Tag: سپریم کورٹ

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط پر جوڈیشل کمیشن کےلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی، درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی۔

    درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط میں عمومی نوعیت کے الزام لگائے گئے ہیں، تاثر دیا گیا کہ خفیہ ایجنسی اورایگزیکٹو تحریک انصاف کے مقدموں پر اثرانداز ہورہی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہےکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کئی مرتبہ پی ٹی آئی کو ریلیف دیا، عدالتی روایت ہے جب کسی جج کو اپروچ کیا جائے تو وہ کیس سننے سے معذرت کرلیتا ہے، کئی مرتبہ پی ٹی آئی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پرعدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے۔

    درخواست گزار میں کہنا تھا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کاخط ’’ڈیزائن اقدام‘‘لگتا ہے، جیسے ہی خط منظرعام پر آیا سوشل میڈیا پرچیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف مہم شروع ہوگئی۔

    درخواست میں ججوں کے پچیس مارچ کےخط میں لگائے گئے الزامات پر اعلیٰ سطح جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن انکوائری میں جو بھی مس کنڈیکٹ کا مرتکب پایا جائے اس کےخلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

  • 9 مئی کے کتنے لوگ فوجی عدالتوں  میں بے قصور نکلے؟ تفصیلات طلب

    9 مئی کے کتنے لوگ فوجی عدالتوں میں بے قصور نکلے؟ تفصیلات طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نو مئی مقدمات میں بے قصور افراد کی تفصیلات طلب کرلیں، عدالت نے قرار دیا جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں ان کی بریت کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نےسماعت کی۔

    درخواست گزاروں کے وکیل فیصل صدیقی نےعدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی استدعا کی، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا لائیونشریات کی درخواست پر فیصلہ جاری کریں گے۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا ملزمان میں کسی کی رہائی ہوئی یا ہوسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا ٹرائل مکمل ہوچکا لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائےگئے تو جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے آپ نے کہا تھا کچھ کیسز بریت کے ہیں اور کچھ کی سزائیں مکمل ہوچکیں۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا حکم امتناع کےباعث بریت کے فیصلے نہیں ہوسکے، درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا بریت پرکوئی حکم امتناع نہیں تھا۔

    جسٹس امین الدین نے قرار دیا جن ملزمان کی بریت ہوسکتی ہے انھیں توبری کریں، جس کو چھ ماہ کی سزا ہے وہ ایک سال گرفتار نہیں رہنا چاہیے، جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت پیش کی کہ کچھ ملزمان ایسےہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصورہوگا۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے فوجی عدالتوں کادائرہ اختیارہی تسلیم نہ کریں توبات ختم ہوگی۔

    دوران سماعت درخواست گزاروں نے بینچ اور نجی وکلا پر اعتراض کیا، جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل نے نورکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے پہلے نو رکنی بینچ بن جاتا توآج اپیلوں پرسماعت ممکن نہ ہوتی۔

    سماعت کے دوران کےپی حکومت نےسویلنزٹرائل کالعدم قراردینے کیلئے اپیلیں واپس لینے کا کہا تو عدالت نے قرار دیا کے پی حکومت اپیلیں واپس لینےکیلئے باضابطہ درخواست دے۔

    جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے یہ وفاق کا کیس ہے،صوبائی حکومتیں کیسےاپیل دائرکرسکتی ہیں، جس پر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا صوبائی حکومتیں ضرورت سے زیادہ تیزی دکھارہی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا بتایا جائے نو مئی کےکتنےلوگ ملٹری کورٹس میں بے قصور نکلے؟ کتنے ملزمان بری ہوسکتے ہیں کتنے نہیں اور کتنے ملزمان ہیں جنھیں کم سزائیں ہونی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے اٹھائیس مارچ تک تفصیلات طلب کرلیں اور فوجی عدالتوں میں محفوظ شدہ فیصلوں کی سمری بھی پیش کرنے کی ہدایت کردی ساتھ ہی عدالت نے قرار دیا حکم امتناع میں سمری کے مطابق ترمیم ہوگی۔

  • ریٹائرڈ ملازمین کے لیے پنشن کے حوالے سے بڑی خبر

    ریٹائرڈ ملازمین کے لیے پنشن کے حوالے سے بڑی خبر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نیشنل بینک کے 11 ہزار 500 ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن ادا کرنے کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیشنل بینک کی نظرثانی درخواست خارج کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیشنل بینک کے ریٹائرڈ ملازمین سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے نیشنل بینک کے 11 ہزار 500 ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن ادا کرنے کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نیشنل بینک کی نظرثانی درخواست خارج کردی۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ نیشنل بینک ریٹائرڈ 11500ملازمین کو پنشن مد میں 60 ارب روپےایک ماہ میں ادا کرے۔

    سپریم کورٹ نے 6 سال بعد نظرثانی درخواست خارج کرکے ملازمین کو پنشن دینے کا فیصلہ برقرار رکھا۔

  • سانحہ 9 مئی:  سپریم کورٹ نے 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی

    سانحہ 9 مئی: سپریم کورٹ نے 5 ملزمان کی ضمانت منظور کرلی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سانحہ 9 مئی کے پانچ ملزمان کی تھانہ نیوٹائون میں درج مقدمہ میں ضمانت منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 9 مئی واقعات کے 5 ملزمان کی درج مقدمے میں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔

    عدالت نے پولیس اور پراسیکیوشن کی ناقص تفشیش پر سرزنش کی، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا ریلی نکالنا یا سیاسی جماعت کا کارکن ہونا جرم ہے؟ طلبہ یونین اور سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے ہی آج یہ بربادی ہوئی ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے مزید سوال کیا کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیراعظم کو غدار مان لیں؟خدا کا خوف کریں یہ کس طرف جا رہے ہیں۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا ملزمان کےخلاف کیا شواہد ہیں؟ کیا سی سی ٹی وی کیمروں سے شناخت ہوئی؟ جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ حمزہ کیمپ سمیت دیگر مقامات کے کیمرے مظاہرین نے توڑ دیے تھے۔

    جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اس کا مطلب ہے ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں صرف پولیس کے بیانات ہیں، مقدمہ میں دہشتگردی کی دفعات کیوں لگائی گئی ہیں؟

    وکیل پنجاب حکومت نے کہا ملزمان نے آئی ایس آئی کیمپ پر حملہ کیا، آپ کو پھر علم ہی نہیں کہ دہشتگردی ہوتی کیا ہے؟ دہشت گردی سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور کوئٹہ کچہری میں ہوئی تھی، ریلیاں نکالنا کہاں سے دہشتگردی ہوگئی۔

    سپریم کورٹ نے سانحہ 9 مئی کے پانچ ملزمان کی تھانہ نیوٹائون میں درج مقدمہ میں ضمانت منظور کرلی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے اصل دہشتگردوں کوپکڑتےنہیں ریلیوں والوں کےپیچھےلگے ہیں، جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزمان نے اپنے لیڈر کی گرفتاری پر سازش کے تحت حساس اداروں پرحملے کئے۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی بنے استفسار کیا کہ کیا بم دھماکوں والوں کی سازش کبھی پکڑی گئی ہے؟ اصل دہشت گردوں کی سازش پکڑیں توکوئی شہیدنہ ہو، سی سی ٹی وی ریکارڈنگ محفوظ ہوتی ہے لوگ موبائل سے بھی ویڈیو بناتے ہیں۔

    وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان سے پیٹرول بم برآمد ہوئے ، فائرنگ کا بھی الزام ہے تو جسٹس حسن اظہر کا کہنا تھا کہ پٹرول بم کون کہاں سے لایاگھر سے تو کوئی لانہیں سکتا،تفتیش کیاکہتی ہے؟

    وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ تفتیش میں یہ پہلو سامنے نہیں آیا، اسپیشل برانچ لاہور کا ایک ہیڈکانسٹیبل بھی گواہ ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے واقعہ راولپنڈی کا ہے اور گواہ لاہور کا، کیا حکومت کے خلاف ٹائر جلانا بہت بڑاجرم ہے ؟ حکومت اور ریاست عوام کیلئےماں باپ کی اہمیت رکھتے ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ بچوں کو ماں باپ 2تھپڑ مار بھی دیں تو بعد میں منالیتےہیں قتل نہیں کرتے، سب کو بند کر دینا تو مسئلے کا حل نہیں ہے۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ پولیس گواہی کے سوا کوئی ثبوت ہی موجودنہیں، جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزمان کےخلاف مقدمہ درج کیا پھر موقع پر جاکرگرفتاری کی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا گرفتاری سے پہلے ملزمان کے نام کیسے معلوم تھے؟ سارے کیس کا پولیس خود ستیاناس کردیتی ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف آئی آر میں تو آئی ایس آئی آفس پر حملے کا لکھا ہی نہیں ، حساس تنصیابات تو بہت سی ہوتی ہیں۔

