Tag: سپریم کورٹ

  • سزائے موت کا مجرم 12 سال بعد کیس سے بری ہو گیا

    سزائے موت کا مجرم 12 سال بعد کیس سے بری ہو گیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 12 سال بعد سزائے موت کے مجرم کو کیس سے بری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر، اور جسٹس نعیم افغان نے ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مجرم محمد اعجاز عرف بِلے کی سزائے موت اور شریک مجرمہ نسیم اختر کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دے دی۔

    عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ محمد اعجاز پر 2010 میں شریک مجرمہ کے شوہر کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا، مقدمے کے مطابق دونوں مجرموں کے درمیان ناجائز تعلقات تھے، اور مدعی مقدمہ کے مطابق دونوں مجرم مقتول کو الیکٹرک شاک دیتے پائے گئے تھے۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ مدعی مقدمہ نے جب رنگے ہاتھوں پکڑا تو مجرم محمد اعجاز نے فائرنگ شروع کر دی، جس سے شریک مجرمہ کا شوہر جاں بحق ہو گیا۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ دوسری طرف وکیل صفائی کے مطابق یہ خودکشی کا کیس تھا جسے قتل قرار دیا گیا، وکیل صفائی نے بتایا دونوں مجرموں میں کوئی ناجائز تعلقات ثابت نہیں ہوتا، بلکہ مقتول کو مدعی نے خاندانی وراثت سے حصہ نہیں دیا تھا، جس پر مقتول نے خودکشی کر لی تھی۔ جب کہ پراسیکیوٹر کے مطابق مدعی مقدمہ وقوعہ کا عینی شاہد ہے، دونوں مجرم مقتول کو اپنی زندگی سے ختم کرنا چاہتے تھے۔

    عدالت نے فیصلے میں کہا سپریم کورٹ نے ثبوتوں کا بغور جائزہ لیا، بیانات اور ثبوتوں میں تضادات پائے گئے، مدعی مقدمہ کے مطابق مقتول نے اسے مجرموں کے ناجائز تعلقات کا بتایا تھا، وہ خود سے مجرموں کے ناجائز تعلقات کا عینی شاہد نہیں، ان بیانات میں تضاد ہے، مقتول نے اپنی اہلیہ اور محمد اعجاز عرف بِلا کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا تھا۔

    عدالت نے کہا حیرت ہوئی کہ ماتحت عدلیہ نے بغیر کسی ثبوت کے ناجائز تعلقات قرار دے دیا، وقوعہ دن کی روشنی میں ہوا لیکن کسی نے مدعی مقدمہ کی کہانی کی حمایت نہیں کی، ریکارڈ کے مطابق مجرمہ اپنے شوہر کو خاندانی وراثت میں سے حصہ لینے کا پریشر ڈالتی تھیں، اس کے 4 بچے تھے جن کا والد دنیا میں نہیں رہا، بچوں کی پرورش کے لیے والدہ کا ان کے پاس ہونا ضروری ہے۔

    عدالت نے فیصلے میں کہا بچوں سے ماں کو بھی لیگل سسٹم کے ذریعے جدا کر دیا گیا تھا، جس سے بچوں پر ذہنی اثر پڑ رہا ہے، محمد اعجاز عرف بِلا اور نسیم اختر کو اس کیس سے بری کیا جاتا ہے۔

  • توہین عدالت کیس : 28  میڈیا ہاوسز کو شوکاز جاری

    توہین عدالت کیس : 28 میڈیا ہاوسز کو شوکاز جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں 28 میڈیا ہائوسز کو شوکاز جاری کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو توہین عدالت کارروائی کا شوکاز نوٹس واپس لے کر اٹھائیس میڈیا ہائوسز کو شوکاز جاری کر دیا۔

    عدالت عظمی کی جانب سے جاری نوٹس کے مطابق جسٹس عقیل عباسی نے کہا کیا ٹی وی چینلز غیر مشروط معافی مانگیں گے، چیف جسٹس نے کہا نہیں رہنے دیں اس سے لگے گا ہم انہیں معافی کا کہہ رہے ہیں۔

    جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا میں نیا بیان دینا چاہ رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا نہیں اب ہمیں آرڈر لکھوانے دیں۔

    چیف جسٹس نے حکمنامہ لکھوا دیا ، حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو جاری شوکاز واپس لیا جاتا ہے توقع ہے دونوں رہنما اپنے جمع کرائے گئے جواب پر قائم رہیں گے اگر دوبارہ کچھ ایسا ہوا تو صرف معافی قابل قبول نہیں ہو گی۔

    عدالت عظمی نے چینلز کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے دوہفتوں میں جواب دینے کاحکم جاری کردیا۔

  • مخصوص نشستوں پر سماعت آج مکمل ہونے کا امکان

    مخصوص نشستوں پر سماعت آج مکمل ہونے کا امکان

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے، الیکشن کمیشن اور پیپلز پارٹی کے وکلا دلائل دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس سماعت ٓج پھر ہوگی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی 13 رکنی فل کورٹ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کرے گا۔

    الیکشن کمیشن وکیل اسکندر بشیر مہمند دلائل دینگےالیکشن کمیشن وکیل کے بعد پیپلز پارٹی وکیل فاروق ایچ نائیک دلائل دینگے۔

    وکلا کے دالائل مکمل ہونے پر مخصوص نشتوں پر سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے۔

    مزید پڑھیں : مخصوص نشستوں کا کیس: اٹارنی جنرل کی سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مسترد کرنے کی استدعا

    فل کورٹ آج اٹارنی جنرل کا تحریری جواب بھی پیش ہوگا جبکہ تحریک انصاف کی پارٹی بننے کی درخواست کا جائزہ لے گا۔

    یاد رہے گذشتہ روز مخصوص نشستوں کے کیس میں اٹارنی جنرل نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا، جس میں استدعا کی تھی کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں خارج کی جائے۔

    جواب میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ کہ الیکشن کمیشن پشاور ہائیکورٹ کا مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ برقرار رکھا جائے۔

    اٹارنی جنرل کی جانب سے جواب میں کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص  سیٹوں کی تقسیم کے وقت پارلیمانی جماعت نہیں تھی، سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور آزاد ارکان کی شمولیت سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتی۔

    تحریری جواب میں مزید کیا گیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص  سیٹوں کیلئے کوئی فہرست جمع نہیں کرائی، آزاد ارکان کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے باوجود وہ آزاد ہی رہیں گے۔

  • بیرون ملک پناہ لینے والوں کو پاسپورٹ کے اجرا پر پابندی کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں چیلنج

    بیرون ملک پناہ لینے والوں کو پاسپورٹ کے اجرا پر پابندی کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں چیلنج

    اسلام آباد : بیرون ملک پناہ لینے والوں کو پاسپورٹ کے اجرا پر پابندی کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بیرون ملک پناہ لینے والوں کو پاسپورٹ کے اجراپر پابندی کے نوٹیفکیشن کیخلاف درخواست دائر کردی گئی۔

    درخواست ایڈووکیٹ صائم چوہدری کی جانب سے 184 تھری کے تحت سپریم کورٹ میں دائرکی گئی، جس میں وفاقی حکومت ،ڈی جی پاسپورٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت نے پناہ لینے والوں کو پاسپورٹ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور نوٹیفکیشن میں پابندی کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔

    درخواست میں حکومت کی 5 جون کی پالیسی کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا فریقین کو فوری حکومت کی پالیسی پر عملدرآمد روکا جائے۔

  • سپریم کورٹ کے 3  نئے ججز نے حلف اٹھالیا

    سپریم کورٹ کے 3 نئے ججز نے حلف اٹھالیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے تین نئے ججز نے حلف اٹھالیا، حلف اٹھانے والوں میں جسٹس ملک شہزاد ،جسٹس عقیل عباسی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں تین نئے ججز کی حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز،اٹارنی جنرل اور وکلا نے شرکت کی۔

    تقریب میں اعلیٰ عدلیہ کے تین نئے ججز نے حلف اٹھایا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تینوں ججزسے حلف لیا۔

    حلف اٹھانے والوں میں جسٹس ملک شہزاد ،جسٹس عقیل عباسی اورجسٹس شاہدبلال حسن شامل ہیں، نئے ججز کے حلف اٹھانے کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعداد 17 ہوگئی۔

    دوسری جانب قائم مقام چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی بھی تقریب حلف برداری ہوئی، جسٹس شجاعت علی خان اور جسٹس شفیع صدیقی نے حلف اٹھایا

    اس کے علاوہ ڈاکٹرقبلہ ایاز نے بطور ایڈہاک ممبرشریعت ایپلٹ بینچ حلف اٹھالیا۔

    گذشتہ روزاعلیٰ عدلیہ میں تین نئے ججز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا ، صدر کی منظوری کے بعد وزارت قانون و انصاف نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔

    جسٹس عقیل عباسی، جسٹس ملک شہزاد احمدخان اور جسٹس شاہد بلال حسن کی بطور جج تعیناتی کی منظوری دی گئی تھی۔

  • مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آج متوقع

    مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آج متوقع

    اسلام آباد : مخصوص نشستوں پرسپریم کورٹ کا فیصلہ آج متوقع ہے،  چیف جسٹس نے تمام وکلا کو آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت آج ہوگی، 13 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔

    گزشتہ روز کی سماعت میں چیف جسٹس نے تمام وکلا کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا تیسرا دن نہیں ملے گا۔

    سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے سے متعلق کیس کی سماعت آج مکمل ہونے کا امکان ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مخصوص نشستوں کے کیس میں ریمارکس میں کہا تھا تحریک انصاف کوکیا ہم نے کہا تھا پارٹی الیکشن نہ کرائیں؟ اس وقت بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے،الیکشن کمیشن پراثراندازہو رہےتھے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے تھے جس سیاسی جماعت نے انتخابات لڑنے کی زحمت نہیں کی اسے مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟

    چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ کل سنّی اتحادکونسل والوں کاموڈبدلاتوآپ کہیں کےنہیں رہیں گے۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نےپی ٹی آئی امیدواروں کوسپریم کورٹ فیصلےکےسبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ بہت خطرناک تشریح ہے۔

  • پی ٹی آئی نے  دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ چیف جسٹس کا استفسار

    پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ چیف جسٹس کا استفسار

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کی سماعت میں استفسار کیا پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سےمتعلق اہم کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجز بینچ نے سماعت کی.

    سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل میں اعلٰی عدلیہ کےمختلف فیصلوں کاحوالہ دیا گیا ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ کےفیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کونیچرل حدودسےمطابقت پرزوردیاگیا۔

    سنی اتحاد کونسل کے وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 51اور106سےتین نکات بتاناضروری ہیں، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کافیصلہ غلط ہےتوآپ آئین کی درست وضاحت کر دیں، الیکشن کمیشن کوچھوڑ دیں اپنی بات کریں، آئین و قانون کےمطابق بتائیں سنی اتحادکونسل کوکیسےمخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آزادامیدوارانتخابات میں حصہ لینےوالی کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتےہیں، جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑکرآئیں ان کوعوام نےووٹ دیاہے، ایسی جماعت جس نے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر اندازکردیں؟ہم ایساکیوں کریں؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے تو جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں۔

    جسٹس عرفان سعادت نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کےدلائل سےتوآئین میں دیےگئےالفاظ ہی غیرمؤثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل توپولیٹیکل پارٹی ہی نہیں ہے۔

    اس حوالے سے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان چلےجانےکےبعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی، پولیٹیکل ان لسٹڈپولیٹیکل پارٹی توہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، اس دلیل کودرست مان لیں توآپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟ یہ توآپ کےاپنےدلائل کے خلاف ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے رول 92کی زیلی شق 2 پڑھیں ، جبکہ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدار الیکشن کمیشن نےقرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائےکااطلاق ہم پرلازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیادسیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کوسپریم کورٹ فیصلےکےسبب آزادامیدوارقراردیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔

    جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے تمام امیدوارپی ٹی آئی کےتھےحقائق منافی ہیں، پی ٹی آئی نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کرا کر واپس کیوں لیےگئے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ مخصوص نشستیں صرف متناسب نمائندگی کےسسٹم کےتحت ہی دی جا سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کےنظام کے علاوہ مخصوص نشستیں الاٹ کرنےکاکوئی تصورنہیں، مخصوص نشستیں امیدواروں کانہیں سیاسی جماعتوں کاحق ہوتاہے۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن ایک جانب کہتاہےآزادامیدوارکسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتاہے، دوسری جانب الیکشن کمیشن کامؤقف ہے شمولیت صرف پارلیمان میں موجودجماعت میں ہو سکتی ہے،الیکشن کمیشن کی یہ تشریح خودکشی کے مترادف ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کے پابند نہیں،عدالت آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے، ممکن ہے الیکشن کمیشن کی تشریح سےعدالت متفق ہونہ آپ کی تشریح سے، جس پر وکیل نے کہا کہ سوال یہی ہےالیکشن میں حصہ نہ لینےوالی جماعت کومخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یانہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہناچاہ رہےہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کےمطلب پرتشریح نہ کرے۔

    فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نےصرف مطلب کونہیں بلکہ آئین کی شقوں کےمقصدکوبھی دیکھناہے، تو جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے مخصوص نشستیں ایسی جماعت کوکیسےدی جا سکتی ہیں جنہوں نےالیکشن لڑنےکی زحمت ہی نہیں کی۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کیاآزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر 3دن میں سیاسی جماعت رجسٹرکراسکتےہیں توضروراس میں شامل ہوسکتےہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہتےہیں سیاسی جماعت کیلئےانتخابات میں نشست حاصل کرناضروری نہیں ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں،الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے پی ٹی آئی اورسنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈجماعتیں ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے تو آزاد ارکان اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟کیا آزاد ارکان نے پی ٹی آئی جوائن نہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کی؟

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ کےدلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں، آپ سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کریں یاپی ٹی آئی کی ، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئےاورپھرسنی اتحادکونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحادکونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    جس پر وکیل سنی اتحادکونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسےعظیم ججزبھی گزرے جنہوں نےپی سی اوکےتحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، صرف آئین پر رہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا،ہم یہ نہیں سنیں گے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔

    چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کےحق میں دلائل مفادکےٹکراؤمیں آتاہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتخابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نےامیدواروں کوآزادقراردیاتواپیل کیوں دائرنہیں کی؟ تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا اس سوال کاجواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ رولزآئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تو وکیل نے بتایا کہ جسٹس منصور نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی جماعتوں کوساری مخصوص نشستیں دیدیں گے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیےاڑائی گئیں کیونکہ آئین پرعمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے، اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو کیا ہوگا،کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں، ہمارے آئین کو بنے50سال ہوئے ہیں، امریکااور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی، مشکل سے ملک پٹری پرآتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ٹی آئی کے صدر تھے انھوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی،بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسےانگلیاں نہ اٹھائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کرا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی،آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کےعلم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کرلے تو وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتےہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی،الیکشن کس نےکرائے الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کوہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرائیں۔

    منت،سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرائے، اس وقت وزیراعظم بانی پی ٹی آئی تھے، بانی پی ٹی آئی بطوروزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہورہےتھے، الیکشن کرانے کیلئےسال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں،آدھی بات نہ کریں۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیخلاف نظرثانی زیر التوا ہے،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم چیک کرا لیتے ہیں، حامد خان صاحب آپ نے ہمیں یاد بھی کرایا کہ نظرثانی زیر التوا ہے۔

    وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کیلئے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتےہیں تو فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

    وکیل سنی اتحاد کونسل کی بار بار رکاوٹ ڈالنےپر چیف جسٹس نے اظہارناراضگی کرتے ہوئے کہا کہ آپ یوں یوں ہاتھوں کوہلائیں گے تو پھر میں بات نہیں کروں گا ، جب آپ بات کرتے ہیں تو ہم ایسا کچھ بھی نہیں کرتے، جس پر وکیل سنی اتحاد کونسل نے معذرت کرلی۔

  • الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

    الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے لارجربینچ کیلئے معاملہ 3 رکنی کمیٹی کو بھجوادیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونلزکی تشکیل کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ ٹریبونلزکی تشکیل الیکشن کمیشن کااختیارہے،4 ٹربیونلزکی تشکیل تک کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیاچیف الیکشن کمشنراورچیف جسٹس ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے ،کیا پاکستان میں ہرچیز کومتنازعہ بنانا لازم ہے ؟

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ انتخابات کی تاریخ پربھی صدر مملکت اورالیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا ،رجسڑارہائیکورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں ، بیٹھ کربات کرتے تو کسی نتیجے پرپہنچ جاتے، کیا کوئی انا کا مسئلہ ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کوحاصل ہے، ہم نے آئین وقانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، عدالتی فیصلوں پرحلف نہیں لیا، سپریم کورٹ نے جب جب آئینی تشریح کی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔

    دورانِ سماعت وکیل سلمان اکرم راجا نے بولنے کی کوشش کی توچیف جسٹس نے روکتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے، ہم قانون کی حفاظت کرتے ہیں، جس کا کام ہے، اسے کرنے دیا جائے۔

    ہائیکورٹ کیلئے قابل احترام کہنے پر چیف جسٹس نے روکتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ کو قابل احترام کہہ رہے ججز کیلئے کہا جاتا ہے،انگلستان میں پارلیمان کوقابل احترام کہا جاتا ہے؟ یہاں پارلیمنٹرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے ، گالم گلوچ ہوتی ہے الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے، آپ اپنا کام کریں دوسرے کواپنا کام کردیں۔

    جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں ٹریبونلز کی تشکیل کا مسئلہ دیگرصوبوں میں کیوں نہیں ہوا۔

    عدالت نے الیکشن کمیشن کی لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ مسترد کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

    سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کونوٹس جاری کرتےہوئے دیگرصوبوں میں ٹریبونلزکی تشکیل کی تفصیلات الیکشن کمیشن سے طلب کرلیں۔

    الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ تین رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے معاملہ کمیٹی کے سامنے جتنی جلدی ممکن ہورکھا جائے۔

  • مونال ریسٹورنٹ کیس میں سی ڈی اے کی رپورٹ مسترد

    مونال ریسٹورنٹ کیس میں سی ڈی اے کی رپورٹ مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ کیس میں سی ڈی اے کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے چیئرمین سی ڈی اے کو فوری طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مونال ریسٹورنٹ کیس کی سماعت ہوئی ،سی ڈی اے نے ریسٹورنٹ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

    عدالت نے مونال ریسٹورنٹ کیس میں سی ڈی اے کی رپورٹ مسترد کردی اور چیئرمین سی ڈی اے کوفوری طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا سی ڈی اے کےاعلیٰ افسران کوانگریزی کی کلاسزکرانا پڑیں گی؟ سی ڈی اے سے مونال اوردیگر ریسٹورنٹس کی تفصیل مانگی تھی اور سی ڈی اےنےاسپورٹس کلب، پاک چائنا سینٹر، آرٹ کونسل، نیشنل مونومنٹ کا نام بھی شامل کردیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیشنل مونومنٹ اسپورٹس کمپلیکس کو گرانے کا حکم دے دیں؟ سپریم کورٹ کی عمارت بھی نیشنل پارک میں آتی ہے، دنیا کومعلوم ہےمونال کےساتھ کتنےریسٹورنٹس ہیں، مگر سی ڈی اے کومعلوم نہیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے برہم ہوتے ہوئے سوال کیا کیا سی ڈی اےکا دفتربھی نیشنل پارک میں ہے؟ وہ بھی گرانے کا حکم دیدیں؟

    جس پر وکیل سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے مارگلہ نیشنل پارک میں تعمیرات کی تفصیلات پر رپورٹ دی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا اب تک کتنی بارمارگلہ کےپہاڑوں پرآگ لگ چکی ہے؟ چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ اس سیزن میں 21 بار مارگلہ کے پہاڑوں پر آگ لگی تو جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات مارگلہ کےپہاڑوں پررات گئےتک آگ لگی رہی۔

    چیف جسٹس نے مزید سوال کیا کہ کیا مارگلہ کے پہاڑوں پرسی ڈی اے والے خود آگ لگاتے ہیں، جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ کچھ کالی بھیڑیں بھی موجودہیں، مون سون سیزن میں مارگلہ کےپہاڑوں پرنئےدرخت لگائیں گے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پوچھا کہ آگ بجھانے کیلئےہیلی کاپٹر کہاں سےآتے ہیں تو چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کابینہ کی منظوری کے بعد این ڈی ایم اے سے ہیلی کاپٹر لیے گئے۔

    سپریم کورٹ نے مونال کے اطراف دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیل طلب کرلیں۔

  • قاسم سوری کی طلبی کا اشتہار 2 اخبارات میں دیا جائے، حکمنامہ جاری

    قاسم سوری کی طلبی کا اشتہار 2 اخبارات میں دیا جائے، حکمنامہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف اپیل پر حکم نامے میں کہا کہ قاسم سوری کی طلبی کا اشتہارکوئٹہ میں2اخبارات میں دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف اپیل کے معاملے پر سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔

    جس میں کہا ہے کہ سابق ڈپٹی اسپیکر متعدد بار طلبی کے باوجود جان بوجھ کر پیش نہیں ہورہے اور ان کے بھائی نے عدالتی نوٹس وصول کرنے سے انکارکیا۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سابق ڈپٹی اسپیکراوررکن پارلیمنٹ کی جانب سےایسارویہ افسوسناک ہے۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ سابق ڈپٹی اسپیکر کی طلبی کا اشتہارکوئٹہ میں2اخبارات میں دیا جائے اور کے گھر نوٹس چسپاں کیا جائے۔

    الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کیخلاف اپیل پر آئندہ سماعت 9 جولائی کو ہوگی۔