Tag: سپریم کورٹ

  • سپریم کورٹ نے منگل تک لاپتہ افراد کمیشن سے تمام مقدمات کی تفصیلات مانگ لیں

    سپریم کورٹ نے منگل تک لاپتہ افراد کمیشن سے تمام مقدمات کی تفصیلات مانگ لیں

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کمیشن سے تمام مقدمات کی تفصیلات مانگ لیں اور کمیشن کو تمام پروڈکشن آرڈرز اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کیس کی سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ کون دلائل دیں گے، شعیب شاہین کریں یا لطیف کھوسہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ لاپتہ افراد سےمتعلق آرڈر نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمے میں کہا کہ حیران ہوں کہ آپ دھرنا کیس کا حوالہ دےرہےہیں ، جس پر شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ حوالہ دیتاہوں،عملدرآمد ہوتا تو یہ دن نہ دیکھناپڑتا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کل آپ مطیع اللہ کیس کی بات نہیں کررہے تھے آج کررہےہیں، کیا سابقہ حکومت نے مطیع اللہ کیس میں ذمہ داری قبول کی تھی؟

    شعیب شاہین نے بتایا کہ سابقہ حکومت کی مداخلت کی وجہ سے ہی جلدی بازیاب ہوئےتھے، جس پر چیف جسٹس نے شعیب شاہین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شعیب شاہین صاحب یہ شاید آپ کی غلط فہمی ہے،آپ تو اس معاملے میں پھنس گئے تھے، افسوس ہے آپ کی حکومت نےکسی ایک کیخلاف کارروائی نہ کی، یا ڈر لیں یا حکومت چلالیں، یہ صرف دو منٹ کا کیس تھا، کوئی ایک آرڈر دکھائیں اگر کسی کیخلاف بھی کارروائی کی گئی ہو۔

    ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے عدالت میں بیان دیا کہ عمران ریاض نے کل کال کی اور کہا سپریم کورٹ بلائے گی اورسیکیورٹی دے گی تو ثبوت فراہم کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کیا ہمارے پاس فوج کھڑی ہے کہ ہم پروٹیکشن دیں گے،الزام وہ لگارہےہیں، ثبوت ہیں تو جائیں ایف آئی آر کاٹیں،ہم نے ان کو بلانا چاہتے ہیں اور نہ ان کا نام استعمال کررہے ہیں۔

    شعیب شاہین نے مزید کہا کہ عمران ریاض سپریم کورٹ آنے کیلئے سیکیورٹی مانگ رہےہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ صرف دو چار بندوں پر بات کرینگے تو یہ سیاسی کیس بن جائے گا۔

    اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل میں کہا کہ درخواست پر اعتراضات ختم کر دیے تھے لیکن نمبر نہیں لگایا گیا ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس آگے بڑھائیں رجسٹرار اعتراضات کیخلاف تحریری آرڈرآج کر دیں گے۔

    شعیب شاہین کی جانب سے لاپتہ افراد سے متعلق ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں بھی تفصیل سےلکھا گیا ہے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا فیض آباد دھرنا کیس سے لاپتہ افراد کا کیا تعلق ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ لاپتہ افراد کا براہ راست ذکرنہیں لیکن اداروں کےآئینی کردارکاذکرہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے فیض آباد دھرنا فیصلے میں قانون کے مطابق احتجاج کے حق کی توثیق کی گئی ،کچھ دن پہلے مظاہرین کو روکا گیا تھا اس حوالے سے بتائیں، جس پر وکیل شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ عدالت نے سڑکیں بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر کارروائی کا کہا تھا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل شعیب شاہین سے مکالمے میں کہا کہ حیرت ہے آپ فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دے رہے ہیں تو شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے،پہلے دن سے ہی فیض آباد دھرنا فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ رشید باقی کیسز میں تو عدالت آرہےہیں، آپ شیخ رشید کے ترجمان کب سے بن گئے ہیں جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ شعیب شاہین آپ تشریف رکھیں پہلے آمنہ مسعود جنجوعہ کو سنتے ہیں۔

    دوران سماعت آمنہ مسعود جنجوعہ روسٹرم پر آئیں اور بیان میں کہا کہ میرے شوہر 2005میں جبری گمشدہ ہوئے تھے اس پر سوموٹو ہواتھا، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 2005 میں کس کی حکومت تھی ،آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ 2005 میں مشرف کی حکومت تھی،شوہرٹریول ایجنسی کا کام کرتے تھے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ کے شوہر ابھی تک بازیاب ہوگئے ، آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ میرے شوہر ابھی تک بازیاب نہیں ہوئے، میرے شوہر کیخلاف کوئی الزام نہیں تھا ، نہیں معلوم کیوں لاپتہ ہوئے، میرے شوہر کے والد کرنل (ر) تھے جو مشرف کے سینئر تھے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آمنہ مسعود جنجوعہ نے مکالمے میں کہا کہ ریاست آپ کے شوہر کو کیوں اٹھائے گی یا تو کوئی دشمنی تھی ،آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ بزنس مین تھے میں سمجھنے کی کوشش کررہاہوں، یا تو بتائیں کسی شدت پسند کی حمایت کررہے تھے تو وہ الگ بات ہے، جس پر
    آمنہ مسعود نے بتایا کہ میرے شوہر سماجی کارکن بھی تھے ان کا اسپتال آج بھی چل رہا تھا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی زمین کا مسئلہ بھی تھا تو بتائیں مجرم تک پہنچنے کیلئے کڑیاں جڑتی ہیں تو آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ کچھ رہا ہونیوالوں نے بتایا کہ وہ سیکیورٹی ادارے کی کسٹڈی میں تھے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے آمنہ مسعود جنجوعہ سے پوچھا جےآئی ٹی بنی تو کیا آپ کبھی اس میں پیش ہوئیں تھیں، جس پر آمنہ مسعود نے بتایا میں جےآئی ٹی میں بےشمار بار پیش ہوئی ہیں، بتایا گیا بلوچستان میں طالبان جیسے شدت پسند گروہ نے مار دیا مگر ہم نے قبول نہیں کیا۔

    چیف جسٹس نے آمنہ مسعود جنجوعہ سے مکالمے میں کہا کہ اب آپ ہمیں بتائیں ہم کیا کرسکتے ہیں، 18سال ہوچکے ہیں کوئی ایسی چیز بتائیں کہ ہم آپ کی کچھ مدد کرسکیں تو انھوں نے بتایا کہ میرے شوہر کےوالد نے پرویزمشرف اور متعلقہ حکام سے بھی ملاقات کی تھی، متعلقہ حکام نے کہا کہ میرے شوہر میں کوئی دلچسپی نہیں انھیں کیوں پکڑا جائیگا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آئیں اور ان کےشوہر سے متعلق کوئی رپورٹ ہے تو پیش کریں اور جےآئی ٹی میں کیا معاملات چلے وہ بھی بتائے جائیں، ہم کسی پر الزام نہیں لگارہے مگر جاننا چاہتے ہیں حقیقت کیا ہے، اٹارنی جنرل صاحب سچ جاننا آمنہ مسعود جنجوعہ کا حق ہے۔

    آمنہ جنجوعہ کا کہنا تھا کہ مشرف کےدور میں سب سے زیادہ مسنگ پرسن ہوئےتھے، مشرف دورکے بعد پی پی ، ن لیگ، پی ٹی آئی دورمیں بھی یہ چلتارہا ، آج کل بھی مسنگ پرسنز کے کیسز سامنے آرہےہیں۔

    جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن کی بات شعیب شاہین کررہےہیں ہم ان کی بات نہیں کررہے ، ہم ان کی بات نہیں کررہے جو خود واپس آگئے ، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی غائب ہے تو وہ سامنےآنا چاہیے، آج بھی غلط کام ہورہےہیں توہم اسے روک سکتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ پرانے کیسز کو نظر انداز کررہےہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں پہلے آج جو معاملات ہورہےہیں ان کو روکا جائے، اگرآج لوگوں کو اٹھانا کم ہوجائے تو صرف پرانے کیسز رہ جائیں گے ، کیا آپ حکومت کی طرف سے بول سکتے ہیں آج کے بعد کسی کو نہیں اٹھایا جائے گا،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی میں بالکل یہ کہہ سکتاہوں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ اگر آپ یہ کہہ رہےہیں اور کل کسی کو اٹھایا گیا تو اس کے نتائج ہوں گے، ہمیں کسی شخص نہیں بلکہ حکومت پاکستان کی یقین دہانی چاہتے ہیں، یہ ملک اندر سے فریکچر ہوچکا ہے اس کی ایک وجہ جمہوریت کے پٹری سے ڈی ریل ہونا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان کے مسنگ پرسن کا معاملہ اور کےپی کا معاملہ الگ الگ ہے ، لوگوں کو مذہبی اور لسانی بنیاد پر بھی قتل کیاجارہاہے ، مستونگ میں زیارت کیلئے ایران جانیوالے 32لوگوں کوبھی قتل کیاگیا ، یہ کیا ذہنیت ہے ان کو کسی کا خوف وڈر نہیں ، ابھی تو قانون سے بچ جائیں گے ان کو آخرت کا خوف نہیں، سٹیٹ کو بھی یہ مائنڈ سیٹ چینج کرنا ہوگا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ کچھ الیمنٹس نہیں چاہتے کہ الیکشن ہوں کیونکہ وہ مضبوط پاکستان نہیں دیکھناچاہتے، اخبار میں سرخی لگے اور ہم آرڈر پاس کردیں تو صرف اس سے کچھ نہیں ہوگا۔

