Tag: سپریم کورٹ کی خبریں

  • کٹاس راج مندرکا تالاب ٹینکروں کے پانی سے بھرا جائے: چیف جسٹس

    کٹاس راج مندرکا تالاب ٹینکروں کے پانی سے بھرا جائے: چیف جسٹس

    لاہور: سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کٹاس راج تالاب کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس نے خشک کیے گئے کٹاس راج مندر کے تالاب کو ہر صورت پانی سے بھرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے لاہور رجسٹری میں کٹاس راج کیس سماعت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے سیمنٹ فیکٹریوں میں استعمال ہونے والے پانی کی تحقیقاتی رپورٹ بھی طلب کرلی ۔

    سماعت کے دوران چیف جسٹس نے قرار دیا کہ اگر ٹینکروں کے ذریعے بھی پانی لے جانا پڑے تو مندر تک لے جا کر تالاب بھرا جائے۔ عدالت نے مزید ہدایت کی کہ ڈی سی چکوال آگاہ کریں کہ سیمنٹ فیکٹریوں نے اتنا پانی کہاں سے حاصل کیا؟۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد میں ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر عامر سلیم رانا کو حکم دیا تھا کہ دیکھ کرآئیں کہ اصل پوزیشن کیا ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ عامر سلیم خود جاکر دیکھیں کہ پانی کے لیے کتنے بور کیے گئے ہیں اور ان کے پانی کے بل بھی لے کر آئیں۔

    ساتھ ہی ساتھ چیف جسٹس نے عدالتی کمیشن کو موقع کا وزٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیشن جج چکوال بھی کمیشن کے ساتھ جائے، اگر کوئی مزاحمت کرے تو اس کے خلاف پرچہ درج کردیا جائے ۔

    یاد رہے کہ رواں سال 8 مئی کو چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کےدوران کٹاس راج مندر کے تالاب کے حوالے سے حکم دیا تھا کہ سیمنٹ فیکٹریاں مل کرمندر کی بہتری اور تالاب کو بھرنے کا کام کریں۔

    انہوں نے مزید کہا تھا کہ سیمنٹ فیکٹریاں مل کر2 ارب روپے کی سیکیورٹی جمع کرائیں اور 6 ماہ کے اندر متبادل پانی کا انتظام کریں۔

  • منرل واٹر کیس: چیف جسٹس کابڑی کمپنیوں کے پانی کے نمونوں کی جانچ کا حکم

    منرل واٹر کیس: چیف جسٹس کابڑی کمپنیوں کے پانی کے نمونوں کی جانچ کا حکم

    لاہور: سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زیر زمین پانی نکال کر منرل واٹر فروخت کرنے والی کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت، عدالت نے پاکستان کی بڑی منرل واٹر کمپنیوں کے پانی کے نمونے چیک کروانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز اتوار سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں دو رکنی بنچ نے زیر زمین پانی نکال کر منرل واٹر فروخت کرنے والی کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے قرار دیا کہ 20 سال سے کمپنیاں صرف منافع ہی کما رہی ہیں۔

    اس موقع پرچیف جسٹس نے کہا اب وقت آ گیا ہے کہ جو قوم نے ہمیں دیا، اسے لوٹانا ہے۔ لوگوں میں احساس پیدا ہوگیا ہے، اب ہمیں پوچھا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس کیس کے بعد کمپنیاں مناسب قیمت ادا کریں گی اور ریٹ بھی مناسب رکھیں گی۔

    چیف جسٹس نے کمپنیوں کی جانب سے آڈٹ کے لیے ایک ماہ کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ملک کی بڑی منرل واٹر کمپنیوں کے پانی کے نمونے چیک کروانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے منرل واٹر کی بڑی کمپنی کا 15 روز میں فرانزک آڈٹ کروانے کی بھی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے قرار دیا کہ فرانزک آڈٹ کے بعد اس معاملے کو دیکھا جائے گا کہ کمپنیوں کو حکومت کو پانی کی کتنی ادائیگی کرنی چاہیئے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پانی ایک ایسا ایشو ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب بڑی بڑی سوسائٹیوں کا نمبر آنا ہے جو ٹیوب ویل لگا کر رہائشیوں سے پوری قیمت وصول کرتی ہیں مگر حکومت کو ایک پیسہ نہیں دیتیں۔ آئندہ ہفتے سوسائٹیوں میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے بھی کیس کی سماعت شروع کریں گے

