Tag: سپریم کورٹ میں چیلنج

  • پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج

    پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج

    اسلام آباد : پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا، جس میں استدعا کی آرڈیننس کے تحت ہونے والے تمام اقدامات کالعدم قرار دیں۔

    تفصیلات کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی، چوہدری احتشام الحق ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

    درخواست گزار نے کہا کہ آرڈیننس کااجراپارلیمانی جمہوریت کےخلاف ہے، سپریم کورٹ بھی قرار دے چکی ہے کہ آرڈیننس صرف ہنگامی حالات میں جاری ہو سکتا ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ ترمیمی آرڈیننس کوآئین سےمتصادم قراردیاجائے اور آرڈیننس کے تحت ہونے والے تمام اقدامات کالعدم قرار دیں۔

    درخواست گزار نے یہ بھی استدعا کی کہ درخواست پر فیصلے تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس معطل کیا جائے۔

    یاد رہے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کو لاہورہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا ، جس میں استدعا کی تھی درخواست کے حتمی فیصلے تک آرڈیننس پرعملدرآمد روکنے کا حکم دیں۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ صدارتی آرڈیننس بدنیتی پرمبنی ہے، پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ سےمتعلق سپریم کورٹ کافیصلہ موجودہے، آرڈیننس سےسپریم کورٹ کےاختیارات کو کم یازیادہ نہیں کیاجاسکتا۔

  • مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

    مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

    اسلام آباد : مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا گیا، صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے نئی مردم شماری پر انتخابات کرانے کے حکومتی فیصلے کی مذمت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے مشترکہ مفادات کونسل کےفیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنےکااعلان کردیا۔

    سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کےصدراور سیکرٹری نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سی سی آئی کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی درخواست معزز سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی، نئی مردم شماری پر انتخابات کرانے کے حکومتی فیصلےکی مذمت کرتےہیں۔

    مشترکہ بیان میں کہنا تھا کہ یہ عمل انتخابات کےانعقاد میں غیر آئینی تاخیر کا سبب بنے گا، الیکشن کمیشن کا فرض ہے آئین میں دیے گئے وقت کےاندرانتخابات کرائے۔

    صدرسپریم کورٹ بار نے کہا کہ آئین میں یہ واضح ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے90 دن کےاندر انتخابات کرائےجائیں، الیکشن کمیشن 90 دن کےاندر انتخابات کےانعقاد کی تاریخ کا اعلان کرنےکاپابندہے۔

    مشترکہ بیان کے مطابق حدبندی کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر نہیں کی جا سکتی، آئین وقانون کے تحت صوبائی نگراں حکومت کےپاس صرف ایک مینڈیٹ ہے۔

    صدرسپریم کورٹ بار نے مزید کہا کہ نگراں وزیراعلیٰ کی سی سی آئی میں شرکت،نئی مردم شماری پرانتخابات کےفیصلےمیں ملوث ہونامینڈیٹ سےبالاترہے، یہ عمل صریحاًغیر آئینی اور جمہوری طور پر منتخب حکومت کےزیرانتظام پاکستانیوں کےبنیادی حقوق کیخلاف ہے۔

    مشترکہ بیان میں کہنا تھا کہ انتخابات میں تاخیرکےحربےقوم کو حق رائےدہی سےمحروم اور ملک میں قانون کی حکمرانی کوکمزور کرنےکا کام کرتے ہیں، ملک بھر کی قانونی برادری سےبھی مطالبہ کرینگے کہ وہ ملک گیر پرامن جدوجہد شروع کریں۔

  • تحریکِ انصاف کا  نیب قوانین میں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

    تحریکِ انصاف کا نیب قوانین میں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

    اسلام آباد : تحریکِ انصاف نے نیب قوانین میں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا، فواد چوہدری نے کہا آصف زرداری، نواز شریف، شہبازشریف ، مریم نواز سب نے این آر او ٹو لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا آئی ایم ایف سےانکی ڈیل نہیں ہورہی اس لئے مہنگائی ہے، ان کا وزیرخزانہ امریکی سفیرسےکہتاہےکہ ہمارامعاہدہ کرائیں۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ڈر لگ رہاہے کہ یہ ملک کو کس طرف لیکرجائیں گے ،اتنے نالائق ہیں انہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آرہاکہ کرناکیاہے، پاکستان سری لنکا جیسی صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

    پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ خرم دستگیر نےکہا عمران خان رہ جاتے تو وہ 100 نئے ججز نیب میں لگا رہے تھے، اور کیا اعتراف کیا احتساب سے بچنے کیلئے عمران خان کو باہر نکالا، ہم نے اس حکومت کو سازش کرکے باہرنکالا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے صدر اور وزیراعظم نے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا، سپریم کورٹ سے کہا تحقیقات کرائیں حکومت بدلنے کی وجوہات کیا تھیں۔

    نیب قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے فواد چوہدری نے کہا کہ یہ دوسرا این آراو ہے ، جو شریف اور زرداری فیملی ریاست سے لے رہی ہے، ہم پوچھ رہے تھے وجہ کیا ہے وجہ خرم دستگیر نے بتادی، انھوں نے پہلا این آراو مشرف سے لیا، دوسراریاست سے لے رہے ہیں، مشرف دور میں جتنے کیسز تھے، این آر او ون کے تحت معاف ہوگئے۔

    تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ آج پوری تحریک انصاف بلیک ڈے منارہی ہے، نیب قوانین میں ترامیم بدترین این آراوہے جس پر عملدرآمد ہوا ہے، نیب قوانین میں ترامیم سےخصوصاًشریف،زرداری فیملی کو فائدہ پہنچایا گیا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ آپ کسی فردواحد کیلئےقانون سازی نہیں کرسکتے، قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے، زرداری کے اکاؤنٹ سے 5ہزار کروڑ نکلے تو انہوں نے بتانا ہے کہ وہ کیسے آئے لیکن اب یہ سیکشن ختم کردیا یہ نیب پرڈال دیا گیا وہی بتائیں گے کہ کیسے آیا۔

    فوانین میں ترمیم کی تفصیلات بتاتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سے کوئی ثبوت کریٹ ہوا اس پر نیب کچھ نہیں کرسکے گا، سیکشن 21جی کو انہوں نے تبدیل کردیا ہے، اب زرداری یا شریف فیملی اپنے ناموں پر اثاثے نہیں رکھیں گے، یہ لوگ دوسروں کے ناموں پر رکھتے ہیں۔

    رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ نیب قوانین کے سیکشن9 میں ترمیم کی گئی ہے، مریم نواز کا ایون فیلڈ کا کیس بھی ختم ہورہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سیکشن 14 کے تحت منی ٹریل دیناتھی یہ شرط ختم کردی گئی، سیکشن 14 کی شرط ختم کرکے نیب کی خود مختاری کو ختم کردیا گیا اور نیب کو منسٹری آف انٹیریئر کے ماتحت کر دیاگیا ہے۔

    فواد چوہدری نے بتایا کہ سیکشن18 سی کو تبدیل کردیا گیا، اب نیب ایف آئی آرنہیں کرسکے گا اور 6ماہ میں انکوائری رپورٹ فائنل نہیں ہوتی توکیس ختم کردیا جائے گا، نیب کو ایف آئی اے کی طرح انٹیریئر منسٹری میں ڈال دیا گیا ہے۔

    سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس طرح 1200 میں سے 1100 ارب کے کیسز نیب سے نکل گئے، صدرمملکت نے اس پر دستخط کرنے سے منع کردیا ہے، یہ عجیب وغریب معاملہ چل رہا ہے، مدعی اورملزم بھی خود ہیں، انہوں نے خود کو این آر او ٹو دے دیا اب کھلی آزادی ہے جو کرنا ہے کریں۔

    فواد چوہدری نے کہا عمران خان اورپی ٹی آئی کی جانب سےسپریم کورٹ سےرجوع کررہےہیں، ملزموں نے خود مدعی بن کر فیصلہ کرلیا اور آصف زرداری، بلاول زرداری، نوازشریف، شہبازشریف، ان کے اہلِ خانہ، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق اور راجاپرویز اشرف سب نے این آر او ٹو لے لیا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر کے پاس اختیار ہے ایک بار مسترد کرکے واپس بھیج دیتاہے اور پارلیمنٹ سے پاس ہو جائے تو 10 دن میں اس پرعمل ہو جاتا ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما نے پی ٹی آئی کی جانب سے لاکھوں لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف عمران خان اورپی ٹی آئی مظاہرہ کرسکتےہیں، صرف 36 گھنٹے میں لاکھوں لوگ باہر نکلے ہیں، عمران خان نے ہمیشہ پاکستان کی بات کی ہے، عمران خان پاکستان کو جوڑنے کی علامت ہیں۔

