Tag: سپریم کورٹ

  • مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر وفاقی وزیر قانون کا بیان

    مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر وفاقی وزیر قانون کا بیان

    لاہور: مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ انھیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔

    وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ تو آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کی تشریح کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ پریکٹس پروسیجرز ایکٹ کے تحت مناسب ہوتا کہ 5 رکنی لارجر بینچ اس کیس کی سماعت کرتا اور لارجر بینچ ہی کوئی عبوری حکم نامہ جاری کرتا۔

    وفاقی وزیر قانون نے کہا پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار کے معاملے پر حکم امتناع سے احتراز برتنا چاہیے تھا، منتخب رکن کے قانون سازی کے اختیار پر زد پڑتی ہو تو زیادہ احتیاط برتی جاتی ہے۔

    سپریم کورٹ کا فیصلہ، حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے محروم

    انھوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 67 واضح ہے کہ رکن کی قانون سازی قانونی نااہلیت کے باوجود برقرار رہتی ہے، آرٹیکل 67 کے مطابق رکن کی قانون سازی کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔

    https://urdu.arynews.tv/reserved-seats-sc-suspended-decision/

  • سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوا دیا

    سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوا دیا

    اسلام آباد : مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوادیا گیا، کمیٹی لارجر بینچ تشکیل دینے یا موجودہ بینچ کے سماعت کا فیصلہ کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوا دیا، ججز کمیٹی فیصلہ کرے گی لارجر بینچ تشکیل دیا جائے گا یا موجودہ بینچ سماعت کرے گا۔

    عدالت نے کہا کہ ممبران کےابتک ڈالے گئے ووٹ ، قانون سازی میں رائےمعطل تصورنہیں ہوگی اور سپریم کورٹ کےحکم کا اطلاق ماضی سےنہیں بلکہ اب سےہوگا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت 3جون سے روزانہ کی بنیاد پر ہوگی.

    اٹارنی جنرل نےپریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کے تحت لارجر بینچ کی استدعا کی اور فیصلے میں متناسب نمائندگی میں اضافی ارکان کا لفظ لکھنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ابھی عدالت نےیہ فیصلہ کرناہےکہ متناسب نمائندگی تھی یا نہیں۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا پر متناسب نمائندگی کا لفظ حکم نامہ سے نکال دیا ، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں پہلی بارآرٹیکل 51 کی تشریح کا کیس آیا ہے۔

  • مخصوص نشستوں کا کیس، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا

    مخصوص نشستوں کا کیس، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا

    اسلام آباد: مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہم کیس کو سماعت کے لیے منظور کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو معطل کر رہے ہیں، تاہم فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینے کی حد تک ہوگی۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عوام نے جو ووٹ دیا اس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا مخصوص نشستیں ایک ہی بار تقسیم کی گئیں، دوبارہ تقسیم کا معاملہ ہی نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ پھر الیکشن کمیشن کا حکمنامہ پڑھ کر دیکھ لیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کوئی بھی نام دیں تناسب سے زیادہ نشستیں ان جماعتوں کو دی گئیں نا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا زیادہ نشستیں بانٹنا تناسب کے اصول کے خلاف نہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا میں بتاتا ہوں الیکشن کمیشن نے اصل میں کیا کیا ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا ہمیں الیکشن کمیشن نے کیا کیا اس سے نہیں آئین کیا کہتا ہے اس سے غرض ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں سوال اٹھائے کہ بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں بانٹی گئیں، کیا دوسرے مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں؟ اگر مزید کچھ سیٹیں بچ جائیں ان کا کیا کرنا ہے؟

    سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جماعتوں کو نشستیں دینے کا فیصلہ معطل رہے گا، اور فیصلے کی معطلی اضافی سیٹوں کی حد تک ہوگی۔ سپریم کورٹ میں کیس کی مزید سماعت 3 جون کو روزانہ کی بنیاد پر ہوگی، واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اضافی نشستیں لینے والے ارکان ایوان کی کارروائی کا حصہ نہیں بن سکیں گے، اور سپریم کورٹ حتمی فیصلے تک ان ارکان کی رکنیت بھی معطل رہے گی۔

  • سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

    سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد57ہزارسےتجاوزکرگئی، گزشتہ ایک سال میں زیرالتوا مقدمات کی تعدادمیں 4500 کے قریب اضافہ ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں زیرالتوامقدمات کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

