Tag: سپریم کورٹ

  • الیکشن 2024 پاکستان : صنم جاوید کا الیکشن میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

    الیکشن 2024 پاکستان : صنم جاوید کا الیکشن میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کارکن صنم جاوید نے الیکشن میں حصہ لینے کیلئےسپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کی کارکن صنم جاوید نے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔

    صنم جاوید نےکاغذات مسترد ہونےکیخلاف اپیلیں دائرکر دیں ، صنم جاوید کے این اے 119، این اے 120 اور پی پی 150 سے کاغذات مسترد ہوئے تھے۔

    دوسری جانب این اے 163 سے شوکت بسرا نے بھی اپیل دائرکر دی ، اپیلوں میں ٹریبونلز کے فیصلے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہیں۔

  • الیکشن 2024 پاکستان : پرویز الٰہی کا عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

    الیکشن 2024 پاکستان : پرویز الٰہی کا عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

    اسلام آباد : سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی نے عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویزالٰہی نے عام انتخابات میں حصہ لینےکیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔.

    درخواست میں الیکشن کمیشن،الیکشن ٹربیونل کوفریق بنایاگیا ہے اور استدعا کی گئی کہ لاہورہائیکورٹ کا 13 جنوری 2024کافیصلہ کالعدم قراردیا جائے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ امیدوار محمد سلیم کے اعتراضات کی بنیاد پر میرے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے، مجھ پر اعتراض اٹھایا گیا آٹا ملز میں میرے شیئر ہیں۔

    درخواست میں کہنا تھا کہ جن فلورملزکاالزام لگایاگیاوہ ناصرف غیرفعال ہےبلکہ بینک اکاؤنٹ بھی نہیں کھولاگیا، اس فلور مل کے شیئر میں نے کبھی نہیں خریدے،غیر فعال فلور مل اثاثہ نہیں ہوتی،اس فلور مل کی بنیاد پر مجھے الیکشن لڑنے سے روکا نہیں جا سکتا۔

    پرویز الہی نے کہا کہ یہ اصول طے شدہ ہے کہ ہر ظاہر نہ کرنے والے اثاثے پر نااہلی نہیں ہو سکتی،کسی اثاثے کو ظاہر نہ کرنے کے پیچھے اس کی نیت کا جانچنا ضروری ہے،جو شیئر میرے ساتھ منسوب کیے جا رہے ہیں ان کی کل مالیت 24850روپے بنتی ہے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ میں نے اپنے کل اثاثے 175 ملین روپے ظاہر کیے ہوئے ہیں، ان اثاثوں میں 57 ملین روپے سے زائد نقد رقم بھی ظاہر کی گئی ہے، میرے لیے اتنے معمولی شیئر نہ ظاہر کرنا بدنیتی قرار نہیں دی جا سکتی۔

    دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ اعتراض بھی لگایا گیا کہ میں نے اسلحہ کے 7 لائسنس ظاہر نہیں کیے، کاغذات نامزدگی میں اسلحہ لائسنس ظاہر کرنے کا کوئی کالم ہی نہیں ہے۔

  • سپریم کورٹ نے صحافیوں کو عدالت کے احاطے میں ویڈیو ریکارڈنگ سے روک دیا

    سپریم کورٹ نے صحافیوں کو عدالت کے احاطے میں ویڈیو ریکارڈنگ سے روک دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عدالت کے اندر میڈیا کوریج کے لیے سخت ہدایات جاری کرتے ہوئے صحافیوں کو عدالت کے احاطے میں ویڈیو ریکارڈنگ سے روک دیا ۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں داخلے کے لیے صحافیوں کو نیا ہدایت نامہ جاری کردیا ، جس میں کہا ہے کہ صحافی صرف میڈیا ہاؤسز کے کارڈ دکھا کرانٹری گیٹ سے داخل ہوسکتے ہیں۔

    ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بلڈنگ میں ویڈیو بنانے یا یوٹیوب پروگرام ریکارڈ کرنا منع ہے، اہم کیس کی سماعت پر کورٹ روم میں ہر چینل کے صرف ایک رپورٹرکی اجازت ہوگی، باقی رپورٹرز کے لیے کسی اور کورٹ روم میں آڈیو لنک فراہم کیا جائےگا۔