    یا درہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نےتمام بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز کو آج بروز اتوار صبح ۱۱ بجے طلب کیا تھا ، ان کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا کہ منرل واٹر میں منرلز شامل کیے جارہے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمپنیاں رواں سال تک زمین سے مفت پانی حاصل کرکے بیچ رہی ہیں، حکومت کے ساتھ بیٹھ کر پانی نکالنے کا ریٹ طے کریں۔

  • عدالت کا پنجاب کابینہ سے فوری ڈیم کی منظوری لینے کا حکم

    عدالت کا پنجاب کابینہ سے فوری ڈیم کی منظوری لینے کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ڈڈوچہ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے فوری طور پر پنجاب کابینہ سے ڈیم کی منظوری لینے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈڈوچہ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کی۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ وقت نہیں دیں گے پہلے ہی معاملے میں تاخیر کی گئی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایک ایک ڈیم تعمیر کر کے دیں گے، ہمیں آبی وسائل تعمیر کرنے ہیں۔ ڈیمز کی تعمیر میں بیورو کریسی کے معاملات رکاوٹ نہیں بننے دیں گے، ڈڈوچہ ڈیم کی تعمیر میں کس نے رکاوٹ ڈالی ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔

    سیکریٹری آبپاشی نے کہا کہ ڈیم کا معاملہ محکمہ آبپاشی پنجاب نے ٹیک اوور کر لیا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جو پلان دیا اور رقم بتائی اس میں آدھی خرچ ہوگی، رقم ٹھیکیداروں، انجینیئرز اور بیورو کریسی کی جیبوں میں جائے گی۔ دیامر بھاشا ڈیم بنانے کاارادہ کیا تو کہا گیا کہ کمیشن کو کنٹرول کرلیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا اثاثہ زمین ہے اور پانی ہے، پارٹنر شپ میں دوسرے فریق کا حصہ پانی کی شرح کے حساب سے ہوگا۔ پانی کی شرح فیصد طے کر لیں اور انہیں ڈیم بنانے دیں۔

    سیکریٹری نے کہا کہ ڈیم کی استعداد 25 ملین گیلن یومیہ ہے، ڈیم راولپنڈی کو پانی کی سپلائی کے لیے بنایا جانا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ پانی کی شرح طے کرلیں یہ کتنا پانی لیں گے اور راولپنڈی کو کتنا ملے گا، پونی قیمت اور ایک سال میں ڈیم بنانے کو تیار ہیں تو مسئلہ کیا ہے۔

    سیکریٹری نے کہا کہ ایسا فیصلہ کابینہ کو کرنے دیں تاکہ یہ باقاعدہ پالیسی بن جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کا فوری اجلاس بلا کر فیصلہ کر لیں۔

    سیکریٹری نے کہا کہ زمین حاصل کرنے اور ڈیم کے لیے تیاری کرلی ہے، ڈیم کے لیے 6 بلین روپے دستیاب ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 27 اگست 2015 کا آرڈر ہے لیکن ابھی تک ڈیم تعمیر نہیں ہوا۔ تین سالوں میں ایک ایک دن کا حساب لیں گے، حکومت میں کون ہے ہمیں اس سے غرض نہیں۔

    عدالت نے کہا کہ ڈڈوچہ ڈیم پبلک پرائیویٹ شپ کا معاملہ حکومت کو ارسال کیا جائے، منگل کے روزعدالت کو حکومت کے فیصلے سے آگاہ کیا جائے۔

    کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔

  • جعلی اکاؤنٹس کیس: چیف جسٹس کا جے آئی ٹی بنانے کا حکم

    جعلی اکاؤنٹس کیس: چیف جسٹس کا جے آئی ٹی بنانے کا حکم

    اسلام آباد: بیرون ممالک بینکوں میں جعلی اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بیرون ممالک بینکوں میں جعلی اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکن بینچ نے کی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کی ضرورت ہے، اگر جے آئی ٹی بن جائے تو ان کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ جے آئی ٹی بنی تو ان کو کلین چٹ بھی مل سکتی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ بیرون ملک بینک اپنے کھاتے داروں کی تفصلات نہیں دیتے، مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس آئی ٹی کے ماہرین نہیں۔ آئی ٹی کے ماہرین نادرا کے پاس ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ آج ڈھائی بجے منی لانڈرنگ معاملے پر اہم میٹنگ ہے۔

    ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے کہا کہ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ اچھا کام کر رہا ہے، ایس ای سی پی اور ایف بی آر کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ کل وزیر خزانہ اور اٹارنی جنرل کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی، میٹنگ میں تمام ثبوت ان کو دکھا دیے ہیں۔

    چیف جسٹس نے مجید فیملی کے وکیل شاہد حامد سے کہا کہ اگر جے آئی ٹی بنائیں تو آپ کو کوئی اعتراض ہے؟ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ میں نے اپنے تحریری معروضات عدالت میں جمع کروا دیے۔

    چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بندہ پکڑا جاتا ہے بیمار ہوجاتا ہے، جوان بچہ تھا کیا ہوگیا اسے؟ ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ہمارے پاس لاک اپ ہے، آرام پسند نہیں کرتا۔

    انہوں نے بتایا کہ جب چھاپہ مارا گیا تو دبئی کمپنی کی تفصیلات ملیں، دبئی کی کمپنی میں اربوں روپے کی منتقلی سامنے آئی تھی۔ فرانس میں بھی پیسہ بھیجا گیا۔ جو ہمیں ہارڈ ڈرائیو ملیں اس میں 10 ٹیرا بائٹ سے زیادہ کا ڈیٹا ہے۔

    ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ اکاؤنٹس تک پہنچنے کے لیے دیگر ممالک کے قوانین کا سہارا لینا پڑے گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اس کام کے لیے تو آپ کو ماہرین درکار ہوں گے، ایسے لوگ ہوں گے جو بین الاقوامی قوانین کے ماہر ہوں۔

    ڈائریکٹر نے کہا کہ ایسے ماہرین نہیں ہمیں ان کی خدمات لینی پڑیں گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سوموٹو آپ کی معاونت کے لیے ہی لیا، جے آئی ٹی بنائی جاسکتی ہے۔

    شاہد حامد نے کہا کہ انور مجید دل کے مریض ہیں اور بیٹے کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی انور مجید کے ساتھ گفتگو موجود ہے، اس گفتگو میں کہا گیا کہ انور مجید وزیر اعلیٰ کے گھر پر رہ لیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم مقدمے کو پنجاب میں منتقل کر دیتے ہیں، عدالت سچ کا کھوج لگا رہی ہے۔ جعلی اکاؤنٹس کی جے آئی ٹی سے دوبارہ تحقیقات کروا لیتے ہیں۔ ہمیں اس عمل کا اختیار حاصل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں ایف آئی اے کو کارروائی کا اختیار دیتے ہیں، 35 ارب کا فراڈ ہوا ہے، ہم سچ کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔ ابھی کسی کو الزام نہیں دے رہے ہیں۔

    سماعت میں مجید فیملی کے وکیل نے پاناما کیس کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس میں جسٹس اعجاز افضل کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں عدالت ٹرائل نہیں کر سکتی، یہ مقدمہ پاناما کے مقدمے سے مختلف ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کئی ایسے فیصلے ہیں جن میں عدالت نے خود انکوائری کروائی، اس مقدمے میں ایجنسیوں سے بھی مدد لی گئی تھی۔ مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم کر دیتے ہیں، قوم کا بنیادی حق ہے ان کا پیسہ لوٹا نہ جائے۔

    شاہد حامد نے کہا کہ یہ تو صرف الزامات ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقات سے مزید چیزیں سامنے آرہی ہیں۔

    شاہد حامد نے کہا کہ ہر سماعت پر ایک نئی رپورٹ آتی ہے اتنے اکاؤنٹ مل گئے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ شفاف ٹرائل آپ کا حق ہے۔ 14 دنوں میں حتمی ٹرائل کی پابندی نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حتمی ٹرائل کے بعد عبوری ٹرائل آسکتا ہے۔ تحقیقاتی ادارے کو عدالت صرف ہدایت دے سکتی ہے۔

