Tag: سپریم کورٹ کا فیصلہ

  • بہنوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ جاری

    بہنوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے بہنوں کو جائیداد میں حصہ دینے سے متعلق فیصلہ جاری کردیا، بےبنیاد مقدمہ بازی پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

    چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے فیصلہ تحریر کیا، سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ خواتین کی وراثتی جائیدادوں کو تحفظ ملنا چاہیے، بدقسمتی سے خواتین کو شرعی وراثتی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

    خواتین کو وراثتی جائیداد سے محروم رکھنے کیلئے کچھ وکلا سہولت فراہم کرتے ہیں، بےبنیاد مقدمہ بازی پر درخواست گزار پر 3 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا گیا۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جرمانے کی رقم وراثتی جائیداد سے محروم رکھی گئیں بہنوں کو ادا کی جائے۔

  • سپریم کورٹ فیصلے کے بعد ایوان میں نمبروں کا کھیل ختم ہوگیا، بیرسٹر علی ظفر

    سپریم کورٹ فیصلے کے بعد ایوان میں نمبروں کا کھیل ختم ہوگیا، بیرسٹر علی ظفر

    بیرسٹرعلی ظفر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایوان میں نمبروں کا کھیل ختم ہوگیا، فیصلے پر عمل نہ ہوا تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ جب ووٹ گنے ہی نہیں جائیں گے تو پھر دوتہائی اکثریت نہیں ملے گی، سپریم کورٹ نے کہا فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا تو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے، ریویو فائل کرنے سے سپریم کورٹ کا آرڈر معطل نہیں ہوسکتا۔

    بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کی لسٹ میں جتنے بھی لوگ ہیں وہ پی ٹی آئی کے سمجھے جائیں گے، سپریم کورٹ کے 8 ججز نے مل کر پہلے آرڈر کی وضاحت دی ہے، فیصلے کے بعد تمام ارکان پی ٹی آئی کے پارلیمانی ارکان سمجھے جائیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ فیصلے کے بعد آرٹیکل 63 اے ارکان پر لاگو ہوجاتا ہے، پارلیمانی لیڈر اپنے ارکان کو کہے ووٹ نہیں دینا تو وہ ووٹ گنتی میں نہیں آئےگا۔

    بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ میں نے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے سینیٹرز کو کہہ دیا ہے کہ آئینی ترمیم میں ووٹ نہیں دینا، آئینی ترمیم میں ووٹ دیا تو ارکان کا ووٹ گنا نہیں جائےگا اور نااہل بھی ہوجائیں گے۔

    رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر نے بھی ارکان کو ووٹ نہ دینے کی ہدایت کی ہے، ریویو فائل کرنے کے فیصلے کی قانونی پوزیشن تبدیل نہیں ہوگی۔

  • سپریم کورٹ کا فیصلہ : مسلم لیگ ن کو بڑی کامیابی مل گئی

    سپریم کورٹ کا فیصلہ : مسلم لیگ ن کو بڑی کامیابی مل گئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے تین لیگی امیدوار کی رکنیت معطلی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور تینوں کی کامیابی برقرار رکھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی متعلق کیس کا فیصلہ سنادیا ، فیصلے میں لیگی ارکان اسمبلی اظہرقیوم ، عبد الرحمان کانجو،ذوالفقار احمد کو بحال کردیا۔

    سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کردیا۔

    عدالت نے دوبارہ گنتی میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں اظہر قیوم، عبد الرحمان کانجو اور ذوالفقاراحمد کی کامیابی برقرار رکھی اور لیگی امیداروں کی اپیلیں منظور کر لیں۔

    سپریم کورٹ نے دو ایک کے تناسب سے فیصلہ سنایا ، جسٹس عقیل عباسی نے فیصلےسے اختلاف کیا، فیصلے کے بعد ن لیگ کو تین مزید سیٹیں مزید مل گئیں، اور اپوزیشن کی تین سیٹیں کم ہوگئیں۔