  • تحریک انصاف کی ایک اور منحرف رکن  نے ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    تحریک انصاف کی ایک اور منحرف رکن نے ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    اسلام آباد : تحریک انصاف کی ایک اور منحرف رکن عائشہ نواز نے ڈی سیٹ کرنےکا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا اور فیصلے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کردی۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کی ایک اور منحرف رکن عائشہ نواز نے الیکشن کمیشن فیصلےکیخلاف سپریم کورٹ سےرجوع کرلیا ، سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں منحرف رکن پنجاب اسمبلی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ قانون کے بر خلاف کیا گیا۔

    منحرف رکن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نےسپریم کورٹ فیصلوں میں طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی اور فیصلےمیں پارٹی سربراہ ،پارلیمانی سربراہ کےعہدوں میں تفریق نہیں کی گئی۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کیجانب سے قانون کے مطابق شوکازنوٹس جاری نہیں کیے گئے، گزشتہ تاریخوں سےشوکازجاری کئےگئے، قانون کے مطابق شوکاز نوٹس جاری کرنا لازم ہے۔

    عائشہ نواز نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے تک الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا جائے۔

    یاد رہے اس سے قبل منحرف خاتون رکن زہرہ بتول نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا ، زہرہ بتول نے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ، جس میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں پارلیمانی پارٹی کی جانب سے کوئی ہدایت نہیں تھی، پارلیمانی پارٹی کا نہ کوئی اجلاس ہوا نہ ہی کوئی پالیسی طے ہوئی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ حقائق کے منافی ہے اسے برقرار نہیں رکھا جاسکتا، سپریم کورٹ سے اپیل ہے کہ استدعا منظور کرکے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

    واضح رہے الیکشن کمیشن نے 20 مئی کو اپنے فیصلے میں پنجاب اسمبلی کے منحرف اراکین کے خلاف دائر ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کو نااہل قرار دیا تھا اور انہیں ڈی سیٹ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

  • نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری کی ضمانت سپریم کورٹ میں چیلنج

    نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری کی ضمانت سپریم کورٹ میں چیلنج

    اسلام آباد : قومی احتساب بیورو ( نیب) نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں فواد حسن فواد کی ضمانت سپریم کورٹ میں چیلنج  کر دی، جس میں کہا گیا ہائی کورٹ نے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا جس کے باعث انصاف نہ ہوا، فواد حسن فواد کی ضمانت کالعدم قرار دی جائے۔ 

    تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو ( نیب) نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں فواد حسن فواد کی ضمانت کیخلاف درخواست دائر کردی، نیب نے لاہور ہائی کورٹ کے21 جنوری 2020 کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

    نیب کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈمحمدشریف جنجوعہ کے توسط سے درخواست دائر کی گئی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے شواہد نظر انداز کرکے ضمانت دی ، ملزم اور رشتے داروں کے نام ایسی جائیدادیں ہیں جو کہیں زیادہ ہیں۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا جس کے باعث انصاف نہ ہوا اور استدعا کی کہ سپریم کورٹ فواد حسن فواد کی ضمانت پر ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قراردے۔

    مزید پڑھیں : نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی ضمانت پر رہائی کا حکم

    یاد رہے رواں سال جنوری میں عدالت نے اثاثہ جات کیس میں گرفتار نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو ایک کروڑ روپے کے مچلکے جمع کرا کے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

    بعد ازاں نیب نے فواد حسن فواد کی ضمانت کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کا فیصلہ کر تے ہوئے کہا تھا کہ  فواد حسن فواد کے خلاف ضمانت خارج کرانے کے لیے نیب نے اہم نکات تیار کر لی ہیں۔

    خیال رہے نیب نے 5 جولائی 2019 کو فواد حسن فوادکواختیارات کےناجائز استعمال پرگرفتارکیاتھا۔

  • قاسم سوری نے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    قاسم سوری نے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    اسلام آباد : سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا،الیکشن ٹریبونل نے قاسم سوری کی کامیابی کا کالعدم قرار دیکر دوبارہ الیکشن کا حکم دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا، قاسم سوری کی جانب سے ایڈووکیٹ نعیم بخاری نے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ٹریبونل کے شواہد کا جائزہ نہیں لیا گیا، انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں سے میرے موکل سے منسوب نہیں ہو سکتی۔

