Tag: سپریم کورٹ

  • آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اور کہیں الیکشن ہوگئے، چیف جسٹس کے پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں ریمارکس

    آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اور کہیں الیکشن ہوگئے، چیف جسٹس کے پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں ریمارکس

    اسلام آباد : پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ  نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اورکہیں الیکشن ہوگئے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل
    ہیں۔

    پی ٹی آئی کے وکیل حامد علی خان اور علی ظفرروسٹرم پر آئے، بیرسٹر علی ظفر نے دلائک دیتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین اورقانون الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی ا سکروٹنی کا اختیار نہیں دیتا، الیکشن کمیشن پارٹی انتخابات بے ضابطگی کے الزام پر انتخابی نشان واپس نہیں لے سکتا، بیرسٹر علی ظفر

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 17 کی تشریح کی ہے، ایک نشان پر انتخاب لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی جماعت اور عوام کے بنیادی حق کی نفی کرنا ہے۔

    علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے، آرٹیکل 17 (2) سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 (2) کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، میری ایک گزارش ایک سیاسی پارٹی کے بنیادی حقوق سے متعلق بھی ہے۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےتفریق کامظاہرہ کیااورآرٹیکل25کی نفی کی،پی ٹی آئی کےکسی بھی ممبرنےالیکشن کوچیلنج نہیں کیا، الیکشن کمیشن کےپاس سوموٹوکااختیارنہیں کہ شکایت کنندہ بھی بنے اور جج بھی۔

    بیرسٹر علی ظفر نےکہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ، پی ٹی آئی نے پہلے2022 میں انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لئے عملدرآمد کیا۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، 2دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، پی ٹی آئی کے کسی بھی ممبرنےالیکشن کوچیلنج نہیں کیا، اگرانٹراپارٹی انتخابات چیلنج بھی ہوتےتویہ سول کورٹ کاکیس بنتا۔

    علی ظفر نے مزید کہا کہ 14افرادجن کادعویٰ تھا وہ پی ٹی آئی ممبران ہیں انہوں نےالیکشن کمیشن میں درخواستیں دائرکیں، استدعاکی گئی پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کوکالعدم قراردےکردوبارہ انتخابات کاحکم دیاجائے، اس دوران الیکشن کمیشن نےبھی ساتھ ساتھ تکنیکی نقطے اٹھانےشروع کردیے،الیکشن کمیشن کی جانب سےدستخط اورتاریخوں سےمتعلق اعتراض اٹھائےگئے۔

    وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نےان 14افرادکی درخواستوں کی بنیادپی ٹی آئی کونوٹس بھیجا، سماعت ہوئی جس میں ہمارابنیادی موقف یہ تھا کہ یہ تمام 14 افراد پارٹی ممبران نہیں، ہم نےزبانی طورپران 14افرادکےبارےمیں اپناموقف دیا، سماعت ختم ہوئی توالیکشن کمیشن نے32سوالات ہمیں تھمادیے جن کاہم نےتحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی اور کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کرینگے نہ ہی نشان دیں گے۔

    وکیل نے گذشتہ سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نقطہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن انکی رکنیت توتھی،صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبرایس بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں،الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرینگے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے، کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈدینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔

    جس پر وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے،مخدوم علی خان کا نقطہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا، انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے،آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، آپ یہ نہیں کرسکتےکہ کاغذکاٹکڑاپیش کریں اورکہیں الیکشن ہوگئے، آپ کم سےکم انٹراپارٹی الیکشن کی موٹی موٹی باتیں دکھادیں،کچھ توپیش کریں ، آپ دکھادیں کہ ہم نےانٹراپارٹی الیکشن میں سب کوموقع دیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کاالزام ہےپی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کاغذاکاٹکڑاہے، آپ نےنہیں بتایاکہ انٹراپارٹی الیکشن کہاں ہورہے ہیں، آپ نے پشاور کا توالیکشن کا ذکر کیا مگرالیکشن کہیں اورچمکنی میں کرادیے، انٹراپارٹی الیکشن چمکنی میں ہوئے جو پشاور نہیں کوئی اور جگہ ہے۔

    جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے جن بےضابطگیوں کی نشاندہی کی وہ پی ٹی آئی آئین سے ہی کی ہیں تو علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول اور مقام پر کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں، اکبر ایک بابر کو الیکشن لڑنے دیتے سپورٹ نہ ہوتی تو ہار جاتے، پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں،کل وہ باہر آ کر کہہ دیں کہ یہ عہدیدار کون ہیں تو کیا ہوگا؟ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے 8 لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ؟

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جن ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اسکی نشاندہی کر رہا ہوں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیاد نقطہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اگر وہ ہی نہ ہوا تو باقی چیزیں خود ختم ہو جائیں گی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر انتخابات باقاعدہ طریقےکار سےکرائےہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے، انٹرا پارٹی انتخابات کی پیچیدگیوں میں نہ جائیں، بس اتنا بتا دیں کیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں تمام اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں۔

    چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں۔

  • پی ٹی آئی کے پاس "بلے کا نشان ” رہے گا یا نہیں؟ فیصلہ آج متوقع

    پی ٹی آئی کے پاس "بلے کا نشان ” رہے گا یا نہیں؟ فیصلہ آج متوقع

    اسلام آباد: تحریک انصاف کو بلے کی واپسی کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر فیصلہ آج متوقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کو بلے کی واپسی کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت آج پھر ہوگی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کرے گا، جس میں تحریک انصاف کو بلے کی واپسی کے فیصلے کیخلاف اپیل پر آج فیصلے کا امکان ہے۔

    گذشتہ روز سماعت میں چیف جسٹس نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کے مقام سے متعلق سوال اٹھایا کہ پشاور میں کس جگہ انٹراپارٹی الیکشن ہوا، ریکارڈپر تو کچھ نہیں، پارٹی ارکان کو کیسےمعلوم ہواکہ ووٹ ڈالنےکہاں جانا ہے؟ جس پر حامد خان نے جواب دیا چمکنی میں ہوئے تو جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا گم نام گاؤں میں انتخابات کیوں کرائے؟

    نیازاللہ نیازی نے کہا واٹس ایپ پر لوگوں کو بتایا تھا اور لوگ پہنچے بھی تھے، ویڈیو موجود ہے، عدالت میں چلالیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا ویڈیوز باہر جا کر چلالیں ہم دستاویزپر کیس چلاتے ہیں۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیرسٹر گوہر علی خان سے استفسار کیا تھا کہ آپ کا معاملہ لاہورہائیکورٹ میں تھا تو پشاورہائیکورٹ کیوں گئے؟ بیرسٹر گوہر علی خان نے بتایا ہم فورم شاپنگ کرنے نہیں گئے تھے، پشاورمیں الیکشن ہوئے اس لیے وہاں گئے۔

    چیف جسٹس نے پوچھا آپ کس حیثیت میں دلائل دے رہے ہیں تو چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرکا کہنا تھا کہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حامد خان سینئر وکیل ہیں انہیں بات کرنے دیں۔

    حامد خان نے عدالت کو بتایا تھا آپ کے سامنے کیس ہے کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جارہی، ہمارے ساتھ جو ہورہا ہے آپ کو معلوم ہے، لاہور اور اسلام آباد میں سیکیورٹی فراہم نہیں کی جارہی، اس لئے پارٹی نے فیصلہ کیا کہ پارٹی الیکشن پشاور میں کرائیں

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ سیکیورٹی مانگ لیتے ہائیکورٹ نہیں دیتی تو ہم دے دیتے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا انتخابی نشان بنتا ہے تو آپ کو فوراً مل جائے، آپ تو کیس میں وقت مانگ رہے ہیں جبکہ وقت کا ہی تو مسئلہ ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ لاہورہائیکورٹ جاچکے تو پھر پشاور ہائیکورٹ کیوں گئے، یا تو آپ اسلام آبادکی ہائیکورٹ جاتے جہاں الیکشن کمیشن موجود ہے، یقیناً آپ کیخلاف بہت سی چیزیں ہوں گی مگر عدالت آئیں گے تو ہم دیکھیں گے نا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا لاہور ہائی کورٹ میں زیرالتوادرخواست کیا واپس لے لی ہے تو حامد خان نے بتایا درخواست غیر موثر ہونے سے آگاہ کر دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا درخواست واپس نہ لے کر آپ نے اپنے پیر پر کلہاڑی ماری ہے۔

    بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی عہدے کیلئے نااہل کرنے کیلئے کیس چلایا، پارٹی انتخابات اور چیئرمین پی ٹی آئی نااہلی کیسزایک ساتھ چلانےکی درخواست کی تھی، پارٹی انتخابات کی حد تک لاہور ہائیکورٹ والا کیس غیرموثر ہوچکا ہے۔

    الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت صبح 10 بجے تک ملتوی کردی گئی تھی۔

  • سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے استعفیٰ دے دیا

    سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے استعفیٰ دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر  نقوی نے استعفیٰ دیدیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا دیا۔

    جسٹس مظاہر علی اکبر  نقوی نے کہا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا جج رہا، میرے لئے عہدے پر کام جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیر سماعت ہے، جس میں ان پر اثاثوں سے متعلق الزامات تھے، اس کے علاوہ ان کی ایک مبینہ آڈیو بھی سامنے آئی تھی۔

  • پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے بلے کے نشان سے متعلق درخواست واپس لے لی

    پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے بلے کے نشان سے متعلق درخواست واپس لے لی

    اسلام آباد: پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے بلے کے نشان سے متعلق درخواست واپس لے لی ، جس کی بنیاد پر درخواست خارج کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی نشان بلے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمدعلی مظہراورجسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    بیرسٹر گوہر نے کہا ہم یہ درخواست واپس لیناچاہتےہیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیرسٹر گوہر سے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں؟ بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ میں درخواست گزار کا وکیل ہوں۔

    چیف جسٹس نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حامد خان صاحب آپ نےپرسوں کہاتھا آپ وکیل ہیں تو حامد خان نے بتایا کہ ہمارا کیس اس وقت پشاور ہائیکورٹ میں ہے۔

    چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا آپ کھڑےنہیں ہوئے،یہ بتائیں اس کیس میں آپ وکیل نہیں؟جس پر حامدخان کا کہنا تھا کہ نہیں میں اس کیس میں وکیل نہیں ہوں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ کل کو کوئی آکر یہ دعویٰ کردے کہ ہم نے درخواست واپس نہیں کی تھی تو پھر؟علی ظفر کہاں ہیں انہیں تو اعتراض نہیں درخواست واپس لینے پر؟ حامد خان نے جواب دیا کہ نہیں انہیں اعتراض نہیں ، وہ اس وقت پشاور ہائیکورٹ ہیں میں۔

    سپریم کورٹ نے انتخابی نشان سے متعلق تحریک انصاف کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔

    خیال رہے سپریم کورٹ میں لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت میں حامدخان نے بلے کے نشان سے متعلق درخواست سماعت کیلئے مقررکرنے کی استدعا کی تھی۔

    جس کے بعد سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی بلے کے نشان کی بحالی کیلئے درخواست کو دس جنوری کو مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔

    یاد رہے پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کےخلاف رجوع کر رکھا ہے، درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے جج نےقانون کی غلط تشریح کی جس کےباعث ناانصافی ہوئی، 26 دسمبر 2023 کو عارضی ریلیف دیا گیا تھا، عارضی ریلیف سے قبل فریقین کو نوٹس دیا جانا ضروری نہیں۔

    درخواست میں کہنا تھا کہ ناقابل تلافی نقصان کے خدشات کے تحت عبوری ریلیف دیا جاتا ہے، پشاور ہائیکورٹ کو بتایا کہ بلے کا نشان نہ ملنے سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

