Tag: سپریم کورٹ کے جج

  • جسٹس نعیم اختر افغان نے سپریم کورٹ کے  جج کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

    جسٹس نعیم اختر افغان نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

    اسلام آباد : جسٹس نعیم اخترافغان نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس نعیم اخترافغان سے حلف لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس نعیم اخترافغان کی حلف برداری کی تقریب سپریم کورٹ سیریمونیل ہال میں منعقد ہوئی، تقریب میں سپریم کورٹ ججز، اٹارنی جنرل، سینئر وکلا اور عدالتی اسٹاف نے شرکت کی۔

    تقریب میں جسٹس نعیم اخترافغان نے سپریم کورٹ جج کے عہدے کا حلف اٹھایا، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے جسٹس نعیم اخترافغان سے حلف لیا۔

    جسٹس نعیم اختر بطورچیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ فرائض انجام دے چکے ہیں۔

    یاد رہے صدرعارف علوی نے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان کی بطور جج سپریم کورٹ تعیناتی کی منظوری دی تھی، صدر نے آئین کے آرٹیکل 175 (اے) 13 کے تحت منظوری دی۔

  • سچ کو75 سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    سچ کو75 سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی قدرکرتے تو نہ ملک دولخت ہوتا نہ سیاسی لیڈر پھانسی چڑھتا، سچ کو75سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ نے سپریم کورٹ میں ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کا عدلیہ پر کوئی اثر نہیں ہوناچاہیے اور جج کوتوکبھی کسی قسم کی تنقید سے گھبرا ہی نہیں چاہیے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ جج پر کتنی بھی تنقید ہو اگروہ کسی قسم کا اثر لیتا ہے تو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے، کسی جج کویہ نہیں سوچناچاہیےکہ کورٹ رپورٹ کومنع کرے، اثر انداز ہو کہ کیا کرنا چاہیے۔

    جج سپریم کورٹ نے کہا کہ سچائی سچائی ہی رہتی ہےجھوٹ جنتابھی بولاجائےآخرمیں فتح سچ کی ہی ہوتی ہے، پاکستان کی آدھی تاریخ ان حالات میں گزری جہاں اظہاررائے کی گنجائش نہیں تھی ، صحافیوں کاآزادی اظہار رائے کیلئےبہت کلیدی کردار رہا، انہوں نے کوڑے بھی کھائے۔

    انھوں نے بتایا کہ میں نے کورٹ رپورٹرزسےبہت کچھ سیکھاہے، مجھے اظہار رائے پر کچھ کہنے کی ضرورت اس لیےنہیں کیوں کہ ہم جواب دہ ہیں، شروع سے ہی آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگائی گئیں، بحیثیت جج ہم اپنی کوئی چیز چھپانہیں سکتے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ پر 2قسم کی تنقیدہوتی ہے، ایک وہ تنقیدجب الزام لگایاجاتاہےکوئی دانستہ طور پر فیصلے ہو رہے ہیں اور ایک وہ تنقید ہوتی ہے جس کومیں پسندنہیں کرتااس کوریلیف کیوں ملا، وقت کے ساتھ سچائی خود سامنے آتی ہے، ہر تنقید کرنے والا اس عدالت پر ہی اعتماد کرے یہ عدلیہ کا امتحان ہے۔

    سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ 71میں مغربی پاکستان کے لوگوں کویکسرمختلف تصویردکھائی گئی،یہ ہی ہوتاہے، ہر ایک کو اپنے آپ سے سوال پوچھناچاہیےہم کس طرف جارہےہیں، کیاہم اصول پر کھڑے ہیں؟ یا دھڑے بندی کا شکار ہے معاشرہ مرضی کا فیصلہ اور گفتگو چاہتا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اظہارائےکوکبھی بھی د بانےکی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کوئی اگر غلط کہتا ہے تووہ خود بے نقاب ہو جائے گا وقت کے ساتھ، ٹیکنالوجی کا دورہے،ریاستیں اظہا رائے کو قابو نہیں کرسکتیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اظہار رائے کی قدرکرتے تو نہ ملک دولخت ہوتا نہ سیاسی لیڈرپھانسی چڑھتا،سچ ہر ایک کو پتہ ہے اور 75سالوں سے پتہ ہے لیکن ہمیشہ دبانے کی کوشش کی، سچ کو 75 سال تک دباتے دباتے ہم یہاں تک پہنچ گئےہیں۔