    رجسٹرار مسنگ پرسن کمیشن روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا مسنگ پرسن کمیشن میں کتنے لوگ ہیں،کیا کمیشن کے لوگوں کو تنخواہ ملتی ہے ، بجٹ کتنا ہےتو رجسٹرار کمیشن نے بتایا کہ جی سر کمیشن کے لوگوں کو تنخواہ ملتی ہے ، 5،4کروڑ روپے کا بجٹ ہوگا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس ماہ میں کتنے مسنگ پرسن ریکور ہوئے ، کوئی رپورٹ رہےتو پیش کریں، رجسٹرار مسنگ پرسن نے بتایا کہ 46لوگ ریکور ہوئے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک دن میں چیزیں بہتر نہیں ہوسکتیں ان شااللہ بہتر کرینگے ،چاہتےہیں ہرحکومتی عہدیداراپنا کام کرےکوئی نہ کرے تو ہماری مداخلت بنتی ہے، ہم کہیں نہیں جارہے اس معاملے کو انتہائی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔

    سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت 9جنوری تک ملتوی کردی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں،حکومت کو کمیشن کے پروڈکشن آرڈر پر جواب دینا چاہیے، اٹارنی جنرل کمیشن کےجاری کردہ تمام پروڈکشن آرڈر کی تفصیلی رپورٹ دیں۔

    عدالت نے منگل تک لاپتہ افراد کمیشن سے تمام مقدمات کی تفصیلات مانگتے ہوئے کمیشن کو تمام پروڈکشن آرڈرز اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی اور کہا اٹارنی جنرل آگاہ کریں پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے حکومت کا کیا موقف ہے۔

  • خادم حسین کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہلی درست قرار

    خادم حسین کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہلی درست قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ق لیگ کےسابق رکن قومی اسمبلی خادم حسین کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہلی درست قرار دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ق لیگ کےسابق رکن قومی اسمبلی خادم حسین کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہلی کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، چیف جسٹس پاکستان نےریمارکس دیے درخواست گزار کے مرنے کے بعد بہتر ہےکہ مقدمہ ناچلاٸے ، جعلی ڈگری کا معاملہ درخواست گزار کے مرنے کیساتھ ہی ختم ہوگیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کیس کا کوٸی فوجداری پہلو ہے؟ اگرطےہے توسن لیتے ہیں ، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا لواحقین کا اصرار ہے کہ مقدمہ کو سن کر جعلی ڈگری کا دھبہ ختم کیا جائے، پوری تعلیم میں نے محمد اختر خادم کے نام پر حاصل کی ، سیاست خادم حسین کے نام سے کی ، شناختی کارڈ بھی اسی نام سے بنوایا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا درخواست گزار زندہ ہوتے تو کچھ ثابت ہوسکتا تھا، مرنے کے بعد لواحقین درست نام کیسے ثابت کریں گے؟

    چیف جسٹس پاکستان کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ کوٸی بیان حلفی یا دستاویزات بطور شواہد دکھا دیں، نام بدلنے کا موقف ہے تو ثبوت پیش کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔

    سپریم کورٹ نے ق لیگ کےسابق رکن قومی اسمبلی خادم حسین کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہلی درست قرار دے دی۔