    شاہد حامد نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی کی مخالفت کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں عدالت کو جے آئی ٹی بنانے پر کیسے پابندی ہے؟ یہ کوئی چھوٹا موٹا مقدمہ نہیں ہے۔ کیا بینک اکاؤنٹس میں فرشتے پیسے ڈال کر چلے گئے؟ 35 ارب روپے کس کے تھے اس کا پتہ کریں گے۔

    شاہد حامد نے کہا کہ میڈیا میرے موکلوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کو کنٹرول کر لیتے ہیں پر بتائیں جے آئی ٹی کیوں نہ بنائیں۔ ایک خاتون نے آ کر کہا میں نے 50 ہزار ایک ساتھ نہیں دیکھے، خاتون کہتی ہیں اربوں روپے اس کے اکاؤنٹ میں کیسے گئے۔

    سماعت میں مصطفیٰ مجید اور علی کمال کے وکیل منیر بھٹی بھی عدالت میں موجود تھے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انور مجید کے 3 بیٹے گرفتار نہیں۔ وکیل نے کہا کہ علی کمال کی 6 سال کی بچی بیرون ملک بیمار ہے وہاں نہیں جاسکتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ علی کمال اگر کلیئر ہوئے تو چلے جائیں گے۔

    منیر بھٹی نے کہا کہ خواجہ علی کمال کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 15 دن میں تحقیقات کرنی ہے کوئی ملک سے باہر نہیں جائے گا۔ ہماری تسلی ہونی چاہیئے کوئی بیمار ہے یا نہیں۔

    منیر بھٹی نے کہا کہ پاناما طرز کی جے آئی ٹی نہیں بنائی جا سکتی، مجید خاندان عہدہ نہیں رکھتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 35 ارب روپے جمع کروا دیں تمام بینک اکاؤنٹس کھول دیتے ہیں۔

    سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حتمی حکم دیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے وکیل اعتزاز احسن نے کہ کہ آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کے مختلف فیصلے موجود ہیں۔ 1977 سے 2008 تک جے آئی ٹی بنانے سے گریز کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کافی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نجف مرزا کو جے آئی ٹی میں شامل نہیں کر سکتے۔ زرداری ملک کے صدر رہے ہو سکتا ہے آگے اہم ذمہ داری مل جائے، انہیں جے آئی ٹی کی تشکیل پر اعتراض نہیں ہونا چاہیئے۔

    عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی ہر 2 ہفتے بعد عدالت میں رپورٹ جمع کروائے گی، ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کو رینجرز کی سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔

    ایف آئی نے کہا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، آئی ایس آئی اور ایم آئی چاہیئے۔ عدالت نے ایف آئی اے کی مقدمہ اسلام آباد منتقل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیسہ باہر لے جانے کے عمل کو مشکل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مل بیٹھ کر کام کریں یہ اہم مسئلہ ہے۔ لوگوں کا پیسہ لوٹ کر باہر لے جایا گیا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم دن رات اس پر کام کر رہے ہیں، اس معاملے پر وزیراعظم کی سربراہی میں میٹنگ ہوئی ہے۔ مکمل رپورٹ جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا جائے۔

    عدالت نے حکومت کو رپورٹ دینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دے دیا۔

  • لاہور میں جگہ جگہ لگے بل بورڈز پر چیف جسٹس برہم

    لاہور میں جگہ جگہ لگے بل بورڈز پر چیف جسٹس برہم

    اسلام آباد: لاہور میں بل بورڈز اتارنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے بل بورڈز نہ اتارنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بل بورڈز ہٹانے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔

    ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ لاہور میں پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) نے کوئی بل بورڈز نہیں لگائے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بل بورڈ سے متعلق اصول وضع کریں گے جو ملک بھر پر لاگو ہوگا۔ لاہور میں جگہ جگہ بل بورڈز لگے ہوئے ہیں۔ مال روڈ سے سپریم کورٹ رجسٹری تک بینرز لگے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ چوہدری سرور کا بہت بڑا مجسمہ لگا ہوا تھا جس پر عدالت قہقہوں سے گونج اٹھی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جناب وہ مجسمہ نہیں پینا فلکس ہوگا۔

    پی ایچ اے کے نمائندے کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے بینرز اور بل بورڈز لگائے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں میں الیکشن کے بعد گیا ہوں۔

