Tag: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس

  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ ، ساڑھے 5 بجے سنایا جائے گا

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ ، ساڑھے 5 بجے سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، فیصلہ ساڑھے 5 بجے سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی، فل کورٹ میں سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے آپس میں مشاورت کریں گے،اتفاق رائے ہوا تو آج ہی فیصلہ سنائیں گے، آج اتفاق رائے نہیں ہوتا توفیصلہ محفوظ سمجھیں بعد میں سنایا جائے گا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیس کافیصلہ ساڑھے5بجے سنایا جائے گا۔

    اس سے قبل سماعت میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نےعدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے ملک چھ سو ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، جس پر جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے آپ ہمیں چارج شیٹ کرنا چاہتے ہیں سپریم کورٹ نے جن کیسز میں قابلیت نہیں تھی ان پر قانون بنا دیا، آپ اب اس کو قانونی شکل دے دیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کو تنقید سننے کا حوصلہ رکھنا چاہئے، آپ کو چارج شیٹ کا لفظ نہیں کہنا چاہئے تھا، یہ صرف کیس کی حقیقت بتا رہے ہیں، ایک سو چوراسی تین میں کچھ اچھے کام بھی ہوئے ہوں گے، ہو سکتا ہے زیادہ اچھے کام نہ ہو سکے ہیں، ایک سو چوراسی تین میں اپیل کا حق دیا گیا ہے

    دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کوئی بھی عدالت انتظامی سطح پر قانونی حق ختم نہیں کرسکتی، جس پر چیف جسٹس نے کہا مفروضوں سے نکل کر بات کریں تو جسٹس منیب نے جواب دیا میرا سوال مفروضے پر نہیں مستقبل کےلیے حقیقت پر ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ تسلیم کرنا چاہتا ہوں فل کورٹ بنانا میری غلطی تھی،جب آٹھ رکنی بینچ بنا تھا تب بھی اپیل کا یہی سوال اٹھنا تھا، کسی جج نے فل کورٹ پر اعتراض کیا نہ آٹھ رکنی بنچ پر۔

    پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے اگرپارلیمان چاہتی توایک قدم آگے جاسکتی تھی، پارلیمان نے قدم شاید اسلیے نہیں اٹھایا کیونکہ اُسے ہم پر اعتبار ہے، پارلیمان نےسپریم کورٹ کی عزت کی اور رکھی، پارلیمان ہماری دشمن نہیں، یقیناً وہ بھی ہمیں دشمن نہیں سمجھتی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایک ادارے کو دوسرے ادارے سے لڑانے کی کوشش نہ کریں، ہماری مرضی جب وقت آئے گا تو انٹر پٹیشن کرلیں گے، 40سال سےقانون سےوابستگی ہے،تھوڑی بہت عقل آگئی ہے، آئین پرجوحملہ ہوا،آپ صرف اُس پرفوکس رکھیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 1973کے بعد سے 232ازخودنوٹس لئے،سپریم کورٹ نے سٹیل مل نجکاری کالعدم قرار دینے کے بعد کرپشن پر ازخود نوٹس لیا،ازخودنوٹس لیا تو سٹیل ملز منافع میں تھی، سوموٹو سے آج تک سٹیل ملز 206اب کا نقصان کر چکی ہے، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ اس کارروائی کو سپریم کورٹ کیخلاف چارج شیٹ نہیں بنایا جا سکتا۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اسٹیل مل کیس کا موجودہ کیس سے کیا تعلق ہے؟ جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا قانون سازی کے وقت پارلیمان میں یہ بحث ہوئی تھی؟ابھی تک پارلیمان میں بحث کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔

  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت غیر معینہ تک ملتوی، وجوہات سامنے آگئیں

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت غیر معینہ تک ملتوی، وجوہات سامنے آگئیں

    اسلام آباد : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس شاہد وحید کی خرابی صحت کے سبب غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت غیر معینہ تک ملتوی کردی گئی ، کورٹ ایسوسی ایٹ نے سماعت ملتوی ہونےکی وجوہات بتا دیں۔

    عدالتی عملے نے بتایا کہ سماعت جسٹس شاہد وحید کی خرابی صحت کے سبب ملتوی کی گئی، اٹارنی جنرل نے سماعت بجٹ سیشن کے بعد رکھنے کی استدعا کی تھی۔

    عدالتی عملے نے کمرہ عدالت میں آ کر کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے میٹنگ روم میں اٹارنی جنرل سمیت وکلاء کو بلایا، اٹارنی جنرل نے بتایا دو قوانین میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے فوری قانون سازی نہیں ہو سکی، اٹارنی جنرل کا موقف تھا بجٹ سیشن چل رہا ہے، فوری قانون سازی نہیں ہوسکتی۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا لپ کہ کیس کی سماعت بجٹ سیشن کے بعد کی جائے۔

    ذرائع نے کہا کہ جسٹس شاہد وحید کی عدم دستیابی کے باعث آج بینچ نامکمل تھا، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کرنی تھی۔