    اعلی عدلیہ میں زیرالتوامقدمات کی تعداد57ہزارسےتجاوزکرگئی، گزشتہ ایک سال کےدوران زیرالتوامقدمات کی تعدادمیں 4500 کے قریب اضافہ ہوا۔

    جیلوں میں موجود افرادکی جانب سے دائر 3353 اپیلیں فیصلوں کی منتظر ہیں جبکہ 15اپریل تک زیرالتوا فوجداری مقدمات کی تعداد 10ہزارسے تجاوزکر گئی ہے۔

    ہائی کورٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیلوں کی تعداد 31 ہزار سےبڑھ گئی، گزشتہ سال مارچ میں زیرالتوامقدمات کی تعداد 52481 تھی۔

  • راستے بند کرنا غیر قانونی، سپریم کورٹ کا سرکاری و نجی عمارتوں کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم

    راستے بند کرنا غیر قانونی، سپریم کورٹ کا سرکاری و نجی عمارتوں کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم

    کراچی: چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سرکاری و نجی عمارتوں کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دے دیا ہے، انھوں نے حکم دیا کہ رینجرز ہیڈکوارٹر کے سامنے سے بھی تجاوزات ہٹائی جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق کے سی آر منصوبے کے متاثرین کی درخواست پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت ہوئی، عدالت نے حکم دیا وفاقی، صوبائی، مقامی حکومتیں اور ادارے اپنے قبضے تین دن میں ختم کریں، تین دن بعد تمام انکروچمنٹ متعلقہ ادارے مسمار کر دیں، اور اس کا خرچ بھی مجاز افسر کی جیب سے لیا جائے، کوئی یونیفارم پرسن قانون سے مبرا نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکار جہاں انکروچمنٹ کرتی ہے، وہاں زیادہ سزا ہونی چاہیے، ایڈووکیٹ جنرل سے مخاطب ہو کر کہا آپ دیکھتے نہیں؟ گورنر ہاؤس، چیف منسٹر ہاؤس و دیگر ادارے سب نے فٹ پاتھوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا سیکیورٹی ایشوز ہیں، بم حملے ہوئے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تو چلے جائیں کہیں اور، خالی کر دیں یہ جگہ، کہیں محفوظ جگہ چلے جائیں، عوام پر تو حملے ہوں اور آپ محفوظ رہیں؟ یہ کہاں کا قانون ہے؟ اگر زیادہ ڈر لگتا ہے تو مضافاتی علاقے میں جا کر بیٹھ جائیں، لیکن سیکیورٹی کے نام پر سڑکیں بند نہ کریں، جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹی ہیں، میئر بھی آئے تھے، کہاں ہیں؟

    چیف جسٹس نے کہا بتائیں جناح کورٹ کس قانون کے تحت رینجرز کو دیا گیا؟ کے ایم سی سے مخاطب ہو کر کہا آپ کیوں نہیں ہٹاتے رینجرز ہیڈکوارٹر کے سامنے سے تجاوزات؟ ہٹائیں یہ سب، چھوٹے لوگوں کے گھر توڑ دیے یہ بھی ہٹائیں، بعد میں معاوضہ دیجیے گا۔۔ انھوں نے کہا گورنر ہاؤس کے اندر رکھ دیں کنٹینرز باہر کیوں رکھتے ہیں؟ عوام کو پریشان کرتے ہیں، اگر سپریم کورٹ کے سامنے انکروچمنٹ ہے تو وہ بھی توڑ دیں، وفاقی و صوبائی حکومت قانون سے بالا تر نہیں ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت خود تجاوزات کھڑی کر رہی ہے، 3 دن میں تمام تجاوزات ختم کر کے رپورٹ پیش کی جائے، کسی کو عوام کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے، راستے بند کرنا اور رکاوٹیں ڈالنا غیر قانونی ہے۔

  • 6 ججز کے خط کی  تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    6 ججز کے خط کی  تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کی  تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے 6 ججوں کے خط کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکردی۔

    درخواست  میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے خط میں سنگین نوعیت کےواقعات بیان کیے ، آزاد عدلیہ آئین کی بنیاداورفراہمی انصاف کا واحد ذریعہ ہے، عدلیہ کی آزادی پرسمجھوتہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔

    اسلام آبادہائیکورٹ بار نے استدعا کی عدالت ہائیکورٹ ججز کے خط کی روشنی میں شفاف تحقیقات کرائے اور شفاف تحقیقات کےبعدعدلیہ کو نیچا دکھانے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔

    درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ معاملہ اگرسپریم جوڈیشل کونسل سےمتعلق ہوتوعدالت کونسل کوجائزےکیلئےسفارشات بھیجے۔

    واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے گزشتہ ماہ 26 مارچ کو عدالتی کیسز میں انٹیلیجنس ایجنسیز کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل میں خط بھیج دیا۔

    ججز کے جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثر انداز ہونے پر جوڈیشنل کنونشن بلایا جائے جبکہ خط جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے اس خط پر جوڈیشل کمیشن کے لیے سپریم کورٹ میں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے درخواست بھی دائر کی جا چکی تھی۔

    بعد ازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر انکوائری کمیشن بنایا تھا۔

  • 6 ججوں کے خط کا معاملہ ، سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج ہوگی

    6 ججوں کے خط کا معاملہ ، سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7رکنی لارجر آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کےخط پرسپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت آج ہوگی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی لارجر سماعت کرے گا۔ بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجرصبح گیارہ بجے سے سماعت کرے گا۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نےسپریم جوڈیشل کونسل کےنام خط میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت کا معاملہ اٹھایا تھا۔

    ججز کے جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثر انداز ہونے پر جوڈیشنل کنونشن بلایا جائے۔

    خط جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

    خیال رہے سپریم کورٹ کے 300 وکلا نے بھی عدالت عظمیٰ کو خط لکھ کر اس حوالے سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

    وفاقی کابینہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی تشکیل دینے کی دوسری منظوری دے چکی ہے جس کا سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کو مقرر کیا گیا ہے۔

  • 6 ججز کا خط :  300  وکلا کا سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ

    6 ججز کا خط : 300 وکلا کا سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط پر 300 وکلا نے سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس کا مطالبہ کردیا اور کہا عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کامعاملہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آبادہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط کے معاملے پر تین سو سے زائد وکلا نے سپریم کورٹ کے نام خط لکھا۔

    حکومت کی جانب سے بنائے گئے انکوائری کمیشن کے سربراہ سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی ، سینئر وکلا سلمان اکرم راجہ،عبدالمعیزجعفری،ایمان مزاری، زینب جنجوعہ اور دیگر نامور وکلا خط لکھنے والوں میں شامل ہیں۔

    وکلا نے خط میں لکھا چھ ججوں کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے جرأت مندانہ اقدام کوسراہتے ہیں اور ہائیکورٹ ججوں کے خط کے معاملے پر مناسب کارروائی کامطالبہ کرتےہیں۔

    خط میں کہا گیا کہ یہ عوامی مفاد اوربنیادی حقوق کے نفاذ کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ آئین کےآرٹیکل ایک سوچوراسی تین کے تحت معاملے کانوٹس لے۔

    وکلا نے لکھا سپریم کورٹ تمام دستیاب ججوں پرمشتمل بینچ تشکیل دےکرسماعت کرے اور مفادعامہ کی کارروائی کوبراہ راست نشر کیا جائے۔

    خط کے مطابق جب ججز کو منظم طریقے سے تھریٹ کیا جاتا ہے تو پورے نظام عدل پر اثر پڑتا ہے، جج انصاف فراہمی میں آزاد نہیں تو پھر وکلا سمیت پورا قانونی نظام اہمیت نہیں رکھتا، یہ پہلاموقع نہیں اس سےقبل شوکت صدیقی نےبھی ایسےالزامات لگائے تھے۔

    وکلا برادری کا کہنا تھا کہ شفاف انکوائری میں ناکامی سےعدلیہ کی آزادی پرعوام کےاعتماد کو نقصان پہنچ سکتاہے،پاکستان بار اور تمام بارایسوسی ایشنزاجتماعی لائحہ عمل طےکرکےوکلا کنونشن بلائیں۔

