Tag: سپریم کورٹ

  • بانی پی ٹی آئی کی ضمانتوں کا حوالہ دے کر منشیات کے ملزم نے ضمانت لے لی

    بانی پی ٹی آئی کی ضمانتوں کا حوالہ دے کر منشیات کے ملزم نے ضمانت لے لی

    اسلام آباد : بانی پی ٹی آئی کی ضمانتوں کاحوالہ دے کر منشیات کے ملزم نے ضمانت لے لی، ملزم کے وکیل نے کہا بانی پی ٹی آئی پر200سے زائد مقدمات ہیں انہیں ضمانتیں مل گئیں جبکہ میرےمؤکل پر14مقدمات ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں منشیات کے کاروبارمیں ملوث ملزم عبید کی ضمانت کی درخواست ہوئی۔

    جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نےضمانت درخواست پرسماعت کی۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ملزم پر14مقدمات درج ہیں،ضمانت کیسےدےیں، منشیات میں ملوث ملزم ضمانت کانہیں سزاکاحقدار ہے، تعلیمی اداروں میں بھی منشیات کاناسورپھیل رہا ہے۔

    وکیل نے بتایا کہ آرٹیکل25کےتحت میرا موکل اور بانی پی ٹی آئی برابر کے شہری ہے، جس پرجسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کااس ضمانت کیس سے کیا تعلق ہے؟

    وکیل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر200سے زائد مقدمات ہیں انہیں ضمانتیں مل گئیں، بانی پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں ضمانت ہوئی تو4مقدمات میں سزایافتہ تھے، ایک ملزم کو200مقدمات میں ضمانت مل سکتی ہے تو میرےمؤکل پر14مقدمات ہیں۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے بانی پی ٹی آئی اورآپ کے مؤکل کے مقدمات کی نوعیت مختلف ہے، بانی پی ٹی آئی کیس کاان مقدمات سےکیاموازنہ ہے؟ .

    جس پر وکیل ملزم عبید نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر بھی دہشت گردی کےمقدمات ہیں، بانی پی ٹی آئی پرسائفرکاکیس ہےجس کی سزاموت ہے، میرامؤکل ضمانت کا زیادہ حقدار ہے۔

    وکیل کےدلائل پر جسٹس منصورعلی شاہ زیر لب مسکرادیئے اور کہا چلیں دیکھ لیتے ہیں آپ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے دیں۔

    عدالت نے منشیات کے کاروبار میں ملوث عبید کی درخواست ضمانت منظورکرلی۔

  • صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی

    صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی

    اسلام آباد : صدر مملکت آصف زرداری کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت آصف زرداری نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی.

    صدر نے ججز کی تعیناتی کی منظوری آئین کے آرٹیکل182 کے تحت دی۔

    جسٹس سردارطارق مسعوداورجسٹس مظہرعالم میاں خیل کو ایک سال کیلئے تعینات کیا گیا ہے، دونوں سپریم کورٹ کے سابقہ ججزہیں۔

    یاد رہے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر میاں خیال کو ایک سال کے لیے ایڈہاک جج لگانے کی منظوری دے دی گئی تھی۔

    ذرائع کا بتانا تھا کہ جسٹس طارق مسعود کے نام کی منظوری 1، 8 کے تناسب سے دی گئی۔

  • سپریم کورٹ نے 3 ماہ میں کتنے کیسز نمٹائے؟ رپورٹ جاری

    سپریم کورٹ نے 3 ماہ میں کتنے کیسز نمٹائے؟ رپورٹ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے 3 ماہ کی کارکردگی رپورٹ جاری کردی ، جس میں بتایا کہ اس دوران تقریبا 4000 مقدمات نمٹائے گئے اور 1453 مقدمات میں اضافہ ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے 17 دسمبر2023 سے 31 مارچ 2024 تک دوسری سہ ماہی کارکردگی رپورٹ جاری کردی۔

    کارکردگی رپورٹ عوام کو حاصل معلومات تک رسائی کے آئینی تقاضا کی بنیاد پر جاری کی گئی، جس میں کہا گیا کہ اعلی عدلیہ نے اصول طے کیا کوئی جج استعفیٰ دیکر احتساب سے راہ فراراختیار نہیں کر سکتا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم پر ایکشن لیا،ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر فیصلہ دیا گیا۔

