Tag: سو لفظی کہانی

  • بادل، بجلی اور انصاف کی کہانی

    بادل، بجلی اور انصاف کی کہانی

    بھورے بادل کی گود میں بجلی مچلی۔ آگے بڑھی، زمین کی طرف۔ بادل نے ٹوکا’’ کہاں چلیں؟‘‘

    ایک ننّھی سی تتلی پھولوں پر منڈلا رہی تھی کہ تبھی ایک گَوریّا اس پر جھپٹ پڑی اور نہایت بے رحمی کے ساتھ اسے نگلنے کی کوشش کرنے لگی۔

    ’’اس بے رحم گَوریّا کو سبق سکھانے۔‘‘ بجلی نے اشاروں سے بتایا اور بادل کا ردِّ عمل جانے بغیر، زمین کی طرف بڑھنا چاہتی تھی کہ اس کی چیخ نکل گئی۔

    ’’بادل دادا!غضب ہو گیا۔‘‘ گَوریّا ابھی ٹھیک سے تتلی کو نگل بھی نہیں پائی تھی کہ اس پر ایک باز نے جھپٹّا مارا اور گَوریّا اپنی جان گنوا بیٹھی۔

    بادل خاموش رہا۔ ایک پُر اسرار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہی۔ادھر بجلی کا غصہ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔

    ’’میں اس ظالم باز کو ہر گز نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ وہ غصے میں بڑبڑائی۔اچانک ایک احساس ندامت اس کی آواز میں اتر آیا۔

    ’’ہائے ابھی تک کتنی غلط تھی میں کہ گَوریّا کو ظالم سمجھ رہی تھی، گَوریّا سے بڑا ظالم تو وہ باز ہے۔ اچھا ہُوا کہ وقت سے پہلے حقیقت آشکار ہو گئی، ورنہ معصوم گَوریّا ہی میرے غضب کا شکار ہوتی۔‘‘

    بادل اب بھی مسکرا رہا تھا۔ بجلی کچھ اور آگے بڑھی۔ تب ہی اس کے کانوں میں ہلکی سی ایک آواز آئی۔ اس نے نیچے دیکھا۔ باز زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی بندوق لیے ایک شکاری کھڑا تھا۔

    ’’اُف۔۔۔ یہ شکاری تو سب سے بڑا ظالم و جابر ہے۔ گَوریّا نے تتلی کو مارا، اس لیے کہ وہ بھوکی تھی۔ باز نے گَوریّا کو مارا، اس لیے کہ اسے بھی بھوک نے مجبور کیا تھا۔

    اگر یہ دونوں اپنی اپنی بھوک کا کہا نہ مانتے تو ممکن تھا کہ وہ اپنی ہی بھوک کا لقمہ بن جاتے، لیکن یہ شکاری۔۔۔!!

    اس نے تو محض اپنے شوق کی تسکین کے لیے باز کو نشانہ بنایا۔ میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔ کچھ تو زمین کا بوجھ کم ہو گا۔‘‘ سوچتے ہوئے بجلی کا چہرا تمتمانے لگا۔

    وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ بجلی کی کڑک اور بادل کی گڑگڑاہٹ نے تیز بارش کی شکل اختیار کر لی۔ بارش سے بچنے کے لیے شکاری نے ایک غریب کسان کے جھونپڑے میں پناہ لی۔

    دانش وَروں کی طرح بجلی بھی اپنی بے جا ضد پر اَڑی رہنے والی تھی۔اپنے فیصلے پر وہ بھی نظرِثانی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جھونپڑی پر گری۔پَل بھر میں شکاری کے ساتھ غریب کسان اور اس کا خاندان بھی خاک ہو گیا۔

    عدلیہ کی طرح بجلی بھی مطمئن تھی کہ اس نے انصاف کر دیا ہے۔

    (اوم پرکاش کشیپ کی اس مختصر کہانی کا عنوان "مشیّت” ہے جو کسی بھی ریاست میں ظلم و جبر اور اشرافیہ کی من مانی اور مفاد پرستی کو بے نقاب کرتی ہے)

  • چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    چھوٹی کہانیاں جو آپ کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں

    عارف حسین

    کہانی ہمیں متوجہ کر لیتی ہے؛ داستانیں، قصے پُر لطف ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب انسان نے لکھنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ وہ مظاہرِ قدرت اور خود سے طاقت ور یا نفع و نقصان پہنچانے والے جان دار و بے جان اجسام اور قدرتی عوامل سے متاثر ہوتا اور چوں کہ وہ اس کا علم اور شعور نہیں رکھتا تھا تو اس کے بارے میں عجیب و غریب کہاںیاں اور قصے گھڑ لیتا۔ اسے دوسروں کے آگے طرح طرح سے بیان کرتا اور نہایت ڈرامائی انداز اختیار کرتا۔ پھر انسان نے لکھنا پڑھنا سیکھا اور ارتقائی منازل طے کیں تو اس کا وہی تجسس، تحیّر، وہی بیانیہ ادب اور اس کی مختلف اصناف میں ڈھل گیا۔ وہ زیادہ جاننے اور بیان کرنے پر قادر ہو گیا۔ یوں کہانی، ناول، ڈراما لکھے گئے اور یہ ایک فن ٹھہرا۔

