Tag: سپریم کورٹ

  • ٹرمپ کو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا

    ٹرمپ کو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا

    ریپبلکن صدارتی امیدوار اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق نیویارک کی عدالت نے ہش منی کیس کی سماعت الیکشن تک ملتوی کردی ہے۔

    گزشتہ سماعت میں عدالت نے مقدمے میں سزا سنانے کا فیصلہ کیا تھا، اب غیرقانونی رقوم کی ادائیگیوں کے مقدمے میں سزا 26 نومبر کو سنائی جائیگی۔

    ٹرمپ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقدمے میں سزا انتخابی عمل کو متاثر کر دیگی، جبکہ الیکشن کے بعد سپریم کورٹ سے استثنیٰ کیلئے رجوع کرنے بھی اعلان کیا گیا ہے۔

    دوسری جانب امریکی صدارتی انتخابات پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جیت کے لیے کاملا ہیرس کی حمایت کردی، جبکہ امریکا نے روسی صدر کو صدارتی انتخابات پر تبصرہ کرنے سے منع کیا ہے۔

    پیوٹن کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن اپنے حامیوں سے کاملا ہیرس کی حمایت کا کہہ رہے ہیں ہم بھی ان کی حمایت کریں گے۔

    سعودی عرب: ایئرپورٹس آنے والے مسافروں کیلئے اہم خبر

    روسی صدر نے کہا کہ کاملا ہیرس ایسے مسکراتی ہیں جیسے ان کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو، ٹرمپ نے اب تک سارے امریکی صدور سے زیادہ روس پر پابندیاں عائد کیں۔

  • حکومت کی نیب قانون میں ترامیم بحال،  بانی پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ مسترد

    حکومت کی نیب قانون میں ترامیم بحال، بانی پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ مسترد

    اسلام ٓباد : سپریم کورٹ نے حکومت کی نیب قانون میں ترامیم بحال کردیں اور بانی پی ٹی آئی کےحق میں فیصلہ مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قراردینےکےفیصلےکیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پرفیصلہ سنا دیا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کمرہ عدالت نمبر ایک میں فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

    فیصلے میں پریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے حکومت کی نیب قانون میں ترامیم بحال کردی اور نیب ترامیم کیخلاف بانی تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ مسترد کردیا۔

    حکومت اور متاثرہ فریقین کی جانب سے دو دو انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی گئی تھیں زوہیر احمد صدیقی اور زاہد عمران نے متاثرہ فریق کے طور پر انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھی تاہم فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

    بانی پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کیخلاف درخواست مسترد کردی گئی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ تحریر کیا، جس میں نے حکومتی انٹرا اپیلیں مسترد کرتے ہوئے متاثرہ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرلیں جبکہ جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹ تحریر کیا۔

    نیب قانون میں ترامیم

    ترامیم کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا، نیب ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ قرار دیا گیا تھا۔

    نیب ترامیم کے تحت قرار دیا گیا کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کرسکتا۔

    ترمیم کے تحت نیب دھوکہ دہی مقدمے کی تحقیقات تبھی کرسکتا ہے جب متاثرین 100سے زیادہ ہوں جبکہ ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لیا جاسکتا تھا جسے بعد میں 30 دن تک بڑھا دیا گیا۔

    ترامیم کے تحت نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو نیب دائرہ کار سے نکال دیا گیا تھا۔

    ترامیم کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز متعلقہ اداروں اور عدالتوں کو منتقل کردی گئیں۔

    نیب قانون میں ترامیم کیس کا پس منظر

    سپریم کورٹ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، پی ڈی ایم کے دور حکومت میں نیب ترامیم منظور کی گئی تھیں نیب قوانین کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 14, 15, 21, 23، 25 اور 26 میں ترامیم کی گئی تھیں۔

    نیب ترامیم کے خلاف بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 5 ستمبر 2023 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے 15 ستمبر 2023 کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی تھیں۔

    عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیلیں دائر کیں ، بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کیس میں دائر اپیلوں پر ذاتی حیثیت میں دلائل دینے کی درخواست کی تھی۔

    سپریم کورٹ نے 10 مئی 2024 کو انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا، 5 رکنی لارجر بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی اجازت دی تھی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے 6 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں۔

  • سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

    سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار 508 ہوگئی، گزشتہ 15دن میں 861 مقدمات کا اضافہ ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

    اعلیٰ عدلیہ میں 16 سے 31 اگست تک زیر التوا مقدمات کی رپورٹ جاری کردی گئی ، جس میں بتایا کہ زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار 508 ہوگئی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ میں گزشتہ 15دن میں 861 مقدمات کا اضافہ ہوا، 33ہزار 269 سول اور10 ہزار 335 فوجداری اپیلیں زیرالتوا ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق اعلیٰ عدلیہ میں مجموعی طورپر28 از خود نوٹسز زیر التوا ہیں اور 2 ہزار 64 نظرثانی درخواستیں جبکہ ایچ آرسیل کی 134درخواستیں اور 3361 جیل پٹیشنزبھی زیر التوا ہیں۔

  • قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے ججوں میں اضافے کا بل  آج  پیش کیا جائے گا

    قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے ججوں میں اضافے کا بل آج پیش کیا جائے گا

    اسلام آباد : قومی اسمبلی  کے آج ہونے والے اجلاس میں  سپریم کورٹ کے ججوں میں اضافے کا بل  پیش کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس صبح ساڑھے11 بجے شروع ہوگا، اجلاس کا 28 نکاتی ایجنڈاجاری کر دیا گیا۔

    قومی اسمبلی کے اجلاس میں آج سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کا بل پیش کیا جائے گا۔

    عدالت عظمیٰ ایکٹ انیس سو ستانوے میں ترمیم کا بل حکومتی رکن دانیال چوہدری پیش کریں گے۔

    یاد رہے جولائی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے پر متفق ہوگئیں تھیں۔

    کمیٹی نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے عدالت عظمی میں زیر التوا مقدمات جبکہ وزارت قانون سے ہائی کورٹ ججز کی خالی آسامیوں کی تفصیلات طلب کیں تھیں۔

    چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا کہ وزارت قانون و انصاف کے تفصیلات پیش کرنے پر سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا معاملہ طے ہوگا، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کتنی ہوگی یہ کمیٹی طے کرے گی، سپریم کورٹ میں کیسز کا بوجھ بڑھا مگر ججز وہی 17 ہیں۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں مستقل ججز کی تعداد 17 ہے اور حال ہی میں 2 ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی گئی ہے۔

  • تحریک انصاف کو بڑی کامیابی مل گئی

    تحریک انصاف کو بڑی کامیابی مل گئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے این اے 97 پر لیگی امیدوار علی گوہربلوچ کی دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کےسعداللہ بلوچ کی قومی اسمبلی کی رکنیت برقرار رکھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما علی گوہر بلوچ کی فیصل آباد کے حلقے این اے 97 میں دوبارہ گنتی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس سماعت کی۔

    جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا ریکارڈ سے کہیں بھی ثابت نہیں ہورہا کہ دوبارہ گنتی کی درخواست نوفروری کو آئی تھی، آپ سپریم کورٹ کےحالیہ فیصلے پر انحصارکر رہےہیں اس فیصلےمیں دواصول طےکیے۔

    عدالت نے کہا جب دوبارہ گنتی کی درخواست بروقت آئےتوآراوانکارنہیں کرسکتا۔۔سپریم کورٹ نےدوبارہ گنتی کیلئے امیدواروں میں ووٹوں کےفرق کوبھی بیان کیا، آپ جس کاغذپرانحصارکررہےہیں اس پرتاریخ بھی درج نہیں ہے۔

    جسٹس نعیم اخترافغان نے استفسار کیا کیاآراونےکسی بھی فورم پرتسلیم کیاکہ دوبارہ گنتی کی درخواست آئی تھی؟ وکیل ن لیگی امیدوار حسن رضا پاشا نے بتایا کہ ریٹرننگ افسرجھوٹ بھی توبول سکتاہے، جس پر جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ آر او نے کہا دوبارہ گنتی کی درخواست بعد میں ذہن میں آنے والی سوچ ہے۔

    دوران سماعت ڈی جی لامحمدارشدعدالت میں پیش ہوئے، جسٹس امین الدین خان نے ڈی جی لا سے مکالمے میں کہا کہ آپ کا ریکارڈ کیا کہتا ہے تو ڈی جی لا نے بتایا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق 9 فروری کو دوبارہ گنتی کی درخواست دائر نہیں کی گئی۔