    اعلی عدلیہ کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف کیخلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا گیا، تاحیات نااہلی کے فیصلے کو ختم کیا گیا، ایک فیصلے میں اصول طے کیا خلاکیلئے اہلیہ کی رضامندی جانناضروری ہے۔

    کارکردگی رپورٹ میں کہا گیا کہ 17 دسمبر سے 31 مارچ تک 5427 مقدمات درج ہوئے، جس میں سے 3974مقدمات نمٹائے گئے،3ماہ میں 1453مقدمات میں اضافہ ہوا۔

    رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کی سرکاری رہائش گاہ پر مور کی 2 جوڑیاں تھیں،وٹنری ٹریٹمنٹ کےبعد سفید موروں کی جوڑی وائلڈ لائف کو دی گئی، موروں کی دوسری جوڑی کو کلرکہار میں موروں کی وادی میں بجھوا دیاگیا۔

    اعلیٰ عدلیہ نے کہا کہ 3 ماہ میں 30مرتبہ عوامی مفادکو مدنظر رکھتے ہوئےعدالتی کارروائی براہ راست دکھائی، کارکردگی رپورٹ کی تیاری میں حسن کمال وٹو اور نیہا مخدوم نے معاونت فراہم کی۔

  • مخصوص نشستوں کے کیس کا  فیصلہ : متاثرہ 3 لیگی ارکان کی نظرثانی درخواست دائر

    مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ : متاثرہ 3 لیگی ارکان کی نظرثانی درخواست دائر

    اسلام آباد : مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے سے متاثرہ تین لیگی ارکان نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے 3 ارکان نے مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائرکردی، ہما اختر چغتائی، ماہ جبین عباسی اور سیدہ آمنہ بتول نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پورا کیس سنی اتحاد کونسل کی مخصوص سیٹوں سے متعلق تھا، پارٹی تبدیلی کیلئے 15 دن دینا آئین دوبارہ تحریرکرنے کے مترادف ہے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ قانون میں طےکردہ اصول سے ہٹ کر نیا طریقہ نہیں اپنایا جاسکتا، استدعا ہے کہ 12 جولائی کے مختصر اکثریتی فیصلے کو کالعدم قراردیا جائے۔

    درخواست میں سنی اتحاد کونسل اورالیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ: حکومت نے  قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کھو دی

    مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ: حکومت نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کھو دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے کے بعد حکومت نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کھو دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن سامنے آگئی، حکومتی اتحاد کی قومی اسمبلی میں نشستیں 210 ہو جائیں گی جبکہ اپوزیشن کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 125 ہو جائے گی۔

    قومی اسمبلی میں ن لیگ کو14، پیپلز پارٹی کو 5، جے یو آئی ف کو 3 اضافی نشستیں ملی تھیں جبکہ کے پی سے جے یو آئی ف کو 10، ن لیگ ،پیپلزپارٹی کو7،7، اے این پی کو 1 اضافی نشست ملی تھی۔

    پنجاب سےن لیگ کو 23، پی پی کو 2، ق لیگ ،استحکام پاکستان پارٹی کو1،1اضافی نشست اور سندھ اسمبلی سے پیپلز پارٹی کو2 اور ایم کیو ایم کو 1 مخصوص نشست ملی تھی۔

    مزید پڑھیں : تحریک انصاف کی بڑی کامیابی ، مخصوص نشستوں کی اہل قرار

    قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن پی ٹی آئئ کے حق میں ہیں مخصوص نشستیں ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اکثریتی جماعت بن جائے گی۔

    خیال رہے سپریم کورٹ نے مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 22 نشستوں کو معطل کر رکھا ہے، قومی اسمبلی میں معطل نشستوں میں 3 اقلیتی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔

    پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 3 اقلیتی نشستیں ، خیبر پختون خوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی مخصوص نشستیں معطل اور ی سندھ اسمبلی سے 2 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 1 اقلیتی نشست معطل ہیں.

  • سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں ؟ فیصلہ آج  سنایا جائے گا

    سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں ؟ فیصلہ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سنی اتحادکونسل کو مخصوص نشستیں ملنے یا نہ ملنے سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ سنائے گا۔

    فیصلہ سنانے کا وقت اور بینچ تبدیل کردیا گیا ہے اور رجسٹرار سپریم کورٹ نے نئی کازلسٹ جاری کردی۔

    جس کے مطابق تیرہ رکنی بینچ دوپہر بارہ بجے فیصلہ سنائے گا، اس سے پہلے جاری کی گئی کاز لسٹ میں کہا گیا تھا تھا کہ محفوظ شدہ فیصلہ چیف جسٹس کے ریگولر تین رکنی بینچ میں صبح نو بجے سنایا جائے گا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تیرہ رکنی فل کورٹ نے نو جولائی کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    جس کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں دو مشاورتی اجلاس بھی ہوئے تھے۔

    مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟

    الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔

    بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔ جس پر سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ابتدائی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو معطل کر دیا۔

    جس پر وفاقی حکومت کی جانب سے آئینی تشریح کا نکتہ اٹھایا گیا اور تین رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے سپریم کورٹ میں دستیاب تیرہ ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔

    سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سپریم کورٹ میں کل سات سماعتیں ہوئیں، چھ مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایک سماعت کی، اس کے بعد فل کورٹ نے چھ سماعتیں کیں، فل کورٹ نے پہلی سماعت تین جون کو کی تھی۔

    <strong>مخصوص نشستوں کی تقسیم</strong>

    الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیں۔

    خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو ایک ایک مخصوص نشست الاٹ کی ہے۔

    سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان اور پیپلز پارٹی کو خواتین کے لیے مختص نشستیں دی گئیں، جس پر پیپلز پارٹی کی سمیتا افضل اور ایم کیو ایم پی کی فوزیہ حمید مخصوص سیٹوں پر منتخب ہوئیں۔

    مزید برآں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سادھو مل عرف سریندر والسائی نے اقلیتی نشست حاصل کی۔

    ای سی پی نے مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی ف کو اقلیتوں کے لیے تین مخصوص نشستیں الاٹ کیں ، جن کا دعویٰ سنی اتحاد کونسل نے کیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کی نیلم میگھواڑ، پیپلز پارٹی کے رمیش کمار اور جے یو آئی ف کے جیمز اقبال اقلیتی سیٹوں پر منتخب ہوئے۔

  • میڈیکل کالجز کی بھاری فیس: طلبا کے لئے اہم خبر

    میڈیکل کالجز کی بھاری فیس: طلبا کے لئے اہم خبر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے میڈیکل کالجز کی بھاری فیسوں کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں میڈیکل کالجز کی بھاری فیسوں کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    درخواست گزار وکیل ذوالفقاراحمد ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا میڈیکل کالجز کی فیس پر کون سا قانون لگتاہے؟ سپریم کورٹ ایسے تو کیس نہیں سن سکتا۔

    جسٹس محمدعلی مظہر نے بھی استفسار کیا کہ کیا آپ نےپی ایم سی سےفیس کےحوالے سے رابطہ کیا؟ جس پر درخواست گزار وکیل ذوالفقاراحمد نے بتایا کہ وزیراعظم، صدر مملکت کو میڈیکل فیس سےمتعلق خط لکھا ، ہمارے بچوں نے تو لاکھوں فیس ادا کرکے پڑھ لیا ہے، آنے والے طلباکے مستقبل کامعاملہ ہے۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ ان سے بات کریں جو فیس کی ریگولیٹری کون کرتاہے؟ وکیل ذوالفقاراحمد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان میڈیکل ڈینٹل ایکٹ بنایاگیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط لیاگیا۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے ریگولیٹری کےپاس جائیں، سپریم کورٹ کا میڈیکل فیس دیکھنےسےمتعلق کیاکام؟ فیس ریگولیٹری جب بنا ہوا ہےتوکیا وہاں گئے ؟ کیا ہم کمیشن بنا سکتےہیں؟ جسٹس محمدعلی مظہر نے بھی وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کاذاتی مسئلہ ہے تو ریگولیٹری سے رجوع کریں۔

    سپریم کورٹ نےمیڈیکل کالجز کی بھاری فیسز کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔

  • سپریم کورٹ نے آبادی کے قریب اسٹون کرشنگ کو انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ قرار دے دیا

    سپریم کورٹ نے آبادی کے قریب اسٹون کرشنگ کو انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ قرار دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے آبادی کے قریب اسٹون کرشنگ کو انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسٹون کرشنگ پلانٹس کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آبادی کے قریب پاور اسٹون کرشرز انسانی جان کے لیے خطرہ ہے۔

    جسٹس منصور نے آبادی کے قریب موجود پاور اسٹون کرشرز کو دوسری جگہ یا آبادی سے دور شفٹ کرنے کی ہدایت کی، انھوں نے کہا خیبر پختونخوا میں اسٹون کرشنگ کا ایشو بہت سیریس ہے، ہمارے سامنے کیس 3 اسٹون کرشرز کا ہے لیکن ایسے سینکڑوں پاور کرشرز ہیں جو آبادی کے قریب واقع ہیں۔

    عدالت میں پاور کرشرز کی جانب سے وکالت کرنے والے اعتزاز احسن نے کہا ہمیں کمیشن رپورٹ کا جائزہ لینے کا وقت دیا جائے، میری استدعا ہے کہ کیس کو محرم کے بعد رکھا جائے، جسٹس منصور نے کہا اگر محرم کی بات ہے تو پھر اس کیس کا فیصلہ جلدی ہونا چاہیے۔

    جسٹس منصور نے کہا ہم انڈسٹری کو بند نہیں کرنا چاہتے لیکن انسانی جانوں کا معاملہ بھی ہے۔ سپریم کورٹ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی اور وکیل اسٹون کرشرز کو کل تک کی مہلت دے دی۔ عدالت نے کہا کل اسٹون کرشرز کے وکیل نہ آئے تو کمیشن رپورٹ پر فیصلہ کر دیں گے۔

  • قاسم سوری کی جائیدادوں کی تفصیلات طلب

    قاسم سوری کی جائیدادوں کی تفصیلات طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جائیدادوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور کہا وفاقی حکومت اور ایف آئی اے بتائے وہ کہاں پر ہیں؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی انتخابی عذرداری کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 4رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں بتائیا کہ قاسم سوری کیساتھ میرا کوئی رابطہ نہیں تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاکہنا تھا کہ سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سپریم کورٹ سے حکم امتناع لیکر بیٹھ گئے، کیا حکم امتناع کے بعد کیس نہیں چلے گا، انھوں نے حکم امتناع پر غیر آئینی اقدام کیا، ایک قرار داد کو جوازبناکرعدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کردیا۔

    وکیل نعیم بخاری نے معاملے پر از خود نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی اپیل مسترد کرکے عدم حاضری کاازخودنوٹس لے اور مجھے عدالت سے جانے کا حکم دیا جائے، جس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کو عدالت سے جانے کا کیوں کہہ دیں، اتنی خوبصورت شخصیت کو جانے کا کیسے کہہ دیں۔

    چیف جسٹس کے ریمارکس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ مجھے پتہ ہوتا تو میک اپ کرکے آتا تو چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کی ایک بات مجھے پسند ہے ہر وقت مسکراتے رہتےہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ قاسم سوری کی پھر جائیداد کی تفصیلات منگوا لیتے ہیں تو وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ پراپرٹی کی تفصیلات منگوانے پر تو مردہ بھی قبر سے پیش ہوجاتا ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی عدالت سے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ مجھے کیا پتہ میرا تو ان سے کوئی رابطہ نہیں تو جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ آپ اپنے موکل کو پیغام تو چھوڑ سکتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی قومی اسمبلی معیاد کی مدت پوری ہوگئی، مدت پوری ہوگئی لیکن سپریم کورٹ سے کیس کا فیصلہ نہیں ہوا۔

    سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی اسپیکر کی جائیدادوں کی تفصیلات طلب کرلیں اور وفاقی، بلوچستان حکومت کو ان کی جائیداد رپورٹ کیلئے نوٹس کردیا۔

    سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سے متعلق رپورٹ طلب کرلی اور کہا وفاقی حکومت اور ایف آئی اے بتائے وہ کہاں پر ہیں؟ وہ عدالتی حکم کےباوجود پھر پیش نہیں ہوئے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے انتخابی عذرداری کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
    .