    قارئین آج ہم اخبار اور سوشل میڈیا پر مختلف مصنفین کی مختصر کہانیاں (شارٹ اسٹوریز) پڑھتے ہیں۔ تحریر کے علاوہ ہمارے ہاں بصری اور صوتی ذرایع سے بھی مختصر ماجرا بیان کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خصوصاً دو دہائیوں کے دوران شعور اور آگاہی کا سفر طے کرنے والی نسل کے لیے سو لفظوں کی تحریر سے لے کر دو، تین منٹ تک کی ویڈیو کہانی کوئی نئی بات نہیں، مگر ستّر اور اسّی کے زمانے میں کتب و جرائد کے مطالعے کے رسیا ‘‘افسانچہ’’ پڑھتے تھے جو عموماً طنز و مزاح، شوخی و ظرافت پر مبنی ہوتا تھا۔ تاہم اس کا خالق کسی واقعے، ذاتی تجربے اور مشاہدے کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں بھی بیان کرتا تھا۔ ان ہی افسانچوں نے کئی باقاعدہ لکھاری بھی تیار کیے۔ آج کی مختصر کہانیاں تحریری شکل میں ہوں یا ویڈیو کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہوں، ان میں واقعاتی، حالاتِ حاضرہ اور سماج کے بدرنگ اور تکلیف دہ پہلوئوں کا خاص طور پر احاطہ کیا جاتا ہے۔ یہ سیاست کے ایوانوں سے لے کر سماج کے ہر شعبے تک سنجیدہ پیغام دینے اور شعور اجاگر کرنے کی کوشش تو ہیں اور مقبول بھی۔ مگر چار دہائیوں قبل افسانچہ اخبارات اور دوسرے جرائد میں خاص طور پر شامل کیا جاتا تھا۔ یہ دل چسپ اور پُرلطف تحریر کسی بڑے اور نام ور ادیب کی نہیں بلکہ ایک عام قاری کی ہوتی تھی۔ مدیر ذرا سی قطع برید اور کمی بیشی سے اسے قابلِ اشاعت بنا لیتے تھے۔ اسّی کی دہائی کے وہ گدگداتے افسانچے الگ ہی لطف رکھتے ہیں۔

    یہ بھی مطالعہ کریں:  محمدی بیگم: مسلمان مدبر اور مصنّفہ، خواتین کے لیے مشعلِ راہ

    شارٹ اسٹوری یا مختصر کہانی اردو ادب میں نئی نہیں۔ افسانچہ شاید اسی کی ایک شکل ہے جسے عام لوگوں نے برتا اور یہ ان میں مقبول ہوئی۔ دوسری طرف ہم سعادت حسن منٹو کے کمالِ فنِ مختصر نویسی اور اس دور کے دیگر کہانی کاروں کی بات کریں تو نہایت پُرمغز اور فنی مہارت سے آراستہ کہانیاں بھی سنجیدہ اور باوقار قارئین کی توجہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ آج بھی اردو ادب میں ان کی اہمیت اور افادیت برقرار ہے۔ منٹو کے دوسرے افسانوں کے علاوہ سنجیدہ قارئین میں ان کی مختصر کہانیاں بھی مقبول ہوئیں اور یہ سب جان دار اور نہایت پُر اثر تھیں۔ اردو میں منٹو کے بعد مختصر کہانیوں کا مزید تجربہ کیا گیا۔ سیاہ حاشیے‘‘ کی شکل میں دراصل منٹو کے سنجیدہ اور بامقصد افسانچے منظرعام پر آئے۔ ان میں سے دو یہاں آپ کے ذوق کی تسکین کے لیے پیش ہیں۔

    ‘‘خبردار’’

    بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے، کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔ مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’ ‘‘

    ‘‘دعوتِ عمل’’

    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔ صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا۔

    ‘‘یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے۔’’

    اس کے علاوہ جوگندرپال، ابراہیم جلیس اور دیگر متعدد لکھاریوں نے بھی خوب مختصر نویسی کی، مگر جب عام قارئین نے اپنے جذبات، خیالات کا چند سطری اظہار چاہا تو کچھ الگ ہی ڈھب اپنایا۔ عوامی سطح پر یہ اظہار ‘‘افسانچہ’’ کی شکل میں اتنا مقبول ہوا کہ اکثر اخبارات اور جرائد اس سے کنارہ نہ کر سکے۔ یہ بات کہنا کچھ مشکل نہیں کہ افسانچہ قطعی عوامی ثابت ہوا۔ وقت بدلا تو سماج کے مسائل اور عوام کا مزاج بھی بدل گیا۔ آج مختصر نویسی یا شارٹ اسٹوری ایک اور ہی انداز سے ہمارے سامنے ہے۔ یہ زیادہ تر سنجیدہ اور نہایت اہم موضوعات کا احاطہ کرتی کہانیاں ہیں جو واقعاتی، مشاہدے اور تجربے کے ساتھ تاثراتی ہو سکتی ہیں۔ آج تحریری اور تصویری شکل میں کہانی اپنے قارئین تک تو پہنچ رہی ہے، مگر افسانچہ، یعنی وہ تحریری اظہار جس کا آغاز سنجیدہ اور پُر تجسس جب کہ انجام نہایت لطیف اور گدگداتا ہوتا تھا، اب بہت کم نظر آتا ہے۔