Tag: سپریم کورٹ کراچی رجسٹری

  • پاپوش نگر میں بس ٹرمینل کی زمین نیلام ہوگی یا نہیں؟ عدالتی فیصلہ آگیا

    پاپوش نگر میں بس ٹرمینل کی زمین نیلام ہوگی یا نہیں؟ عدالتی فیصلہ آگیا

    کراچی: پاپوش نگر میں بس ٹرمینل کی زمین کی نیلامی منسوخ کرنے کے کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق پرائیویٹ کنٹریکٹر کی نیلامی منسوخ کرنے کیخلاف حکم نامے پر نظر ثانی کی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ بس ٹرمینل کی زمین کراچی کے عوام کی ملکیت ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ رفاعی پلاٹ صرف عوامی مفاد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، آپ لوگوں کی ملی بھگت سے ہیر پھیر ہوجاتے ہیں۔ سرکاری افسران تک آپ لوگوں کی جیب میں ہوتے ہیں۔

    حکومت کے پاس اختیار ہے وہ نیلامی کا فیصلہ واپس لے سکتی ہے، حکومت اپنے اختیارات لوگوں کے لیے استعمال کررہی ہے تو ٹھیک ہے۔

    اس موقع پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پاپوش نگر میں 2 ہزار گز کا پلاٹ نیلام کرنے کا فیصلہ کیا گیا، درخواست گزار نے سب سے زیادہ بولی دی اور پلاٹ کی 25 فیصد رقم جمع کرادی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ پلاٹ ابھی کس کے پاس ہے؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ پلاٹ درخواست گزار کے پاس ہے، دکانیں بنائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 10 سال تک 25 فیصد رقم ادا کرکے کہتے ہیں پلاٹ آپ کے حوالے کردیا جائے؟

    محکمہ ٹرانسپورٹ کے لاافسر نے بتایا کہ سندھ حکومت پاپوش نگر میں بڑا بس ٹرمینل بنانا چاہتی ہے، ٹرمینل نہ ہونے کی وجہ سے الیکٹرک بسیں سڑکوں پر کھڑی کرنی پڑرہی ہیں۔ پاپوش نگر میں بڑا بس ٹرمینل بنانے کا منصوبہ بنایا جائے گا۔

  • سپریم کورٹ  کراچی رجسٹری  میں بم کی غلط اطلاع ،  پولیس کی دوڑیں لگ گئیں

    سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بم کی غلط اطلاع ، پولیس کی دوڑیں لگ گئیں

    کراچی : سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بم کی غلط اطلاع پر پولیس کی دوڑیں لگ گئیں، بم ڈسپوزل اسکواڈ نے مکمل سرچنگ کے بعدعمارت کلیئر قرار دے دی ۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے قریب آرام باغ میں بم کی اطلاع موصول ہوئی، جس کے بعد پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے کو طلب کرلیا گیا۔

    پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی جانب سے سرچنگ کی گئی ، اس دوران سپریم کورٹ کراچی رجسٹری سے تمام غیرمتعلقہ افراد کو باہر نکال دیا گیا اور وکلا کو اندر جانے سے روک دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ انفارمیشن کاؤنٹر بھی بند کردیا گیا ہے۔

    بم ڈسپوزل اسکواڈ نےمکمل سرچنگ کےبعدعمارت کلیئر قرار دے دیا، بی ڈی ایس نے بتایا صبح 11بجکر40منٹ پر بم کی اطلاع موصول ہوئی تھی، جس کے بعد بی ڈی یوکی خصوصی ٹیم کے نائن ٹیم سرچنگ کیلئے پہنچی اور پونے گھنٹے تک مسلسل عمارت کو سرچ کیا گیا ،عمارت کو چپے چپے کی تلاشی لینے کے بعد کلیئر قرار دیا۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کسی نے شرارت یاخوف پھیلانے کیلئےغلط اطلاع دی ہو۔

    ایس پی صدر زاہدہ پروین نے بتایا کہ کچھ دیرقبل 15 پرسپریم کورٹ میں بم کی اطلاع ملی تھی، کال موصول ہونے کے بعد سپریم کورٹ ٹیمیں بھیجی گئیں۔3

    زاہدہ پروین کا کہنا تھا کہ 15پر موصول کال کوسنا گیا کالر نے اپنا نام قائداعظم محمدعلی جناح بتایا، ریکارڈنگ سننے پر معلوم ہوا ہے کالر کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ، کالر کو ٹریس کرنے کیلئےتکنیکی ٹیم کام کررہی ہے۔

  • محمودآباد کے الیکٹرک گرڈ اسٹیشن  غیر قانونی قرار، 2 ماہ میں ختم کرنے کا حکم

    محمودآباد کے الیکٹرک گرڈ اسٹیشن غیر قانونی قرار، 2 ماہ میں ختم کرنے کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک کو گرین بیلٹ پر قائم محمودآباد گرڈ اسٹیشن 2 ماہ میں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایم سی کو گرین بیلٹ کی اصل پوزیشن بحال کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں گرین بیلٹ سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت عدالت نے محمودآبادکےالیکٹرک گرڈاسٹیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

    چیف جسٹس نے کےالیکٹرک کو گرڈاسٹیشن 2 ماہ میں ختم کرنےکاحکم دیتے ہوئے کہا محمودآباد کےالیکٹرک گرڈاسٹیشن گرین بیلٹ پرقائم ہے، 2 ماہ کے اندر اندر کےالیکٹرک گرڈاسٹیشن کو گرین بیلٹ سے ہٹایا جائے۔

    عدالت نے کےایم سی کوگرین بیلٹ کی اصل پوزیشن بحال کرنےکاحکم دیتے ہوئے ایم سی کوگرین بیلٹ پرپارک بنانے کی بھی ہدایت کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ گرین بیلٹ کوکمرشل سرگرمی کےلیےاستعمال کی اجازت نہیں دےسکتے۔

    شہریوں نے درخواست میں کہا تھا کہ پی ای سی ایچ ایس فیز 6 محمود آباد میں 10 ایکٹر گرین بیلٹ کےلیےمختص ہے، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی نےگرین بیلٹ کےالیکٹرک کودیدی،گرین بیلٹ کاپی ای سی ایچ ایس سوسائٹی سےکوئی تعلق نہیں۔

  • کل عمارت گرنے سے جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے؟ چیف جسٹس کے ریمارکس

    کل عمارت گرنے سے جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے؟ چیف جسٹس کے ریمارکس

    کراچی: چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں تجاوزات سےمتعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ اداروں میں صفایا کرنا ہوگا یہ ایسےٹھیک نہیں ہوں گے، کل جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے بلڈنگ گرگئی، آپ سب سکون سےسوئےہیں ، کس کے کان پر جوں تک رینگی ؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری چیف جسٹس گلزار احمد کی سر براہی میں3رکنی بینچ کراچی میں تجاوزات سے  متعلق کیسز کی سماعت کررہا ہے ، اٹارنی جنرل خالد جاوید ،ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا ایڈووکیٹ جنرل صاحب سرکلرریلوےپرپیشرفت سےآگاہ کریں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نےسرکلرریلوے سے متعلق سپریم کورٹ کافیصلہ پڑھ کرسنایا اور کہا بتانا چاہتا ہوں کہ پیش رفت ہوئی ہے۔