    یاد رہے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت مکمل ہونے کےبعد فیصلہ محفوظ کیا تھا، بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ میں این اے79 گوجرانوالہ تھری، این اے 81 گوجرانوالہ فائیو اور این اے 154 لودھراں کے مختلف پولنگ اسٹیشنزمیں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق اپیلوں پرسماعت ہوئی تھی۔

    ان حلقوں سے سنی اتحاد کونسل کے احسان اللہ ورک، چوہدری بلال اعجاز اور رانا محمد فراز نون منتخب ہوئے تھے۔

  • مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ ، راناثنااللہ  کا  ردِعمل آگیا

    مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ ، راناثنااللہ کا ردِعمل آگیا

    اسلام آباد: وفاقی مشیرسیاسی امور راناثنااللہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا نہیں سمجھتا مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو واپس جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی مشیر سیاسی امور راناثنااللہ نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں سےمتعلق سپریم کورٹ کافیصلہ عبوری ہے، نہیں سمجھتامخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو واپس جائیں گی۔

    راناثنااللہ کا کہنا تھا کہ میری رائےمیں سپریم کورٹ زیادہ سےزیادہ قانون میں ترمیم کاکہہ سکتی ہے،پی ٹی آئی تو الیکشن میں تھی ہی نہیں،ووٹرزنےآزادامیدواروں کوووٹ دیا، آزادامیدوارایسی جماعت میں شامل ہوئے جو مخصوص نشستوں کی دوڑ سے باہر ہے۔

    وفاقی مشیر نے کہا کہ قانون وآئین کےمطابق آزادامیدوارپی ٹی آئی کےنہیں ہیں، غلطی کا خمیازہ آزاد امیدواروں کو ہی بھگتنا ہے، عدالت نے مخصوص نشستوں والےارکان کوصرف ووٹ سےروکاہے، بطور ممبر مخصوص نشستوں والےارکان اجلاسوں میں شریک ہوسکیں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں پرمنتخب ہونےوالوں کا بطور ممبراسمبلی وجود رہے گا، مخصوص سیٹوں کے معاملے پر آئین واضح ہے، قانون میں وضاحت کی ضرورت پڑسکتی ہے، ججزتعیناتی اوردیگر پرآئینی ترمیم بارز کا مطالبہ ہے۔

    چیف جسٹس کی مدت ملازت کے حوالے سے ن لیگی رہنما نے کہا کہ 1973کےآئین میں چیف جسٹس کی مدت ملازت متعین تھی، ملک میں 14،14دن کےبھی چیف جسٹس آتے رہےہیں، کسی بھی ادارےکی بہتری کیلئےاس کےسربراہ کی مدت کاتعین ہونا ضروری ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی مدت کےتعین کی بات تودرست ہے، جن ترامیم کاسوچ رہےہیں وہ عدلیہ اور بارز کامطالبہ ہے، عدلیہ اوربارزمیں اتفاق رائےہوتوآئینی ترمیم پرکسی کواعتراض نہیں ہوگا۔

    وفاقی مشیر نے بتایا کہ وزیراعظم نےدوبارہ سےبلاول بھٹوسےوفاقی کابینہ میں درخواست کی تھی، بلاول نے پیشکش پر غور کرنے اور پارٹی میں تبادلہ خیال کاوعدہ کیاہے، تاثریہ ہی ہےکہ پی پی حکومت میں موجود ہے اور اتحادی ہے۔

    ن لیگی رہنما نے کہا کہ حکومت کےاچھےکام کاکریڈٹ پی پی کوبھی ملےگا، حکومت اچھانہیں کرے گی توپی پی بھی تنقید سے نہیں بچےگی، پی پی حکومت میں کسی جگہ موجود نہیں تو آنے کے امکانات روشن ہیں، بلاول اگرکابینہ میں کوئی خاص جگہ چاہتے ہیں تواس پربات ہوسکتی ہے۔

  • سپریم کورٹ کا فیصلہ: پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کا 28  نشستوں سے محروم ہونے کا امکان