    جسٹس امین الدین خان سربراہی میں دو رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے این اے ستانوے سےتحریک انصاف کے سعد اللہ بلوچ کی قومی اسمبلی رکنیت برقراررکھی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے ن لیگی امیدوار علی گوہر بلوچ کی اپیل مسترد کردی۔

  • ن لیگ کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کی بحالی کا تفصیلی فیصلہ جاری

    ن لیگ کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کی بحالی کا تفصیلی فیصلہ جاری

    اسلام آباد : ن لیگ کےارکان قومی وصوبائی اسمبلی کی بحالی کاتفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ، جس میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران احترام کے حق دارہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے ن لیگ کےارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی بحالی کاتفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےتفصیلی فیصلہ تحریرکیا، فیصلے میں جسٹس عقیل عباسی کااختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ کا فیصلہ مجموعی طور پر 47 صفحات پر مشتمل ہے, سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ24 صفحات اوراختلافی نوٹ 23 صفحات پرمشتمل ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور ممبران احترام کے حق دارہیں، بدقسمتی سے کچھ ججز اس پہلو کو نظر انداز کرکے تضحیک آمیز ریمارکس دیتےہیں، ہر آئینی ادارہ اور آئینی عہدے دار احترام کا مستحق ہے۔

    اکثریتی فیصلے میں کہنا تھا کہ ادارےکی ساکھ میں اسوقت اضافہ ہوتاہےجب وہ احترام کے دائرہ فرائض سرانجام دے، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے 3حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستیں 10،9فروری کوآگئی تھیں، 5اگست2023کو الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے ذریعےآراوکوووٹوں کی دوبارہ گنتی کااختیاردیاگیا، جب ہائیکورٹ میں کیس گیا اس وقت یہ ترمیم موجود تھی، ہائیکورٹ نے سیکشن 95 کی ذیلی شق 5 کو مدنظر ہی نہیں رکھا۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کےمطابق جیت کامارجن5فیصد سے کم ہونے پردوبارہ گنتی لازمی ہے، قومی اسمبلی کی نشست کیلئے ووٹوں کا فرق 8ہزارسےکم ہونےدوبارہ گنتی ہوگی اور صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئےووٹوں کافرق4 ہزار سےکم ہونےپر دوبارہ گنتی ہوگی۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ دوبارہ گنتی انتخابی نتائج مرتب کرنےسےپہلےہونالازمی ہے، دوبارہ گنتی انتخابی امیدوار یا اس کے الیکشن ایجنٹ کی درخواست پر ہی ہوسکتی ہے، ریٹرننگ افسران نےدوبارہ گنتی کی درخواستیں مسترد کرنے کی وجوہات تحریر نہیں کیں، ریٹرننگ افسران نےاپنے فیصلوں میں نہیں لکھاکہ نتائج مرتب کرنے کا عمل شروع ہوچکاتھا، ریٹرننگ افسران اپنے اختیارات ہجوم کے سامنے سرنڈر نہیں کر سکتے۔

    اکثریتی فیصلے کے مطابق ہجوم کےسامنے اختیارات سرنڈر کرنے سے خطرناک رجحان پیدا ہوگا، قانون میں امیدواروں کودیے گئے حقوق سے محروم نہیں کیاجا سکتا، ووٹوں کی گنتی کبھی بھی عدالتی یانیم عدالتی عمل نہیں رہا، ووٹوں کی گنتی انتظامی عمل ہےجوریٹرننگ افسر ووٹوں کا فرق دیکھ کر کرتا ہے۔

    اعلیٰ عدلیہ نے کہا کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی سےکوئی امیدوار متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے؟ آرٹیکل 199کےدائرہ اختیار میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کیخلاف رجوع کرناشامل نہیں، امیدوار کسی قانونی خلاف ورزی پر دادرسی کیلئےمتعلقہ فورم سےرجوع کرسکتےہیں۔

    عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ انتخابات کے کیس میں متعلقہ فورم الیکشن کمیشن یا ٹریبونل ہی ہوسکتے ہیں، لاہور ہائیکورٹ نےفیصلےمیں آئین کادرست جائزہ نہیں لیا، لاہور ہائیکورٹ نےالیکشن کمیشن کےآئینی اختیارات کو مدنظر نہیں رکھا، ججزنےالیکشن کمیشن کےسربراہ اور ممبران کیخلاف غیرمناسب ریمارکس دیے، عزت اوراحترام ہر شخص کا حق ہے، باعزت انداز میں کام کرنےسےاداروں کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • عامر خان کا بڑا فیصلہ

    عامر خان کا بڑا فیصلہ

    بالی ووڈ انڈسٹری کے معروف اداکار عامر خان نے کہا کہ ہر فلموں میں اداکاری نہیں کرسکتا اس لیے نئے ٹیلنٹ کو موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

    گزشتہ دنوں کرن راؤ کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم لاپتہ لیڈیز کی سپریم کورٹ میں ججز، ان کے خاندانوں اور اہلکاروں کےلیے اسکریننگ کی گئی اس دوران انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے نیئ ٹیلنٹ سے متعلق گفتگو کی۔

    اداکار عامر خان نے فلم ’لاپتہ لیڈیز‘  کو پروڈیوس کرنے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ کے لیے مواقع پیدا کرنے کے لیے کیا ہے، اب مجھے احساس ہوگیا ہے کہ اب میں ہر کہانی میں کام نہیں کرسکتا۔

    عامر خان نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں میرے پاس اپنے کیریئر کے بارے میں غور و فکر کرنے کا کافی وقت تھا، اس وقت میری عمر 56 سال تھی اور میں نے سوچا کہ شاید میرے پاس کام کرنے کے لیے مزید 15 سال ہوں گے اور میں 70 سال کی عمر تک کام کرتا رہوں گا مگر اس کے بعد کیا ہوگا؟۔

    عامر خان کا کہنا تھا کہ جب میں نے اس بارے میں سوچا تو میں نے ارادہ کیا کہ جو کچھ گزشتہ برسوں کے دوران میں نے سیکھا ہے اسے آنے والے نئے ٹیلنٹ میں منقل کروں گا، جس کے بعد میں نے فلم پروڈیوس کرنے کا فیصلہ کیا۔

    عامر خان نے کہا کہ میں ایسی کہانیاں لانا چاہتا ہوں جو میرے دل کو چھوئیں، میں تمام فلموں میں کام نہیں کرسکوں گا، لیکن میں انہیں پروڈیوس کرسکتا ہوں۔

    بالی ووڈ اداکار عامر خان نے مزید کہا کہ میں نئے لکھاریوں، ہدایت کاروں، فنکاروں اور دیگر لوگوں کو پلیٹ فارم دینا چاہتا ہوں، اسی لیے لاپتہ لیڈیز میرا پہلا پروجیکٹ ہے، اور میری کوشش ہے کہ میں سالانہ 5 فلمیں پروڈیوس کروں۔

  • کرن راؤ کی فلم ’لاپتہ لیڈیز‘ سپریم کورٹ میں دکھائی جائے گی

    کرن راؤ کی فلم ’لاپتہ لیڈیز‘ سپریم کورٹ میں دکھائی جائے گی

    ممبئی: بالی ووڈ اسٹار عامر خان کی سابقہ اہلیہ کرن راؤ کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم ’لاپتہ لیڈیز ‘ کو بھارتی سپریم کورٹ میں دکھائی جائے گی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے قیام کے 75 ویں سال کے دوران منعقد کی گئی سرگرمیوں کے ایک حصے کے طور پر آج صنفی مساوات کے موضوع پر مبنی فلم ’لاپتہ لیڈیز‘ آڈیٹوریم سی بلاک ایڈمنسٹریٹو بلڈنگ کمپلیکس میں دکھائی جائے گی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دیگر جج اپنے اہلخانہ کے ساتھ فلم دیکھنے کے لیے پہنچیں گے، اس موقع پر معروف اداکار اور پروڈیوسر عامر خان اور فلم کی ڈائریکٹر کرن راؤ بھی موجود ہوں گی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق کرن راؤ کی فلم ‘لاپتہ لیڈیز’ کو گزشتہ ماہ 26 اپریل کو او ٹی ٹی پلیٹ فارم نیٹ فلکس پر ریلیز کیا گیا تھا اور صرف ایک ماہ میں اس فلم نے نیٹ فلکس پر 13.8 ملین ویوز حاصل کرلیے تھے۔

