Tag: سپریم کورٹ

  • سپریم کورٹ: 18 ویں اور 21ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت آج ہوگی

    سپریم کورٹ: 18 ویں اور 21ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت آج پھرہوگی جبکہ گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی سے متعلق تحقیقات کے لئے قائم جوڈیشل کمیشن آج پھر دلائل سنے گا۔

    سپریم کورٹ نے گزشتہ روز سماعت کے دوران سوالات اٹھائے تھے کہ اٹھارویں ترمیم بنیادی آئینی ڈھانچے اورعدلیہ کی آزادی کو کس طرح متاثرکرتی ہے اور یہ کہ سپریم کورٹ اس کو کس طرح کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

    اٹھارہویں اور اکیسویں ترامیم عدالتی خودمختاری سے متعلق اور فوجی عدالتوں کےقیام کےخلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرنے کے لئے قائم جوڈیشل کمیشن نے بھی متعلقہ سیاسی جماعتوں کو جواب داخل کرانے کے لئے دو دن کا وقت دیا ہے جبکہ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی آج بھی جاری رہےگی۔

  • اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت

    اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اٹھارہویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کو کالعدم قرار دینے کیلئے بنیادی ڈھانچے کو وجہ بنایا جاسکتا ہے ؟

    تحصیل دار اور سیکرٹری کی تقرری میں پارلیمنٹ کا کوئی کردار نہیں تو ججوں کی تقرری میں کیوں ہے ؟ کیس کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سترہ رکنی لارجر بینچ نے کی تو مختلف بار ایسوسی ایشنز کے وکیل حامد خان نے ججز تقرری برائے پارلیمانی کمیٹی کے خلاف اپنے دلائل جاری رکھے ۔

    جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آدھے گھنٹے کی بحث میں اٹھارویں ترمیم منظور کر لی گئی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بنیادی ڈھانچہ کسی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کیلئے کافی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آنے والی نسل سابقہ نسل کی پیروی کرنے کی پابند نہیں ہے ،سیاست دانوں پر اتنا عدم اعتماد ظاہر نہیں کرنا چاہیئے ۔

    ایک سیاست دان نے یہ ملک بنایا ہے ،سیاست دانوں نے آئین دیا ،سیاست دانوں نے ملک چلانے کا نظام دیا ۔ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ آئین میں حقوق کا پورا پیراگراف موجود ہے لیکن اگر ان حقوق کو نافذ کرنے کا طریقہ کار ہی نہ ہو تو ایسے حقوق کا کیا فائدہ ؟۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں جوڈیشل ونگ بنائے جانے کا راستہ ہم نے روک دیا ہے ۔دوران سماعت وطن پارٹی کے وکیل بیرسٹرظفر اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ انیسویں ترمیم عدالتی کے دباﺅ پر ہوئی ۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم نے صرف سفارشات دی تھیں ۔فاضل وکیل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کیس میں دی گئی تمام سفارشات غیر قانونی تھیں ۔بعد ازاں مزید سماعت آج بدھ تک ملتوی کر دی جبکہ حامد خان آج بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

  • فوجی عدالتوں کے قیام کیخلاف 21ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت آج ہوگی

    فوجی عدالتوں کے قیام کیخلاف 21ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کا فل بنچ آج فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف اکیسویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کرے گا۔

    چیف جسٹس پاکستان ناصر الملک کی سربراہی میں فل بنچ فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف اکیسویں آئینی ترمیم کیس کی اہم سماعت کریگا، آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر وفاق کے جواب پر جرح کی جائے گی۔

    جسٹس دوست محمدخان کے چچا کے انتقال کے باعث گزشتہ سماعت بغیرکارروائی کے آج تک کیلئے ملتوی کردی گئی تھی، اکیسویں ترمیم کے خلاف اس کیس کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔

    اس سے قبل  سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سنائی جانے والی 6 مجرمان کی سزائے موت معطل کر دی تھی۔

  • فوجی عدالتوں کی سزائیں بحال کی جائیں، اٹارنی جنرل کی درخواست

    فوجی عدالتوں کی سزائیں بحال کی جائیں، اٹارنی جنرل کی درخواست

    اسلام آباد: اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرادی، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں آئینی ہیں، سزاؤں پر عمل درآمد روکنے کا حکم واپس لیا جائے۔