  • الیکشن ٹریبونل کی تشکیل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل

    الیکشن ٹریبونل کی تشکیل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل

    اسلام آباد :سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کی تشکیل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونل کی تشکیل کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    تحریک انصاف کے وکیل نیاز اللہ نیازی نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کا اعتراض ہے کہ چیف جسٹس بنچ کا حصہ نہ ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کا اعتراض سن لیا ہے تشریف رکھیں، یہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس پاکستان کے درمیان معاملہ ہے، کسی پرائیویٹ شخص کو اس معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس فیصلہ نہ کریں تو کیا متاثر عام آدمی ہی ہوگا؟ معاون وکیل نے استدعا کی کہ حامد خان اس کیس میں وکیل ہیں ان کی درخواست ہے کہ آئندہ ہفتے تک کیس ملتوی کر دیں۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کوئی صدارتی آرڈیننس آیا ہے ٹریبونل کی تشکیل سے متعلق؟ اٹارنی جنرل نے آرڈینینس سے متعلق تفصیلات بارے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا آرڈینینس میں ترمیم کی گئی ہے، بل قومی اسمبلی سے منظور ہو کر سینیٹ میں پہنچ چکا ہے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 140 کو کو اسکی اصل حالت میں بحال کر دیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا اپ بل اور آرڈینینس عدالت میں پیش کر دیں، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا اس آرڈیننس کا اس کیس پر اثر ہو گا۔

    جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا 15 فروری کا خط جمع کرائیں وہ بہت ضروری ہے، آپ نے پینل مانگا تھا اس کا کیا مطلب ہے؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی استفسارکیا اگر ججز کی فہرست درکار تھی تو ویب سائٹ سے لے لیتے؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا استفسار کیا کیا چیف جسٹس الیکشن کمیشن کی پسند نا پسند کا پابند ہے؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن ہدایات دے سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن پینل نہیں مانگ سکتا، کیا اسلام آباد اور دیگر صوبوں میں بھی پینل مانگے گئے تھے؟

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ملاقات کرکے مسئلہ حل کر سکتا تھا، چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر بیٹھ کر مسئلہ حل کر سکتے ہیں، اس معاملے پر وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟

    جسٹس امین الدین خان نے کہا اگر ترمیم منظور ہوجائے تو بھی ہائی کورٹ چیف جسٹس سے مشاورت لازمی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا الیکشن کمیشن چیف جسٹس ہائی کورٹ سے ملاقات پر تیار ہیں یا نہیں؟

    سکندر مہمند نے عدالت کے روبرو کہا گزشتہ سماعت کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے خط لکھا لیکن لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے خط کا جواب نہیں دیا گیا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے چیف جسٹس کو کہا جاتا کہ کن علاقوں کیلئے ججز درکار ہیں وہ فراہم کر دیتے، ملتان کیلئے جج درکار ہے وہ اس رجسٹری میں پہلے ہی جج موجود ہوگا، کیا لازمی ہے کہ ملتان کیلئے لاہور سے جج جائے جبکہ وہاں پہلے ہی جج موجود ہے، پہلے اچھے طالبان اور برے طالبان کی بات ہوتی تھی اب کیا ججز بھی اچھے برے ہونگے؟

    وکیل الیکشن کمیشن نے کہا تمام ججز اچھے ہیں، سب کا احترام کرتے ہیں آئینی ادارے آپس میں لڑیں تو ملک تباہ ہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا ججز تقرری کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کب ہے؟

    اٹارنی جنرل نے کہا پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ کے اجلاس کی تاریخ معلوم کرکے بتاوں گا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر مشاورت کریں تو کوئی اعتراض ہے؟

    وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا الیکشن کمیشن کہتا ہے اسے چیف جسٹس کے نام مسترد کرنے کا اختیار ہے، اسے مشاورت نہیں کہا جاتا، الیکشن کمیشن کا رویہ جوڈیشل سسٹم پر حملہ ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کسی کو جوڈیشل سسٹم پر حملہ نہیں کرنے دیں گے، الیکشن کمیشن اگر نام مسترد کرے گا تو اس سے قانونی اختیار بھی پوچھیں گے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کا کنٹرول نہیں سنبھال سکتا کہ کونسا جج کہاں بیٹھے گا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے چودہ فروری کو خط لکھا انہوں نے کوئی تاخیر نہیں کی، لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے کہ آپس میں کچھ طے نہیں کر سکتے۔