  • آج واقعی میرے لیے نیا سال ہے: سپریم کورٹ کے فیصلے پر بلقیس بانو جذباتی ہوگئیں

    آج واقعی میرے لیے نیا سال ہے: سپریم کورٹ کے فیصلے پر بلقیس بانو جذباتی ہوگئیں

    بھارتی سپریم کورٹ نے بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری معاملہ کے 11 قصورواروں کی رِہائی کالعدم قرار دیا ہے جس پر بلقیس بانو کا رد عمل سامنے آیا ہے۔

    بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بلقیس بانو نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ آج واقعی میرے لیے نیا سال ہے، میں آج خوشی سے روئی ہوں، میں ڈیڑھ سال میں پہلی بار مسکرائی ہوں۔

    بلقیس بانو نے کہا کہ میں نے اپنے بچوں کو گلے لگایا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے پہاڑ جتنا بڑا پتھر میرے سینے سے ہٹ گیا ہے اور میں پھر سے سانس لے سکتی ہوں۔

    بلقیس بانو اجتماعی زیادتی کیس کے مجرمان کی قبل از وقت رہائی سے متعلق عدالتی فیصلہ آگیا

    سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اطمینان کا اظہارِ کرتے ہوئے بلقیس بانو نے کہا کہ انصاف ایسا ہی ہوتا ہے، سبھی کے لیے یکساں انصاف ہونے  پر بھارت  کے عزت مآب سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔

    بلقیس بانو کا کہنا تھا کہ اس طرح کا سفر کبھی بھی تنہا طے نہیں کیا جا سکتا، میرے شوہر اور بچوں نے میرا ساتھ دیا، میرے پاس ایسے دوست ہیں جنھوں نے نفرت کے وقت بھی مجھے بہت محبت دی اور ہر مشکل موڑ پر میرا ہاتھ تھاما۔

    بلقیس بانو نے اپنے وکیل کی تعریف میں کہا کہ میرے پاس ایک غیر معمولی وکیل ایڈووکیٹ شوبھا گپتا ہیں، جو 20 سے زیادہ سالوں تک میرے ساتھ بغیر تھکے چل رہی ہیں، جنھوں نے مجھے انصاف کے بارے میں کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔

    ملزموں کی رِہائی کے وقت کو یاد کرتے ہوئے بلقیس بانو نے کہا کہ ’ڈیڑھ سال قبل 15 اگست 2022 کو جب قصورواروں کو رِہائی دی گئی تو میں بکھر گئی تھی۔ مجھے لگا تھا کہ میرے اندر کی طاقت ختم ہو چکی ہے‘۔

    واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران 5 ماہ کی حاملہ خاتون بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرنے اور ان کے اہلخانہ کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا پانے والے 11 مجرمان کی قبل از وقت رہائی کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

  • ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس  پر سماعت آج ہوگی

    ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت آج ہوگی، جس میں عدالتی معاونین ریفرنس میں قانونی اور آئینی نکات پر عدالت میں دلائل دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت آج ہوگی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا، پیپلز پارٹی صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کراچکی

    عدالت نے گزشتہ سماعت پرآرٹیکل 186 کےاسکوپ پر معاونت طلب کی تھی اور کیس پر معاونت کیلئے عدالتی معاونین بھی مقرر کیے تھے۔

    عدالتی معاونین ریفرنس میں قانونی اور آئینی نکات پر عدالت میں دلائل دیں گے۔

    پیپلزپارٹی 108صدارتی ریفرنس پر صفحات پر مشتمل تحریری جواب عدالت میں جمع کراچکی ہے، تحریری جواب میں جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تفصیلات شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ جواب میں انٹرویو کی یو ایس بی، سی ڈی اور اردو انگریزی ٹرانسکرپٹ بھی جمع کرایا گیا ہے۔

  • ذوالفقارعلی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس:  پیپلز پارٹی نے تحریری جواب جمع کروادیا

    ذوالفقارعلی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس: پیپلز پارٹی نے تحریری جواب جمع کروادیا