    صدر پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ طیب بلوچ نے میڈیا کارڈ پر داخلے کیلئے رجسٹرارکو خط لکھا تھا۔

  • آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے، سپریم کورٹ

    آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے، سپریم کورٹ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے سہ ماہی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 19 اے کے تحت پہلی بار سہ ماہی رپورٹ جاری کررہا ہے جبکہ عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔

    سپریم کورٹ کے ترجمان نے بتایا کہ سہ ماہی رپورٹ ستمبر سے دسمبر 2023 تک کی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی 16 ستمبر سے دسمبر تک کی کارکردگی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔

    عدالتی سہ ماہی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے 3 ماہ کے دوران 859 کیسز نمٹائے ہیں۔

    سہ ماہی رپورٹ کے مطابق 17 ستمبر 2023 کو زیرالتوا کیسزکی تعداد 56 ہزار 503 تھی۔ 16 دسمبر 2023 کو زیرالتوا کیسز کی تعداد 55 ہزار 644 رہ گئی۔

  • پاکستان سے کلاشنکوف کلچر کوختم کرنا ہوگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی

    پاکستان سے کلاشنکوف کلچر کوختم کرنا ہوگا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں اسلحہ چوری کیس کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ پاکستان سے کلاشنکوف کلچر کوختم کرنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسلحہ چوری کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے پاکستان سے کلاشنکوف کلچر کوختم کرناہوگا، جس کے گھر سے اسلحہ چوری ہوا پولیس نے لائسنس تک کا نہیں پوچھا، مالک خوداقرار جرم کررہا ہے، 2کلاشنکوف، 2کالا کوف ،پستول سمیت دیگر قیمتی چیزیں چوری ہوئیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے بھی آفر کی جاتی رہی کہ آپ کلاشنکوف کا لائسنس لیں، منشیات اور کلاشنکوف نے پاکستان کو تباہ کردیا،اس طرح کالے شیشے لگا کر بڑی گاڑیوں میں کلاشنکوف لیکر دنیا میں کوئی نہیں گھومتا۔

    چیف جسٹس نے درخواست گزار سے مکالمے میں استفسار کیا آپ کے پاس کلاشنکوف کہاں سے آیا؟ آئی جی ایسے کلاشنکوف کے کاغذ دےرہے ہی توکیوں نہ کارروائی ہونی چاہیے؟

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ سیکرٹری داخلہ کو لکھ دیتے ہیں تمام کلاشنکوف اور ان کے لائسنس واپس کریں، اسکول اور بازار جاؤ تو لوگ کلاشنکوف لیکر کھڑے نظر آتے ہیں، ڈرتے ہیں تو گھروں میں رہیں یا باہر اس لئے نکلتے ہیں کہ لوگوں کو ڈریا جائے۔

    اسلام آباد میں کلاشنکوف لیکر گھروں کے باہر گارڈ کھڑے ہیں، کالے شیشے کیساتھ لوگ کلاشنکوف لیکر جاتے ہیں پولیس کی پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی، کیسے پتہ ہوگا کلاشنکوف والےدہشت گرد تھے یا کوئی اور تھے۔

    چوری شدہ اسلحے کا لائسنس انکوائری میں نہ پوچھنے پر چیف جسٹس نے کے پی پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بغیر لایسنس اسلحہ رکھناجرم ہے اورپولیس نے انکوائری میں مالک سے پوچھا تک نہیں۔

    سپریم کورٹ نے چوری پر نامزد ملزم کی 50ہزار روپے مچلکوں پرضمانت منظورکرلی اور متعلقہ حکام سے ممنوعہ اسلحے کے جاری لائسنس کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلیں۔

    سپریم کورٹ نےسیکرٹری داخلہ، صوبائی سیکریٹریز،پولیس آئی جیز کو نوٹس جاری کردیا اور اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے حکمنامےکی کاپی بھجوانے کی ہدایت کردی۔