    وفاق کی جانب سے فوجی عدالتوں کی سنائی گئی سزاؤں پرعملدر آمد روکے جانے کی درخواست کا جواب جمع کرا دیا گیا، اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار اس میں متاثرہ فریق نہیں ہے، اس لئے اسے سزاؤں کیخلاف درخواست دینے کا کوئی اختیار نہیں۔

    مؤقف میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتیں آئینی ہیں، جن کا قیام آئینی ترمیم کے بعد قانون کے ذریعے کیا گیا، عدالتوں کے دائرہ اختیار کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ بار کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کی کہ سزاؤں پر عمل در آمد روکنے کا فیصلہ واپس لیا جائے

  • ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت 14مئی تک ملتوی

    ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت 14مئی تک ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت چودہ مئی تک ملتوی کر دی ہے۔

    جسٹس دوست محمد کھوسہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، ممتاز قادری کی جانب سے خواجہ شریف اور میاں نذیر اختر پیش ہوئے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ممتاز قادری کیس میں ریاست کی جانب سے بھی اپیل فائل کی گئی ہے جو درستگی کیلئے واپس لی گئی ہے، ریاست اور ممتاز قادری کی جانب سے فائل کی اپیلوں میں اہم قانونی نکات ہیں، اس لئے انھیں اکٹھے سنا جانا چاہیئے۔

    ممتاز قادری کے وکلاء کا کہنا تھا کہ انھیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، عدالت نے سماعت چودہ مئی تک ملتوی کر دی ہے۔

    واضح رہے کہ مجرم ممتاز قادری نے 2011 میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔

  • فوجی عدالتوں سے دی گئی 6مجرموں کی سزائےموت پر عمل درآمد معطل

    فوجی عدالتوں سے دی گئی 6مجرموں کی سزائےموت پر عمل درآمد معطل

    اسلام آباد: اٹھارہویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی چھ افراد کی سزائے موت پر عملدر آمد روک دیا، عملدر آمد سپریم کورٹ بار کی درخواست پر عبوری طور پر روکا گیا جبکہ سپریم کورٹ نے اکیسویں ترمیم سے متعلق سماعت میں حکم امتناع جاری کیا اور حکومت سے بائیس اپریل تک جواب طلب کرلیا ہے۔

    نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کی گئی فوجی عدالتوں سے 6دہشتگردوں کی سزائے موت کو سپریم کورٹ میں چیلنچ کیا تھا، سپریم کورٹ میں درخواست معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس زیرِ سماعت ہے ، اس لئے عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ فوجی عدالت کی آئینی حیثیت کے تعین تک سزائے موت پر عملدرآمد روکا جائے۔

    سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے اٹارنی جنرل  سے سوال کیا کہ حکومت کو ان سزاؤں پر عمل درآمد کی کیا جلدی ہے اور کیوں نہ انھیں کچھ عرصے کے لیے موخر کر دیا جائے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فوجی عدالت سے سزا پانے والوں کو آرمی ایکٹ کے شق 133 بی کے تحت اپیل کا حق حاصل ہے، جسے وہ استعمال کر سکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ ان افراد کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں اور انھیں سزا ملنے کی خبر بھی میڈیا کے ذریعے پتہ چلی، ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ جو کارروائی ہوئی وہ قانون کے مطابق تھی یا نہیں۔

    عدالت نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے چھ افراد کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا حکم دیا اور کہا کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر حتمی فیصلہ آنے تک یہ سزا معطل رہے گی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ برس 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں کے بعد شدت پسندی کے مقدمات کے فوری فیصلوں کے لیے پارلیمنٹ میں 21ویں ترمیم کے تحت دو سال کے لیے ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے قانون سازی کی گئی تھی۔

    اس کے بعد ایک فوجی عدالت نے رواں ماہ کے آغاز میں شدت پسندی کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے چھ مجرموں کو موت جبکہ ایک کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

    فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا  کہ جن افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے، اُن میں نور سعید، حیدر علی، مراد خان، عنائت اللہ، اسرار الدین اور قاری ظہیر شامل ہیں جبکہ عباس نامی شخص کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

  • سپریم کورٹ میں آج فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست کی سماعت ہوگی

    سپریم کورٹ میں آج فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست کی سماعت ہوگی