    اعلیٰ عدلیہ کے جج نے بتایا کہ میرےبارےمیں میں بھی کہاگیاواٹس ایپ پرکسی سےتعلق میں رہتےہیں، ہر دور میں کسی نہ کسی نے مجھے 2 فلیٹ دلوا دیے، ان باتوں سے کیا مجھے کوئی فرق پڑا؟ بحیثیت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ ایک غریب قیدی نےمجھ سےپوچھاکیاحالات ٹھیک ہوجائیں گے، میں نےقیدی سےپوچھاتم بتاؤ کیا ہمارے معاشرے کے اقدار اصولوں اور سچائی پر مبنی ہیں، میرے پوچھنے پر قیدی فوراً ہنس پڑا اور کہا یہ سچائی کا دور نہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ بہت ساری قوتیں 18ویں ترمیم کی مخالف تھیں، اس وقت ایک تاثرہواسپریم کورٹ 18ویں ترمیم کو ختم کردےگی، اعتزاز احسن نے پوچھا 18ویں ترمیم ختم ہوگی توکیا کریں گے،میں نے کہا وکالت چھوڑ دوں گا ، کوئی اگر غلط کام نہیں کر رہا تواس کو گھبرانا نہیں چاہیے۔

    جج سپریم کورٹ نے کہا کہ اظہار رائے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور جمہوری معاشرےمیں اظہاررائےپرکسی قسم کی قدغن نہیں ہونی چاہیے، بے جا تنقید بھی ہمارے لیے اچھی ہے کیوں کہ سچائی جب نکلتی ہےتوفتح اسی کی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آغاز ہی سے آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگیں، قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر ریاستی سینسر کرنے پر لامتناہی سلسلہ شروع ہوا،آمریت میں آزادی اظہار رائے ممکن ہی نہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ عالمی اصول ہے کتنا ہی کوئی بڑا جرم نہ کر لے ثابت ہونے تک معصوم تصور اور لکھا جائے گا، ذولفقار بھٹو کے ٹرائل میں اخبارات میں ان کو ملزم یا معصوم نہیں لکھا گیا تھا، ہم جواب دہ ہیں، میں جج بنا تو پہلا کیس ایک ضمانت کا کیس تھا، سپریم کورٹ کے جج کے خلاف بینر لگانے پر 16 سال کا ملزم ضمانت کے لیے سامنے تھا،ماتحت عدالت سے ضمانت اس لیے خارج ہوئی کہ اس نے پوری عدلیہ کے خلاف جرم کیا لیکن کسی نے یہ پتا نہیں کرنے کی کوشش کی کہ بینر بنوائے کس نے؟

  • پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تنخواہ و مراعات سپریم کورٹ کے جج  کے برابر ہوں گی

    پراسیکیوٹر جنرل نیب کی تنخواہ و مراعات سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہوں گی

    اسلام آباد : پراسیکیوٹر جنرل نیب احتشام قادر کی تنخواہ و مراعات سپریم کورٹ کےجج کے برابر ہوں گی، وزارت قانون نےاحتشام قادر کو سپریم کورٹ جج کےمساوی مراعات دینے کی سفارش کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل نیب احتشام قادرشاہ،ڈپٹی چیئرمین نیب سہیل ناصر کی تعیناتی کے معاملے پر وزارت قانون کی جانب سے تفصیلات جاری کردی گئیں

    ،نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹرجنرل نیب کی تنخواہ ومراعات سپریم کورٹ کےجج کے برابر ہوں گی، احتشام قادر کو سپریم کورٹ جج کےمساوی مراعات دینے کی سفارش کی گئی تھی۔

    وزارت قانون نے سفارش کی تھی کہ پراسیکیوٹرجنرل نیب کودیگرمراعات بھی دی جائیں، پراسیکیوٹرجنرل نیب کی تنخواہ و مراعات کیلئے وزرات خزانہ کی منظوری لازمی قرار دے دی گئی ہے۔

    نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ وزارت خزانہ پراسیکیوٹرجنرل نیب کی مراعات کیلئےکابینہ سےمنظوری لے۔