    سلمان طالب الدین کا کہنا تھا کہ کراچی ماس ٹرانزٹ پلان ترتیب دےدیا گیاہے، گرین لائن،اورنج لائن مکمل کی جا چکی ہیں، ورلڈ بینک ،بینکوں کی مددسےدیگرمنصوبوں پربھی کام جاری ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کراچی ماس ٹرانزٹ کے نقشے پر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے کہا اس نقشے میں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا، جس طرح کا نقشہ ہے اسی طرح کے کام ہیں، کوئی کام نہیں ہو رہا، جو کام کیا وہ بھی پیسےکی خواہش کی وجہ سےکیاگیا۔

    چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمے میں کہا آپ کیوں نہیں سمجھ رہے کراچی کو کس طرح کام کی ضرورت ہے، کراچی کو مربوط منصوبے کی ضرورت ہے، ٹرانسپورٹ نہیں اسی لیے لاکھوں موٹر سائیکل ہیں، اےجی صاحب، معذرت کےساتھ کوئی کام نہیں ہو رہا، گرین، اورنج لائن پر سٹرک تیار ہے تو پھر بسیں چلا دیں، چیف جسٹس

    جسٹس سجاد علی نے کہا آپ شام کو گاڑی میں جائیں دیکھیں ناظم آباد کاکیا حال ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1955 والی بسیں کراچی میں چل رہی ہیں، سارے پاکستان کی کچرا بسیں کراچی میں چل رہی ہیں، جنگ اول کے زمانے کی بسیں کراچی میں چلا رہے ہیں۔

    اےجی سندھ سلمان طالب الدین نے کہا 2سال میں کام کر کے دکھائیں گے، تسلیم کرتاہوں، افسران کے اپنےایجنڈا ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سلمان صاحب،اداروں میں صفایا کرنا ہوگا یہ ایسےٹھیک نہیں ہوں گے، ریونیو ڈیپارٹمنٹ بہت بڑا چور ڈیپارٹمنٹ ہے، ایس بی سی اے، کے ایم سی،واٹربورڈ کس کس کی بات کریں، سب ادارے ہی چور ہیں کوئی کام نہیں کر رہے۔

    سانحہ گلبہار سے متعلق چیف جسٹس پاکستان کا اظہار افسوس

    دوران سماعت کراچی میں عمارت گرنے کاواقعے پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کل عمارت گری 14لوگ مرے، سب آرام سےسوئےرہے، کسی پر کوئی جو تک نہیں رینگی، آپ سمجھتے ہیں نا کہ جو رینگنا کسے کہتے ہیں، ،ابھی تومرنے کی گنتی شروع ہو ئی ہے، جس طرح کراچی میں تعمیرات ہوئیں بہت بڑا رسک بنا دیا گیا، خدانخواستہ کراچی پورا ہی نہ گر جائے۔

    سانحہ گلبہار سے متعلق چیف جسٹس پاکستان نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کل جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے،کسی کو احساس بھی ہے لوگ مر رہے ہیں، نیوزی لینڈ میں واقعہ ہوا تو وزیراعظم تک کو صدمہ تھا ، نیوزی لینڈکی وزیراعظم ایک ہفتہ تک نہیں سوئی تھی۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس میں کہا چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر اونچی عمارتیں بنا دیتے ہیں ، ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا ہم نے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کی ہے تو جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید کہا یہ سب دکھاوے کیلئے کارروائی کی گئی ہے ، ہم نے کہا تھا غیرقانونی تعمیرات کا مکمل ریکارڈ دیں اس کاکیاہوا ،ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ رپورٹ تیار کرلی ہے ۔

    چیف جسٹس کا حکام پر برہمی پر اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا جب تک اوپر سے ڈنڈا نہ ہو کوئی کام نہیں کرتا، آپ لوگوں کو کراچی کاکچھ پتہ ہی نہیں، کیماڑی کا پل گرنے والا ہے، کچھ احساس ہے، اگر کیماڑی پل گر گیا تو کراچی سے تعلق ہی ختم ہو جائے گا۔

    اے جی سندھ نے بتایا کراچی ماس ٹرانزٹ سے ٹرانسپورٹ مسائل حل ہوجائیں گے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا بتائیں، گرین لائن پر کا م کب شروع کیا، حکام نے عدالت کو بتایا 3سال پہلے شروع کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا 3سال میں تو پورے ایشیا کے منصوبے مکمل ہو جائیں، یہ مہینوں کا کام ہے، کیا رکاوٹ ہے جو کام وقت پر نہیں ہوتا۔

    حکام کا کہنا تھا کہ اگلے سال گرین لائن مکمل ہو جائے گی، چیف جسٹس نے پوچھا اگلے سال کیوں، اس سال کیوں نہیں، ابھی چلے جائیں ،کوئی کام نہیں ہورہا، ٹھیکیدار کو پیسہ اس وقت دیتے ہیں جب آپ کاکمیشن ملتا ہے، ابھی جائیں ناظم آباد دیکھیں کوئی کام نہیں ہورہا، سب سمجھتے ہیں آپ کے معاملات ٹھیک نہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا لوگوں کو خواب دکھاتے ہیں، دھول مٹی ہےہر جگہ، کوئی انسانیت والاعمل ہے،کیا ملک سےمحبت ہےآپ لوگوں کو، آپ بین اور بانسری بجارہے ہیں، سلمان صاحب آپ ایماندار آدمی ہیں، مگرکام نہیں لےسکتے، یہ پورا گینگ کام کر رہاہے،کام صرف پیپرزمیں ہے، چشہید ملت روڈ، کشمیر روڑ، ناظم آباد کا کیا حال کر دیا، یونیورسٹی روڈتباہ کر دیا،خوبصورت ترین روڑ تباہ کر دیے۔

    سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب آپ بتائیں وفاقی حکومت کیاکر رہی ہے، اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا سی پیک کے تحت منصوبوں پر کام جاری ہے، وفاقی حکومت چاہتی ہے کچھ وقت دیا جائے، ایک منصوبہ مکمل ہوا توباقی بھی ہو جائیں گے، میری درخواست ہے کہ ہمیں کچھ وقت دیاجائے۔

    چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا چیف سیکریٹری کہاں ہیں، بہت اچھےایماندارآدمی ہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سبھی اچھے افسران ہیں۔

    دوران سماعت سرکلرے ریلوے کی زمین سے متعلق وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا سرکلرے ریلوے کی زمین پرکسی کو متبادل جگہ نہیں دی گئی سیکڑوں لوگوں کوہٹایا گیا مگر متبادل کچھ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ بتائیں جن کو ہٹایا کیا وہ غیر قانونی قابضین نہیں تھے،یہ تو حکومت کا کام ہے کہ متاثرین کو کیسے آباد کرنا ہے۔

    فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا صرف غریبوں کےگھروں کومسمار کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کراچی میں 90 فیصد لوگ غریب ہیں، عدالت نےتوسب کیخلاف بلا امتیاز کارروائی کاحکم دےرکھا ہے، آپ اندازہ کریں کہ یہ لوگ کتنے ظالم لوگ ہیں، لوگوں نے اپنے ابا کی زمین سمجھ کرعمارتیں بنادیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے غیرقانونی تعمیرات کرنیوالوں کو معلوم ہوتاہے کہ غیر قانونی ہے، بطوروکیل ریلوے زمین پر قابضین کا مقدمہ لینےسےانکار کلرتاتھا، ہم تو غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کو بھگا دیتے تھے، آپ لوگ تو ریلوے کی پٹڑی پر بیٹھے ہیں، کسی کونہیں چھوڑیں گے،سبھی کیخلاف کارروائی ہوگی، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ کا کہناتھا کہ 10 منزلہ عمارت کے برابر میں جھگی ہوتوپہلےکسے ختم کریں، تو چیف جسٹس نے کہا آپ تسلی رکھیں کوئی نہیں بچے گا، سب کو گرائیں گے۔