    سپریم کورٹ کا فیصلہ: پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کا 28 نشستوں سے محروم ہونے کا امکان

    لاہور: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کا 28 نشستوں سے محروم ہونے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے نشستوں کی معطلی کے فیصلے سے پنجاب میں ن لیگ کا خواتین کی 25 مخصوص نشستوں سے محروم ہونے کا امکان ہے۔

    اس کے علاوہ مسلم لیگ ن غیرمسلموں کی 3 سیٹوں سے بھی محروم ہوسکتی ہے ، ایوان میں مسلم لیگ ن کی اس وقت 227 نشستیں ہیں۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسلم لیگ ن کی 28 کے قریب نشستیں کم ہونے کے باعث 199 کی پوزیشن پر آسکتی ہے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے پاس پنجاب اسمبلی میں 106 نشستیں ہیں۔

    اسمبلی میں پیپلز پارٹی 15 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت ہے جبکہ ق لیگ11 اور استحکام پاکستان پارٹی کے پاس  اسمبلی میں 7 نشستیں ہیں۔

    مسلم لیگ ضیا،ایم ڈبلیوایم،ٹی ایل پی کے پاس اسمبلی میں ایک ایک نشست ہیں۔

    خیا ل رہے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کی معطلی کے فیصلے کے بعد حکمران اتحادقومی اسمبلی میں دو تہائی حمایت سے محروم ہوگئی، فیصلےسے قبل حکمران اتحادکوایوان میں226ارکان کی حمایت حاصل تھی۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹیں دوسری جماعتوں کو دینے کافیصلہ معطل کردیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کومعطل کررہے ہیں ، فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینےکی حدتک ہوگی، عوام نے جوووٹ دیااس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔

    جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ مخصوص نشستیں ایک ہی بارتقسیم کی گئیں،دوبارہ تقسیم کامعاملہ ہی نہیں، تو جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ پھر الیکشن کمیشن کا حکمنامہ پڑھ کر دیکھ لیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا زیادہ نشستیں بانٹنا تناسب کے اصول کےخلاف نہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ میں بتاتا ہوں الیکشن کمیشن نےاصل میں کیا کیا ہے تو جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کیا کیا اس سےنہیں آئین کیا کہتا ہے اسکے غرض ہے

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل سے کہا کہ آپ جس بیک گراؤنڈمیں جا رہے ہیں اس کے ساتھ کچھ اور حقائق بھی جڑے ہیں، ایک جماعت انتخابی نشان کھونے کے بعد بھی بطور سیاسی جماعت الیکشن لڑ سکتی تھی، بغیرمعقول وجہ بتائےمخصوص سیٹیں دیگرجماعتوں میں بانٹی گئیں۔

    وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہےوہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے، پارٹی کو رجسٹرڈ ہونا چاہئے۔

    جسٹس مصور علی شاہ نے کہا کہ ہم آپ کو 60گھنٹے دینےکو تیار ہیں، آئین کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہےکہ عوامی امنگوں کےمطابق امور انجام دیئےجائیں گے، کیا دوسری مرحلے میں مخصوص سیٹیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ دوسری جماعتوں کو نشستیں دینے کا فیصلہ معطل رہے گا، فیصلے کی معطلی اضافی سیٹوں کی حد تک ہو گی۔

  • سپریم کورٹ کا  فیصلہ، حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے محروم

    سپریم کورٹ کا فیصلہ، حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے محروم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کی معطلی کے فیصلے کے بعد حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد  اتحادی حکومت کو آئینی ترامیم میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔

    سپریم کورٹ فیصلے سے قبل حکمران اتحاد کو ایوان میں 226 ارکان کی حمایت حاصل تھی تاہم اضافی مخصوص نشستوں کی معطلی سے حکمران اتحاد دو تہائی اکثریت سے محروم ہوئی۔

    خیال رہے حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی 123 پیپلز پارٹی کی 73، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) کی 22، مسلم لیگ (ق) کی 5، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کی 4 اور مسلم لیگ ضیا کی ایک سیٹ ہے۔

