Tag: سپریم کورٹ

  • سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل

    سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل

    اسلام آباد : سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ، جس میں جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ اور جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، تریپن صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے آرٹیکل باسٹھ ون ایف ایف میں سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں۔

    جسٹس یحیٰی آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلے میں شامل ہے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا ہے کہ "تاحیات نااہلی ختم کرنے کے فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں، آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی مستقل یا تاحیات نہیں، آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کورٹ آف لا کی ڈیکلیئریشن تک محدود ہے”۔

    جسٹس یحیٰی آفریدی کا کہنا تھا کہ "نااہلی تب تک برقراررہتی ہے جب تک کورٹ آف لا کی ڈیکلیئریشن ہو، اس حوالے سے سپریم کورٹ کا سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ درست تھا”۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلہ کا حصہ ہے، فیصلے میں کہا ہے کہ "سمیع اللہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی ڈیکلیئریشن دے کر آئین بدلنے کی کوشش کی ، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی کی مدت پانچ سال سے زائد نہیں ہوسکتی”۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ "تاحیات نااہلی انتخابات لڑنے اور عوام کے ووٹ کے حق سے متصادم ہے، آرٹیکل باسٹھ ون ایف کو تنہا پڑھا جائے تو اس کے تحت سزا نہیں ہوسکتی”۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا کہ” سابق جج عمرعطابندیال نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ لکھا اور خود اس کی نفی کی، باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی بنیادی حقوق کی شقوں سے ہم آہنگ نہیں، ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر آرٹیکل باسٹھ میں تاحیات نااہلی کی شق شامل کرائی تاہم عدالت الیکشن ایکٹ کے اسکوپ کو موجودہ کیس میں نہیں دیکھ رہی”۔

    اعلی عدلیہ نے فیصلے میں لکھا ‘آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں درج نہیں کہ کورٹ آف لا کیا ہے، آرٹیکل باسٹھ ون ایف واضح نہیں کرتا کہ ڈیکلیئریشن کس نے دینی ہے، ایسا قانون نہیں جو واضح کرے کہ باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کا طریقہ کار کیا ہوگا’۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ "سابق جج عمرعطا بندیال نے فیصل واوڈا اور اللہ دینو کیس میں اپنے فیصلے کی نفی کی”۔

  • 8 فروری کے انتخابات  کالعدم قرار دینے کی درخواست پر  سماعت آج ہوگی

    8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت آج ہوگی،چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 8 فروری کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی سماعت آج ہوگی۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ ہوں گی۔

    درخواست علی خان نامی شہری کی جانب سے دائرکی گئی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ عدلیہ کی زیر نگرانی 30 روز میں نئے انتخابات کرانے کا حکم دیا جائے اور دھاندلی ،الیکشن فراڈکی تحقیقات ،ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کے احکامات دئیے جائیں۔

    درخواست میں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • 8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست سماعت کے لئے مقرر

    8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست سماعت کے لئے مقرر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آٹھ فروری کے انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست سماعت کے لئے مقررکردی گئی۔

    فروری کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر کی گئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ 19 فروری کو سماعت کرے گا، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ ہوں گی۔

    سپریم کورٹ میں درخواست علی خان نامی شہری کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ عدلیہ کی زیر نگرانی 30 روز میں نئے انتخابات کرانے کا حکم دیا جائے ،دھاندلی ،الیکشن فراڈکی تحقیقات ،ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کے احکامات دئیےجائیں۔

    درخواست میں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے ملزم کی ضمانت منظور کرلی

    سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے ملزم کی ضمانت منظور کرلی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے ملزم کی پچاس ہزارروپے کے مچلکوں کےعوض ضمانت منظورکرلی اور حکم دیا توہین مذہب کیس کی مزید انکوائری کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے ملزم کی ضمانت منظورکرلی اور ملزم کو پچاس ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے حکم دیا توہین مذہب کیس کی مزید انکوائری کی جائے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے توہین مذہب کیس کی تفتیش ایس پی نے خود کرنا ہوتی ہے، قانون کی خلاف ورزی پر ایس پی کو معطل کریں یا ایس ایس پی کو۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل کے مطابق پولیس توہین مذہب کےکیسزمیں ڈرتی ہے، جیسے ہی کیس آتا ہے پولیس مقدمہ درج کرلیتی ہے، پولیس ڈرپوک ہونے لگی تو بہادر کون رہے گا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا پولیس بغیروارنٹ کسی کے گھرمیں داخل ہوسکتی ہے، چادراورچاردیواری کاتقدس کہاں گیا۔

    چیف جسٹس نے ایس ایس پی سے پوچھا کیا آپ کے گھرکوئی بغیروارنٹ جا کر تلاشی لےسکتاہے، پولیس آرڈر دوہزار دو کے مطابق بغیروارنٹ کسی کےگھر داخلے پر پانچ سال سزا ہے، ایک تصویر کی بنیاد پر توہین مذہب کا کیس بنا دیا، جیسے آپ ہی اسلام کے محافظ ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ پہلے توہین مذہب کا کیس بنا، گرفتاری ہوئی پھر جاکر تصویربرآمد کرائی، پولیس بندوقیں رکھ کربھی ڈرپوک ہے، ہم اس قسم کے کیسز سے تھک چکے ہیں۔

    شکایت گزار نے بتایا پیر کے پاس دوست کے ساتھ دم کرانے گیا، جہاں توہین آمیز تصویر لگی تھی، میں تو پیر کو نہیں مانتا صرف دوست کو دم کرانے گیا تھا۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے کہا آپ پیر کو نہیں مانتے تو دوست کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے، چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ پیر کتنے عرصے سے گرفتار ہے۔ .

    وکیل درخواست گزار نے بتایا پیرزبیرصابری سات ماہ سےگرفتارہے تو جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے پیرکا دم اپنےکام نہیں آ رہا، جو سات ماہ سے جیل میں ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی یقینی بنائیں مذہب ذاتی مقاصد کے لیےاستعمال نہ ہو اور توہین مذہب کے کیسز کو سنجیدگی سے لیں۔

  • جڑانوالہ واقعے پر پنجاب حکومت سے نئی رپورٹ طلب

    جڑانوالہ واقعے پر پنجاب حکومت سے نئی رپورٹ طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جڑانوالہ واقعے پر پنجاب حکومت سے نئی رپورٹ طلب کر لی اور نئی رپورٹ دس روز میں جمع کرائی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ہدایت کی کہ جڑانوالہ واقعے سے متعلق رپورٹ کو مسترد کیا جاتا ہے، نئی رپورٹ دس روز میں جمع کرائی جائے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ خاطر خواہ تحقیقاتی رپورٹ نہ دی گئی توپولیس افسران کومعطل یا فارغ کیاجائےگا۔

    سپریم کورٹ نے پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن اور پیمرا کو نوٹس جاری کیا جبکہ وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کیاگیا۔

    نوٹس میں کہا گیا کہ انتہاپسندی،تشدد، فرقہ واریت خاتمےکیلئے حکومت اوربالخصوص میڈیا کردارادا کرے، مذہبی ہم آہنگی سے متعلق خصوصی پیغامات کو نشریات کا حصہ بنایاجائے۔

    سپریم کورٹ کے آرڈر میں پنجاب پولیس کے کنڈکٹ پر سخت آبزرویشنزدی گئی، جس میں کہا جڑانوالہ واقعے کے اصل کرداروں کا پنجاب پولیس کو معلوم ہے، پنجاب پولیس کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے، حملہ آوروں کو نہ روک کر پولیس نے اپنے اوپر سے عوامی اعتمادختم کیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آفس کی رپورٹ کو جڑانوالہ واقعےکی رپورٹ قرار دینا بھی غلط ہوگا، جڑانوالہ جیسے حملے تعلیم کی کمی، نفرت اور مذہب کے غلط استعمال سےپیش آتےہیں۔