    اسلام آباد : پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو سےمتعلق صدارتی ریفرنس میں تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیا۔

    تفصیلات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو سےمتعلق صدارتی ریفرنس میں پیپلز پارٹی نے 108 صفحات پر مشتمل تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیا۔

    جواب بلاول بھٹو کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نےجمع کروایا، تحریری جواب میں مختلف کتابوں کاحوالہ دیاگیا ہے۔

    جواب میں سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کےانٹرویو کی تفصیلات شامل ہیں جبکہ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی یوایس بی اور سی ڈی بھی جمع کرائی گئی ہے۔

    تحریری جواب میں انٹرویوکی انگریزی اوراردومیں ٹرانسکرپٹ بھی جمع کی ہے۔

    سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجربینچ 8 جنوری کوسماعت کرے گا۔

  • تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ

    تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس کافیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جلد مختصر حکم سنائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل62ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں7رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین خان ، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمدعلی مظہر،جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    نماز جمعے کے وقفے کے بعد چیف جسٹس نے استفسار کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پر بحث ہوئی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نہیں سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس پربحث نہیں ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے یہ بڑی عجیب بات ہے ، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اصل میں خاکوانی کیس کس معاملے پر تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ خاکوانی کیس نااہلی سے متعلق تھا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے خاکوانی کیس میں کہا کہ نااہلی کا معاملہ بعدمیں دیکھیں گے ، خاکوانی کیس میں پھر یہ معاملہ بعد میں نہیں دیکھا گیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں سمیع اللہ کیس کافیصلہ درست نہیں، تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی بالکل میں سمجھتاہوں سمیع اللہ کیس کا فیصلہ درست نہیں آیا، صابر شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا 62 الیکشن سے پہلے اور 63 بعد میں لاگو ہوگا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہنا تھا کہ خاکوانی کیس 7رکنی بینچ اور سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ5رکنی بینچ نے دیا، آپ خاکوانی کیس سےمتعلق بات کریں ، خاکوانی کیس کے 7رکنی بینچ کا فیصلہ کیسے پس پشت ڈالا گیا ، 7رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے توہم 5رکنی بینچ کے فیصلے پر انحصارکیوں کریں۔

    اٹارنی جنرل نے 2015 کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کورٹ آف لا کیا ہوگا2015 میں 7رکنی بنچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لا کے سوال کا جواب نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کیا ، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے،اس کے بعد مگر یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کےاختیارمیں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے، آصف سعید کھوسہ کےنوٹ سےاتفاق کرتاہوں اس پر بات کریں۔

    اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین روسٹرم پرآئے اور کہا پی ٹی آئی کی جانب سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کب سےانتظار کررہے تھے کوئی سیاسی جماعت آئے۔

    شعیب شاہین نے کہا الیکشن ایکٹ میں ترمیم فرد واحد کے لیے کی گئی، پارلیمنٹ نے فرد واحد کے لیے ترمیم کرکے سپریم کورٹ کی باسٹھ ون ایف کی تشریح غیرمؤثر کردی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن ایکٹ سےمسئلہ ہے تو اسے چیلنج کریں، دیکھ لیں، تحریک انصاف نے ہمارے سامنے کوئی درخواست دائر نہیں کی۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے، جس پرشعیب شاہین نے کہا ہم تو آج کل دیر ہی کررہے ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے 1973کاآئین بنانےوالےزیادہ دانشمندتھے، بعدمیں کچھ لوگ ٹہلتے ہوئےآئے کہ چلواس میں کچھ اورڈال دو، انہوں نےکہا یہ لوگ سر نہ اٹھا لیں، انہوں نےسوچاایسی چیزیں لاتےہیں جس کوجب دل چاہانااہل کردیں گے، کسی جگہ آئین میں اگرخاموشی رکھی گئی تو اس کی بھی وجہ ہو گی، جب کہتاہوں میں نےکسی چیز کافیصلہ نہیں کرناتویہ بھی ایک فیصلہ ہوتاہے۔