    دائر درخواست میں استدعا کی ہے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور اپیل کو کل سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

    یاد رہے الیکشن ٹربیونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 سے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی کامیابی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی کامیابی کالعدم قرار

    خیال رہے قاسم سوری کی انتخابی کامیابی کو بی این پی کے نوابزادہ لشکر رئیسانی نے چیلنج کیا تھا اور 2018 انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

    لشکر رئیسانی ان 5 امیدواروں میں سے ایک تھے جنہوں نے این اے 265 سے انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن انہیں قاسم سوری سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

  • نواز شریف کے وکلا کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

    نواز شریف کے وکلا کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت مسترد کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکلا نے درخواست ضمانت مسترد ہونے پر سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے، وکلا کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی سزامعطلی اورضمانت کی درخواست مسترد کردی، عدالت نے قراردیاکہ نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے، طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی

    العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ مجرم نوازشریف نے طبی بنیادوں پرضمانت کی درخواست کی تھی اور جسٹس عامرفاروق اورجسٹس محسن کیانی پرمشتمل دو رکنی بیبنچ نے دلائل کے بعدفیصلہ بیس فروری کو محفوظ کیاتھا۔

    نیب نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پررہائی کی مخالفت کی تھی۔

    خیال رہے نواز شریف العزیزیہ کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں اور اپنی بیماری کے سبب لاہور کے جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں ، میڈیکل بورڈ نے سفارشات محمکہ داخلہ کو بجھوادیں ہیں ، جس میں انجیو گرافی تجویز کی گئی ہے۔

    واضح رہے گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

  • نیب نے نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    نیب نے نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    اسلام آباد : قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز  اور کیپٹن (ر) صفدر کی ایوان فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی کا ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ،ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر)صفدر کی سزا معطلی  کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    نیب کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہےکہ ہائیکورٹ نے مقدمہ کے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا، ہائیکورٹ نےاپیل کے ساتھ سزا معطلی کی درخواستیں سننے کاحکم دیا تھا، ہائیکورٹ نے اپنے ہی حکم نامے کے برخلاف درخواستوں کی سماعت کی۔

    نیب نے استدعا کی اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

    یاد رہے 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے مختصر فیصلے میں نوازشریف، مریم اورصفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

    عدالت نے نواز شریف، مریم نواز، محمد صفدر کو 5،5لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

    بعد ازاں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاویداقبال کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ   میاں نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں : نیب اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کرے گا

    خیال رہے 3 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس گل حسن نے نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نیب نے ضمانت کی درخواستوں پر بحث کے لئے زیادہ سہارا پاناما فیصلے کا لیا۔ بادی النظر میں ملزمان کو دی گئی سزائیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں، احتساب عدالت نے اپارٹمنٹس خریداری میں مریم نواز کی نوازشریف کو معاونت کا حوالہ نہیں دیا، مریم نواز کی معاونت کے شواہد کا ذکربھی نہیں۔

    واضح رہے 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو دس مریم نواز کو سات اور کیپٹن ر صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

    ایوان فیلڈ میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن پر لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

    سانحہ ماڈل ٹاؤن پر لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

    لاہور : پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ کو شریف فیملی، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ کو شامل تفتیش کرنے کا حکم دے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کردی ،درخواست پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے دائر کی گئی۔

    دخواست میں ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے اور نواز شریف، شہباز شریف اورحمزہ شہباز سمیت ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے طاقت کا استعمال کیا، رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے 10لوگوں کی جان لی گئی، رکاوٹیں ہٹانے سے قبل کوئی نوٹس بھی نہیں دیا گیا۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ کو شریف فیملی، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ کو شامل تفتیش کرنے کا حکم دے، ہائی کورٹ نے فیصلے میں بنیادی حقائق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

    یاد رہے 26 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے منہاج القرآن کی جانب سے نواز شریف اور شہباز شریف سمیت نوسیاستدانوں اورتین بیوروکریٹس کی طلبی کی درخواستیں مسترد کردیں تھیں  اور سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے نام ملزمان کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس، نواز شریف اور شہباز شریف کی طلبی کی درخواستیں مسترد

    لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ دو ایک کی اکثریت سے آیا، جسٹس سرداراحمد نعیم اور جسٹس عالیہ نیلم نے درخواستیں مسترد کیں جبکہ فل بینچ کے سربراہ جسٹس قاسم خان نے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