    عدالت نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی تفصیلات سے متعلق رپورٹ دوماہ میں جمع کرانےکاحکم دیا اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ نے جڑانوالہ واقعے سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے جڑانوالہ واقعے سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جڑانوالہ واقعے سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کردی، چیف جسٹس نے کہا رپورٹ دیکھنے کے بعد مجھے شرمندگی ہورہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے جڑانوالہ واقعے سےمتعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کردی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے پنجاب حکومت کی رپورٹ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے، جڑانوالہ واقعے سے متعلق یہ رپورٹ دیکھنے کے مجھے شرمندگی ہو رہی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا جڑانوالہ واقعے میں کتنے لوگ پکڑے گئے؟ دوران سماعت پنجاب حکومت نے جڑانوالہ واقعے سے متعلق پیشرفت رپورٹ جمع کرادی۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ22 مقدمات درج، 304 افراد گرفتار ہوئے جبکہ 22 میں سے 18 ایف آئی آرز کے چالان جمع ہوئے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ماشاءاللہ سے چھ ماہ میں صرف یہ 18 چالان ہوئے؟ دوسری جگہوں پر جا کر اسلاموفوبیا پر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور خود کیا کر رہے ہیں؟

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے غیر مسلموں کے ساتھ جو سلوک بھارت میں ہو رہا ہے وہ کاپی کرنا چاہتے ہیں؟ کتنے بجے پہلا چرچ جلا تھا اور اگست میں فجر کب ہوتی ہے؟

    ایس پی انویسٹی گیشنز فیصل آباد نے بتایا کہ توہین مذہب کاواقعہ صبح 5:15 بجے ہوا،مسلمان کمیونٹی نے اجلاس کر کے فیصلہ کیا کہ توہین مذہب پر کارروائی کریں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پولیس نے اپنی آنکھوں کے سامنے سب جلتادیکھا؟جڑانوالہ میں بہادر پولیس کھڑی تماشہ دیکھتی رہی۔

    چیف جسٹس نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا پاکستان میں پولیس صرف مسلمانوں کےتحفظ کیلئے ہے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کوئی قرآنی اوراق کی بےحرمتی کرےاوراپنا شناختی کارڈ رکھ دے؟ کیا آپ کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ سازش ہورہی ہے؟ کیا مسیحی برادری آپ کوعقل سےمحروم لگتی ہے جوثبوت بھی چھوڑے گی؟

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کتنے پولیس والوں کو فارغ کیا گیا؟ ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں کےخلاف انکوائری ہو رہی ہے، جڑانوالہ واقعے پر جے آئی ٹی بنائی گئی تھی۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ جے آئی ٹی کیابلا ہوتی ہے؟ جس کام کو پورا نہ کرنا ہو اس پر جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے، پولیس کابنیادی فرض عوام کا تحفظ کرنا ہے۔

  • حقائق اور قانون کیخلاف فیصلہ دینے والے جج کیلئے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، سپریم کورٹ

    حقائق اور قانون کیخلاف فیصلہ دینے والے جج کیلئے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ حقائق اورقانون کیخلاف فیصلہ دینے والے جج کیلئے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، ناقص تفتیش کی وجہ سے کئی گناہ گار بچ جاتے اور بے گناہوں کو سزا ہوجاتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اغوا برائے تاوان کے ملزمان کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

    8صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس جمال مندوخیل نے تحریر کیا، جس میں کہا ٓہے کہ ججز کی ذمہ داری ہے کہ ہر شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں، ججز بغیر کسی خوف، دباؤ اور ایمانداری سےآئین و قانون پر فیصلوں کے پابند ہیں، ججز کا کام مقدمے کے حقائق کے مطابق آئین اور قانون کا اطلاق ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ججز کو کھلے ذہن کے ساتھ مقدمات کی سماعت کرنی چاہیے، کسی جج کےکردارپرشک نہیں، غلط فیصلوں کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، حقائق اورقانون کیخلاف فیصلہ دینےوالےجج کیلئے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جج کو صحیح فیصلے تک پہنچنے کیلئے اپنے اختیارات اور اس کے استعمال کا علم ہونا چاہیے، ناقص تفتیش کی وجہ سے کئی گناہ گار بچ جاتے اور بے گناہوں کو سزا ہوجاتی ہے۔