  • صحافیوں پر حملوں سے متعلق ایف آئی اے، پولیس رپورٹس غیرتسلی بخش قرار

    صحافیوں پر حملوں سے متعلق ایف آئی اے، پولیس رپورٹس غیرتسلی بخش قرار

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس میں گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق چار صفحات پر مشتمل حکم نامہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے تحریر کیا، حکم میں کہا گیا کہ صحافیوں پر حملوں سے متعلق ایف آئی اے اور پولیس کی رپورٹس تسلی بخش نہیں ہیں۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے اور پولیس دوبارہ تفصیلی رپورٹس جمع کرائیں۔ سپریم کورٹ یا رجسٹرار نے کسی صحافی کیخلاف کارروائی کا نہیں کہا۔

    ایف آئی اے کے صحافیوں کو جاری نوٹسز میں عدلیہ کا نام غلط استعمال کیا گیا۔ ایف آئی اے کے نوٹسز سے غلط پیغام گیا کہ عدالت کارروائی کرارہی ہے۔

    پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی درخواست پرفریقین کو نوٹس جاری کیے گئے۔ حکم میں کہا گیا کہ پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے وکیل نے جے آئی ٹی پر اعتراض اٹھایا۔ وکیل کے مطابق جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکارشامل نہیں ہوسکتے۔

    بیرسٹر صلاح الدین نے صحافی پر ایف آئی آر کا ذکر کیا جس میں غلط دفعات لگائی گئیں۔ اٹارنی جنرل نے ایف آئی آر میں غلط دفعات کا اعتراف کیا۔

    تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ صحافیوں کے مقدمات سے متعلق جواب آئندہ سماعت سے قبل جمع کرایا جائے۔ کیس کی مزید سماعت 25 مارچ کو ہوگی۔

  • ابصار عالم اور اسد طور حملہ  کیسز میں غیرتسلی بخش کارکردگی، چیف جسٹس آئی جی اسلام آباد پر برہم

    ابصار عالم اور اسد طور حملہ کیسز میں غیرتسلی بخش کارکردگی، چیف جسٹس آئی جی اسلام آباد پر برہم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ابصار عالم،اسد طورحملہ کیس میں ناقص تفتیش پراظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کس قسم کے آئی جی اسلام آباد ہیں ؟انہیں ہٹا دینا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز ،ہراساں کئے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین اور اٹارنی جنرل پاکستان بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

    مطیع اللہ جان اغوا ،ابصارعالم پر حملے کے کیسزمیں غیرتسلی بخش کارکردگی پر چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کرائم ریکارڈموجودہےیہ ان ملزمان کاسراغ نہیں لگاسکے؟

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ کس قسم کےآئی جی ہیں؟ آئی جی اسلام آبادکو ہٹا دیا جانا چاہیے، چار سال ہو گئے اور آپ کو کتنا وقت چاہیے؟

    چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آبادسے استفسار کیا کیا آپ کو چار صدیاں چاہئیں؟ آئی جی صاحب آپ آئے کیوں ہیں یہاں؟کیا آپ اپنا چہرہ دکھانےآئے ہیں؟ کسی صحافی کوگولی مار دی جاتی ہے کسی کی گھر میں جاکر پٹائی کی جاتی ہے۔

    بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اسد طور جیل میں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا وہ کیوں جیل میں ہیں؟ تو بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اسد طور پر حکومتی افسران کا وقار مجروح کرنے کا الزام ہے۔

    جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کیاایف آئی آرمیں ان افسران کا ذکر ہے جن کاوقارمجروح ہوا؟ بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ایف آئی آر میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا، چیف جسٹس نے ایف آئی اے افسرسے سول کیا کہ اسد طور پر جو دفعات لگائی گئیں وہ کیسے بنتی ہیں؟ کیا آپ کے ادارے میں کوئی پڑھالکھاہے؟ کوئی نہیں توپھراردو میں ترجمہ کرا لیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا ہم نے صحافیوں کے خلاف آپ کو کوئی شکایت کی تھی؟ججز کا نام لے کر آپ نے صحافیوں کو نوٹس بھیج دیئے؟ آپ ہمارا کندھا استعمال کر کے کام اپنا نکال رہے ہیں؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسد طور کیخلاف مقدمہ میں سنگین نوعیت کی دفعات عائد کی گئی ہیں،حساس معلومات سمیت عائد دیگردفعات کااطلاق کیسےہوتاہے؟ انکوائری نوٹس میں لکھا گیا عدلیہ کیخلاف مہم پرطلب کیاجا رہا ہے، ایف آئی آر میں عدلیہ کیخلاف مہم کا ذکر تک نہیں، یہ توعدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی ہے۔

    بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل میں کہا کہ صحافیوں کیخلاف مقدمات سے پہلے ہی جے آئی ٹی قائم کی گئی، جے آئی ٹی میں قانون نافذ کرنیوالےاداروں کے اہلکار شامل ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جےآئی ٹی میں انکانمائندہ کیسے شامل ہوا ،قانون کانفاذ ان کادائرہ اختیارنہیں، کیوں نا ایف آئی اے کو توہین عدالت کا نوٹس دیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی جج نے ایف آئی اےکوشکایت کی نہ رجسٹرار نے، سپریم کورٹ کا نام استعمال کرکے تاثر دیا گیا جیسے عدلیہ کے کہنےپر کارروائی ہوئی،اس طرح تو عوام میں عدلیہ کا امیج خراب ہوگا،ایف آئی اے کے متعلقہ افسر خودعدلیہ کی بدنامی کاباعث بن رہے ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے صحافیوں کیخلاف جے آئی ٹی میں ایجنسی کے لوگ کیوں شامل کیے گئے، کیا دباؤ ڈالنے کیلئے ایجنسی کے لوگ شامل کیے گئے، جب ایسے افسران شامل ہونگے تو پولیس کی چلے گی یاان لوگوں کی۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے ،پولیس کو تحقیقات کرنا نہیں آتیں تو یہ ادارے پھربند کر دیں، پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ صحافی مطیع اللہ جان نےتعاون نہیں کیا، پولیس بتائے کس قسم کا تعاون نہیں کیا گیا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پولیس رپورٹ درست نہیں تھی مزیداس پرعدالت کی معاونت کریں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے سینئر پولیس افسر کی رپورٹ غلط ہے کیا اس کوفارغ کر دیں، سارا ملبہ تفتیشی افسر پر ڈال دیا جاتا ہے اب ایسا نہیں ہوگا ، بڑے افسر کیخلاف کارروائی کرینگے تو سارا سسٹم ٹھیک ہوجائے گا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہاسد طور کیس میں ایف آئی آر پر نظر ثانی کا معاملہ اٹارنی جنرل پر چھوڑ دیا گیا، اٹارنی جنرل صاحب ہم آرڈر کریں یا آپ گریس دکھائیں گے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دو دفعات ایف آئی آر میں نہیں بنتی تھیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریس ایسوسی ایشن کےوکیل سے استفسار کیا آپ کواٹارنی جنرل پربھروسہ ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا مجھے اٹارنی جنرل پربھروسہ ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم زیادہ لمبی تاریخ نہیں رکھیں گےدیکھ لیتے ہیں یہ کیا کرتے ہیں۔

    بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ایف آئی اے پیکا کے تحت صحافیوں کیخلاف معاملات پرکارروائی کرہی نہیں سکتی، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کی پٹیشن کےان نکات پر ہم انہیں نوٹس جاری کریں گے۔

  • بھٹو کی پھانسی: سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے دی

    بھٹو کی پھانسی: سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے دی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر رائے دے دی، عدالت نے کہا کہ بھٹو کا ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق ریفرنس میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے قرار دیا ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، اور ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔

    سپریم کورٹ نے 4 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کی تھی، آج بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریفرنس میں سپریم کورٹ کی متفقہ رائے سناتے ہوئے کہا تاریخ میں کچھ ایسے کیسز ہیں جو خوف یا فیور کے نتیجے میں متاثر ہوئے، جب تک غلطیوں کو تسلیم نہ کریں خود کو درست نہیں کر سکتے۔

    چیف جسٹس نے کہا ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ اپنی رائے سے آگاہ کر رہی ہے، اس صدارتی ریفرنس میں پانچ سوال اٹھائے گئے، یہ سوال کیا گیا کہ کیا فیئر ٹرائل ہوا تھا یا نہیں؟ بینچ کی رائے ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا، بھٹو کے ٹرائل میں بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔

    رائے میں کہا گیا کہ ججز قانون کے مطابق ہر شخص کے ساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں، ہم ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا اور سزا آئین کے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی، لیکن ریفرنس میں پوچھا گیا دوسرا سوال واضح نہیں اس لیے رائے نہیں دے سکتے، کیوں کہ ذوالفقار بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