    اس کے علاوہ حکمران اتحاد میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 2 ارکان بھی قومی اسمبلی میں موجود ہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹیں دوسری جماعتوں کو دینے کافیصلہ معطل کردیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کومعطل کررہے ہیں ، فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینےکی حدتک ہوگی، عوام نے جوووٹ دیااس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔

    جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ مخصوص نشستیں ایک ہی بارتقسیم کی گئیں،دوبارہ تقسیم کامعاملہ ہی نہیں، تو جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ پھر الیکشن کمیشن کا حکمنامہ پڑھ کر دیکھ لیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا زیادہ نشستیں بانٹنا تناسب کے اصول کےخلاف نہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ میں بتاتا ہوں الیکشن کمیشن نےاصل میں کیا کیا ہے تو جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کیا کیا اس سےنہیں آئین کیا کہتا ہے اسکے غرض ہے

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل سے کہا کہ آپ جس بیک گراؤنڈمیں جا رہے ہیں اس کے ساتھ کچھ اور حقائق بھی جڑے ہیں، ایک جماعت انتخابی نشان کھونے کے بعد بھی بطور سیاسی جماعت الیکشن لڑ سکتی تھی، بغیرمعقول وجہ بتائےمخصوص سیٹیں دیگرجماعتوں میں بانٹی گئیں۔

    وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہےوہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے، پارٹی کو رجسٹرڈ ہونا چاہئے۔

    جسٹس مصور علی شاہ نے کہا کہ ہم آپ کو 60گھنٹے دینےکو تیار ہیں، آئین کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہےکہ عوامی امنگوں کےمطابق امور انجام دیئےجائیں گے، کیا دوسری مرحلے میں مخصوص سیٹیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ دوسری جماعتوں کو نشستیں دینے کا فیصلہ معطل رہے گا، فیصلے کی معطلی اضافی سیٹوں کی حد تک ہو گی۔

  • سپریم کورٹ کا فیصلہ: پی ٹی آئی کو کتنی مخصوص نشستیں واپس ملیں گی؟

    سپریم کورٹ کا فیصلہ: پی ٹی آئی کو کتنی مخصوص نشستیں واپس ملیں گی؟

    اسلام آباد: ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بار شہبازکھوسہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو ملنی والی نشستوں کے‌ حوالے سے بڑا دعویٰ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیکریٹری سپریم کورٹ بارشہبازکھوسہ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بالکل درست قرار دے دیا۔

    شہبازکھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جانبداری دکھائی اورپشاورہائیکورٹ نے بھی وہی فیصلہ دیا ، اس فیصلےکی بدولت پی ٹی آئی کو ہی یہ مخصوص سیٹیں مل گئی ہیں۔

    شہبازکھوسہ نے دعویٰ کیا کہ 23پنجاب اسمبلی میں 9کےپی میں مخصوص نشستیں واپس ملیں گی جبکہ تقریباً ایک یا دو سینیٹرز بھی پی ٹی آئی کو واپس ملیں گے

    یاد رہے سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹیں دوسری جماعتوں کو دینے کافیصلہ معطل کردیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کومعطل کررہے ہیں ، فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینےکی حدتک ہوگی، عوام نے جوووٹ دیااس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔

    جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ مخصوص نشستیں ایک ہی بارتقسیم کی گئیں،دوبارہ تقسیم کامعاملہ ہی نہیں، تو جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ پھر الیکشن کمیشن کا حکمنامہ پڑھ کر دیکھ لیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا زیادہ نشستیں بانٹنا تناسب کے اصول کےخلاف نہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ میں بتاتا ہوں الیکشن کمیشن نےاصل میں کیا کیا ہے تو جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کیا کیا اس سےنہیں آئین کیا کہتا ہے اسکے غرض ہے