    فیصلے کے مطابق ٹرائل کورٹ کی ذمہ داری ہے آرٹیکل 9 اور 10اے کے تحت شفاف ٹرائل یقینی بنائے، جرم ثابت نہ ہو رہا ہو تو ٹرائل کورٹ کسی بھی اسٹیج پر ملزم کو بری کر سکتی ہے،بیشتر مقدمات میں اصل ملزم ناقص تفتیش کی وجہ سے بری ہوجاتے ہیں۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ کہیں تفتیش ناقص ہوتی ہے تو کہیں گواہان کا عدم تعاون ملزمان کی بریت کی وجہ بنتاہے، گواہان کے تحفظ کیلئے کوئی مکینیزم نہ ہونا بھی عدم تعاون کی بڑی وجہ ہے،مدعی کی جانب سے ذاتی عناد پر زیادہ ملزمان کی نامزدگی بھی قصورواروں کو بچانے کا سبب ہوتی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ موجودہ مقدمہ میں ملزمان 7 سال جیل میں رہے، بری تو ہوگئے لیکن بروقت انصاف نہیں ملا، ملزمان کے 7 سال اور قانونی چارہ جوئی پر ہوئے اخراجات کےمداوے کا کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ سستا اور فوری انصاف ہر شہری کا آئینی حق ہے،ملک بھر میں ججز کی تمام خالی آسامیوں پر فوری بھرتیاں کی جائیں، حکومت کا فرض ہے کہ غیرضروری اور جھوٹے مقدمات کا اندراج روکے،یقینی بنایا جائے کہ جھوٹے مقدمات درج کرانے والے بچ نہ سکیں۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ بہاولنگر میں2007میں درج مقدمےمیں ٹرائل کورٹ نے2011میں سزائیں سنائیں، ہائیکورٹ نے 2015میں تمام افراد کو بری کیا تھا،سپریم کورٹ نےبریت کیخلاف اپیل گزشتہ سال خارج کی تھی۔

  • تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے، سپریم کورٹ

    تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس میں کہا کہ تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے، معاملہ صرف تنقید تک ہے تو کسی کیخلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے صحافیوں سے متعلق کیس کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا، اسد طور، مطیع اللہ جان، عمران شفقت اور عامر میر پر تشدد کیخلاف کارروائی پر رپورٹ طلب کرلی۔

    عدالت عظمی نے دریافت کیا ہے بتایا جائے مقدمات میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے؟ آگاہ کیا گیا ملزمان کا تعلق وفاقی حکومت کے ماتحت حساس ادارے سے ہے۔

    حکمنامے میں کہا گیا کہ تفتیشی افسر یقینی بنائے کہ صحافیوں کو ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز سے آگاہ کیا گیا، بتایا گیا کہ نوٹسز عدالت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر جاری کیے گئے ہیں۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ تنقید کرنا ہر شہری اور صحافی کا حق ہے، معاملہ صرف تنقید تک ہے تو کسی کیخلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔

    اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے تنقید پر کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروا دی، جس پر عدالت نے طلب کیے گئے صحافیوں کےخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا۔

    دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت نقصان پہنچایا ہے، تنقید ضرور کریں تضحیک عجیب بات ہے، بدقسمتی سے یوٹیوب پر دوسروں کو گالیاں دینا ذریعہ معاش بن گیا ہے۔

    عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو صحافیوں کیساتھ ملاقات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے صحافیوں کو ہراساں کرنے کےخلاف ازخودنوٹس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: سپریم کورٹ نے پرویز الہٰی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی

    الیکشن 2024 پاکستان: سپریم کورٹ نے پرویز الہٰی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی اور ان کا نام اورانتخابی نشان بیلٹ پیپرزمیں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پرویز الہٰی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی اور الیکشن ٹریبونل کا پرویزالٰہی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دی۔