    نمائندے نے کہا کہ ہم نے بل بورڈز نہیں لگائے جو پہلے لگائے تھے وہ بھی اتار دیے، ہم نے لاہور میں 1304 بل بورڈز کو اتارا ہے۔

    سپریم کورٹ میں کیس کی مزید سماعت ستمبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ کراچی میں لگے بل بورڈز پر بھی از خود نوٹس لے چکی ہے۔ عدالت نے شہر سے تمام بل بورڈز اور ہورڈنگز ہٹانے کا حکم دیا تھا جبکہ نئے بل بورڈ لگانے پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

  • اورنج لائن ٹرین منصوبہ: عدالت کے حکم پر شراکت داروں کی ہنگامی میٹنگ

    اورنج لائن ٹرین منصوبہ: عدالت کے حکم پر شراکت داروں کی ہنگامی میٹنگ

    لاہور: لاہور اورنج لائن ٹرین منصوبے میں تاخیر کے معاملے پر سپریم کورٹ کے حکم پر شراکت داروں کی ہنگامی میٹنگ کے بعد منصوبے کے ایم ڈی نے یقین دہانی کروائی کہ منصوبہ 31 مارچ 2019 تک مکمل ہوجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں لاہور اورنج لائن ٹرین منصوبے سے متعلق سماعت ہوئی۔

    عدالت نے ایم ڈی اورنج ٹرین منصوبہ سے کہا کہ منصوبے میں حائل رکاوٹیں ہم ہی دور کریں گے، پہلے یہ منصوبہ27 ماہ میں مکمل ہونا تھا۔ ہمیں سادہ الفاظ میں بتائیں کہ ٹرین کب تک چلے گی۔

    ایم ڈی سبطین علی نے کہا کہ میٹرو اورنج لائن پراجیکٹ پر تفصیل دینا چاہتا ہوں۔ 30 جولائی 2019 تک ٹرین چل سکے گی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چین کے دیے گئے قرض سے کتنا کام ہوچکا ہے جس پر ایم ڈی نے بتایا کہ مکینیکل، سول اور کنسلٹنٹسی چارجز کے لیے قرض دیا گیا۔

    ایم ڈی نے مزید کہا کہ منصوبہ 22 ماہ بند رہا، 5 ثقافتی جگہوں پر کام مکمل ہونا باقی ہے۔

    دوران سماعت ایک موقع پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو 4 بجے بلا لیں، وزیر اعلیٰ اپنے طیارے پر آجائیں۔

    جس پر ایم ڈی نے کہا کہ عدالت کے تعاون سے ہمیں خاصی مدد ملے گی، وزیر اعلیٰ کو نہ بلائیں ہم مسئلہ حل کرلیں گے۔

    ایم ڈی نے بتایا کہ منصوبہ کے لیے چین کے بینک سے 162 کروڑ ڈالر سے زائد قرض لیا گیا ہے۔ منصوبے کا اسی فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ شراکت دار سپریم کورٹ میں ہی میٹنگ کر کے دو بجے تک آگاہ کریں، تاکہ ہم حکم جاری کردیں۔ انہوں نے تمام شراکت داروں کو مل کر لائحہ عمل تیار کرنے کا حکم دے دیا۔

    میٹنگ کے بعد ایم ڈی دوبارہ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 31 مارچ 2019 تک منصوبہ مکمل ہوجائے گا۔ تھوڑا بہت کام اس تاریخ کے بعد بھی جاری رہے گا۔ ایک سائیڈ ہے جہاں پر مئی کے اختتام تک کام جاری رہے گا۔

    عدالت نے ایم ڈی اورنج لائن سبطین علی کو منصوبے کا فوکل پرسن مقرر کردیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے سے متعلق مسئلہ آئے تو اے جی پنجاب کو آگاہ کرنا ہے، ایڈووکیٹ جنرل یہ معاملہ ہمارے سامنے رکھیں گے۔

    نجی کنٹریکٹر کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ نا مکمل منصوبے کو ضرور مکمل ہونا چاہیئے، منصوبے کا ایک حصہ چینی کمپنی نے مکمل کرنا ہے۔ جولائی 2019 سے پہلے ٹرین نہیں چل سکتی۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے ہماری ادائیگی کی جائے گی، نیب کو ہدایت کریں منصوبے پر کام کرنے والوں کو ہراساں نہ کرے۔ منصوبہ مکمل ہو جائے تو پھر جیسے چاہے تفتیش کرلے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ امید ہے ہمیں نیب کی اس طرح کی خبریں نہیں آئیں گی۔ انکوائری کے لیے نیب بلائے اور اس کی خبر چلی تو ذمہ دار تفتیشی افسر ہوگا۔ خوشی ہوئی شراکت دار مل بیٹھے اور منصوبے کو مکمل کرنے کا عزم کیا۔