    جسٹس عقیل عباسی نے کہا الیکشن کمیشن کیسے چیف جسٹس کے نام مسترد کر سکتا ہے؟ بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جو نام دیے وہ قبول کر لئے گئے، پنجاب میں الیکشن کمیشن نے کیوں مسئلہ بنایا ہوا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ہر پٹیشن میں فریق ہے، سب اس کی مرضی سے تو نہیں ہوگا۔

    سکندر مہمند نے عدالت کے روبرو کہا آپ کے نکات سے مکمل متفق ہوں، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کے متفق ہونے کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کا پہلا موقف درست نہیں تھا، کیا متفقہ طور پر ٹربیونلز کو کام جاری رکھنے اور حتمی فیصلہ نہ سنانے کا حکم دیدیں؟

    جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے الیکشن کمشن کو سوچنا ہوگا چیف جسٹس سے بات کر رہا ہے یا کسی سیکشن افسر سے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا الیکشن کمشین ہائی کورٹ کا حکم نہ مانے تو توہین عدالت لگے گی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ٹربیونلز کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن خود جاری کرنا کیا آئینی ہے؟

    جسٹس عقیل عباسی نے بھی استفسار کیا الیکشن کمیشن فیصلے پر عمل نہ کرے تو عدالت اور کیا کرے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہائی کورٹ کو نوٹیفیکیشن کے بجائے توہین عدالت کا نوٹس کرنا چاہیے تھا۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا ہائی کورٹ کا نوٹیفیکیشن اور فیصلہ معطل کیا جائے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ کہنا چاہتے ہیں چیف جسٹس ہائی کورٹ بھی عدالتی فیصلے کی پابند ہوں گی، اس طرح تو چیف جسٹس پر بھی توہین عدالت لگ جائے گی۔

    جسٹس عقیل عباسی نے کہا الیکشن کمیشن پہلے ہائی کورٹ کے حکم پر عمل کرے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن اپیل سے مشروط نوٹیفیکیشن جاری کرے۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے کہا خود کو عدالت کے ہاتھ میں چھوڑتا ہوں تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا خود کو عدالت کے ہاتھ میں ہائی کورٹ میں چھوڑتے تو مسئلہ نہ ہوتا، پتا نہیں کیوں انا کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس نکتے پر ججز کو بھی مشاورت کی ضرورت ہے تو اٹارنی جنرل نے کہا مشاورت کیلئے اگر عدالت آدھا گھنٹہ ملے تو پارلیمانی کمیٹی اجلاس جلدی بلوانے کا کہتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پارلیمانی کمیٹی پر کوئی بات نہیں کریں گے، جس بھی ادارے کے پاس جو بھی اختیار ہے اس کا مکمل احترام کرتے ہیں۔

    جسٹس نعیم افغان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ٹربیونلز کا دائرہ کار الیکشن کمیشن نے متعین کیا تھا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پورا بلوچستان آبادی کے لحاظ سے بلوچستان سے چھوٹا ہے تو سکندر مہمند نے بتایا مجموعی طور پر پنجاب میں 176 الیکشن پٹیشنز دائر ہوئی ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے اگر میں چیف جسٹس ہائی کورٹ ہوتا تو وہی کرتا جو لاہور ہائی کورٹ نے کیا۔

    سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے حکم دیا کہ جیسے ہی چیف جسٹس کی تقرری کا عمل مکمل ہو، الیکشن کمیشن فوری مشاورت کرے، مشاورت شفاف انداز میں ہونی چاہیے۔

    عدالت نے حکم نامے میں کہا لاہور ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بعد ہی مشاورت کا عمل ممکن ہوگا ، الیکشن کمشین کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن معطل کیے جاتے ہیں، آئندہ سماعت تک لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل رہے گا۔

    سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کی تشکیل سے متعلق کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