    رائل پارک کیس : ناصر حسین لوتھا کی عمارت کی قانونی لیز سے متعلق درخواست مسترد

    سپریم کورٹ میں الہ دین پارک کے برابرعمارت کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، رائل پارک اپارٹمنٹس کے وکیل نے دلائل میں کہا ناصر حسین لوتھا دبئی کے حکمران طبقے سےہیں، ناصرحسین لوتھااب تک پانچ ارب روپے لگاچکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر کوئی دبئی کا حکمران ہے تو ہم کیاکریں،ہمیں تو قانون دیکھنا ہے، قانونی حیثیت ثابت کردیں ہمیں کسی سےکیا لینادینا۔ہم بھی اسی شہر میں رہتے ہیں، بلڈرزکیاکھیل کھیلتےہیں،معلوم ہے۔

    رائل پارک متاثرین کے وکیل صلاح الدین کا کہنا تھا کہ بلڈرز نے ہم سے اربوں روپے کما لیے، متاثرین کہاں جائیں ، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا بلڈرز سے پیسے کماتے ہیں تو وکیل صلاح الدین کا مزید کہنا تھا کہ یہی ہم کہہ رہے ہیں بلڈرزنےکمالیا،ہم کہاں جائیں۔

    وکیل رائل پارک نے کہا رائل پارک کی منظوری قانون کے مطابق ہوئی، ناصر حسین لوتھا نے قانون کے مطابق زمین خریدی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پڑھیں دستاویز، سروے نمبرہےہی نہیں آپ کےپاس، 2010 میں زمین ایک دم سےآپکومل گئی،سروےنمبربھی نہیں

    عدالت نے ناصر حسین لوتھا کی عمارت کی قانونی لیز سے متعلق درخواست مسترد کردی اور کہا متاثرین کی درخواست وقفے کے بعد سنیں گے۔

  • سپریم کورٹ کا کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم

    کراچی: سپریم کورٹ نے کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسےبنایا جا سکتا ہے جبکہ سول انجینئرز،ماہرین اور ٹاؤن پلانزسےمددحاصل کرنے کی ہدایت کی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے دہلی کالونی اورپنجاب کالونی میں تجاوزات سےمتعلق سماعت کی ، چیف جسٹس نے استفسار کیا ان علاقوں میں تعمیرات کیسےہو رہی ہیں، کنٹونمنٹ بورڈ حکام نے بتایا ہم نےایکشن لیا ہے،کارروائی کررہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا یہ بتائیں،یہ تعمیرات ہوئیں کیسے، اجازت کس نےدی، اٹارنی جنرل صاحب،کنٹونمنٹ بورڈمیں ایسی تعمیرات کی اجازت کون دےرہاہے، 9، 9 منزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، ان سب کوگرائیں، ان علاقوں میں بھی عمارتوں کوگراناپڑےگا۔

    پنجاب کالونی،دہلی کالونی،پی این ٹی میں غیر قانونی تعمیرات گرانے اور گزری روڑپربھی غیرقانونی عمارتیں گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا پی این ٹی کالونی میں بلندعمارتیں غیرقانونی بن رہی ہیں، وفاقی ملازمین کےکوارٹرزکی جگہ عمارتوں کی اجازت کون دےرہاہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا بہت سےمقدمات زیرسماعت ہیں حکم امتناع تک کیسےگراسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ توایسےہی چلتارہےگاآپ کوسخت ایکشن لیناہوگا، اےجی صاحب پوری کالونی ہی میں غیرقانونی تعمیرات ہورہی ہیں۔

    چیف جسٹس نے حکم دیا آپ بلندوبالاعمارتیں گرائیں اورپارک بنادیں، پولیس والوں کی گاڑی کھڑی کرکےسب بن جان جاتاہے، چلیں، آپ صرف سرکاری کوارٹرز رہنے دیں، باقی سب گرائیں۔

    ،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان بلندوبالاعمارتوں کوحکومت استعمال کرسکتی ہےتو چیف جسٹس نے کہا نہیں اٹارنی جنرل صاحب،یہ سب غیرقانونی ہے،سب گرائیں۔

    عدالت نےدہلی،پنجاب کالونی پرکلفٹن کنٹونمنٹ بورڈسےجواب طلب کر لیا، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈحکام نے بتایا دہلی اورپنجاب کالونی وفاقی حکومت کی زمین ہے، جس پرجسٹس سجادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈہرقسم کی عمارتوں کی اجازت دےرہاہے، 60 گز کے اوپر9، 10منزلہ عمارت بنانے کی اجازت دی جارہی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ایسا نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈجس طرح چاہےعمارتوں کی اجازت دے ، کیا آپ کی حکومت چل رہی ہےجواپنی مرضی سےکام کریں، جس ہر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا کہنا تھا کہہم نے بہت سی عمارتیں گرائی ہیں، رہائشی پلاٹ پرگراؤنڈپلس ٹوکی اجازت ہے، کمرشل پلاٹس پر5منزلہ عمارت کی اجازت دےرہےہیں۔

    چیف جسٹس نے کونسل کنٹونمنٹ بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں، آپ انگریزی بول کر ہمارا کچھ نہیں کرسکتے، کیا ہمیں معلوم نہیں کیا حقیقت ہے، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کیا اپنی پوزیشن واضح کر سکتاہے، 5 ،5 کروڑ کے فلیٹ بک رہے ہیں، آپ لوگوں نے خزانے بھرلئے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ لوگوں سے پیسے لے لے کر اپنے خزانے بھررہے ہیں، آپ کےدفترکی ناک کےنیچےیہ سب ہورہاہے، عدالت نے ڈائریکٹر لینڈ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس نے کہا یہ کوثرمیڈیکل اور اس کےبرابرمیں کیسےبڑی عمارتیں بن گئیں، آخرکنٹونمنٹ بورڈمیں کس کی اجازت سےسب ہورہا ہے، ڈائریکٹرکلفٹن کنٹونمنٹ بورڈز نے تسلیم کیا کہ بہت سی عمارتیں غیر قانونی ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ سرکاری زمین آپ پربھروسہ کرکےدی گئیں،کرکیارہےہیں، وہاں کنٹونمنٹ تونہیں رہااب وہاں تواورہی کچھ بن گیا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب آپ کی سٹرکیں ختم ہورہی ہیں، گلیوں میں آدمی نہیں گزرسکتا، کررہے ہیں، طارق روڑ دیکھا ہے ،اب کیا حال ہوچکا، عمارتیں ضرور بنائیں مگرکوئی پلاننگ توکریں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا یہ اب آپ لوگوں کےبس کی بات نہیں، اس کے لیے دنیا سے ماہرین منگوانا پڑیں گے، لائنز ایریا دیکھا ہے، مزار قائد کے اطراف کیا ہو رہا ہے، خدادادکالونی دیکھ لیں،مزارقائدکےماتھےکاجھومربناکررکھاہواہے، مزار قائد کے سامنے فلائی اوور کیسے بنادیا، مزار قائد چھپ کر رہ گیا، عمارتیں بنا ڈالیں، شاہراہ قائدین کانام کچھ اور ہی رکھ دیں وہ قائدین کی نہیں ہو سکتی۔

    جسٹس فیصل عرب نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا ملائشیا فارمولہ سنا ہے آپ نے، کوالالمپور کو کیسے صاف کیا،ذرا اس پرریسرچ کریں، جس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا ہم ملائشیا فارمولے پر ہی کام کر رہےہیں، مجھے تھوڑاسا وقت دیں، وفاق،سندھ حکومت آپس میں بات کرسکتی ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا شہری حکومت کام کر رہی ہے نہ صوبائی نہ وفاقی، کراچی کیلئےپھرکس کوبلائیں جب کوئی حکومت کام ہی نہیں کررہی، کراچی ایک میگا پرابلم سٹی بن چکا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ پلان کرنےکی ضرورت ہے، تھوڑا ساوقت دیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا متاثرین کو جس طرح پیسےدیئےجاتےہیں وہ بھی ہمیں پتہ ہے، جس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے بتایا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لوں گا، حل ضرور نکال لیں گے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کا کوئی وژن نہیں، کیا کرنا ہے کسی کو معلوم نہیں۔

    عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو شہر کا جامع پلان بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کیسے کچی آبادیوں کو جدید طرز پر بنایا جا سکتا ہے، وفاق اور صوبائی حکومت ماہرین سےمشاورت کرکے پلان ترتیب دے۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا اجازت دیں تو ایک پلان دینا چاہتا ہوں، جتنے ادارے ہیں انہوں نے شہر کو جنگل بنا دیا، سرکاری افسران سے صحیح بات عدالت نےکبھی نہیں آئےگی، اس لیےایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی تشکیل دےدی جائے۔

    اےجی سندھ کہا عدالت ماہرین پرمشتمل اعلیٰ اختیاری کمیٹی بنادی جائے، چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا یہ بتائیں، کمیٹی کرے گی ، اینٹی انکروچمنٹ سیل ہے تو صحیح۔

    جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اےمیں خالی گھر کے باہر اینٹ رکھ دیں تودیکھیں کیسےپہنچتےہیں، ڈی ایچ اے ،کنٹونمنٹ  بورڈز نے اختیارات اپنے پاس رکھے ،یہ جسےچاہتے ہیں زمین دیتے اور جسےنہ چاہیں نہیں دیتے، کنٹونمنٹ بورڈز ،ڈی ایچ  اے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

    دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے ہی صوبائی اداروں پرعدم اعتماد کرتے ہوئے کہا سندھ حکومت پر بھروسہ کیا تو کچھ نہیں ہوپائےگا، متعلقہ ادارے سب اچھا ہی کی رپورٹس دیتے رہیں گے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ اگلا ڈی جی ایس بی سی اے لگائیں گےوہ اور 2 ہاتھ آگے ہوگا، ایڈووکیٹ جنرل صاحب، دیکھ لیں یہ سب کوئی باہرسےنہیں کر رہا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کمیٹی بنانا ہمارا کام نہیں، حکومت چاہے تو خود کمیٹی بنادے، یہ سارے کام تو خود حکومت کے ہیں، اے جی سندھ کا کہنا تھا احساس دلانا پڑےگا،کوئی نہیں کررہا ، محسوس کرےتوعدالت یہ کام کرے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کنٹونمنٹ بورڈمیں گزری کاحال دیکھاہے،ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ یہی حالات رہے تو پھر  ادارے سمندر سے آگے بھی تعمیرات کرڈالیں گے، عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گی کوئی کام نہیں کررہا، اچھے لوگ بھی ضرور ہیں،  اس لیے آپ کوئی بڑاحکم دیں، ایک شخص پیسےجمع کرکےفلیٹ خریدے توکیسےتوڑ دیں، فلیٹ میں رہنے والا کہاں جائے گا یہ انسانی معاملہ ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ نہیں چاہتے ہمارےمنہ سے ایسے الفاظ نکلیں توکسی کیلئےنقصان دہ ہو، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا کوئی ادارہ  ٹھیک نہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا جی آپ درست کہہ رہے ہیں، ادارہ کوئی ٹھیک نہیں تو چیف جسٹس نے کہا آپ ووٹ لینےکی نظر سے معاملات دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

    سلمان طالب الدین نے بتایا ریلوے نے غریب 6ہزارلوگوں کوبےگھر دیا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا سلمان صاحب ، انہیں  بیٹھایاکس نے تھا ، آپ کے پاس وسائل ہیں، سب کر سکتے ہیں مگر کریں گے نہیں تو سلمان طالب الدین کا کہنا تھا وفاق نے 100 ارب دینے ہیں، وسائل نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 100 ارب مل بھی جائیں تو کیا ہوگا، ایک پائی لوگوں پر نہیں لگےگی ، 105 ارب روپے پہلےبھی ملےمگر ایک پائی نہیں لگی، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا میں اس شہر میں پیدا ہوا،بتائیں کون سی جگہ خالی چھوڑی ہے، پولیس اسٹیشن تک کرائے پر لے رکھےہیں، سب بیچ ڈالا، ہمیں تکلیف اس لیے ہے آپ نے کچھ نہیں چھوڑا۔

    اےجی سندھ کا کہنا تھا کہ مجھے اور انور منصور کو بھی یہی تکلیف ہے، آخراس شہر کاکیاہوگا، افسران کوکہانیاں سناکر چلے جاتے ہیں،  سارے معاملے کو روکنے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا، جسٹس فیصل عرب نے کہا کوئی گراؤنڈ چھوڑا نہ ہی کوئی اسپتال کی جگہ۔

    سپریم کورٹ نے شہرقائدکا ازسرنو جائزہ لینے کے معاملے پر کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسےبنایا جا سکتا ہے اور سول انجینئرز،ماہرین اور ٹاؤن پلانزسےمددحاصل کریں۔

    سپریم کورٹ نے آگاہی مہم چلانے کا بھی حکم دیا کہ اخبارات،ٹی وی پر لوگوں کوبتایا جائے کراچی کیسے بہتر ہوگا، آئندہ سیشن میں سندھ حکومت کی تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔

    اےجی سندھ سلمان طالب الدین کا کہناتھا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اچھی تجویز دیں گے، ایک کمیٹی بنائی گئی ہےمیں خود اس پربریف کردوں گا، خود بتاؤں گا کراچی کے مستقبل کے لیے کیا حتمی پلان ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا پتہ نہیں چل رہا کہ کس پربھروسہ کریں۔

  • ڈھائی سال بعد کراچی بدامنی کیس کی سماعت  آج پھر ہوگی

    ڈھائی سال بعد کراچی بدامنی کیس کی سماعت آج پھر ہوگی

    کراچی : کراچی بد امنی کیس کی سماعت ڈھائی سال بعد آج پھر ہوگی ، پولیس کی جانب سے امن وامان پررپورٹ پیش کی جائےگی جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل،ایڈووکیٹ جنرل سندھ ، محکمہ داخلہ سندھ،آئی جی،ڈی جی رینجرزاوردیگرکونوٹس جاری کردیئے گیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ڈھائی سال بعد کراچی بدامنی کیس کی سماعت آج پھر ہوگی ، چیف جسٹس گلزاراحمدکی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کرے گا۔

    عدالت کی جانب سے محکمہ داخلہ سندھ،آئی جی،ڈی جی رینجرزاوردیگرکونوٹس جاری کردیئے گئے ہیں جبکہ رحمان ملک،راجہ پرویز اشرف، وفاقی سیکرٹری داخلہ ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بھی نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں۔