    عدالت نے کیس کی سماعت اکتوبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔

  • جعلی بینک اکاؤنٹ کیس: انورمجید بیٹے سمیت عدالت سے گرفتار

    جعلی بینک اکاؤنٹ کیس: انورمجید بیٹے سمیت عدالت سے گرفتار

    اسلام آباد: جعلی بینک اکاؤنٹ کیس میں اومنی گروپ کے انور مجید اور ان کے بیٹے کو گرفتار کرلیا گیا ہے، حفاظتی ضمانت اور بینک اکاؤنٹ بحال کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں اومنی گروپ کے سربراہپ انور مجید اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ پیش ہوئے، سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے انور مجید فیملی کی جانب سے دائر کردہ حفاظتی ضمانت مسترد کردی۔

    سپریم کورٹ نے انور مجید فیملی کا نام ایگز ٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم بھی صادر کیا ، سماعت ختم ہونے کے بعد انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی کو کمرہ عدالت کے باہر سے حراست میں لے لیا گیا۔

    سماعت میں سپریم کورٹ نے انور مجید کی جانب سے کی جانے والی حفاظتی ضمانت کی استدعا بھی مسترد کردی اور کہا کہ انور مجید فیملی کی ضمانت ذیلی عدالت کا معاملہ ہے۔

    عدالت کی جانب سے اومنی گروپ کے بینک اکاؤنٹس بحال کرنے کی درخواست بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کے کام میں مداخلت نہیں کرسکتے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نےانور مجید فیملی کے عدالت میں پیش نہ ہونے سے متعلق درخواست مسترد کردی اور اومنی گروپ کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹ کی قرقی کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے اومنی گروپ مالکان کی عدم پیشی پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکم عدولی پر مجید فیملی کوتوہین عدالت کا نوٹس دیں؟۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا تھا کہ پیش نہ ہونےکی وجوہات بتائیں ؟ مجید فیملی کو کہیں کہ وہ عدالت میں پیش ہوں ، رات 8 بجے تک انہیں بلائیں ہم دوبارہ عدالت لگا دیں گے، آپ کوخدشات ہیں کہ موکل کوگرفتار کیا جائے گا، اگرعدالتی حکم پرعمل نہیں کراسکتے تو پھر بتائیں ہم کیا کریں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اومنی گروپ کی جائیدادیں،اکاؤنٹس ایف آئی اے نے قرق کیں، اب ہم بھی ان کی جائیداد کی قرقی کا حکم دیتے ہیں۔

  • این آراوملکی مفاد میں بنایاگیا : پرویز مشرف کا عدالت کو جواب

    این آراوملکی مفاد میں بنایاگیا : پرویز مشرف کا عدالت کو جواب

    اسلام آباد: سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف نےاین آراونظرثانی کیس میں سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا، جواب میں سابق صدر کا کہنا ہے کہ این آراوکاقانون ملک کےمفادمیں بنایاگیا۔

    تفصیلات کے مطابق این آر او کیس میں جواب ان کے وکیل اختر شاہ کی جانب سے عدالتِ عظمیٰٰ میں جمع کرایا گیا، سابق صدر پرویز مشرف، ان کے بچوں اور داماد کو نیب نے اثاثہ جات کیس میں بھی طلب کررکھا ہے۔

    وکیل کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ این آراوکا مقصدعوامی عہدے رکھنےوالوں میں اعتمادپیداکرناتھا، اور اس کا دوسرا سب سے اہم مقصدانتقام کی سیاست خاتمہ کرناتھا ۔

    یاد رہے کہ پرویز مشرف کے وکیل مشرف اختر شاہ نے چار جولائی کو ہونے والی سماعت میں جواب جمع کرانے کے لیے 2 ہفتے کی مہلت مہلت طلب کی تھی اور اس وقت کہا تھا کہ ہمیں کل ہی نوٹس ملا ہے، پرویزمشرف عدالتوں کااحترام کرتے ہیں۔