    اس سے قبل ٹرائل کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے استغاثہ کیس میں نواز شریف، شہباز شریف سمیت سابق وزرا کو بے گناہ قرار دیا تھا، عوامی تحریک نے ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

    ادارہ منہاج القرآن کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ دہشتگردی عدالت میں زیر سماعت استغاثہ میں نواز شریف. شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، سعد رفیق، پرویز رشید، عابدہ شیر علی اور چودھری نثار کے نام میں شامل کیے جائیں آور دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے، جس کے تحت ان کے نام استغاثہ میں شامل نہیں کیے۔

    خیال رہے 19 ستمبر کو سربراہ پی اے ٹی ڈاکٹر طاہر القادری نے وطن واپسی پر تحریک انصاف کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو سزا دے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے راستے میں 116 پولیس افسر رکاوٹ ہیں۔

    واضح رہے کہ جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں جامع منہاج القرآن کے دفاتر اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر بیرئیر ہٹانے کے لیے خونی آپریشن کیا گیا، جس میں خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق جب کہ 90 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

  • خواجہ آصف نے اپنی تاحیات نااہلی کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    خواجہ آصف نے اپنی تاحیات نااہلی کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    اسلام آباد : خواجہ آصف نے اپنی تاحیات نااہلی کافیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، سینئر لیگی رہنما نے نااہلی کافیصلہ اورالیکشن کمیشن کانوٹیفکیشن کالعدم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کاغذات نامزدگی میں بینک اکاؤنٹ غیرارادی ظاہرنہ کرسکا،  ہائی کورٹ نے قیاس آرائیوں پرمبنی فیصلہ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق خواجہ آصف نے تاحیات نااہلی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا، خواجہ آصف نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ کاغذات نامزدگی میں بینک اکاؤنٹ غیرارادی ظاہرنہ کرسکا، بینک اکاؤنٹ میں ڈیکلیئرڈ اثاثوں کی اعشاریہ پانچ فیصدرقم تھی، رٹ دائر ہونے سے پہلے اکاؤنٹ اور اقامہ ظاہر کرچکا تھا۔

    خواجہ آصف نے کہا کہ عدالت نےغیرفعال اکاؤنٹ کوظاہرنہ کرنابدنیتی قراردیا، فیصلے میں ملکی اوریو اے ای قوانین کومدنظرنہیں رکھا گیا، درخواست گزارکے رویے کو بھی سامنےرکھنا ہوتا ہے۔

    درخواست گزارنے ہائی کورٹ سےحقائق چھپائے، کاغذات نامزدگی میں چھ اعشاریہ آٹھ ملین روپےکی بیرونی آمدن ظاہرکیا۔

    خواجہ آصف نے درخواست میں مزید کہا کہ بیرون ملک کی ظاہرکردہ آمدن میں تنخواہ بھی شامل تھی،اسلام آبادہائیکورٹ نےقیاس آرائیوں پرمبنی فیصلہ دیا۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ رٹ2017 میں دائر ہوئی، 2015 میں اقامہ ظاہرکیا، خود سے اکاؤنٹ ظاہرکرنے کےعمل کوبدنیتی نہیں کہا جاسکتا، لہذا نااہلی کا فیصلہ ختم کیا جائے۔

    یاد رہے کہ 26 اپریل کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو نااہل قرار دیا تھا۔


    مزید پڑھیں : عدالت نے خواجہ آصف کو نااہل قرار دے دیا


    سپریم کورٹ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہونے والی نااہلی کو تاحیات قرار دے چکی ہے، جس کے بعد نااہلی کے بعد خواجہ آصف اب نہ وزیر خارجہ رہے اور نہ وہ آئندہ انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکتے۔

    الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نااہلی کے فیصلے کے بعد سابق وزیر خارجہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کی قومی اسمبلی رکنیت ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔

    خیال رہے کہ خواجہ آصف کی نا اہلی کے لیے درخواست تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے دائر کی تھی، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیر خارجہ دبئی میں ایک پرائیویٹ کمپنی کے ملازم ہیں جہاں سے وہ ماہانہ تنخواہ بھی حاصل کرتے ہیں۔ غیر ملکی کمپنی میں ملازمت کرنے والا شخص وزیر خارجہ کے اہم منصب پر کیسے فائز رہ سکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