Tag: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ

  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج پھر ہوگی

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج پھر ہوگی

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت آج دوبارہ کرے گا، کیس کی سماعت سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیس کی سماعت آج ساڑھے 9 بجےہوگی ، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ دوسری سماعت کرے گا۔

    پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیس کی سماعت سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر کی جائے گی، سرکاری ٹی وی کو انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے، کیس کی پہلی سماعت کی کارروائی تمام ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھائی گئی تھی۔

    گذشتہ روز پی ٹی آئی نے ایکٹ کیخلاف کیس میں اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھیں ، جس میں کہا تھا کہ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ عدلیہ کی آزادی کیخلاف ہے،آئین میں پارلیمنٹ اور ایگزیکٹیوکےاختیارات واضح ہیں، پی ڈی ایم حکومت نےسپریم کورٹ کےمتوازی نظام قائم کرنےکی کوشش کی۔

    تحریک انصاف نے دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی گئی تھی ، اس سے قبل پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیس میں وفاقی حکومت نےعدالتی سوالات پر جواب جمع کرادیا تھا۔

    یاد رہے سابق چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لاجربنچ نے قانون کومعطل کیا تھا ، سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ اب تک 1 اور لارجربینچ اس کیس کی 5 سماعتیں کر چکا ہے۔

    لارجربینچ 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع دے چکا ہے، 8 رکنی لارجر بنچ نے 2 مئی، 8 مئی ، یکم جون اور 8 جون کو مقدمے کی سماعت کی تھی۔

    پی ڈی ایم حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کیا تھا، قانون کے تحت ازخود نوٹس اور بینچز کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا اختیار 3 سینئر ججزکی کمیٹی کو دیا گیا تھا۔

  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج پھر ہوگی

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج پھر ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی، عدالت نے قانون پر عمل درآمد روک رکھا ہے۔

    سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج پھر ہوگی، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ سماعت کرے گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس مظاہر نقوی،جسٹس محمد علی مظہر بینچ ، جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس حسن اظہر رضوی ، جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ نے قانون پر عمل درآمد روک رکھا ہے اور اٹارنی جنرل سمیت دیگر کو نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر دوبارہ غور کا فیصلہ کیا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور نظرثانی قانون دونوں میں کچھ شقیں ایک جیسی ہیں، دونوں قوانین کا باہمی تضاد سے بچانے کیلئے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے انتظامی معاملے پر قانون سازی عدلیہ کے مشورے سے نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کی مشاورت سے اب قانون میں ترمیم ہوگی، دونوں قوانین کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی مشاورت ہوگی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی پر ہدایات نہیں دے سکتے، حکومت خود چیزیں ٹھیک کرلے یا حکومت قانون بناتی رہے، ہم مقدمات سنتے رہیں گے، دیکھتے ہیں تیز کون ہے۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی کہ آپ حکومت سے ہدایات لے لیں تب تک کسی اور کو سن لیتے ہیں، اگلے ہفتے اس کیس کو سنیں گے۔

  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی ، پی ٹی آئی نے نیا قانون کالعدم قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت آج ہوگی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں8رکنی بینچ دن12 بجے سماعت کرے گا، تحریک انصاف نے نیا قانون کالعدم قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

    گذشتہ روز تحریک انصاف نے بطور فریق جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا تھا، جس میں استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کو اور قانون کی شقوں 2،3،4،5،7 اور 8 کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

    پی ٹی آئی نے جواب میں کہا تھا کہسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، قانون سے عدلیہ کے اندرونی انتظامی امور میں مداخلت کی گئی ہے۔