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل سے کہا کہ آپ جس بیک گراؤنڈمیں جا رہے ہیں اس کے ساتھ کچھ اور حقائق بھی جڑے ہیں، ایک جماعت انتخابی نشان کھونے کے بعد بھی بطور سیاسی جماعت الیکشن لڑ سکتی تھی، بغیرمعقول وجہ بتائےمخصوص سیٹیں دیگرجماعتوں میں بانٹی گئیں۔

    وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہےوہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے، پارٹی کو رجسٹرڈ ہونا چاہئے۔

    جسٹس مصور علی شاہ نے کہا کہ ہم آپ کو 60گھنٹے دینےکو تیار ہیں، آئین کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہےکہ عوامی امنگوں کےمطابق امور انجام دیئےجائیں گے، کیا دوسری مرحلے میں مخصوص سیٹیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ دوسری جماعتوں کو نشستیں دینے کا فیصلہ معطل رہے گا، فیصلے کی معطلی اضافی سیٹوں کی حد تک ہو گی۔

  • نکاح نامے کی شرائط میں ابہام ہو تو فائدہ  میاں یا بیوی میں سے کسے ملے گا؟

    نکاح نامے کی شرائط میں ابہام ہو تو فائدہ میاں یا بیوی میں سے کسے ملے گا؟

    سپریم کورٹ نے نکاح نامہ کے شرائط و ضوابط کے حوالے سے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ ابہام کی صورت میں لڑکی یا لڑکے میں سے کسے فائدہ ملے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نکاح نامے کی شرائط و ضوابط یا کسی کالم میں ابہام ہو تو اس کا فائدہ بیوی کو ملے گا، نکاح نامے میں شرائط طے کرنے سے قبل دلہن کو رضامندی کی آزادی ہے.

    جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے نکاح نامہ شرائط کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ اگر نکاح نامے کے کسی کالم میں ابہام ہو تو اس کا فائدہ لڑکی کو حاصل ہوگا، دلہن کے بغیر مشاورت پُر کیے گئے کالمز کو اس کے حقوق کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

    سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ عدالتوں کو نکاح نامے کی تشریح کرنے سےقبل دیکھنا چاہیے کہ دلہن کو رضامندی کی آزادی تھی۔

  • ٹی ٹی پی ناک رگڑتی آئے تو بھی لواحقین کا حق ہے معاف کریں یا نہیں، وزیراعظم

    ٹی ٹی پی ناک رگڑتی آئے تو بھی لواحقین کا حق ہے معاف کریں یا نہیں، وزیراعظم

    نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی ناک رگڑتی آئے اس کے بعد بھی لواحقین کا حق ہے کہ معاف کریں یا نہیں۔

    پروگرام الیونتھ آور میں نگراں وزیراعظم نے خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں پاکستانیوں کا خیال کرنا ہے کہ ان کے دل میں کیا ہے۔ افغان شہری ہمارےمہمان رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ غیرقانونی طور پر مقیم کاغذات بنوا کر واپس آئیں۔

    انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جاسکتے۔ کوئی اب بھی سمجھتا ہےکہ مذاکرات کیے جاسکتے ہیں تو اس کی بدبختی ہے۔ افغانستان امریکا کا گھر نہیں تھا، ان کو واپس جانا تھا۔ ہم یہ زمین چھوڑ کر کہاں جائیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ ہمیں کسی بھی دہشت گرد گروپ سے بات نہیں کرنی چاہیے۔ تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ریاست کیخلاف تشدد کا راستہ اپنائیں گے تو وہ غیرقانونی ہے۔ تشدد کا راستہ اپنانے کی اجازت کسی صورت نہیں دے سکتے۔

    تشدد اور مذاکرات دونوں ریاست کے ٹول ہیں۔ ریاست جب چاہے جہاں چاہے یہ دونوں ٹول استعمال کرسکتی ہے۔ مذاکرات اس وقت کیے جاتے ہیں جب سمجھ رہے ہوں گروہ مجبورہوگیا ہے۔

    وزیراعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کو اصول کی جیت سمجھتا ہوں۔ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پرحملہ کیا گیا ان کا کیس ملٹری کورٹس میں چلنا چاہیے۔ سول اداروں کے سامنے احتجاج کرنے والوں کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ، پارلیمان کو پتھر مارنے والے کا کیس فوجی عدالت میں نہیں ہونا چاہیے۔

    انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ سربراہ پی ٹی آئی کو 9 مئی کے واقعات کا ذمہ دارٹھہرانا میرا کام نہیں۔ 9 مئی واقعات کا ذمہ دار کون ہے تحقیقاتی اداروں اورعدلیہ کا کام ہے۔ سابق وزیراعظم نے ایک کاغذ لہرا کر سیاسی بیانیہ بنایا ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

    انھوں نے کہا کہ ہم نے سبق سیکھنے ہیں تو 14 اگست 1947 سے شروع کریں کہ کہاں غلطیاں کیں۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ رائے مختلف ہوتی ہے لیکن فیصلہ ایک ہوتا ہے۔ سرفرازبگٹی کی اپنی رائے ہے جس کا انھوں نے اظہار کیا، کابینہ کا فیصلہ نہیں ہے۔

    نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے 56 گھنٹے بھی رہ جائیں گے تو بھی ایسے کام کرینگے جیسے 56 سال ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور ایوان صدر سے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ صدرپاکستان ملک سے پیار کرنے والے شخص ہیں۔ ایسا لگتا نہیں کہ صدر ریاست کے معاملات میں رکاوٹ ڈالتے ہوں۔

    انھوں نے کہا کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ افغان حکومت سے بات کی جاسکتی ہے کہ وہ ان کو کیسے کنٹرول کرسکتے ہیں۔ افغان حکومت کی جانب سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ افغان حکومت سے زیادہ تعاون چاہیں گے۔

    انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ افغان عبوری حکومت کا تعاون پاکستان کی امیدوں سے کم رہا ہے۔ مستحکم افغانستان خطے کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ ہمارےمختلف محکمے افغان عبوری حکومت کیساتھ بات کر رہے ہیں۔ حملے کہاں سے ہورہے ہیں افغان حکومت اور ہمیں پتہ ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ہم نے افغان شہریوں پرمستقل پابندی تو نہیں لگائی۔ ہمارے ڈیٹا بیس میں جعلی کاغذات بنے ہیں۔ جب وہ کاغذات بنے ہیں تو ووٹرلسٹوں میں بھی جڑگئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ جعلی کاغذات نہیں بنے تو خود کو دھوکا دے رہا ہے۔

    نگراں وزیراعظم نے کہا کہ آصف زرداری نے جونکتہ اٹھایا اس میں وزن ہے، متعلقہ اداروں کو دیکھنا چاہیے۔ آج کی تاریخ تک الیکشن میں کوئی رکاوٹ نظرنہیں آرہی۔ کل کیا ہو کس کو پتہ میں کل سے متعلق آج کیسے بتاؤں۔

    انھوں نے کہا کہ آج میں جوانوں سے ملا انھوں نے مجھےحیران کردیا۔ جوانوں کے جذبے دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ جنگ ہم جیت چکے ہیں۔

    انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ الیکشن کے التوا پر میری کوئی رائے ہی نہیں ہے۔ میں تو انتخابات میں حصہ ہی نہیں لے رہا تو رائے کیوں دوں۔ میرے حساب سے 8 فروری کی صبح 9 سے شام 5 بجے تک پولنگ ہوگی۔ الیکشن کمیشن کو فورسز کی فراہمی سے متعلق اطمینان بخش جواب دیا جائیگا۔

    جے یو آئی ف کو بلوچستان اور کے پی میں سنجیدہ تھریٹ ہیں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی ورکرزکنونشن کررہے ہیں۔ پی ٹی آئی پر جلسے کرنے یا کنونشن کرنے پرکوئی اعلانیہ پابندی نہیں۔

    میرا پہلا کام سیکیورٹی کے مسائل کو دور کرنا ہے۔ ہم سیکیورٹی کےمسائل حل کریں یا میڈیا پر جو گفتگو ہے اس کو جواب دیں۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ سب پرامن طور پرالیکشن میں شامل ہوں۔

