Tag: سویلینز کے ٹرائلز

  • سویلنز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا، چیف جسٹس

    سویلنز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ سویلنز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ بنایا جو اب 6 رکنی بینچ ہو چکا ہے، خوشی ہے حکومت نے گرفتار افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کرائی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اٹارنی جنرل کو آئینی نکات پر سننا چاہتی ہے، اس مرحلے پر فل کورٹ بنانا ممکن نہیں، اٹارنی جنرل کے موقف کو مکمل سنا جائے گا کیونکہ ملک کے ہر شہری کو تشویش ہے کہ سختی سے نہیں نمٹنا چاہیے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فوج کا قانون سخت قانون ہے ، درخواست گزاران کا مؤقف ہے ملزمان کو اےٹی سی میں پیش کیا جاسکتاہے، 9مئی کےواقعات کو ہر کوئی سنجیدہ جرم تسلیم کرتا ہے، کوئی بھی ملزمان کوچھوڑنے کی بات نہیں کر رہا۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں مزید کہنا تھا کہ سویلینز کو کچھ آئینی تحفظ حاصل ہیں ، فل کورٹ کے حوالے سے عدالت مشاورت کرے گی ، کل کیس کو دوبارہ سنتے ہیں ، سویلنز کو آئین کے برخلاف ٹرائل میں نہیں بھیجاجا سکتا۔

  • فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے، لطیف کھوسہ

    فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے، لطیف کھوسہ

    ممتاز قانون دان لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے ان کے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی تھی۔

    ممتاز قانون دان لطیف کھوسہ نے جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے الگ ہونے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ آسان ہے کہ چیف جسٹس دوبارہ بینچ بنا سکتے ہیں لیکن وفاقی حکومت جو کر رہی ہے وہ غلط ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے استدعا کرنا شرمناک اور افسوسناک ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے پہلے ہی کہا تھا اگر کسی کو اعتراض ہے تو ابھی بتادیں۔

    ممتاز قانون دان نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور سرکار کی جانب سے وکلا نےکہا کوئی اعتراض نہیں، آج ملک جس اذیت اور کرب سے گزر رہا ہے اسکا حل پٹیشن کا فیصلہ کرنا ہے۔

    لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اعتزازاحسن سپریم کورٹ اپنی ذاتی رنجش لیکر نہیں آئے تھے، اعتزازاحسن انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ آئے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے انتہائی تحمل اور برداشت کا ثبوت دیا، چیف جسٹس نے کہا آپ  نے 90 دن والا فیصلہ بھی نہیں مانا، عدلیہ، ملکی تاریخ میں اسے سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اور اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں، اس کے باوجود جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض سمجھ سے بالا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے، ہم  نے تو فل کورٹ کی استدعا کی تھی کہ 15 مکمل ججز بیٹھیں، آج حکومت کو الحام ہوا کہ منصور علی شاہ پر اعتراض کیا جائے۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ اپنے خلاف فیصلہ آنے کی نوشتہ دیوار سمجھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے، بے چینی کی کیفیت اس لئے ہے کہ یہ عدالتوں کی عزت نہیں کرتے۔

    سینیئر سیاستدان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نےکہا ججز کے پاس مورل اتھارٹی ہوتی ہے، چیف جسٹس نےکہا ہمارے پاس ڈنڈا نہیں ہوتا، چیف جسٹس نے کہا ہم آئین پر عمل درآمد کرتے ہیں، حکومت ہوش کے ناخن لے خدارا اسے سر زمین بے آئین نہ بنائیں۔