    عدالت نے کہا چوتھا سوال سزا کا اسلامی اصولوں کے مطابق جائزہ لینے کا تھا، اسلامی اصولوں پر کسی فریق نے معاونت نہیں کی، اس لیے فیصلہ اسلامی اصولوں کے مطابق تھا یا نہیں اس پر رائے نہیں دے سکتے، عدالت نے کہا ہم اس ریفرنس میں مقدمے کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتے، کیس حتمی ہو چکا، ایڈوائزری اختیار میں شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتے، اس رائے کی وجوہ بعد میں جاری کی جائیں گی۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کی تھی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے اس ریفرنس کی سماعت کی، بلاول بھٹو، فاروق ایچ نائیک، میاں رضا ربانی بھی روسٹرم پر موجود تھے، تحریری رائے میں کہا گیا کہ ججز قانون کے مطابق بلا خوف و خطر لوگوں کو انصاف دینے کے پابند ہیں، چند مقدمات سے عوام میں تاثر گیا کہ خوف یا رعایت انصاف فراہمی پر اثر انداز ہوئی ہے، ماضی کے غلط اقدامات کو خود احتسابی کے تحت کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے، اور ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کیے بغیر درست سمت کا تعین نہیں کر سکتے۔

    عدالت نے یہ بھی کہا کہ نگراں حکومت کا ریفرنس واپس نہ لینا عوامی اہمیت کا معاملہ ہونا طے کرتا ہے، کسی حکومت نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا بھیجا ریفرنس واپس نہیں لیا۔

  • ملک میں اسلامی صدارتی نظام کے نفاذ کی درخواست خارج

    ملک میں اسلامی صدارتی نظام کے نفاذ کی درخواست خارج

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ملک میں اسلامی صدارتی نظام کے نفاذ کی درخواست خارج کردی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 227 کے مطابق کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بن سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے ملک میں اسلامی صدارتی نظام کے نفاذ کی درخواست خارج کردی، درخواست گزار نے کہا کہ پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام کانفاذ چاہتے ہیں۔

    جس پر چیف جسٹس نے درخواست گزار سے مکالمے میں کہا کہ ہم بھی اسلامی نظام چاہتے ہیں،پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہے، آپ ایسا کریں پاکستان کا آئین پڑھیں، دستور کی کتاب کارنگ بھی سبز ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کا آغاز اللہ کے ذکر سے ہوتا ہے،قرآن پاک کا آئین میں ذکر ہے، آرٹیکل 227کےمطابق کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بن سکتا۔

    چیف جسٹس نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو ان باتوں سے اختلاف ہے، کیا آپ صدارتی نظام میں صدر بننا چاہتے ہیں، آپ کیوں تمام اختیارات فرد واحد کو دینے کیلئے صدارتی نظام چاہتے ہیں، آپ جوپڑھ رہیں وہ وہ آئین پاکستان نہیں۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ مجھےآئین پاکستان کا مطالعہ کرنے کی مہلت دے دیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ہم یہ درخواست خارج کر دیتےہیں، آپ آئین پڑھ لیں پھر اگر آپ کو لگے تو نئی درخواست دائر کر دیجیے گا۔

  • 8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست خارج

    8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست خارج

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست خارج کرتے ہوئے درخواست گزارعلی خان پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی ، درخواست گزاربریگیڈیئر(ر)علی خان سپریم کورٹ میں پیش نہ ہوئے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ علی خان کےگھرپولیس بھی گئی وزارت دفاع کےذریعےنوٹس بھی بھیجا، علی خان گھرپرنہیں ہیں،نوٹس ان کےگیٹ پرچسپاں کردیاگیا ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ علی خان کون ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سابق بریگیڈیئر ہیں جن کا 2012 میں کورٹ مارشل ہوا تھا۔

    پی ٹی آئی رہنما شوکت بسرا روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میرا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور اس کیس میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اس کیس میں درخواست گزار بھی نہیں اور وکیل بھی نہیں ہیں۔

    چیف جسٹس نے شوکت بسرا کو روسٹرم سے ہٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں، ورنہ لائسنس منسوخی کا حکم دیکر توہین عدالت نوٹس کرسکتے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے شوکت بسرا پر ریمارکس دیئے کہ ان صاحب کا کنڈیکٹ دیکھ لیں، کوئی وکیل دوسرے کیس میں مداخلت نہیں کر سکتا، کیوں نہ ان صاحب کا کیس کا بار کونسل کو بھیج دیں، ہم ان کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، بار کونسل کو معاملہ بھیجا تو یہ وکالت سے نا اہل ہو جائیں گے۔