    عدلات نے پرویزالہٰی کا نام اورانتخابی نشان بیلٹ پیپرزمیں شامل کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حکم جاری کیا ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ میں شامل تھے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا قانون میں کہاں لکھا ہے پانچ انتخابی حلقوں کیلئےپانچ الگ اکاؤنٹس کھولےجائیں؟ پرویزالٰہی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ پنجاب میں دس مرلہ پلاٹ کی ملکیت چھپائی، اعتراض کیا گیا بیس نومبردوہزار تیئس کودس مرلہ پلاٹ خریدا۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ میرے موکل نے ایسا پلاٹ کبھی خریدا ہی نہیں،اس وقت وہ جیل میں تھے ، دوسری دلیل یہ ہےاثاثے ظاہرکرنے کی آئندہ کٹ آف ڈیٹ تیس جون دو ہزار چوبیس ہے۔

    جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کی اس اندازمیں تشریح کرنی ہے تاکہ لوگ حق سےمحروم نہ ہوں

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ پلاٹ کی ملکیت سے انکار کررہے ہیں تو ٹھیک ہے، جس پر وکیل نے بتایا حیرت انگیز طور پر ایک ہی وقت میں پرویزالہٰی، مونس اورقیصرہ الہٰی کی ان ڈکلیئرڈ جائیدا دنکل آئی، آر او نے ہمیں فیصلہ بھی نہیں دیا کہ کہیں چیلنج نہ کرلیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ توخوش قسمت ہیں کہ اچانک آپ کی اضافی جائیدادنکل آئی، آپ یہ اضافی جائیداد کسی فلاحی ادارےکو دے دیں تو پرویزالٰہی کے وکیل نے کہا میں تو کہتاہوں حکومت کو اس جائیداد پر اعتراض ہے تو خود رکھ لے۔

  • الیکشن 2024 پاکستان : مفرور کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا، سپریم کورٹ کا حکم

    الیکشن 2024 پاکستان : مفرور کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا، سپریم کورٹ کا حکم

    اسلام آباد: پی ٹی آئی کے رہنما عمر اسلم اور پی ٹی آئی کے رہنما طاہر صادق کو انتخابات لڑنے کی اجازت مل گئی، عدالت نے ریمارکس دیئے مفرور کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما عمر اسلم کے نومئی کے مقدمات میں مفرور ہونے کی بنیاد پر کاغزات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔

    پی ٹی آئی رہنما عمر اسلم کے نومئی کے مقدمات میں مفرور ہونے کی بنیاد پر کاغزات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی،عدالت عظمی نے کہا مفرور ہونے کی بنیاد پر کسی کو انتخابات لڑنے سے نہیں روکا جا سکتا، الیکشن لڑنا بنیادی حق ہے۔

    سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما عمر اسلم کو انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی ،۔ 9مئی مقدمات میں مفرور ہونے پرعمراسلم کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے تھے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا مفرور شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا بتا دیں کہاں لکھا ہے، بغیر قانون کسی کو بنیادی حق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن لڑنا بنیادی حق ہے الیکشن کون لڑے گا کون نہیں فیصلہ عوام نے کرنا ہے الیکشن کمیشن نے نہیں ملک کی عوام کو فیصلہ کرنے دیں، ہماری سامنے آنے والے در خواست گزار کی اہمیت نہیں عوام کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں احتساب عوام نے کرنا ہے الیکشن کمیشن نے نہیں۔

    وکیل مخالف فریق نے کہا عمر اسلم سکروٹنی کے وقت بھی موجود نہیں تھے، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا بیلٹ پیپرز کاکام مکمل ہو چکا ہے تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عدالتی فیصلے ہر عمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما اسلم این اے 87 خوشاب سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

    دوسری جانب سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے رہنما طاہر صادق کو انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی ،جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنچ نے سماعت کی۔

    طاہر صادق نے این اے 49 اٹک سے کاغذات نامزدگی جمع کرارکھے ہیں، طاہر صادق نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، لاہور ہائیکورٹ طاہر صادق کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے تھے