    خط میں مزید کہا گیا کہ معاملہ شفاف طریقےسےنمٹاکرعدلیہ کی آزادی پرعوام کا اعتمادبحال کرنےکی ضرورت ہے، شفافیت یقینی بنانے کے لیے اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے، سپریم کورٹ گائیڈ لائنز مرتب کرے اور ہائیکورٹس سے مل کر شفاف ادارہ جاتی میکانزم قائم کرے۔

    وکلا نے کہا کہ مؤثراور شفاف طریقے سے معاملے کو نمٹایا جائے تاکہ مستقبل میں عدلیہ کی آزادی پرحرف نہ آئے۔

  • سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی اور کہا صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کی رہائی کےلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایاجانادوسرا اس کی توثیق ہوگی اور تیسرامرحلہ کم سزاوالوں کوآرمی چیف کی جانب سےرعایت دینا ہوگا۔

    اٹارنی جنرل نےفوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی ، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اجازت دی بھی تواپیلوں کے حتمی فیصلے سےمشروط ہوگی۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب تک فوجی عدالتوں سےفیصلے نہیں آتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہےانہیں رعایت دےدی جائے گی۔

    وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے،جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگریہ ملزمان عام عدالتوں میں ہوتےتواب تک باہر آچکے ہوتے توجسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلوانا چاہتے ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت میں تو14سال سے کم سزا ہے ہی نہیں۔

    وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ اے ٹی اےعدالت ہوتی تو اب تک ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہوتیں، ان مقدمات میں تو کوئی شواہد ہیں ہی نہیں، جسٹس شاہدوحید نے استفسار کیا ایف آئی آر میں کیادفعات لگائی گئیں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں ہیں۔

    جس پرجسٹس شاہدوحید کا کہنا تھا کہ پھر ہم ان ملزمان کوضمانتیں کیوں نہ دےدیں، ہم ان ملزمان کی سزائیں کیوں نہ معطل کردیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی سزا معطل کرنے کیلئے پہلے سزا سنانی ہوگی، ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب عدالت کہے قانون لاگونہیں ہو سکتا۔

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانےکی مشروط اجازت دے دی اور کہا کہ صرف ان کیسزکےفیصلےسنائےجائیں جن میں نامزدافرادعید سے پہلے رہاہوسکتے ہیں، اٹارنی جنرل نےیقین دہانی کرائی کہ کم سزا والوں کوقانونی رعایتیں دی جائیں گی تاہم فیصلےسنانےکی اجازت اپیلوں پرحتمی فیصلےسےمشروط ہوگی۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل کو عمل درآمد رپورٹ رجسٹرارکوجمع کرانےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مزید سماعت اپریل کے آخری ہفتے میں ہوگی، جس پر ،فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ایسا نہ ہو رہائی کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتاری ہوجائے۔

    سپریم کورٹ نے خیبرپختونخواحکومت کی اپیلیں واپس لینےکی استدعا منظور کر لی ، کےپی حکومت نےسویلنز کاٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلیں واپس لینےکی استدعا کی تھی۔

  • فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

    فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کی رہائی کےلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایاجانادوسرا اس کی توثیق ہوگی اور تیسرامرحلہ کم سزاوالوں کوآرمی چیف کی جانب سےرعایت دینا ہوگا۔

    اٹارنی جنرل نےفوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی ، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اجازت دی بھی تواپیلوں کے حتمی فیصلے سےمشروط ہوگی۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب تک فوجی عدالتوں سےفیصلے نہیں آتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہےانہیں رعایت دےدی جائے گی۔

    وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے،جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگریہ ملزمان عام عدالتوں میں ہوتےتواب تک باہر آچکے ہوتے توجسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلوانا چاہتے ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت میں تو14سال سے کم سزا ہے ہی نہیں۔

    وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ اے ٹی اےعدالت ہوتی تو اب تک ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہوتیں، ان مقدمات میں تو کوئی شواہد ہیں ہی نہیں، جسٹس شاہدوحید نے استفسار کیا ایف آئی آر میں کیادفعات لگائی گئیں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں ہیں۔

    جس پرجسٹس شاہدوحید کا کہنا تھا کہ پھر ہم ان ملزمان کوضمانتیں کیوں نہ دےدیں، ہم ان ملزمان کی سزائیں کیوں نہ معطل کردیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی سزا معطل کرنے کیلئے پہلے سزا سنانی ہوگی، ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب عدالت کہے قانون لاگونہیں ہو سکتا۔