    چیف جسٹس نے مزید بتایا کہ ہفتےکوکوئی اجلاس نہیں ہوا ،ہفتے کو میری کسی جج سےملاقات نہیں ہوئی لیکن کسی میڈیا نےاجلاس کی غلط خبر کی تردیدنہیں چلائی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 19فروری کو ہمارے آفس کو ایک ای میل آئی ہے،ای میل علی خان کی جانب سے بھجی گئی۔
    جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست گزار کی ای میل عدالت میں پڑھ کر سنائی، علی خان کی ای میل لکھا کہ میں بیرون ملک ہوں ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 13فروری کوقطرایئرویزکا ٹکٹ لیکر دوحا اورپھر بحرین چلے گئے، عجیب بات ہے درخواست دائر کی اور دوسرے دن بیرون ملک چلے گئے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ای میل سےمتعلق ہماری برانچ نے بھی کنفرمیشن کی کہ وہی شخص ہے،درخواست گزار نے ای میل میں لکھا ہے کہ ملک سے باہر ہوں، درخواست گزار نے ای میل میں درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ علی خان نے لکھا ہے بیرون ملک ہونے کے وجہ سے پیش نہیں ہوسکتا، ای میل میں بورڈنگ پاس،ٹکٹ اور بحرین جانے کے سفری دستاویزات لگائے گئے ہیں، دستاویزات کے مطابق درخواست گزار دوحہ سے کنکٹنگ فلائیٹ لیکر بحرین گیا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کتنی عجیب بات ہے خبریں لگوا کر بیرون ملک چلے گئے، یہ کنڈیکٹ عدالت کے پراسیس کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، لگتاہےعلی خان نےدرخواست دائر کر کے پبلیسٹی اسٹنٹ کھیلا۔

    سپریم کورٹ نےانتخابات کالعدم قراردینے کی درخواست خارج کردی اور درخواست گزارعلی خان پر5لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔

  • ن لیگ کو ووٹ اپنی شرائط پر دوں گا،  بلاول بھٹو

    ن لیگ کو ووٹ اپنی شرائط پر دوں گا، بلاول بھٹو

    اسلام آباد : چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ن لیگ کو ووٹ اپنی شرائط پر دوں گا، ن لیگ کی نہیں، ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں الیکشن نتائج کے حوالے سے کہا کہ الیکشن میں عوام کسی ایک کو اختیار نہیں دے رہےہیں ، عوام نے کہا پی ٹی آئی کوحکومت کرنی ہے تو باقی جماعتوں کیساتھ ملنا پڑےگا، ن لیگ کو عوام نے مینڈیٹ دیا تو ان کو بھی باقی جماعتوں سے ملناپڑے گا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرمیں سنگل لارجسٹ پارٹی ہوتا تو کہہ سکتا تھا یہ میرامینڈیٹ ہے، عوام نے کسی ایک جماعت کو اکثریت نہیں دی کہ اکیلےحکومت بنائے، عوام پیغام دےرہےہیں کہ یہ ملک کوئی ایک جماعت نہیں چلا سکتی۔

    بلاول بھٹو نے کہا کہ عوام پی ٹی آئی اور ن لیگ کو کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت کرنی ہے تو دوسروں کوساتھ ملائیں، عوام نے ایسا فیصلہ دیا ہے جس پرتمام اسٹیک ہولڈرکومل بیٹھ کرفیصلہ کرنا پڑے گا۔

    موجودہ صورتحال پر چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ اس وقت واحد طریقہ ڈائیلاگ اورتعاون ہے، پی ٹی آئی جب بات نہیں کرے گی تو وہ حکومت نہیں بناسکتی ،سی ای سی میں فیصلہ کیا جو ہمارے پاس آئیں ہیں ان سے بات کرتے ہیں۔

    انھوں نے واضح کہا کہ ن لیگ کو ووٹ دینا ہے تو اپنی شرائط پرہی ووٹ دوں گا، مجھے اور پیپلزپارٹی کوکوئی جلدی نہیں ہم اپنےمؤقف پرقائم ہیں ، کوئی اور اپنامؤف تبدیل کرے تو پروگریس ہوسکتا ہے اور اگر کوئی اور اپنا مؤقف تبدیل نہیں کرتا تو پاکستان کیلئےنقصان دہ ہوگا۔

    بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ ڈائیلاگ کمیٹی کی غیر سنجیدگی کا نقصان مجھے تونہیں ہوگا ، ڈائیلاگ میں تاخیر سے پاکستان ،جمہوریت کانقصان ہورہاہے۔