Tag: سویلینز کے ٹرائل

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ چیلنج کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی۔

    سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلے پرنظرثانی درخواست دائر کی ، جس میں آئینی بینچ سے فوجی عدالتوں کے کیس کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے حقائق اور قانون کا درست جائزہ نہیں لیا، فیصلےمیں غلطی کی نشاندہی ہوجائے تو تصحیح کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے۔

    سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کا فیصلے میں ایف بی علی کیس پرانحصاردرست نہیں، ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کےمطابق تھا جس کا اب وجود نہیں۔

    دائر درخواست میں کہا ہے کہ اکیسویں ترمیم میں فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کےنتیجہ میں قائم کی گئی تھیں،موجودہ کیس میں آئینی ترمیم نہیں ہوئی تواس فیصلے پر انحصاربھی درست نہیں۔

    درخواست کے مطابق سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کا فیصلہ تضادات کا مجموعہ ہے،آئینی بینچ نے ایک جانب قرار دیا کہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتاہے اور دوسری جانب لکھا کہ بنیادی حقوق یقینی بنانے کیلئے اپیل کا حق دیا جائے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ 9 اور 10 مئی واقعات پر سپریم کورٹ کی آبزرویشن سے ٹرائل متاثر ہوں گے، عدالتوں میں زیر التوا مقدمات پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کا مؤقف فیصلے کا حصہ بنایا، آئینی بینچ نےفیصلےمیں شہریوں کوبنیادی حقوق سےمحروم کر دیا۔

  • کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا ؟ آئینی بینچ نے  سوالات اٹھا دیے

    کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا ؟ آئینی بینچ نے سوالات اٹھا دیے

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے کہ کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

    آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ دائرہ اختیارکون طےکرتاکس کاٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگاکس کا نہیں؟۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے تمام ملزمان کی ایف آئی آر تو ایک جیسی تھی، یہ تفریق کیسے ہوئی کچھ کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں اور کچھ کا اے ٹی سی میں ہوگا؟

    جسٹس نعیم اختر افغان نے وزارت دفاع کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب 9 مئی کے کل کتنے ملزمان تھے ؟ جن ملزمان کوملٹری کورٹس بھیجا ان سے متعلق کوئی اے ٹی سی کا آرڈرتو دکھائیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا ملٹری کسٹڈی لینے کا پراسس کون شروع کرتا ہے؟ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کوئی مثال دیں جہاں آئین معطل کئے بغیر سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا ہو۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جی ایچ کیو،کراچی بیس سمیت مختلف تنصیبات پر دہشت گرد حملے ہوئے، ہمیں بتائیں ان حملوں کا کہاں ٹرائل ہوا؟ ایک آرمی چیف کاطیارہ ہائی جیک کرنےکی سازش کا کیس بنا تھا، خواجہ صاحب وہ کیس عام عدالت میں چلا آپ ایک فریق کے وکیل تھے، ان سب کا ٹرائل عام عدالتوں میں چلا تو 9 مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟ ان تمام مقدمات کی ایک ایک ایف آئی آر بھی ہمیں دیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ اے ٹی سی سے ملزم بری ہورہا اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی ہے، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشت گردی عدالتوں کوکیوں مضبوط نہیں بنایا جاتا؟ عدالتوں نےفیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کیا 9 مئی دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جوٹرایل فوجی عدالت میں ہورہا ہے؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ جہاں آئین معطل نہ ہووہاں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوسکتا؟ کون اور کیسے طے کرتا کونسا کیس ملٹری کورٹس میں کونسا سول کورٹس میں جائے گا۔

    جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 94 کے تحت کمانڈنگ افسر کا ذکر ہے اس پر تفصیل سے دلائل دوں گا، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس ضرور بنائیں، جسٹس جمال خان مندوخیملٹری کورٹس سمیت ہر عدالت کا احترام ہے، آئین کے اندر رہتے ہوئے ملٹری کورٹس بنائیں، محرم علی کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آئین سےمتصادم عدالت نہیں بنائی جاسکتی۔

    جسٹس امین الدین نے کہا کہ سزا یافتہ ملزمان سے متعلق کوئی آرڈر نہیں دےسکتے سب کی سیکیورٹی عزیز ہے، وکالت نامے پر دستخط سمیت کسی بھی شکایت پر متعلقہ عدالت سےرجوع کریں، جیل مینوئل کے تحت وکالت نامے پر دستخط کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔

    ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سےسپریم کورٹ رپورٹ منگوا لے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہم اپنے اسکوپ سے باہر نہیں جائیں گے۔

    ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ خواجہ حارث نے نیب ترامیم کیس میں 6 ماہ تک دلائل دئیے تھے، خواجہ حارث ٹیسٹ میچ کی طرح لمبا کھیلتے ہیں تو جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ ٹی ٹوئنٹی کی طرح کھیلنا چاہتے ہیں؟ انہیں اپنی مرضی سے دلائل دینے دیں۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ملتوی کردی گئی۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ شامل

