عوامی اہمیت کا حامل مقدمہ ہے، چھ رکنی بینچ بھی فل کورٹ ہی ہے، وزارت دفاع نے تو چیف جسٹس سمیت 2ججز پر بھی اعتراض کیا ہے، عدالتوں کا مذاق بنایا جا رہا ہے، مناسب ہوگا کہ موجودہ بینچ خود ہی مقدمہ کی سماعت جاری رکھے۔

    اعتزاز احسن نے دلائل میں کہا کہ ہمیں اس بینچ پو مکمل اعتماد ہے ،عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بینچ میں شامل کیا تھا،  2ججز کے اٹھ جانے کے بعد یہ ایک طرح کا فل کورٹ بینچ ہی ہے، میں خود1980 میں دیگر وکلاکے ساتھ گرفتار ہواتھا، مارشل لاکے خلاف کھڑے ہوئے تھے دو ججز اٹھنے سے کوئی تنازع نہیں ، 102افراد کو ملٹری کے بجائے جوڈیشل حراست میں رکھا جائے۔

    درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ ، سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے بھی فل کورٹ کی مخالفت کر دی۔

    سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن کی حمایت کرتا ہوں کہ اس کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے، سلمان اکرم راجہ

    سپریم کورٹ نے فل کورٹ سےمتعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بینچ جلد کسی رائےپر پہنچ گیا تو 15منٹ میں آگاہ کر دیا جائے گا، کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو کل مقدمے کی سماعت کریں گے۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی، سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ فل کورٹ کی درخواست پر محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

  • سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

    سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف کیس میں چیف جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نو مئی سے متعلق فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔

    لارجربینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کیس میں جو بھی ہوگاوہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے، آپ کے مطابق ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا تفتیش چل رہی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی ملزم کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا تو جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نوٹ کر رہے ہیں کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا، شواہد ریکارڈ کئےجائیں گے اور ٹرائل کھلی عدالت میں ہو گا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کے دوران ملزمان کے اہلخانہ اور وکلاکو آنے کی اجازت ہوگی۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کو سیل میں رکھا گیا ہے یا کمروں میں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو جیل میں ہی رکھا گیا ہے لیکن دہشتگردوں کی طرح نہیں، تمام گرفتار افراد کو تمام تر ضروری سہولتیں دی گئی ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ گرفتار افراد پر دماغی یا جسمانی تشدد نہیں ہونا چاہئے، ہم کسی ریٹائرڈ جج کو102افراد سےملاقات کیلئےفوکل پرسن مقرر کرسکتےہیں، جس پر اتارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اس حوالے سے میں آپ کوان چیمبر بتاؤں گا، ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے، تو لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ دور کا ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں ، اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل :  وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس منیب اختر بینچ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

    صدرسپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ 1999سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس سے اصول طے ہے، اصول طے ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے،پانچ نکات پر عدالت کی معاونت کروں گا۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے آپ کی رائے آنا اچھا ہوگا ، عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 83اے پر دلائل کا آغاز کروں گا، آرٹیکل 83 اے ک ےتحت سویلینزکا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا،21 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلے میں عدالت نےجوڈیشل ریویوکی بات کی، بنیادی نکتہ یہ ہے جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسےجوڑا جائے گا۔

    صدرسپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں ، عدالتی کہہ چکی ملزمان کا براہ راست تعلق ہوتوہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سوال یہ ہے کیا بغیر آئینی ترمیم سویلینز کا فوجی عدالتوں ٹرائل ہوسکتا ہے۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اپنا موقف واضح کریں کیا ملزمان کا تعلق جوڑناٹرائل کیلئےکافی ہوگا؟ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا؟ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ سویلینزکا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق ٹرائل کےلئے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کےمطابق تعلق جوڑنے، آئینی ترمیم کے بعد سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیرٹرائل کیا گیا تھا، فوج سےاندرونی تعلق ہوتوکیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟ عابدزبیری نے بتایا کہ سویلینزکےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کیلئےترمیم ضروری ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اگرملزمان کااندرون تعلق ثابت ہوجائےتوکیاہوگا؟ جس پر صدر سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کےلئے خاص ترمیم کرنا ہوگی، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، ہمیں معلوم نہیں ملزمان کےفوج عدالتوں میں مقدمات چلانےکاپیمانہ کیاہے۔