    فلم ’لاپتہ لیڈیز ‘ بپلاب گوسوامی کی ایک ایوارڈ یافتہ کہانی پر بنائی گئی ہے جس میں پرتیبھا رانتا، سپارش شریواستو، اور نیتانشی گوئل نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔

    فلم میں ایک ایسے شخص کی کہانی بیان کی گئی ہے جس کی دلہن ٹرین سفر کے دوران گم ہوجاتی ہے جب وہ گھونگھٹ کی وجہ سے پہچان نہ پانے پر دوسری دلہن کو ساتھ گھر لے آتا ہے۔

    بھارت کے دیہی علاقوں کی سادگی اور بھول پن کے پس منظر میں بنائی گئی اس فلم میں دل چسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ٹرین میں دو باراتیں اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں۔

  • پی ٹی آئی  نے الیکشن ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    پی ٹی آئی نے الیکشن ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    اسلام آباد : تحریک انصاف نے الیکشن ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، جس میں سپریم کورٹ سے  ترمیمی ایکٹ کالعدم قراردینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف نے الیکشن ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواست دائر کردی، بیرسٹر گوہر نے آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی۔

    سلمان اکرم کی وساطت سےآرٹیکل 184تھری کی درخواست عدالت میں دائر کی گئی ، درخواست میں وفاق اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ تحریک انصاف مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن کمیشن میں جمع کرا چکی ہے، 12 جولائی کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں تحریک انصاف کا حق ہے۔

    درخواست میں سپریم کورٹ سے الیکشن ترمیم ایکٹ کالعدم قراردینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ  ایکٹ کوغیر آئینی وغیرقانونی قراردیا جائے۔

    درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کومخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں کو الاٹ کرنے سے فوری روکاجائے اور خواتین واقلیت کی مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو الاٹ کرنے کا حکم دیں۔

  • الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 کیا ہے؟ حکومت کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

    الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 کیا ہے؟ حکومت کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

    قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، ایوان سے بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن  ارکان نے شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔

    دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد یہ بل صدر مملکت کے دستخطوں سے جاری ہونے کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن جائے گا۔

    اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس بل کی منظوری سے حکومت وقت نے بذریعہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ پر حملہ کردیا ہے یعنی ایک ادارہ ایک سیاسی جماعت کو کچلنے کیلئے دوسرے ادارے پر حملہ آور ہوگیا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل2024پر تفصیلی روشنی ڈالی اور اس کے مندرجات سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    الیکشن ایکٹ ترمیمی بل2024 کیا ہے؟

    الیکشن ایکٹ 2017 میں یہ ترمیمی بل سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد لایا گیا ہے جس کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم جاری کیا گیا کہ تحریک انصاف کو اس کی مخصوص نشستیں دی جائیں۔

    پہلی ترمیم کے مطابق کوئی رکن اسمبلی اپنا سیاسی جماعت سے وابستگی کا پارٹی سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں کرسکتا۔

    دوسری ترمیم کے مطابق مخصوص نشستوں کے حصول کیلیے ضروری ہے کہ کسی جماعت نے وقت پر فہرست جمع کروا رکھی ہو۔

    پہلی ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 66 میں متعارف کروائی گئی ہے جبکہ دوسری ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 میں متعارف کروائی گئی ہے۔ ترمیمی ایکٹ 2024 کے مطابق یہ دونوں ترامیم منظوری کے بعد فوری طور پر نافذالعمل ہوں گی۔

    اس بل کی منظوری کیخلاف تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا اور کہا کہ یہ بل حکومت کیلئے نشان عبرت بنے گا۔

    دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ یہ قانون سازی عدلیہ کیخلاف نہیں یہ پریکٹس پہلے سے موجود ہے، ہم نے اس بل کے ذریعے صرف اس قانون کی وضاحت کی ہے۔ اس قانون کا مقصد لوگوں کو موقع پرستی سے روکنا ہے، اور جس طرح عدلیہ کو آئین و قانون کی تشریح کا اختیار ہے اسی طرح پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے۔