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ شامل

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا، جس میں جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، 125صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا۔

    جسٹس منیب اخترنے فیصلے کی ابتدا لارڈ ایٹکن کے1941کے ایک جملے سے کی، جس میں کہا گیا کہ لارڈ ایٹکن نے کہا تھا برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین خاموش نہیں تھے، برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین وہی تھے جو حالت امن میں تھے۔

    23 اکتوبر 2023 کو سنایا گیا مختصر فیصلہ بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ ہے، تفصیلی فیصلے میں کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سےبنیادی حقوق سے متعلق سوال پوچھا گیا، سپریم کورٹ سےپوچھا گیاکیا آئین کےتحت سویلینز کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے۔

    فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ سےپوچھا گیا سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل پر آئین کیا کہتا ہے، درخواست گزاروں نےسویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل پرعدالت کی رائے مانگی۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہعدالت نے 23 اکتوبر2023 کو سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قراردینے کا حکم دیا۔

    تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ ملک کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے، جسٹس عائشہ ملک نے48 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

    سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ پانچ میں سے چار ججز کا اکثریتی فیصلہ ہے، جسٹس یحیی آفریدی کی رائے تفصیلی فیصلے کا حصہ نہیں ہیں، جسٹس یحیی آفریدی نےآرمی ایکٹ کی شقیں کالعدم قراردینے پر رائے محفوظ رکھی ہے۔

    تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کاایک سیکشن 1967 میں اسوقت شامل ہوا جب مارشل لانافذ تھا، کرنل (ر)ایف بی علی کیس میں جب سزائیں دی گئیں اسوقت عبوری آئین تھا۔

    فیصلے کے مطابق 9 اور 10 مئی کے دو دنوں میں فوجی تنصیبات پر حملے کئے گئے ، شہدا کے مجسموں کو نقصان پہنچا گیا، کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا، اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملوث ملزمان کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلایا جائے گا سب کی ایک ہی متحد آواز تھی کہ ایسے واقعات پرقانون حرکت میں آنا چاہیے ،اس کے بعد مختلف تھانوں میں ایف آئی آرز درج ہونا شروع ہوئیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے23 اکتوبر 2023 کو مختصر حکم نامہ دیاتھا ، مختصر حکم نامےمیں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے اور 9 مئی میں ملوث ملزمان کےمقدمات عام عدالتوں میں بھجوانے کا حکم دیا گیا تھا۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلنز ٹرائل کیخلاف فیصلہ، سندھ کے بعد وزارت دفاع اور بلوچستان نے بھی چیلنج کردیا

    فوجی عدالتوں میں سویلنز ٹرائل کیخلاف فیصلہ، سندھ کے بعد وزارت دفاع اور بلوچستان نے بھی چیلنج کردیا

    اسلام آباد : وزارت دفاع اور بلوچستان حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ چیلنج کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل سےمتعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی ، سندھ کے بعد وزارت دفاع اور بلوچستان حکومت نے بھی فیصلہ چیلنج کردیا۔

    وزارت دفاع نے ٹرائل نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قراردینے اور اپیلوں پر حتمی فیصلےتک ٹرائل روکنے کیخلاف حکم امتناع کی استدعا کی ہے۔

    درخواست میں آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی سیکشن 59(4) بھی بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ دفعات کالعدم قرار دینےسےملک کا نقصان ہوگا، سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیاوہ ناقابل سماعت تھیں۔

    دوسری جانب بلوچستان حکومت نے آرمی ایکٹ ، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کرنے اور اپیلوں پرفیصلےتک 5 رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کرنے کی بھی استدعا کی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے ناقابل سماعت درخواستوں پر حکم جاری کیا۔

    خیال رہے نگراں سندھ حکومت اورشہدافاؤنڈیشن بھی فوجی عدالتوں کیخلاف فیصلے کوچیلنج کرچکے ہیں جبکہ سینیٹ میں فوجی عدالتوں سےمتعلق سپریم کورٹ کے فیصلے خلاف قرارداد منظورہوچکی ہے۔

    سینیٹ کی قرارداد میں سپریم کورٹ سے فیصلے پر نظر ثانی کی مطالبہ کیا گیا ، جبکہ لواحقین شہدا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلےپرنظرثانی کرےتاکہ غداروں کوکیفرکردارتک پہنچایاجائے، ہم نےملک کےدفاع اورسلامتی کے لئےقربانیاں دی ہیں۔

  • ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی قرار

    ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دے دیا، سپریم کورٹ نے فیصلہ 1-4 کے تناسب سےسنایا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کا فیصلہ سنادیا ، فیصلے میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیخلاف درخواستیں منظورکرلیں گئیں۔

    سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کوغیرآئینی قرار دے دیا، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا، فیصلہ چار ایک کی بنیاد پر سنایا گیا، سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

    سپریم کورٹ نے ملڑی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی کو ائین کے بر خلاف قرار دے دیا اور کہا ملزمان کے جرم کی نوعیت کےاعتبارسےمقدمات عام عدالتوں میں چلائیں جائیں گے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    سماعت کے آغاز میں وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا عدالت میں یقین دہانی کرانے کے باوجود فوجی عدالتوں نے سویلین کا ٹرائل شروع کردیا ہے، جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہمیں اس بارے میں معلوم ہے، پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ دہشت گردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کیلئے نہیں؟ قانون پڑھیں تو واضح ہوتا ہے یہ تو فورسز کے اندر کیلئے ہوتا ہے، آپ اس کا سویلین سے تعلق کیسے دکھائیں گے؟ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا دوہزار پندرہ کے ملزمان عام شہری تھے؟ غیرملکی یا دہشت گرد؟

    اٹارنی جنرل نے کہا ملزمان میں ملکی و غیرملکی دونوں ہی شامل تھے، دوہزارپندرہ میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشت گردوں کےسہولت کاربھی شامل تھے۔

    اٹارنی جنرل نے ایف بی علی کیس کا بھی حوالہ دیا اور یہ بھی کہا کسی کو ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنابھی قانون میں جرم بن جاتا ہے، جب ڈیوٹی سےروکا جائےتوپھردیگرافراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی درخواست پر فل کورٹ کی استدعا مسترد

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی درخواست پر فل کورٹ کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل کی درخواست پر فل کورٹ کی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 6رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی درخواست پر فل کورٹ کی استدعا مسترد کردی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اس وقت ججزدستیاب نہیں چھٹیاں چل رہی ہیں ، ہم نے مختلف مواقع پرلارجربینچز بنائے جومختلف وجوہات کی بنا پر کام نہ کرسکے، سپریم کورٹ کا موجودہ بینچ ہی سماعت سنے گا۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے گزشتہ روز درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

  • فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

    فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے، 102افراد زیر حراست ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سےمتعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ جمع کرا دی ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریری جواب میں پورا چارٹ ہےکتنی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، 102افراد زیر حراست ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زیرحراست7ملزمان جی ایچ کیوحملے میں ملوث ہیں، 4ملزمان نے آرمی انسٹیٹیوٹ پر حملہ کیا، 28م لزمان نےکورکمانڈرہاؤس لاہورمیں حملہ کیا، 5ملزمان ملتان،10ملزمان گوجرانوالہ گریژن حملےمیں ملوث ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 8ملزمان آئی ایس آئی آفس فیصل آباد حملے میں ملوث ہیں، 5ملزمان پی ایف بیس میانوالی حملے اور 14ملزمان چکدرہ حملے میں ملوث ہیں، 7ملزمان نے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان میں حملہ کیا جبکہ 3ملزمان ایبٹ آباد،10ملزمان بنوں گریژن حملےمیں اور ایک ملزم آئی ایس آئی حمزہ کیمپ حملے میں ملوث ہے، زیرحراست ملزمان کی گرفتاری سی سی ٹی وی ودیگرشواہدکی بنیاد پرکی گئی۔

    جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ افراد کی گرفتاری کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم سی سی ٹی وی فوٹیج اور شواہدکی روشنی میں افراد کو حراست میں لیا، کور کمانڈرہاؤس لاہورمیں داخل افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، صرف102افراد کو گرفتار کیا گیا بہت احتیاط برتی ہے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ مجسٹریٹ آرڈر میں ملزمان کوملٹری کورٹس بھیجنےکی وجوہات کاذکر نہیں، جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا جکہ بظاہر لگتاہے ملزمان کیخلاف مواد کے نام پرصرف فوٹو گراف ہیں۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کسی ملزم کو انکوائری میں بے گناہ ہونے پر واپس کیا گیا ؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام 102 افراد کی حوالگی مانگی گئی تھی جو مل گئی، کسی کو واپس نہیں کیا گیا۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کے خلاف صرف تصاویری شواہد ہی موجود ہیں؟ ٹرائل میں آخر کون سے شواہد ہیں جو پیش کئےجائیں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ متعلقہ حکام سے ہدایات لے کر شواہد کے متعلق بتا سکتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ایسا لگتا ہے آپ ان سوالات پر پوری طرح تیار نہیں ، ہمارے سامنے ابھی وہ معاملہ ہےبھی نہیں ہم نے آئینی حیثیت کو دیکھنا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے درخواست اپنےموکل کی طرف سےفل کورٹ کی دی ہے، ہم پہلے فیصل صدیقی کو سن لیتے ہیں۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستیں سماعت کیلئے مقرر

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستیں سماعت کیلئے مقرر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کردی گئی، 6 رکنی بینچ 18 جولائی کوسماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کردیں اور سماعت کے لئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا6 رکنی بینچ 18 جولائی کوسماعت کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس منیب اختر بینچ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہوں گے۔

    یاد رہے 27 جون کو عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے بعد فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی تھی اور سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی تھی۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت میں ریمارکس دیئے تھے کہ توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