    سپریم کورٹ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نےریمارکس دیے مختصرفیصلہ جلد سنائیں گے۔

    اس سے قبل سماعت میں جہانگیرترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے پورے ملک کوتباہ کرنے والا پانچ سال بعداہل ہوجاتاہے، صرف کاغذات نامزدگی میں غلطی ہوجائےتوتاحیات نااہل؟ ایک جنرل نے آئین میں شق ڈال دی توسب پابند ہوگئے؟

  • ٹرمپ نے پرائمری الیکشن میں نااہلی کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی

    ٹرمپ نے پرائمری الیکشن میں نااہلی کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی

    واشنگٹن: سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پرائمری الیکشن میں نااہلی کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے استدعا کی ہے کہ سپریم کورٹ ریاست کولو راڈو کی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

    واضح رہے کہ کولوراڈو کی عدالت نے 6 جنوری کو بغاوت میں ملوث ہونے پر سابق امریکی صدر ٹرمپ کو نااہل قرار دیا تھا، ٹرمپ صدارتی الیکشن کیلئے ریپبلکنز نامزدگی کی دوڑ میں بدستور سرفہرست ہیں۔

    دوسری جانب ری پبلیکنز پرائمری چیلنجرز نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سزا دینے کی مخالفت کر دی ہے۔

    ری پبلیکنز پرائمری چیلنجرز نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سزا دینے کی مخالف کر دی ہے اور صدارتی نامزدگی کے امیدواروں نے ٹرمپ کو منتخب ہونے پر صدارتی معافی دلوانے کا اعلان کیا ہے۔

    رواں سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں ری پبلیکنز کی جانب سے نامزدگی کے امیدواروں ڈی سینٹس اور نکی ہیلی نے سابق صدر ٹرمپ کو سزا دینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو ٹرمپ کو صدارتی معافی دلوائیں گے۔

    واضح رہے کہ ری پبلیکنز کی جانب سے صدارتی الیکشن کے لیے نامزدگی کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلے، ڈی سینٹس دوسرے اور نکی ہیلی تیسرے نمبر پر ہیں۔

  • تحریک انصاف کا ‘بلے کے نشان’ کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

    تحریک انصاف کا ‘بلے کے نشان’ کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

    اسلام آباد : تحریک انصاف نے بلے کے نشان کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا، جس میں انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست پر فوری سماعت کی استدعا کی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے پشاور ہائیکورٹ کے انتخابی نشان بلے سے متعلق فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ پشاورہائیکورٹ کےجج نےقانون کی غلط تشریح کی جس کےباعث ناانصافی ہوئی، 26 دسمبر 2023 کو عارضی ریلیف دیا گیا تھا، عارضی ریلیف سے قبل فریقین کو نوٹس دیا جانا ضروری نہیں۔

    درخواست میں کہنا ہے کہ ناقابل تلافی نقصان کے خدشات کے تحت عبوری ریلیف دیا جاتا ہے، پشاور ہائیکورٹ کو بتایا کہ بلے کا نشان نہ ملنے سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

    پشاور ہائیکورٹ نے عجلت میں فیصلہ دیا، کیس پہلے ہی ڈویژن بینچ کے سامنے مقرر تھا، ڈویژن بینچ سے پہلے سنگل بینچ فیصلہ کرنےکامجازنہیں تھا۔

    پی ٹی آئی کی سپریم کورٹ سے اپیل پر فوری سماعت کی استدعا کرتے ہوئے کہا آج یا کل سماعت کی جائے۔

    اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ چند اہم درخواستوں پر دستخط کرنے آیا ہوں، سپریم کورٹ سے درخواست کریں گے ہمیں سنا جائے۔

    بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی درخواست میں لکھا تھا یہ اہم ترین معاملہ ہے،ہماری استدعا ہے اسکروٹنی کا وقت ختم ہو رہا ہے ٹکٹ تقسیم کرنےہیں، کوشش ہے جلد سے جلد یہ کیس لگے،اللہ کرےبلےکانشان ملے۔