  • 10 تولے سونے پر ساس بہو کی لڑائی کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

    10 تولے سونے پر ساس بہو کی لڑائی کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 10 تولہ سونا نہ دینے سے متعلق ساس کی اپیل خارج کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ساس بہوکی لڑائی کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اس کیس میں دونوں اطراف خواتین کیوں ہے؟ ساس کااس کیس سےکیاتعلق ؟ وکیل ذوالفقار نقوی نے بتایا کہ یہ جھگڑاساس اوربہوکےدرمیان ہی ہے، تنازع بھی 10 تولے سونے کا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کیابہوکوطلاق ہو چکی ہے؟ وکیل ساس ذوالفقارنقوی کا کہنا تھا کہ جی طلاق ہو چکی اور3بچےبھی ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا حق مہرکتناتھا؟ تو وکیل نے جواب دیا 2 ہزارروپے حق مہر تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 3بچوں کی ماں کو 10 تولہ سونے دینے میں کیا مسئلہ ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 10تولہ سونانہ دینےسےمتعلق ساس کی اپیل خارج کردی۔

    10تولے دینے کے ہائیکورٹ کےحکم کیخلاف سپریم کورٹ سےرجوع کیا گیا تھا۔

  • میاں بیوی میں ہم آہنگی اور خوشی نہ ہو تو اسلام علیحدگی کی اجازت دیتا ہے، سپریم کورٹ

    میاں بیوی میں ہم آہنگی اور خوشی نہ ہو تو اسلام علیحدگی کی اجازت دیتا ہے، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے شادی اور پھر خلع لینے کے کیس کے فیصلے میں کہا کہ اسلام عورت کو خلع کا حق دیتا ہے، میاں بیوی میں ہم آہنگی اور خوشی نہ ہو تو اسلام علیحدگی کی اجازت دیتاہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں شادی اور پھر خلع لینے کے کیس میں سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے 7صفحات پرمشتمل فیصلہ تحریر کیا، جس میں سپریم کورٹ نے خلع کیخلاف پاکستانی شہری کی اپیل خارج کردی۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ ثمرینا رشیدامریکاکیساتھ پاکستانی شہریت بھی رکھتی ہیں، درخواست گزار نےامریکامیں نکاح کی پاکستان میں منسوخی چیلنج کی۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام عورت کو خلع کا حق دیتا ہے،میاں بیوی میں ہم آہنگی اور خوشی نہ ہو تو اسلام علیحدگی کی اجازت دیتاہے، خلع کےباوجودغیر ضروری طور پرسابق اہلیہ کو قانونی چارہ جوئی میں گھسیٹاگیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کےمطابق خلع کےبعدخاتون نے امریکامیں دوسری شادی کرلی،درخواست گزار نے بھی پاکستان میں دوسری شادی کرنے کی کوشش کی،سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔

    درخواست گزار سہیل احمد نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

  • پی ٹی آئی نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے الیکشن کمیشن کیخلاف توہین عدالت کی درخواست واپس لے لی

    پی ٹی آئی نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے الیکشن کمیشن کیخلاف توہین عدالت کی درخواست واپس لے لی

    اسلام آباد : تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر الیکشن کمیشن کیخلاف توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ سے واپس لے لی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    سماعت میں پی ٹی آئی نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر الیکشن کمیشن کیخلاف توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ سے واپس لے لی۔

    وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جمہوریت اور عوام کی بقاکیلئے عوام کی عدالت جانا چاہتے ہیں، آپ کی بہت مہربانی بہت شکریہ، جس پر چیف جسٹس پاکستان استفسار کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟

    وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا مجھے ہدایات ملی ہیں درخواست واپس لےلی جائے، ہم 25 کروڑ عوام کی عدالت میں جانا چاہتے ہیں، ہم آپ کےشفاف انتخابات اورلیول پلیئنگ فیلڈکیلئےآئے تھے، آپ کے فیصلے سے ہماری 230 نشستیں چھین لی گئیں، کسی کو ڈونگا،کسی کو گلاس دے دیا گیا.

    چیف جسٹس پاکستان نے لطیف کھوسہ سے مکالمے میں کہا کہ ہمارا فیصلہ ماننا ہےنہیں ماننا تو یہ آپ کی مرضی ہے تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم اب کیا توقع کریں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی.

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ نے عدالتی فیصلہ تسلیم کرنا ہے کریں نہیں کرنا نہ کریں تو لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ نے تو پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی،تحریک انصاف کا شیرازہ ہی بکھیر دیا گیا ہے،الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے،ایک جماعت کو پارلیمان سے باہر کرکے بین کیا جا رہا ہے،پی ٹی آئی امیدوار آزاد انتخابات لڑیں گےاورکنفیوژن کاشکار ہوں گے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے انتخابات شفاف نہیں ہیں؟ وکیل تحریک انصاف نے جواب دیا کہ انتخابات بالکل غیرمنصفانہ ہیں، ہم نے عدلیہ کےلئے خون دیا، قربانیاں دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ ہمیں بھی بولنےکی اجازت دیں، دوسرے کیس کی بات اس کیس میں کرنامناسب نہیں۔

    وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے فیصلے سےجمہوریت تباہ ہو جائے گی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بار بار کہا تھا دکھا دیں انٹراپارٹی انتخابات کاہونادکھادیں، آپ کو فیصلہ پسندنہیں تو کچھ نہیں کر سکتے، لیول پلیئنگ فیلڈ پر ہم نے حکم جاری کیا تھا، عدالت حکم دےسکتی ہے حکومت نہیں بن سکتی۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیرسٹر گوہر کے گھر پر چھاپے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے معاملے پر پولیس اہلکار معطل ہوگئے، بیرسٹر گوہر کا کوئی ایسا رہ گیا ہے توعدالت آپ کر بتائیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمارا کام انتخابات قانون کے مطابق کرانا ہے،الیکشن کا معاملہ ہم نے اٹھایا، پی ٹی آئی درخواست پر 12دن میں تاریخ مقررکی، الیکشن کمیشن کہتا رہا پارٹی انتخابات کرائیں لیکن نہیں کرائےگئے، کسی اور سیاسی جماعت پراعتراض ہے تو درخواست لے آئیں۔

    لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جس جماعت سے اتحاد کیا اس کے سربراہ کو اٹھا لیا ،پریس کانفرنس کرائی گئی، اتحاد کرنے پر بھی اب ہم پر مقدمات بنانےکی تیاریاں کی جارہی ہیں، آپ کے فیصلے سے ہمیں پارلیمانی سیاست سے نکال دیا گیا، آپ کے فیصلےکے بعد تحریک انصاف کے لوگ آزاد انتخابات کریں گے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل پی ٹی آئی سے استفسار کیا آپ بتا رہے تھے آپ نے کسی جماعت سے اتحاد کیا ہے،لطف کھوسہ نے جواب دیا میں وہی تو بتا رہا ہوں کہ ہمیں اتحاد بھی نہیں کرنےدیا گیا، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ الیکشن کمیشن فیئر نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک پارٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے، اسے دوسری سیاسی جماعتیں نظر نہیں آتیں ؟

  • بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق پولنگ مٹیریل عدالت میں  پیش کردیا

    بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق پولنگ مٹیریل عدالت میں پیش کردیا