    کابینہ نے11 اکتوبرکواحتشام قادرشاہ کی بطورپراسیکیوٹر جنرل نیب تعیناتی کی منظوری دی، ڈپٹی چیئرمین نیب کی تنخواہ اورمراعات ہائیکورٹ جج کےبرابرکرنےکی بھی سفارش کی۔

  • نامزد جج پر جنسی ہراساں کرنے کاالزام، ٹرمپ کے  کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز

    نامزد جج پر جنسی ہراساں کرنے کاالزام، ٹرمپ کے کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز

    نیویارک: سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کے فیصلے پر امریکا کے کئی شہروں میں صدرٹرمپ کیخلاف دوبارہ احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوگیا ، نامزدجج پر جنسی ہراساں کرنے کاالزام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے کئی شہروں میں سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کے فیصلے پر امریکی صدر کے خلاف عوام ایک بار پھر سڑکوں پرنکل آئی۔

    مظاہرین کی بڑی تعداد نے مین ہٹن کی گلیوں میں ٹرمپ کیخلاف احتجاجی مارچ کیا، اس موقع پر مظاہرین ٹرمپ مخالف بینرز اٹھارکھے تھے۔

    کچھ روز قبل بریٹ کیوانو پر کچھ روز قبل ایک خاتون پروفیسر نے جنسی طور پر ہراساں کرنے الزام لگایا تھا، جس کے بعد ایف بی آئی نے نامزد جج بریٹ کیوانوف کیخلاف تحقیقات شروع کردی تھی۔

    ڈاکٹر کرسٹین بلیسی فورڈ کا کہنا تھا کہ زمانہ طالب علمی میں بریٹ کیوانوف نے 36 برس قبل سنہ 1980 میں ایک تقریب کے دوران شراب نوشی کی کثرت کے باعث مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

    مزید پڑھیں : امریکی سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی ایف بی آئی نے روک دی

    فیڈرل انوسٹی گیشن بیورو کی جانب سے ریٹ کیوانوف کی تعیناتی سینیٹ کی جوڈیشل کمیٹی کی منظوری کے باوجود روک دی گئی تھی۔

    یاد رہے امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے نامزد متنازع جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری کے حوالے سے 11 ریپبلیکن اراکین سینیٹ امریکی صدر کے فیصلے پر متفق نظر آئے جبکہ 10 دیموکریٹ اراکین سینیٹ نے جج کی تعیناتی کے خلاف حق رائے دہی استعمال کیا۔

  • سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان نے استعفیٰ دے دیا

    سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان نے استعفیٰ دے دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان اپنےعہدے سے مستعفی ہوگئے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان نےاپنے ہاتھ سے استعفیٰ تحریر کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمید الرحمان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، جسٹس حمید الرحمان نے اپنا استعفیٰ خود تحریر کر کے صدر مملکت ممنون حسین کو ارسال کردیا ہے۔

    جسٹس اقبال حمید الرحمان نے اپنے استعفے میں اس اقدام کی کوئی وجہ تحریر نہیں کی ہے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان اسلام آباد ہائی کورٹ کی تقرریاں کرنیوالے پینل میں شریک تھے۔

    سپریم کورٹ نے تقرریاں میرٹ کے خلاف قرار دیں تھیں۔ سپریم کورٹ نےفیصلےمیں لکھا تھا تقرریوں میں اقرباء پروری کی گئی ہے۔

    دوسری جانب اس حوالے سے ممبر پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس اقبال حمید الرحمان جسٹس حمود الرحمان کے صاحبزادے ہیں اور وہ اپنے والد کی طرح بہت ہی اصول پسند اور وضع دار شخص ہیں۔

    مزید پڑھیں: آسیہ بی بی کیس: سپریم کورٹ نے سماعت معطل کردی

     جس کی وجہ سے انہوں نے مشرف کے دور میں پی سی او کے تحت حلف بھی نہیں لیا۔ اعظم نذیر تارڑ نے جسٹس اقبال حمید الرحمان کے استعفیٰ کی ممکنہ وجہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ملازمین کی تقرریوں کے حوالے سے آنے والے فیصلے کو قرار دیا ہے۔