    سماعت میں پولیس کی جانب سے امن وامان پررپورٹ پیش کی جائےگی، اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے کراچی رجسٹری میں دو روز کے لئے دو علیحدہ علیحدہ بنچ قائم کئے ہیں۔

    واضح رہے 11 اگست 2016 کو آخری مرتبہ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی تھی ، جس میں  حکومت سندھ نے کارکردگی رپورٹ پیش کی تھی۔

    رپورٹ کے مطابق ستمبر 2013 سے تاحال سترہ ہزار آپریشن میں اسی ہزار ملزمان گرفتار کئے، جن میں پندرہ سو سے زائد قتل کے ملزم اور ٹارگٹ کلرز شامل ہیں۔

    خیال رہے شہر قائد میں اسٹریٹ کرمنلز بے لگام ہیں ، سال کے پہلے مہینے میں پولیس اہل کار، حساس ادارے کے افسر سمیت 6 افراد کو ڈکیتی مزاحمت پر قتل کر دیا گیا۔

    فائرنگ کے دیگر واقعات سپر ہائی وے، کورنگی، لانڈھی، ریلوے کالونی، گلشن، ایوب گوٹھ، اورنگی ٹاؤن، صدر، منظور کالونی، لیاقت آباد اور نیو کراچی میں پیش آئے، جہاں اب تک 20 سے زائد شہری زخمی ہو چکے ۔

  • کراچی میں 7 شدت کا زلزلہ آیا تو ڈیڑھ کروڑ آبادی ختم ہوجائےگی

    کراچی میں 7 شدت کا زلزلہ آیا تو ڈیڑھ کروڑ آبادی ختم ہوجائےگی

    کراچی : جسٹس گلزار نے سی بریز پلازہ گرانے کے خلاف درخواست پر ریمارکس میں کہا بےشرمی اور بےغیرتی کی انتہا ہے ،عزت بیچی، ضمیر بیچا ،جسم بیچ دیا ، کراچی میں 7 ریکٹر کازلزلہ آگیا توڈیڑھ کروڑکی آبادی ختم ہوجائےگی؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں‌ سی بریز پلازہ گرانے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی ، عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا افسران اور ملازمین صرف مفت کی تنخواہ لے رہے ہیں ، عدالت کا کہنا تھا کہ بتائیں کراچی میں کتنی عمارات زیر تعمیر ہیں ؟ جس پر ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا 4پانچ سو عمارتیں زیرتعمیرہوں گی ۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ آپ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں ؟ ہمیں نہیں معلوم کیاہورہا ہے ؟ آپ کو شرم نہیں آتی کراچی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے،

    جسٹس گلزار نے کہا بےشرمی اور بےغیرتی کی انتہا ہے ،عزت بیچی، ضمیر بیچا ،جسم بیچ دیا ، عدالت کا کہنا تھا کہ زندہ کیسے ہیں؟ ایسے لوگ ہارٹ اٹیک سے مر جاتے ہیں، ہر وقت نشے میں رہتے ہیں، کراچی میں 7 ریکٹر کازلزلہ آگیا تو ڈیڑھ کروڑ کی آبادی ختم ہو جائےگی؟

    عدالت کا کہنا تھا کہ سی بریز پلازہ بھی خطرناک ہے کسی وقت بھی گر سکتا ہے اور کیس میں چیئرمین نے سپاک اورپاکستان انجنیئرنگ کونسل کے حکام کو 9 اگست کو طلب کرلیا۔

    جسٹس سجادعلی نے کہا دہلی کالونی میں 30 گز پر 11 منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت دی ، ہائی کورٹ نےگرانے کا حکم دیا تو کہا گیا ہمارے پاس اختیار نہیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا سی بریز پلازہ خالی ہے وہاں کوئی آباد نہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کیسے ہوسکتا ہے کوئی عمارت کراچی میں 40سال خالی رہے اور قبضہ نہ ہو ، بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت 9اگست تک ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے  اور ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنےکا حکم دے دیا اور  سڑکوں پرپولیس اور رینجرز کی چوکیاں بنانےپر  برہم ہوتے ہوئے آئی جی اور ڈی جی رینجرز کونوٹس جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی ، اٹارنی جنرل کی پیش رپورٹ پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا، جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہا دستخط کیا کسی پٹے والے کے ہیں، سیکریٹری  دفاع دستاویزات پر دستخط کریں، سیکریٹری دفاع نے دستاویزات پردستخط کردیے۔

    جسٹس گلزار نے استفسار کیا عدالتی احکامات پرعمل کیوں نہیں ہوا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا سپریم کورٹ کا حکم ہے، مجھے وضاحت کا موقع دیا جائے، آپ ہمیں وقت دیں سروے کروالیتے ہیں تو جسٹس گلزاراحمد نے کہا حکومت کام کرنا چاہے تو 5 منٹ لگتے ہیں۔

    جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس میں کہا شادی ہال چل رہے ہیں، نہیں ہٹائیں گے تو دوسرے کیسے عمل کریں گے، وزیر بلدیات کہتے ہیں میں عدالتی حکم پر عمل نہیں کروں گا، یہ لوگ عدالت سے جنگ کرناچاہتے ہیں، کہاں ہیں وہ بلدیاتی وزیر جو کہتے ہیں ایک عمارت نہیں گرائیں گے، مئیر کراچی بھی کہتے پھر  رہےہیں ہم عمارتیں نہیں گرائیں گے۔

    کہاں ہیں وہ بلدیاتی وزیرجوکہتےہیں ایک عمارت نہیں گرائیں گے، جسٹس گلزار

    دوران سماعت سینئیر وکیل رشید اے رضوی اور بینچ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، رشید اے رضوی کا کہنا تھا 72 سالہ تاریخ میں تو کسی نے نہیں پوچھا،  جسٹس گلزاراحمد نے کہا چلیں آج تاریخ بدلتے ہیں،رشید اے رضوی نے سوال کیا واٹر بورڈ اپنی زمین کیسے کسی کو فروخت کرسکتاہے؟ جس پر جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا زمین خود حکومت نے دی ہے، ہرادارے نے اپنی زمین ملازمین کو بانٹ دی ہیں۔

    ملٹری لینڈاور کنٹونمنٹس سےتجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ نے ملٹری لینڈ پر شادی ہالز اور تجارتی سرگرمیوں پرسیکر یٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کردی اور ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم دیا اور شادی ہالزاور تجارتی مراکز گرانے کے حکم پر فوری عمل کا بھی حکم دیا۔

    کالا پل پر گلوبل مارکی اور واٹر بورڈ آفیسرز کلب کے انہدام پر درخواستیں بھی مسترد کردیں اور ناقص رپورٹ پر سپریم کورٹ کی سیکریٹری دفاع کی سرزنش کی۔

    سعیدغنی کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری

    ،تجاوزات کے خلاف آپریشن سےمتعلق بیان دینے پر عدالت وزیر بلدیات اورمیئرکراچی پر برہم کا اظہار کیا ، جسٹس گلزار احمدنےصوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کی تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے سعید غنی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، محمود اختر نقوی نے ریمارکس میں کہا سعید غنی نے عدالتی حکم کے خلاف  تقریر کی، عملدرآمد نہ کرنے کا اعلان کیا۔

    کراچی میں سترفیصدتعمیرات غیر قانونی ہیں، جسٹس گلزار

    ،جسٹس گلزار نے اپنے ریمارکس میں کہا کراچی میں ستر فیصد تعمیرات غیر قانونی ہیں، کراچی کے جتنے پارکس تھے شہیدوں کے نام کردیئے گئے ، جس پر  اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا شہید کا تو بڑا رتبہ ہوتا ہے ،شہید کےلیےتو بڑی سخت شرائط ہیں تو جسٹس گلزار نے کہا شہدا کا بڑا رتبہ ہوتا ہے اللہ کرے ہم بھی ہو جائیں ، آپ کا مطلب میں مارا جاؤں توشہید نہیں ہوں گا ؟

    یونیورسٹی روڈ کی کھدائی پر سپریم کورٹ نے اظہار برہمی

    سماعت میں یونیورسٹی روڈ کی کھدائی پر سپریم کورٹ نے اظہار برہمی کیا، جسٹس گلزار احمد نے کہا ایک سال پہلے کارپٹنگ ہوئی تھی دوبارہ کیوں اکھاڑ  دیا، آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے، روڈ توڑنے سے لاکھوں شہری متاثر ہورہے ہیں۔

    وکیل میونسپل سروسز نے بتایا کےالیکٹرک کی زیر زمین کیبل بچھائی جارہی ہے، جس پرجسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے پہلے کے الیکڑک کو کیوں خیال نہیں آیا، الٰہ دین پارک کے ساتھ پلازہ کس کا اور کس کی زمین پر بن رہا ہے، کتنے پلازے بن رہے ہیں اور بنے ہی جارہے ہیں، الٰہ دین پارک کا کمرشل استعمال کیا جارہا ہے۔

    جسٹس گلزار نے ڈی جی کے ڈی اے سے استفسار کیا اسکے پاس سے گزریں تو کراہیت آتی ہے، ڈرائیو ان سینما ختم کردیا گیا آپ نے نہیں روکا، اس جگہ پر اتنا بڑا پلازہ بن گا کہ اب سانس لینا بھی مشکل ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا مئیر صاحب آگے آجائیں، مئیر کراچی نے بتایا جوہر میں مال میں آگ لگی رہائشی علاقہ ہونے سے مشکلات ہوئی، مجھے بھی ایسی مشکلات کا سامنا ہے، جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا جب ہی آپ نے اپنا سیاسی جنازہ نکال لیا ہے۔

    جسٹس گلزار کا ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا ملیر روڈ کو آپ نے کیا بنایا کیا کیا اسکا؟ آپ نے پورا شہر بیچ دیا کتنا پیسہ چاہیے؟ دبئی لندن میں پراپرٹی بنالی نہ وہاں رہ سکتے ہو، نہ کھا سکتے ہو، نہ وہاں کا موسم یہاں لاسکتے ہیں، آپ نے طارق روڈ دیکھا،ساراکچراوہاں ڈمپ ہورہاہے، کسی پلازے والے نے پارکنگ ایریا نہیں بنایا۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا شہر سے باہر نکلنے میں 3 گھنٹے لگتے ہیں، کراچی میگا سٹی کے معیار پر نہیں اترتا، روڈ سسٹم تباہ ہوگیا ہے، 1950 سے اب تک کے تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں۔

    تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں

    وسیم اختر نے اظہار بے بسی کرتے ہوئے کہا میرے پاس کوئی ماسٹر پلان نہیں، ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا ہمارے پاس ماسٹر پلان ہے، جس پر جسٹس  گلزار احمد نے کہا تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں اور یہ بھی بتائیں کس ماسٹر پلان میں کس کی ہدایت پر کب تبدیلی کی گئی، یہ بھی بتائیں کون سی رہائشی عمارت کو کب ، کس کےکہنے پرکمرشل کیا۔

    جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا حکومت نے ملیر ندی پر متبادل سڑک بنانے کا اعلان کیا تھا؟ جس پراٹارنی جنرل نے بتایا ملیرندی پرسڑک ایسی نہیں ہوگی جیسے لیاری ایکسپریس وے بنایا گیا ہے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا سپریم کورٹ نے لیاری ایکسپریس وے بنانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا، لیاری ایکسپریس وے کا بھی ٹھیک سے استعمال نہیں ہورہا، جتنا خرچہ لیاری ایکسپریس وے پر ہوا اتنا اس سےفائدہ نہیں ہورہا، میں بھی اکثر وہیں سے گزرتا ہوں،سڑک پرہرطرف سناٹاہوتاہے، اب تو لیاری ایکسپریس وے کی زمین پر بھی قبضہ ہورہا ہے۔

    تجاوزات کےخاتمےسےمتعلق سماعت میں جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری دفاع سے استفسار کیا آپ کو انگریزی نہیں آتی؟ سیکریٹری دفاع نے جواب دیا جی سر انگریزی سمجھتاہوں، تو جسٹس گلزاراحمد نے کہا رپورٹ پر دستخط کیوں نہیں کیے؟ ابھی دستخط کریں، عدالت کےحکم پرسیکریٹری دفا ع نےدستخط کردیں۔

    جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس میں کہا رپورٹ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، توہین عدالت کی کارروائی کیلئے آرٹیکل 204 موجود ہے رشید اے رضوی نے کہا ، میری بھی درخواستیں ہیں وہ سن لیں، جس پر جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا آپ خاموش ہوجائیں پہلےاٹارنی جنرل سےبات کرنے دیں۔

    جسٹس گلزاراوررشیدرضوی کےدرمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا،جسٹس گلزار نے کہا آپ لوگوں نے اپنا گھر بھی اسٹیک پر لگا دیا ہے ، میں تو کہیں بھی چھپرا ڈال کررہ لوں گا اپنی سوچیں۔

    کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے کا حکم

    دوران سماعت سپریم کورٹ نے سیکریٹری ریلوے کو کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے اور ریلوے اراضی سےہر حال میں 2ہفتے میں تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا، عدالت نے سوال کیا آپ کو معلوم نہیں ہمارا کیا حکم تھا ؟ابھی تک عمل کیوں نہیں ہوا، چیف سیکریٹری کو میئر کراچی اور دیگر حکام کے ساتھ مل کر آپریشن کرنے کا حکم دیا۔

    :تجاوزات کیس میں جسٹس گلزار نے استفسار کیا لائنز ایریا پراجیکٹ والے کیا کررہے ہیں ؟ آپ نے حالت دیکھی ہے کیا حشر کیا ہے، یونیورسٹی روڈ اور سوک  سینٹر کی کیا حالت ہے ، ڈی جی لائنز ایریا نے بتایا مالی معاملات کے باعث پریشانی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا فالتو ملازم بھرتی کیےان کو کم کریں مسئلہ حل ہو جائے گا، حسن اسکوائر کےسامنے دیوارگرادی توایمبولینس کھڑی کردی گئی، جس پر ڈی جی لائنز ایریا نے کہا سر ہٹانے کی کوشش کریں گے ،ڈی جی لائنز ایریا

    عدالت نے ریمارکس دیے سرکاری اداروں کے حالت بری ہے ، سرکاری افسرگاؤ تکیےاور پاندان لے کر آرام کرہے ہوتے ہیں ، جو آتا ہے وہ تکیےکے نیچے کچھ رکھ دیتا ہے کام ہوجاتا ہے ، میں نے یہ حالت ان کے ٹیکس آفس میں دیکھی ہے ، تب سے انکم ٹیکس کا کیس نہیں لیا، آباد نے تو شہر کوبرباد کیا۔