    عابد زبیری کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات سننےوالےجوڈیشل کےبجائےایگزیکٹوممبران ہوتےہیں، 21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کےلئےتھیں، 21ویں ترمیم کےبعدسپریم کورٹ نے اجازت تودی مگرریویو کا اختیار بھی دیا، سپریم کورٹ نے دائرہ اختیاریااختیارات سے تجاوز بدنیتی پرجوڈیشل ریویوکااختیاردیا۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کیا آپ کہہ رہے ہیں پہلےعام عدالتوں میں فردجرم لگےپھرمعاملہ ملٹری کورٹس جائے؟ جس پر انھوں نے بتایا کہ قانون میں ملزم کا لفظ ہی ہے جب تک فرد جرم عائد نہ ہو بندہ مجرم نہیں ہوتا۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے مزید کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کیس پہلے عام عدالت میں چلے پھر ملٹری کورٹس جاسکتاہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لیاقت حسین کیس میں کہاگیاملٹری اتھارٹیز تحقیقات کرسکتی ہیں سویلین کا ٹرائل نہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کس پر آرمی ایکٹ لگے گا کس پرنہیں ؟ عابد زبیری نے کہا کہ تحقیقات کرنا پولیس کا کام ہے،پولیس ہی فیصلہ کرے گی۔

    صدرسپریم کورٹ بارعابدزبیری نےمختلف امریکی عدالتی فیصلوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی فوج کی جانب سے حراست بھی غیر قانونی ہے۔

    صدرسپریم کورٹ بارعابدزبیری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا عدالت کے سامنے 21ویں آئینی ترمیم اورلیاقت حسین کیس کو بھی زیر بحث لایا گیا،جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسےہوسکتا ہے؟

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں 9 رکنی بنچ تھا،عدالت کے 23 جون کے حکم نامے کو پڑھوں گا۔

    اٹارنی جنرل نےفل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل دینا شروع کرتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہا، جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ میں دیگر بینچ ممبران کے اعتراض کا تذکرہ کیا گیا۔

    جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ 26 جون کا حکمنامہ بھی پڑھیں، وفاقی حکومت نے خودبینچ کے ایک ممبر پر اعتراض کیا، کیا اب حکومت فل کورٹ کاکہہ سکتی ہے؟ جس ہر اٹارنی جنرل نے کہا کہ استدعا ہے کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ کون فیصلہ کریگا کہ کونسے ججز دستیاب ہیں؟ آپ خود مان رہے ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا فیصلہ چیف جسٹس کرینگے، اس حوالے سے جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے یہ بینچ اس کیس کو سن چکاہے،آپ اپنی گذارشات جاری رکھیں، کافی حد تک موجودہ بینچ یہ کیس سن چکا ہے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہ رہے ہیں 17 سے زیادہ ججز اس کیس کےلئے دستیاب ہوں جو کہ ممکن نہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت کےہر جج کی رائے کا احترام کرتا ہوں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدالت کے اعتماد کی بات کی ہے، چھٹیاں ہیں ججز دستیاب نہیں،اسلام آباد میں موجود تمام ججز کو پہلی سماعت پر ہی بینچ میں شامل ہونے کا کہا تھا۔

    جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ 3ججز تو بینچ سے علیحدہ ہو چکے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ پر حکومت کے اعتراض اٹھانے پر بھی حیرت ہوئی تھی،جسٹس منصور علی شاہ نے گریس دکھاتے ہوئے خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا۔

    دوران سماعت وزارت دفاع کےوکیل عرفان قادرکی اٹارنی جنرل کولقمہ دینےکو کوشش کی تو اٹارنی جنرل نے وکیل عرفان قادر کو بیٹھنے کی ہدایت کردی۔

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی فل کورٹ کی استدعا مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے کہا کہ فی الحال فل کورٹ قائم کرنا ممکن نہیں، اس وقت چھٹیاں چل رہی ہیں،ججز دستیاب نہیں۔

    خیال رہے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر وفاقی حکومت نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کر رکھی ہے۔

    وفاقی حکومت نے اپنے مؤقف میں کہا تھا کہ آرمی ایکٹ ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین سے پہلےسے موجود ہیں، آرمی ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اقدامات قانون کے مطابق ہیں،سپریم کورٹ براہِ راست اس کیس کو نہ سنے۔

    وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ درخواستیں خارج کیں توفریقین کا ہائیکورٹ میں حق متاثرہونےکاخدشہ ہے، پنجاب الیکشن کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی معاملے پر رائے دے چکے ہیں، فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

    حکومت نے مزید کہا تھا کہ آرمی سے مماثلت قوانین کے تحت دیگربھی بہت سےعدالتی فورمزبنائےگئے ، تمام فورمز کے کارروائی کا اپنا طریقہ کار ہے، عدالتی فورمز کے علاوہ دیگر فورمز کی موجودگی کسی طرح قانون کی خلاف ورزی نہیں۔

    مؤقف میں کہا گیا تھا کہ کورٹ مارشل کا ٹرائل قانون میں دئیے گئے حقوق اور فئیر ٹرائل میں کمی نہیں کرتا، کورٹ مارشل صرف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا مؤثر عدالتی نظام دیتا ہے ، آرمی ایکٹ اور آرمی رولز ہر طرح کے فیئر ٹرائل کا تحفظ دیتے ہیں۔

    گذشتہ روز سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سےمتعلق درخواست قابل سماعت قرار دی تھی، صدر سپریم کورٹ بارعابدزبیری کی درخواست قابل سماعت قرار دی۔