    اسلام آباد: چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل بینچ اکیسویں ترمیم کے تحت ملک بھر میں فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف آج دس سے زائد درخواستوں کی سماعت کر ے گا۔

    سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر وکلا تنظیموں نے فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستیں دی تھیں۔

    تاہم عدالت عظمیٰ نے ان تمام درخواستوں کو یکجا کردیا ہے۔

    ان درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام موجودہ عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے اور یہ عدالتیں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

  • سپریم کورٹ، ڈرون حملوں کے خلاف آئینی درخواست خارج

    سپریم کورٹ، ڈرون حملوں کے خلاف آئینی درخواست خارج

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ڈرون حملوں کے خلاف آئینی درخواست خارج کردی ہے۔

    عدالت کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف درخواست آئین کے آرٹیکل184کی شق تین کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔

    ڈرون حملوں کے خلاف سپریم کورٹ میں شہری اقتدار حیدر کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

    دوران سماعت درخواست گزار نے کہا کہ قبائلی علاقے ہمارے ملک کا حصہ ہیں، دفاع کرنا فضائیہ کی ذمہ داری ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ڈرون حملوں کے خلاف درخواست آئین کے آرٹیکل184کی شق تین کے دائرہ کار میں نہیں آتی، ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے عدالت جنگ کا حکم کیسے دے سکتی ہے۔

    تاہم عدالت نے ڈرون حملوں کے خلاف دائر درخواست خارج کردی۔

  • تحریک انصاف کی اسمبلیوں میں واپسی، سپریم کورٹ میں درخواست

    تحریک انصاف کی اسمبلیوں میں واپسی، سپریم کورٹ میں درخواست

    اسلام آباد : سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کی سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کیخلاف درخواست، تفصیلات کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کی واپسی کا معاملہ عدالتوں میں چلا گیا۔ اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹ کے بعد سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کر دی گئی۔

    لاہورہائیکورٹ میں انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئےقائم جوڈیشل کمیشن کےخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔درخواست گزارنے موقف اختیارکیاکہ انتخابات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل  کمیشن کاقیام غیر قانونی ہے۔

    دھاندلی کیسزکی سماعت صرف الیکشن ٹربیونل میں کی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ ن لیگ اور پی ٹی آئی کےدرمیان معاہدے کی پابند نہیں۔

    عدالت جوڈیشل کمیشن کےقیام سےمتعلق صدارتی آرڈینس کو غیرآئینی قرار دے۔عدالت نے وفاقی حکومت اور وزرات داخلہ سے سات مئی تک جواب طلب کرلیا۔

    تحریک انصاف کےاراکین اسمبلی کےاستعفوں کی منظوری کیلئےدرخواست کی لاہورہائیکورٹ میں سماعت ہوئی،درخواست سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔درخواست گزار کے مطابق استعفےکے بعداراکین پارلیمنٹ دوبارہ اسمبلیوں میں نہیں بیٹھ سکتے۔

    عدالت استعفی منظور کرتے ہوئے نشستیں خالی قراردینے کا حکم دے۔ سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں تحریک انصاف کےاراکین پارلیمنٹ کو نااہل قرار دینےکی درخواست کی سماعت ہوئی ۔

    درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ دستورکے مطابق چالیس روزتک غیرحاضررہنےوالا رکن پارلیمنٹ نااہل ہوجاتا ہے،پی ٹی آئی اراکین ساڑھے سات ماہ سے اسمبلی نہیں لائے۔بیرسٹر ظفراللہ کاکہناتھاعدالت پی ٹی آئی کےتمام اراکین کونااہل قراردے۔

  • ممتاز قادری کیس: سزا میں تخفیف کیخلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ

    ممتاز قادری کیس: سزا میں تخفیف کیخلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومت نے سلمان تاثیر قتل کیس کے ملزم ممتاز قادری کی سزا میں تخفیف اور دہشت گردی کی دفعات ختم کئے جانے کے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اس ضمن میں ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت ہائی کورٹ کے ممتاز قادری کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنا چاہتی ہے۔

    جس کی مدت کل ختم ہورہی ہے جبکہ دہشت گردی کے حوالے سے درکار دستاویزات کے حصول کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔

    درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اپیل دائر کرنے میں مہلت دی جائے اور تاخیر سے آنے والی اپیل زائدالمیعاد ہونے پر خارج نہ کی جائے۔