    سڑکوں پر پولیس اوررینجرز کی چوکیاں اور تجاوزات قائم، ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو نوٹس جاری

    دو تلوار کے نزدیک ملٹری لینڈ پر کمرشل تعمیرات سے متعلق درخواست پر اہل علاقہ نے کہا دو ایکڑ رہائشی زمین کوتجارتی مقاصد کیلئے الاٹ کردیا گیا، جس پر عدالت نےاٹارنی جنرل سے کل رپورٹ طلب کرلی، جسٹس گلزاراحمد نے کہا اوشین ٹاوربھی غلط بناہے،پہلےرہائشئ عمارت تھی، کمرشل عمارت پی ایس اوپمپ کے سامنے عمارت بن رہی ہے۔

    تجاوزات کےخاتمےسےمتعلق کیس میں سڑکوں پر پولیس اوررینجرز کی چوکیاں اور تجاوزات قائم کرنے پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ڈی جی رینجرز اور آئی  جی سندھ کو نوٹس جاری کردیا اور رینجرز، پولیس اور دیگر اداروں سے مکمل رپورٹ طلب کرلی۔

    سماعت میں کراچی پیکیج کےتحت منصوبوں کیلئےکے آئی ڈی سی ایل کمپنی کے قیام پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کراچی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے قیام کی کیوں ضرورت پیش آئی؟

    سی ای او کے آئی ڈی سی ایل نے بتایا منصوبے کی تکمیل کے لیے وفاقی حکومت نے کمپنی کی بنیاد رکھی، کمپنی نے سرجانی سے گرومندر تک گرین لائن بس کا منصوبہ مکمل کردیا ہے، گرین لائن بس منصوبےپرمزید کام جاری ہے، کراچی کا بنیادی انفراسٹرکچر بنانے کی ذمہ داری تو مقامی حکومت کی ہے۔

  • سپریم کورٹ کا عسکری پارک عوام  کے لیے کھولنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا عسکری پارک عوام کے لیے کھولنے کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے پرانی سبزی منڈی پر قائم عسکری پارک عوام الناس کے لیے کھولنے کا حکم دے دیاجبکہ کارساز، شاہراہ فیصل، راشد منہاس پر قائم تمام شادی ہالز گرانے کا حکم بھی دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار کی سربراہی میں عسکری پارک سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں جسٹس گلزار  نے حکم دیتے ہوئے کہا پرانی سبزی منڈی پر قائم عسکری پارک عوام الناس کے لیے کھولا جائے۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عزیز بھٹی پارک کوماڈل پارک بنایا جائے، اس شہر کے پارکوں کو شہیدوں کے نام پر بیچ دیا گیا ہے۔

    دوران سماعت جسٹس گلزار نے بجلی کی پھیلی ہوئی تاروں پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جگہ جگہ تاروں کا جنگل کیوں پھیلا ہوا ہے، کوئی نہیں جو اس شہر کے بارے میں سوچنے والا ہو۔

    ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ فیصلے میں سخت الفاظ استعمال نہ کیے جائیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ ہمارے سامنے بیان دیتے ہوئے شرما کیوں رہے ہیں، یہ ہمارا ذاتی کام نہیں،  یہ ذمہ داری اداروں کی بنتی تھی۔

    جس پر سلمان طالب الدین نے کہا کہ وعدہ کرتا ہوں،  چیف سیکرٹری اور میں مربوط پلان پیش کردیں گے، مہلت دی جائے۔

    کارساز، شاہراہ فیصل اور راشد منہاس پر قائم تمام شادی ہالز گرانے کا حکم


    دوسری جانب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کنٹونمنٹ بورڈز میں کمرشل تعمیرات کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کارساز، شاہراہ فیصل، راشد منہاس پر قائم تمام شادی ہالز گرانے کا حکم دے دیا جبکہ گلوبل مارکیٹ سمیت کنٹونمنٹ ایریاز میں تمام سنیماز، کمرشل پلازے اور مارکیٹس گرانے کا بھی حکم دے دیا۔

    جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں تو ڈی ایچ اے نے اتنی عمارتیں بنا ڈالیں بھارت تک جا پہنچے ہیں, کیا ان کا کام یہی رہ گیا ہے، ڈی ایچ اے والے سمندر کو بھی بیچ رہے ہیں, ان کا بس چلے تو یہ سڑکوں پر بھی شادی ہالز بنا ڈالیں۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل، تمام کنٹونمنٹ بورڈز کے چیف ایگزیکٹوز اور منتخب چئیرمینز کو طلب کر لیا اور اے ایس ایف، کے پی ٹی، پی آئی اے، سول ایوی ایشن, سمیت تمام اداروں کے سربراہان کو بھی طلب کرتے ہوئے تمام اداروں کے سربراہان سے 2 ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

  • سندھ حکومت2ہفتے میں غیر قانونی تعمیرات کے خاتمے سے متعلق جامع پلان دے، سپریم کورٹ

    سندھ حکومت2ہفتے میں غیر قانونی تعمیرات کے خاتمے سے متعلق جامع پلان دے، سپریم کورٹ

    کراچی : سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سےغیر قانونی تعمیرات کےخاتمےسےمتعلق دو ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی اور کہا ہمیں لوریاں نہ سنائیں، شہر کو تباہ کردیاکوئی پوچھنےوالانہیں،کراچی کی صورتحال پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ،لائنزایریا گرا کرملٹی اسٹوریزبلڈنگز بنائیں اور لوگوں کو آباد کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزاراحمداورجسٹس سجادعلی شاہ پرمشتمل بینچ نے شہر میں بڑےپیمانےپرغیر قانونی تجاوزارت سےمتعلق کیس کی سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی رپورٹ مستردکردی اور سپریم کورٹ رجسٹری کراچی کاانفرااسٹرکچر تباہ کرنے پر برہمی کا اظہار کر تے ہوئے شہرکی تباہی پر سندھ حکومت کوفوری کابینہ کااجلاس بلانے کا حکم دے دیا۔

    شہرکی تباہی پرسندھ حکومت کوفوری کابینہ کااجلاس بلانے کا حکم

    جسٹس گلزار نے اےجی سندھ سے مکالمے میں کہا ہمیں لوریاں نہ سنائیں،آپ کی لوریوں میں آنےوالےنہیں، اے جی صاحب ہمیں لوریوں سے سولانےکی کوشش مت کریں، آپ کٹھ پتلیاں ہیں کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، کراچی کی صورتحال پرکسی قسم کاکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہمیں1950کے بعد والا اصل ماسٹر پلان لاکر دیں۔

    ہمیں لوریاں نہ سنائیں،آپ کی لوریوں میں آنےوالےنہیں،کراچی کی صورتحال پرکسی قسم کاکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، جسٹس گلزار

    جسٹس گلزار احمد کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ شہرکی کم ازکم500عمارتیں گراناہوں گی، شہرکی تباہی میں سب اداروں کی ملی بھگت شامل ہے اور حکم دیا سندھ حکومت شہرکی تباہی پرماہرین سےمشاورت کرے، بتایاجائے بے ہنگم اور غیر قانونی عمارتوں کوکیسےگرایاجاسکتاہے۔

    شہرکی کم ازکم500عمارتیں گراناہوں گی، عدالت کے ریمارکس 

    جسٹس گلزار احمد نے حکم دیا کہ سندھ حکومت غیرقانونی تعمیرات کےخاتمےسےمتعلق2ہفتےمیں رپورٹ پش کرے ، کراچی کی ایک انچ زمین پربھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، غیرقانونی تعمیرات کےپیچھےکوئی بھی ہوآپ کوسب گراناہوگا، بیرون ملک سےٹاؤن پلانرزکوبلائیں،کراچی کواصل شکل میں بحال کریں، شہرایسےہوتےہیں،جائیں انگریزوں سےہی پوچھ لیں ، لندن کےپاکستانی نژادمیئرصادق احمدسےپوچھیں شہرکیسے بسائے جاتےہیں۔

    غیرقانونی تعمیرات کےپیچھےکوئی بھی ہوآپ کوسب گراناہوگا، لندن کےپاکستانی نژادمیئرصادق احمدسےپوچھیں شہرکیسے ، ، بسائے جاتےہیں، جسٹس گلزار

    سماعت کے دوران جسٹس گلزاراحمد نے مزید کہا لائنزایریاگراکرملٹی اسٹوریزبلڈنگزبنائیں اورلوگوں کوآبادکریں، شہرکو تباہ کردیا ہےکوئی پوچھنےوالا نہیں، ٹیپوسلطان روڈ، شہید ملت روڈ، کشمیرروڈ پر تباہی پھیر دی، شارع فیصل پردونوں اطراف خوبصورت بنگلےتھےاب عمارتوں کاجنگل ہے، بجلی کےتاروں کے بعد کیبلز نے خوبصورتی بگاڑ دی، یہ کراچی پرکلنک ہے۔

    جسٹس گلزاراحمد نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا آپ پیسہ بنانےمیں لگےرہیں،یہ کلنک لگتارہےآپ کو فرق نہیں پڑتا،ر ہرکوئی برطانیہ،امریکااورکینیڈامیں جائیدادبناناچاہتاہے، سندھ حکومت2ہفتےمیں جامع پلان دے۔

    لائنزایریا گرا کرملٹی اسٹوریزبلڈنگز بنائیں اور لوگوں کو آباد کریں

    جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا کہ سب پیسہ بنانےمیں لگےہوئےہیں ، ملیرندی پرقائم ہرقسم کی عمارتیں گراناہوں گی، لائنزایریاگرائیں، کثیرالمنزلہ عمارتیں بناکر لوگوں کو بہتر سہولتیں دیں۔

    جام صادق پارک سے تجاوزات ختم نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اورسندھ حکومت کی رپورٹ مستردکردی، اےجی نے بتایا کہ جام صادق نےصرف پارک کا اعلان کیا تھا زمین الاٹ نہیں ہوئی تھی، جس پرجسٹس گلزاراحمد نے استفسار کیا کیاوزیراعلیٰ کےاعلان کی کوئی اہمیت نہیں؟ بلائیں اپنے سی ایم کو ان سے پوچھتےہیں کیاچیف منسٹری کررہے ہیں۔

    ڈائریکٹراینٹی انکروچمنٹ کےڈی اے جمیل بلوچ نے کہا یہ ملیرندی کی زمین ہے جو کورنگی انڈسٹریل ایریاکودے دی گئی تھی ، اب زمین پر سپراسٹور اور دیگر عمارتیں بن گئی ہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے یہاں متوازی قانون چل رہاہے؟لوگوں کوبےوقوف نہ بنائیں اے جی صاحب۔

    عدالت نے ملیر ندی کی زمین واگزار کرانے کابھی حکم دیتے ہوئے کہا عوام کےحقوق پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، غیرقانونی عمارتیں گرادیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراف کیا ماضی میں کوتاہیاں ہوئی ہیں، جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ کوتاہیوں کانتیجہ سب بھگت رہےہیں،سمجھ لیں سب ٹھیک کرناہوگا، یونیورسٹی کےاطراف غیرقانونی شادی ہالز،بلندعمارتیں بنا دی گئیں ، اس زمین پرمیرج ہال بھی غیرقانونی بنایاگیاہے، جوبھی غیرقانونی عمارت ہےوہ گرےگی، پاکستان کی کوئی طاقت غیرقانونی عمارت گرانےسےنہیں روک سکتی۔

    جوبھی غیرقانونی عمارت ہےوہ گرےگی، پاکستان کی کوئی طاقت غیرقانونی عمارت گرانےسےنہیں روک سکتی، جسٹس گلزار

    غیرقانونی تجاوزات کیس میں عدالت نےچیئرمین پی آئی اےکونوٹس جاری کردیا، جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیئے سناہے پی آئی اے ہیڈآفس کراچی سے اسلام آبادجارہاہے، ہیڈ آفس اسلام آباد گیا تو جگہ کو کیسے استعمال کریں گے۔

    پی آئی اے کی اراضی پر کیاہورہا ہے چیئرمین رپورٹ دیں، جسٹس گلزار

    جسٹس گلزاراحمد نے استفسار کیا بتائیں پرانےایئرپورٹ کی زمین کاکیااستعمال ہے، معلوم ہے دنیا بھر سے آنے والے اسلام آبادکیوں اترتے ہیں، جس پر اےجی سندھ نے بتایا کہ ایئررپورٹس کےباعث پروازیں اسلام آبادمنتقل ہوگئیں ہیں، توجسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیئے یہ کہیں آپ نےکراچی میں ایساکیاکیاجولوگ یہاں آئیں، جوحال شہرکاکیاہےلوگ یہاں کیسےآئیں، پی آئی اے کی اراضی پر کیاہورہا ہے چیئرمین رپورٹ دیں۔

    دوسری جانب امن وامان کی صورتحال اورپولیس کی کارکردگی پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہارکیا ، جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمے میں کہا پولیس کارویہ اورکارکردگی شرمناک ہے، ختم کردیں ایسی پولیس ان سےکہیں چلےجائیں، کوئی دوسری فورس لائیں۔

    یہلوگ کسی وجہ کےبغیرچلتےآدمی کوماردیتےہیں، انہوں نے 5سال کی بچی کوبھی نہیں چھوڑاکیاوہ دہشت گردی تھی؟ عوام ، کےٹیکسوں پرپلتے ہیں مگرعوام کیلئےکچھ نہیں کرتے، جسٹس گلزار 

    جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس میں مزید کہا یہ لوگ کسی وجہ کےبغیرچلتےآدمی کوماردیتےہیں، فیملی گاڑی میں سفرکررہی ہےاسے بھی مار دیتے ہیں، انہوں نے 5سال کی بچی کوبھی نہیں چھوڑاکیاوہ دہشت گردی تھی؟ عوام کےٹیکسوں پرپلتے ہیں مگرعوام کیلئےکچھ نہیں کرتے۔

    مزید پڑھیں : کراچی میں ہرقسم کی غیرقانونی تجاوزات فوری گرادی جائیں، سپریم کورٹ کا بڑاحکم

    یاد رہے 22جنوری کو سپریم کورٹ نے بڑا حکم دیتے ہوئے کہا تھا غیرقانونی شادی ہال ہو یاشاپنگ مال اورپلازہ، کراچی میں ہرقسم کی غیرقانونی تجاوزات فوری گرادی جائیں اور حکام کو کہا بندوق اٹھائیں، کچھ بھی کریں، عدالتی فیصلے پر ہر حال میں عمل کریں، کراچی کوچالیس سال پہلے والی پوزیشن میں بحال کریں۔