    اپنے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ این آر او کے لیے وزیراعظم نے ایڈوائس بھیجی تھی، اس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ ، باہمی اعتماد میں اضافہ، سیاسی انتقام کا خاتمہ اور انتخابی عملی کو شفاف بنانا تھا۔

    جنرل (ر) پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا کہ این آراو کسی بدنیتی سے جاری نہیں کیا گیا بلکہ اس وقت کے سیاسی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قانون بنایا گیا، انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ این آراو کا اجرا کرکے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا گیا۔

    انہوں نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا کہ اس وقت کی سپریم کورٹ نے این آراو کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • چیف جسٹس نے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کی فراہمی کے لیے کمیٹی قائم کردی

    چیف جسٹس نے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کی فراہمی کے لیے کمیٹی قائم کردی

    لاہور: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خواجہ سراؤں کو 15 دن میں شناختی کارڈ کی فراہمی کے لیے کمیٹی قائم کردی، چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے لیے ایسا نظام بنائیں گے ان کو حق دہلیز پر ملے۔

    تفصیلات کے مطابق خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کے حصول سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس نے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کی فراہمی کے لیے کمیٹی قائم کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ ون ونڈو طریقے سے بننے چاہئیں۔

    میاں ثاقب نثار نے کہا کہ سپریم کورٹ تمام اقدامات خود مانیٹر کرے گی، میں خود سپروائز کروں گا، خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی، خواجہ سراؤں کو عدالتی تحفظ نہیں ملے گا تو معاملات حل نہیں ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کئے جائیں، خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی برداشت نہیں کی جاسکتی، شناختی کارڈ ہولڈرز خواجہ سراؤں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے، خواجہ سرا معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔

    میاں ثاقب نثار نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، چھٹی میں عدالت لگانے کا مقصد خواجہ سرا کے مسائل آرام سے سننا ہے، ایسا نظام ضروری ہے جہاں چیف جسٹس کو فون کرکے توجہ دلانا نہ پڑے۔

    قبل ازیں فاونٹین ہاؤس کے دورے کے دوران خواجہ سراؤں نے چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل کی تھی اور بتایا کہ پاکستانی شہری ہونے کے باوجود ان کو بنیادی حقوق حاصل نہیں نادرا انہیں شناختی کارڈ جاری نہیں کر رہا۔اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا فاؤنٹین ہاؤس آکر دلی سکون ملا، جب کوئی کام نہیں کرے گا تو مجبوراً کسی کوتو قوم کے لیے نکلنا پڑے گا، قوم کو قرض سے نجات، پانی فراہم کرنے پر خصوصی توجہ دینی ہے۔

     انتخابات 2018 کے کاغذات نامزدگی  وصول کرنے کے لیے  سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے علاوہ پہلی بار خواجہ سرا بھی فارم وصول کرنے کے لیے  ریٹرننگ آفیسرکے پاس پہنچے تھے ۔ تاہم  نامزدگی فارم میں خواجہ سراؤں کے لیے الگ خانہ نہ ہونے سے بھی انہیں شدید مایوسی ہوئی تھی ، کیونکہ قانون کے مطابق اب یہ ان کا حق ہے کہ وہ  الیکشن میں حصہ لے سکیں اور ووٹ کاسٹ کرسکیں۔

    یاد  رہے کہ سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے رواں برس فروری میں خوجہ سراؤں کے حقوق اور تحفظ کے قانون کی متفقہ طور پر منظوری دے دی تھی جس کے بعد وہ بھی الیکشن لڑنے اور سرکاری عہدہ رکھنے کے اہل قرار پائے تھے۔قانون کی منظوری کے بعد خواجہ سراؤں کو الیکشن لڑنے، سرکاری عہدہ رکھنے اور وراثت کا حق حاصل ہوا جبکہ اس قانون کی بھی منظوری دی گئی کہ اگر انہیں کوئی شخص بھیک مانگنے پر مجبور کرے گا تو اُسے قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

    بعد ازاں فروری میں ہی خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراؤں نے ووٹ کا حق مانگنے کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف رٹ درخواست دائر کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں