Tag: سپریم کورٹ

  • عدلیہ مخالف بیان ، ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگ لی

    عدلیہ مخالف بیان ، ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے غیر مشروط معافی مانگ لی

    اسلام آباد : ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معافی مانگ لی اور کہا معززعدالت سے معافی کی درخواست اور خود کرعدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بیان حلفی جمع کرادیا۔

    جس میں ایم کیو ایم رہنما نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ججزبالخصوص اعلی ٰعدلیہ کے ججز کا دل سے احترام کرتا ہوں۔

    رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ عدلیہ اورججز کےاختیارات ، ساکھ کو بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، عدلیہ سے متعلق بیان بالخصوص 16مئی کی نیوزکانفرنس پرغیرمشروط معافی کا طلبگارہو۔

    بیان حلفی میں کہا گیا کہ معززعدالت سے معافی کی درخواست اورخودکرعدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہوں۔

    مزید پڑھیں : فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری، ذاتی حیثیت میں طلبی

    یاد رہے 17 مئی کو سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا، مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کانوٹس جاری کیا تھا اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونےکا حکم دیا تھا۔

    حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ فیصل واوڈا اور رہنما ایم کیو ایم اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹر فیصل واوڈا توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہوگی۔

  • سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر اپیلوں کی سماعت کیلئے 13 رکنی فل کورٹ تشکیل

    سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر اپیلوں کی سماعت کیلئے 13 رکنی فل کورٹ تشکیل

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر اپیلوں کی سماعت کیلئے 13 رکنی فل کورٹ تشکیل دے دیا، جو 3 جون کو سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا، سپریم کورٹ کا 13 رکنی فل کورٹ 3 جون کوسماعت کرے گا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تمام دستیاب ججز پر مشتمل بینچ اپیلوں پر سماعت کرے گا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین بینچ کا حصہ ہونگے۔

    اس کے علاوہ جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہوں گے جبکہ جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سادات خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی بینچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی علالت کے باعث دستیاب نہیں ہوں گی۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ گذشتہ سماعت پر معطل کیا تھا، معاملے پر لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ کمیٹی کو بھجوایا گیا تھا۔

    سنی اتحاد کونسل پر فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیا۔

    سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹوں پر الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کومعطل کررہے ہیں ، فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینےکی حدتک ہوگی، عوام نے جوووٹ دیااس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔

  • نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

    نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق  نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی ، سپریم کورٹ نے درخواست 1-4 کے تناسب سے مسترد کی۔

    چیف جسٹس فائزعیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان نے درخوست مسترد کی جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سےاختلاف کیا۔

    سماعت کے آغاز میں ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کیس براہ راست نشر کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ نہیں ہے، آخری سماعت پرتو آپ نے ایسی درخواست نہیں دی۔

    مزید پڑھیں : نیب ترامیم کیس: بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش

    چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا اسے ختم کریں اوربیٹھ جائیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے یہ کیس براہ راست دکھانا چاہیے کہ منفی تاثر نہ جائے۔

    بعد ازاں سماعت براہ راست دکھانے سے متعلق بینچ مشاورت کیلئے اٹھ کر چلا گیا تھا۔

  • سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کو  متنبہ کردیا

    سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کو متنبہ کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلزکو بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا توہین آمیز مواد چلانا یا دوبارہ نشر کرنے والے چینلز توہین عدالت ہی کررہے ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کیخلاف توہین عدالت کیس کا حکم نامہ جاری کردیا۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، دونوں کواپنے کئےکی وضاحت کا موقع دیتے ہوئے شوکاز جاری کیا جاتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلزکو بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا توہین آمیز مواد چلانا یا دوبارہ نشر کرنے والے چینلز توہین عدالت ہی کر رہے ہوں گے، ٹی وی چینلزکو ایسا مواد نشر کرنے سے بازرہنا چاہیے۔

    فیصل واوڈااورمصطفیٰ کمال نے عدلیہ پر الزامات لگائے، فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال نے زیر سماعت مقدمات پر گفتگو کی۔

    پیمرافیصل واوڈااورمصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کا ریکارڈ اور ٹرانسکرپٹ جمع کرائے۔

    فیصل واوڈااورمصطفیٰ کمال آئندہ سماعت پرپیش ہوں، توہین عدالت کےنوٹسز کا جواب 2ہفتےمیں دیاجائے، کیس کی آئندہ سماعت 5 جون کوہوگی۔

  • بانی پی ٹی آئی کی  تصویر لیک ہونے کے بعد بڑی پابندی عائد

    بانی پی ٹی آئی کی تصویر لیک ہونے کے بعد بڑی پابندی عائد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کی تصویر لیک ہونے کے بعد بڑی پابندی عائد کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی تصویر لیک ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں موبائل لے جانے پر سختی کردی گئی۔

    عدالتی عملے نے لاء کلرکس کو موبائل لے جانے سے روک دیا اور کمرہ عدالت میں بھی عملے کی جانب سے چیکنگ کا عمل جاری ہے۔

    وکلاءکو بھی کمرہ عدالت کے باہر موبائل جمع کرانےکی ہدایت کی گئی ہے جبکہ صحافیوں پر موبائل اندر لے جانے پر پہلے سے ہی پابندی عائد ہے۔

    گذشتہ روز نیب ترامیم کیس میں ویڈیو لنک کے زریعے پیش ہونے والے بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

    جس کے بعد سپریم کورٹ پولیس نے تحریک انصاف کے بانی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی تحقیقات شروع کیں۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے بانی کی تصویرکمرہ عدالت کےبائیں جانب بیٹھےافرادمیں سےکسی نےبنائی، کمرہ عدالت کی بائیں جانب موجود افراد سے پوچھ گچھ شروع کر دی گئی۔

    پولیس ذرائع کے مطابق کمرہ عدالت میں جانیوالے افراد کی تلاشی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔

  • فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری، ذاتی حیثیت میں طلبی

    فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری، ذاتی حیثیت میں طلبی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں پیش ہونےکا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر فیصل واوڈاکی پریس کانفرنس پرازخودنوٹس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اخترافغان بینچ میں شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی چلائی توکیس میں استغاثہ کون ہوگا، استغاثہ اٹارنی جنرل ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ اب وزن آپ کے کندھوں پر ہے ، کیا شوز کاز نوٹس ہونا چاہیے یا صرف نوٹس ہونا چاہیے، ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے۔

    جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا، غلطیاں ہوئیں انہیں تسلیم کر کے آگے بڑھیں، اسکول میں بچے غطی تسلیم کرے تو استاد کارویہ بدل جاتا ہے۔

    فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو نوٹس جاری کرتے ہیں، دونوں کو بلا لیتے ہیں ہمارے منہ پر آکر تنقید کر لیں۔

    سپریم کورٹ نے آج کی کارروائی کا حکمنامہ لکھوانا شروع کیا اور فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو طلب کر لیا۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 19آزادی اظہار رائے دیتاہےلیکن توہین عدالت نہ کرنے کی قدغن موجودہے، بادی النظر میں فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس توہین عدالت ہے۔

    سپریم کورٹ نےفیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کےشوکاز نوٹسز جاری کردیئے۔

    سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونےکا حکم دیا اور فیصل واوڈا سے 2ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔

    سپریم کورٹ نے پیمرا سے پریس کانفرنس کی ویڈیوریکارڈنگ ،ٹرانسکرپٹ طلب کر لیا بعد ازاں ازخود نوٹس کیس کی سماعت 5 جون تک ملتوی کردی گئی۔

  • ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کو فٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے خود کو ایکسپوز کررہے ہیں،  جسٹس اطہر من اللہ

    ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کو فٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے خود کو ایکسپوز کررہے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیئے کہ ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کوفٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے درحقیقت خود کو ایکسپوز کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت  کی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس حسن رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سےمکالمہ آپ کہیں جا رہےہیں تو خواجہ حارث نے جواب دیا میں ادھر ہی ہوں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ مرکزی درخواست گزاربھی کہیں نہیں جا رہےکیونکہ وہ اڈیالہ میں قیدہیں، جسٹس اطہرمن اللہ کے ریمارکس پرکمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کوفٹبال بنائیں گے، ایساکہنے والےدرحقیقت خود کو ایکسپوز کررہے ہیں، کیا آپ اپنی پراکسیز کے ذریعے ہمیں دھمکا رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہ ایساہو رہا ہےاورنہ ہی ایسا ہونا چاہیے، عدالت نے آئندہ سماعت پربھی بانی پی ٹی آئی کو ویڈیولنک کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے کہا کہ کیس کی سماعت کی آئندہ تاریخ کا اعلان بینچ کی دستیابی کی صورت میں ہوگا۔

  • نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

    نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

    اسلام آباد : نیب ترایم کیس میں بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کا آغاز ہوگیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت  کی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس حسن رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

    بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن کر پیش

    بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیاگیا، نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف اپیلوں پر سماعت براہ راست نشر نہیں کی جارہی، سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ سماعت براہ راست دکھانے کا فیصلہ کرے گا۔

    اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں ، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کےکورٹ روم میں وکلا کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست سماعت کیلئے منظور ہوچکی؟ کیا نیب ترامیم کیخلاف ہائیکورٹ میں درخواست اب بھی زیر التوا ہے؟

    چیف جسٹس نے سوال کیا اٹارنی جنرل صاحب کیا ویڈیو لنک قائم ہوگیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا جی بالکل ویڈیو لنک چل رہا ہے۔

    حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کل میں نے چیک کیا تھا، درخواست اب تک زیر التوا ہے۔

    بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن کرموجود ہیں، خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

    بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے استفسار

    چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تمام وکلاسے سینئر ہیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس پر سماعتوں کاحکم نامہ طلب

    وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیرالتواہے، جی اسے قابل سماعت قرار دے دیا گیا تھا، جس کے بعد عدالت نے اسلام آبادہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس پرسماعتوں کاحکم نامہ طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیخلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں ، مخدوم علی خان صاحب اونچی آواز میں بولیں تاکہ بانی پی ٹی آئی بھی سن سکیں۔

    یب ترامیم کیس کی بانی پی ٹی آئی کے سابقہ وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئے ، چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ آپ اصل کیس میں وکیل تھے ، آپ کے نہ آنے پر مایوسی تھی ، ہم آپ کے مؤقف کو بھی سننا چاہیں گے۔

    مخدوم علی خان نے عدالت میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست کی گراؤنڈ پڑھیں

    مخدوم علی خان نے عدالت میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست کی گراؤنڈ پڑھیں اور کہا کہ 19جولائی 2022 کو درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری ہوئے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا مرکزی کیس کی کل کتنی سماعتیں ہوئیں؟ تو وکیل مخدوم علی نے بتایا کہ مرکزی کیس کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں۔

    چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا،چیف جسٹس

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اتنا طویل عرصے تک کیس کیوں چلا، کیا آپ نے کیس کو طول دیا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ زیادہ وقت دلائل میں درخواست گزار نے لیا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے 1999میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مارشل لا کے فوری بعدایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیاتھا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بڑے تعجب کی بات ہےکہ نیب ترامیم کیس 53  سماعتوں تک چلایا گیا، چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا، مخدوم علی خان آپ کیس میں موجودتھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا۔

    مخدوم علی خان نے بتایا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا، چیف جسٹس نے استفسار کیا ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسےقابل سماعت ہوا ؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نےاس سوال کاجواب دیا تھا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکرکیا تھا۔

    حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ کر سنایا

    حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے 2023 میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پرہم دو ججز نے ناقابل سماعت کردیاتھا ، ہم نے کہا تھا جو کیس ہائیکورٹ میں زیر التواہےاس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، لاہور ہائیکورٹ بار نے جو الیکشن کافیصلہ دیا اس کے خلاف انٹراکورٹ حکم جاری نہیں ہواتھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا آرڈر آف کورٹ کہاں ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ میرا خیال ہے کہ وہ آرڈر اسی نکتے پر اختلاف کی وجہ سے جاری نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس کا جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمہ

    چیف جسٹس نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمے میں کہا کہ آپ جب میرے ساتھ بینچ میں بیٹھے ہم نے تو 12  دن میں الیکشن کرادیئے، آپ جس بینچ کی بات کررہے ہیں اس میں خوش قسمتی یابدقسمتی سے میں نہیں تھا۔

    بانی پی ٹی آئی کی اپنے چہرے پرتیزروشنی پڑنے کی شکایت

    بانی پی ٹی آئی نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلایا اور اپنے چہرے پرتیزروشنی پڑنے کی شکایت کی ، جس پر ویڈیو لنک پر پولیس اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا۔

    وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ بینظیر بھٹو کیس جیسے مختلف فیصلے بھی موجود ہیں، ہائیکورٹ میں زیرسماعت درخواست سپریم کورٹ نہیں سن سکتی، نیب ترامیم کیس بھی سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھا، ہم نے کیس ناقابل سماعت ہونے کا معاملہ عدالت میں اٹھایا تھا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کمرہ عدالت میں سرگرشیوں پر اظہار برہمی

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں سرگرشیوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ جس نےباتیں کرنی ہیں وہ کمرہ عدالت سے باہر چلے جائیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پربیٹھنے کی ہدایت

    ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ سر عدالتی کارروائی براہ راست نشر نہیں ہورہی ، جس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پربیٹھنے کی ہدایت کردی۔

    پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد نیب ترامیم کی کتنی سماعتیں ہوئیں، چیف جسٹس کا سوال

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ کب ہوا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد نیب ترامیم کی کتنی سماعتیں ہوئیں، وکیل مخدوم نے بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعدکافی سماعتیں ہوئیں۔

    دوران سماعت ایک وکیل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ کارروائی براہ راست نشر نہیں کی جارہی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اس وقت دلائل چل رہے ہیں تو وکیل کا کہنا تھا کہ ہم صرف آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے تھے، چیف جسٹس نے وکیل کو واپس بیٹھا دیا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، پریکٹس اینڈ پروسیجرمعطل کرنادرست تھایاغلط ،اس عدالت کے حکم سےمعطل تھا۔

    مجھے کوئی قانون پسندنہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے ، چیف جسٹس

    چیف جسٹس کا بھی کہنا تھا کہ قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، ہم کب تک اس بے وقوفانہ دور میں رہتے رہیں گے، مجھے کوئی قانون پسندنہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے، کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟ ایک قانون معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کرفیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کرکےبینچ اسکے خلاف بناکردیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں، ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بل کی سطح پر قانون کو معطل کرناکیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اچھا تھا یا برا لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کوعدالت نے معطل کر رکھا تھا، ایکٹ معطل ہونے کے  سبب کمیٹی کاوجود نہیں تھا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجرپررائے دی ، انھوں نے رائےدی پریکٹس اینڈ پروسیجر طے کئےبغیر نیب کیس پرکارروائی آگے نہ بڑھائی جائے۔

    وکیل مخدوم علی خان نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے بطور سینئرترین جج یہ نقطہ اٹھایاتھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں مزید کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائرکرسکتا ہے اوروہ کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس اینڈپروسیجر کےتحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا بھی کہنا تھا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتاہے متاثرہ فریق بھی لاسکتاہے، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا، متاثرہ فریق میں پھربل پاس کرنیوالے  حکومتی بینچ کے ممبران بھی آسکتےہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150درخواست گزار کھڑے ہوں گے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کوئی مقدمہ عدالت آیا تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے اور قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے، قانون معطل کرنے کے بجائے روزانہ سن کر فیصلہ کرنا چاہے تھا، جس پرجسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 2کے تحت اپیل متاثرہ شخص کرسکتا ہے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی۔

    حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ بالکل حکومت اپیل کرسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر آگے بڑھیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ 2022کے فالو اپ پر2023 کی ترامیم بھی آئیں تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دی۔

    بانی پی ٹی آئی نکات نوٹ کر لیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھارہے ہیں تو مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجودہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سےجواب لیں گے، بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں۔

    بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیئے

    بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیئے، مخدوم علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگرآرڈیننس لائے، نیب ترامیم کامعاملہ پارلیمانی تنازع تھاجسےسپریم کورٹ لایا گیا، یہ ملی بھگت سےمعاملہ سپریم کورٹ لایاگیا۔

    عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کسی بل پرکوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلےکیخلاف ووٹ دےسکتا ہے تو چیف جسٹس کا کہنا گتھا کہ اس معاملے پر نظرثانی درخواست موجود ہے۔

    مخدوم صاحب کرپشن کیخلاف مضبوط پارلیمان،آزاد عدلیہ ، بے خوف لیڈر ضروری ہے، جسٹس اطہر من اللہ

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم صاحب کرپشن کیخلاف مضبوط پارلیمان،آزاد عدلیہ ، بے خوف لیڈر ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کیلئےکوئی اور آرڈیننس لایا جارہا ہے۔

    آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈیننس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں، کیا آرڈیننس کے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں۔

    پارلیمان کیساتھ بدنیتی منسوب نہیں کی جاسکتی، جسٹس اطہر من اللہ

    جسٹس اطہر من اللہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ پارلیمان کیساتھ بدنیتی منسوب نہیں کی جاسکتی، آئین پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، صدر اور آرڈیننس دونوں ہی پارلیمان کوجواب دہ ہیں، آرڈیننس منظوری کیلئے پارلیمان کو ہی بھیجا جاتا ہے۔

    اگر صدر کہے مجھے رولز رائس چاہئے تو گاڑی فراہم کر دی جائے گی، چیف جسٹس

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر صدر کہے مجھے رولز رائس چاہئے تو گاڑی فراہم کر دی جائے گی، پارلیمان بعد میں مسترد کر دے تب بھی گاڑی توخریدی جا چکی ہوگی۔

    بعد ازاں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پرسماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔

  • بانی پی ٹی آئی آج  ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

    بانی پی ٹی آئی آج ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

    اسلام آباد : بانی پی ٹی آئی آج نیب ترامیم کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت آج ہوگی۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ،جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

    سماعت ساڑھے11بجےکمرہ عدالت نمبرایک میں ہوگی، جس میں بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیولنک کے ذریعے پیش ہوں گے۔

    جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں آج پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی وڈیو لنک سے پیشی کے انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔

    اڈیالہ جیل انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی کو وڈیو لنک کے ذریعے پیشی سے متعلق آگاہ کردیا، سپریم کورٹ عملے اور جیل اتھارٹیزکے مابین وڈیو لنک کنکشن سے متعلق رابط بھی کیاگیا، بانی پی ٹی آئی کی پیشی سے قبل وڈیو لنک کا ٹیسٹ بھی کیا جائے گا۔

    نیب ترامیم کیس میں آج پاکستان تحریک انصاف کے بانی وڈیو لنک کے ذریعے دن 11:30 بجے پیش ہوں گے، گزشتہ روز وہ   وکیل خواجہ حارث،انتظار پنجوتھاجیل میں ملاقات کرچکےہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی  کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑی عجیب صورت حال ہے کہ درخواست گزار اپیل میں ریسپانڈنٹ ہیں اور ان کی نمائندگی نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا پاکستان تحریک انصاف کے بانی کا خط پہلے ہمارے نوٹس میں نہیں لایا گیا، پہلے بتایا جاتا تو اس حوالے سے مشاورت کر کے انتظامات کرتے، پاکستان تحریک انصاف کے بانی اس کیس میں فریق ہیں، ان کی نمائندگی ہونی چاہیے، اس لیے ان کی ویڈیو لنک پر حاضری کے لیے انتظامات کیے جائیں۔

  • ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکےجاؤ، چیف جسٹس برہم

    ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکےجاؤ، چیف جسٹس برہم

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس میں ریمارکس دیئے پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا ، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھرپھینکے جاؤ۔

    تفصیلات کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے کےخلاف سپریم کورٹ میں ازخودنوٹس پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    چکوال سے تعلق رکھنے والے راجہ شیر بلال،ابرار احمد، ایم آصف ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے ، دوران سماعت چکوال سےتعلق رکھنےوالے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائرکرنے سے مکر گئے۔

    سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی 2022 میں دائر کی گئی تھی، درخواست گزاروں نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کئے، کیا بغیر اجازت درخواست دائر کرنیوالوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے تو ،درخواست گزار ایم آصف کا کہنا تھا کہ آپ کی سر پرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا ہم کیوں سرپرستی کریں؟ تو ایڈووکیٹ رفاق شاہ نے کہا کہ جس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے درخواست دائر ہوئی انکا انتقال ہو چکا۔

    چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کےوکیل حیدر وحید سے چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا کہ آپ کو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں، ٹی وی پر بیٹھ کرہمیں درس دیا جاتا ہے کہ عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا، ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کون سا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہواہے، گالیاں دینا ہوں تو ہر کوئی شروع ہوجاتا ہے، کوئی سچ نہیں بولتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا کہ ہمارےذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھرپھینکےجاؤ، باہر کے ملک میں ایسا ہوتاتو ہتک عزت کیس میں جیبیں خالی ہوجاتیں۔