    انھوں نے کہا کہ پی سی بی میٹنگ میں پی ایس ایل کیساتھ ڈومیسٹک کرکٹ پربھی بات ہوئی۔ گلگت بلتستان اور سوات جیسےعلاقوں میں خوبصورت کرکٹ گراؤنڈز ہیں۔ پی سی بی کو ہدایت کی ہے کہ پارٹنرشپ کریں سافٹ امیج سامنے لائیں۔ پی ایس ایل پاکستان میں کرانے کی پوری کوشش ہے۔

    فلسطین سے متعلق دوریاستی حل کا میں نہیں پوری دنیا کہہ رہی ہے۔ دوریاستی حل کی بات ہم سے منسلک کردی گئی جیسے ہم تجویز دے رہے ہیں۔ بچے اور خواتین شہید کیے جارہے ہیں بتائیں حل کیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ کسی صورت میں کوئی تجویز موجود ہے تو سامنے لائی۔ فلسطینیوں سے پوچھیں وہ کیا چاہتے ہیں۔ فلسطینیوں نے فیصلہ کرنا ہےکہ انھوں نے یہودیوں کیساتھ کیسے رہنا ہے۔ جن لوگوں کے بچے شہید ہورہے ہیں ان کو فیصلہ کرنے دیں۔

    حماس ان کی ترجمان ہے یانہیں اس کا فیصلہ بھی فلسطینیوں کو کرنے دیں۔ میرے لیے ہرفلسطینی اہم ہے۔ فلسطینیوں کو حق دینا چاہیے کہ ان کی نمائندہ تنظیم کون سی ہے۔

    انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ جو دنیا کی اکثریت کی رائے ہے اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ دوریاستی حل کی بات ماضی میں کی گئی اور اسلامی ممالک نے ساتھ دیا۔ یہ سادہ مسئلہ نہیں، اس مسئلے پر نگراں حکومت کو ٹارگٹ کرنا درست نہیں۔

    پاکستان کی پارلیمنٹ سوچ بچارکرکے کچھ تبدیل کرتی ہے تو کفر نہیں ہے۔ کوئی بھی پاکستانی حکومت سب سے پہلے پاکستانی قوم کا مفاد دیکھتی ہے۔ ہمارے بہن بھائیوں کیساتھ جو ظلم کیا جارہا ہے اس کی مذمت کرتا ہوں۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان کیا اقدامات اٹھاتا ہے اور کیا نتائج ہونگے اس پر مشاورت ہونی چاہیے۔ کسی ایک صاحب کے کہنے پر پوزیشن لے لیں گے تو ایسا نہ ہو کل پچھتا رہے ہوں۔ مشاورت سنت عمل ہے، پارلیمان آنے والا ہے جومشاورت کریگا۔

  • فوجداری مقدمات میں ضمانت سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    فوجداری مقدمات میں ضمانت سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجداری مقدمات میں ضمانت سے متعلق فیصلے میں کہا ہے کہ قانون کے تحت ٹرائل دو سال تک مکمل نہ ہو تو ملزم کو ضمانت کا حق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فوجداری مقدمات میں ضمانت سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ آگیا ، جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ ضمانت کےمقدمےمیں تحریر کیا۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضابطہ فوجداری قانون میں ٹرائل میں تاخیرکی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، قانون کےتحت ٹرائل 2سال تک مکمل نہ ہوتوملزم کوضمانت کاحق ہے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جن قانونی وجوہات پرضمانت خارج ہوانہیں بنیاد بناکردوبارہ ضمانت نہیں دی جاسکتی، درخواست ضمانت واپس لینے پرخارج ہو تو اسی گراؤنڈ پر دوبارہ درخواست نہیں دی جاسکتی۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ضابطہ فوجداری قانون کےتحت ٹرائل میں تاخیرکی بنیادپرضمانت دی جاسکتی ہے۔

    عدالت نے قتل کیس میں گرفتار محمد عثمان کی2لاکھ روپےمچلکوں پرضمانت منظور کی تھی۔