    اسلام آباد : بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سےمتعلق پولنگ مٹیریل پیش کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ بلا مقابلہ بھی ہو تو بھی ووٹ ڈالنا پڑتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    وکیل پی ٹی آئی بیرسٹرعلی ظفر نے سماعت کے وقفے کے بعد دلائل میں کہا کہ انٹراپارٹی الیکشن میں نامزدگی فارم ایک ہی سائیڈکی جانب سے جمع کرائے گئے، انٹراپارٹی الیکشن میں کوئی مدمقابل پینل ہی نہیں تھا، اسلام آباد میں انٹراپارٹی الیکشن کیلئے کوئی جگہ دینے کو تیارنہیں تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کو دلائل کیلئےکتنا وقت درکار ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرلوں، کاغذات نامزدگی جمع ہوناپہلا اور انتخابات کامقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جہاں الیکشن ہوا کیا وہاں آپ کا دفتر ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ جس گراؤنڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کے ساتھ ہے، الیکشن کمیشن نےآئی جی کےپی کو پشاور میں سیکیورٹی فراہمی کیلئے خط لکھا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق تمام اخبا رات نے شائع کیا،عوام آگاہ تھے، پولیس کوالیکشن کے مقام سےمتعلق آگاہ کردیاگیاتھا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ اکبرایس بابرجس وقت آئےاس وقت تک نامزدگی فارم جمع کرانےکاوقت ختم ہوگیاتھا، وقت 3 بجے کا تھا مگر پھر بھی اکبر ایس بابر کو آفس آنے کی اجازت دی گئی، اگر اکبر ایس بابر کا پینل ہوتا تو انٹرا پارٹی الیکشن لڑ سکتے تھے، آج تک اکبرایس بابرنےاپناپینل نہیں دیا، ابھی بھی نہیں بتایاکہ میرایہ پینل تھااورمیں الیکشن لڑناچاہتاتھا، اگراکبرایس بابرکےپاس اپناپینل ہوتاتوہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ایک شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا،کہیں لکھا ہوا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ایک شخص انٹراپارٹی الیکشن نہیں لڑ سکتا، چیف جسٹس نے مزید پوچھا چیئرمین کے انتخابات کیلئے بھی پینل ہونا لازمی ہے؟ چیئرمین کا الیکشن کہاں ہوا تھا، جس پربیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ چیئرمین کیلئے پینل کا ہونا لازمی نہیں،وہ اکیلئے لڑ سکتا ہے، پارٹی چیئرمین کا الیکشن بھی پشاور میں ہوا تھا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں کیا وہ بتائی گئیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کر دیا تھا، میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہم کر دی تھی، جو پینل سامنے آئے انکی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں،اکبرایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑناچاہتےتھے۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے سینیٹرکاانتخاب بھی اِن ڈائریکٹ ہوتاہے،مطلوبہ ووٹ حاصل کرنےہوتےہیں، اگرآپ کوایک ووٹ بھی نہ پڑےتوآپ سینیٹرنہیں بن سکتےتھے، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ میں ٹیکنوکریٹ نشست پر بلامقابلہ سینیٹ رکن منتخب ہواتھا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سےمتعلق پولنگ مٹیریل پیش کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ بلا مقابلہ بھی ہو تو بھی ووٹ ڈالنا پڑتا ہے،آپ ڈکٹیٹرشپ کی طرف جا رہے ہیں ایک آدمی کہہ دے یہ پینل وہ پینل، یہ جمہوریت تو نہ ہوئی، سیکرٹری جنرل بھی ایسے ہی آ گئے، چیئرمین بھی ایسے ہی آ گئے، بورڈ بھی ایسے ہی آ گیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ الیکشن ہے یا سلیکشن یا کیا ہے ؟ آپ کیوں نہیں الیکشن کرواتے، مسئلہ کیا تھا؟ بڑی بڑی ہستیاں توبلا مقابلہ آجاتی ہیں لیکن آپ کےتوچھوٹےسےچھوٹاعہدیداربھی بلا مقابلہ منتخب ہوا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ن لیگ میں نواز شریف اور مریم نواز بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ اے این پی کو بھی کوئی 20 ہزار کا جرمانہ ہوا ہے، وکیل نے بتایا کہ جی آج ہی فیصلہ آیا ہے 20 ہزار جرمانہ کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ پارٹی انتخابات کروائیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ لیکن آپ کا مسئلہ تو کافی پرانا چل رہا ہے، اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، چیئرمین، سیکرٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا آخر مسئلہ کیا تھا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں ن لیگ کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا اور کہا ن لیگ میں بھی سب بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتےرہتےہیں، اس پرتبصرہ نہیں کریں گے۔

    علی ظفر کا کہنا تھا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، اے این پی کو 20ہزارروپے جرمانہ کرکے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہوں گے؟ علی ظفر نے کہا کہ آپ اختلافی نقطہ نظر بھی سنتے ہیں جو اچھی بات ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ ہمیشہ پیشہ ورانہ انداز میں دلائل دیتے ہیں، بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کرینگے، آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہوسکتا ہے کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں۔

  • آپ کہتے ہیں اسٹیبشلمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، چیف جسٹس کا وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ

    آپ کہتے ہیں اسٹیبشلمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، چیف جسٹس کا وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتےہیں اسٹیبشلمنٹ کاالیکشن کمیشن پردباؤہےتواسکوثابت کریں، جب بدنیتی کاالزام لگاتے ہیں توبتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتےہیں اسٹیبشلمنٹ کاالیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اصل نام فوج ہے، اسٹیبشلمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالے گی؟

    چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ عدالت آئینی اداروں کوکنٹرول تو نہیں کرسکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں توبتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے، یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی اورجماعت میں کوئی ایک کاغذا کا ٹکڑا پیش کر دے اور دوسرا کوئی اور تو فیصلہ کون کرے گا؟ تو وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ اس کافیصلہ سول کورٹ کرےگی، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سول کورٹ اس کا فیصلہ کیوں کرے گی۔

    وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کیوں کہ پارٹی ممبران کاآپس میں تنازع ہوگا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سول کورٹ کہےیہ میرا نہیں الیکشن کمیشن کا کام ہے، علی ظفر نے کہا کہ اِس معاملے میں الیکشن کمیشن کادائرہ کار نہیں ہوگا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہاں سے یہ بات کررہے ہیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا میں آپ کوقانون پڑھ کرسناتاہوں، الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے تو جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔

    چیف جسٹس کے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ یا آپ تسلیم کر لیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟یا تو کہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، آپ کو سیاست چاہئے جمہوریت نہیں چاہئے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے، ہمارےسامنےانتخابی نشان کیس نہیں پشاورہائیکورٹ فیصلہ دیکھ رہےہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےانتخابی نشان واپس نہیں لیا، الیکشن کمیشن کاپہلےخط پڑھیں،انہوں نے کہا انٹراپارٹی الیکشن کرائیں، الیکشن کمیشن نے دھمکی بھی دی انٹرپارٹی الیکشن نہیں کرائیں گےتونشان لے لیں گے۔

    جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سوال یہ ہےکیا الیکشن نہ کر انےپرکیاالیکشن کمیشن پارٹی نشان واپس لےسکتاہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ لوگوں نےالیکشن کمیشن کےخط کوقبول کیاہے، انٹراپارٹی الیکشن ہوگئے توانتخابی نشان خودبخودمل جائےگا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ آپ کی حکومت تھی جب الیکشن کمیشن نےخط لکھاتھا، پی ٹی آئی نےاس وقت انٹرپارٹی الیکشن نہیں کرائے، پی ٹی آئی نےکوروناکی وجہ سےایک سال کی مہلت مانگی ،یہ نہیں کہاالیکشن کمیشن کون ہےنشان واپس لینے والا، الیکشن کمیشن نے بتایا 13جماعتوں کوانٹراپارٹی الیکشن نہ کرانےپرڈی لسٹ کرچکےہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے یا تو کہہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے مانے نہیں۔

    چیف جسٹس نےوکیل پی ٹی آئی سے سوال کیا کہ 14درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا ، وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو سیاست چاہئے جمہوریت نہیں چاہئے، سیاست تو ہے ہی جمہوریت، آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوادیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا، بلا مقابلہ ہے تو قانونی ہی لیکن عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے، یعنی پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ کھیلے بغیر سرٹیفکیٹ آگیا کہ پاکستان جیت گیا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہونگے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں اور استفسار کیا کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دیدے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟

    وکیل علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ،انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتاہے،جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی اسٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