    خیال رہے محمد اختر خادم عرف خادم حسین 2008میں این اے 188سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، جس کے بعد ہاٸیکورٹ نے بی اے کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا تھا۔

    بعد ازاں درخواست گزار نے ہاٸی کورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ اپیل داٸر کی تھی۔

  • پی کے 91 کوہاٹ  کے ریٹرننگ آفیسر سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم  قرار

    پی کے 91 کوہاٹ کے ریٹرننگ آفیسر سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پی کے 91 کوہاٹ میں  ریٹرننگ آفیسر سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کوہاٹ پی کے 91 کے ریٹرننگ افسران معطل کرنے کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ اپنی مرضی کا ریٹرننگ افسر لگوانا چاہتے ہیں، جو ہتھکنڈے استعمال ہو رہے ہیں لگ رہا ہے کچھ لوگ چاہتے ہیں انتخابات نہ ہوں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک ریٹرننگ افسر بیمار ہوا اوردوسرا لگا دیا گیا، پشاور ہائیکورٹ نے ٹھک کر کے تقرری کینسل کر دی،ہم آپ کو جرمانہ کیوں نہ کریں؟ نوٹس کیےبغیر ہی اپوائنٹمنٹ کینسل کردی اور پشاورہائیکورٹ کے جج نے نوٹس جاری کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔

    سپریم کورٹ نے پی کے 91 ریٹرننگ آفیسر سے متعلق پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم کردیا اور پشاور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران کہا ریٹرننگ آفیسر کوئی بھی ہو کیا فرق پڑے گا بلاوجہ کی درخواستیں کیوں دائر کی جا رہی ہیں۔

    جس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ستائیس دسمبر کی شام کو پشاور ہائی کورٹ نے حکمنامہ جاری کیا اکتیس امیدواران کے کاغذات نامزدگی جمع ہوئے تھے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی آرڈر کر دیتے ہیں ریٹرننگ آفیسرز اسکروٹنی جاری رکھیں۔

  • تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ چلے گا یا الیکشن ایکٹ؟ اہم سماعت آج ہوگی

    تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ چلے گا یا الیکشن ایکٹ؟ اہم سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ آج تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق تاحیات نااہلی کیس کی سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ کیس کی سماعت کرےگا۔

    سات رکنی بینچ جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمدعلی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پرمشتمل ہیں، لارجر بینچ آج دوپہر ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا۔

    یاد رہے سابق حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی تھی جس کے بعد آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کو پانچ سال کردیا تھا۔

    مذکورہ آرٹیکل کے تحت کئی سیاست دان نااہل ہوئے ہیں، جن میں نمایاں ترین سابق وزیرِاعظم نوازشریف، استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیرترین سمیت دیگرکئی سیاست دان شامل ہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کئے تھے۔

    سپریم کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری میں تاحیات نااہلی کیس میں نوٹس لیا تھا، دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟

    جسٹس جسٹس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا۔

  • تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ تشکیل

    تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ تشکیل

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ن لیگ کے قائد نواز شریف اوردیگرسیاستدانوں کی تاحیات نا اہلی کیس سے متعلق سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس سے متعلق سات رکنی بینچ تشکیل دے دیا، چیف جسٹس آف پاکستان لارجربینچ کےسربراہ ہوں گے۔

    لارجربینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس امین الدین ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ کا7رکنی لارجربینچ کل دن ساڑھے11بجےکیس کی سماعت کرے گا۔

    یاد رہے دسمبر کے وسط میں سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا تھا۔

    عدالت عظمی کے جاری حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ نااہلی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں، کیس کے زیر التوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کئے تھے۔

    سپریم کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری میں تاحیات نااہلی کیس میں نوٹس لیا تھا، دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟

    جسٹس جسٹس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا۔

  • سال 2023 کے اہم عدالتی فیصلے کون سے رہے؟

    سال 2023 کے اہم عدالتی فیصلے کون سے رہے؟

    رواں برس گہما گہمی کا سال رہا، پاکستانی عدالتوں میں اہم نوعیت کے متعدد مقدمات پر کارروائیاں ہوئیں تاہم  ہزاروں مقدمات نمٹانے کے باوجود سال کے اختتام پر عدالت عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 56 ہزار سے زیادہ ہے۔

    سال 2023 میں سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں نے متعدد اہم فیصلے لیے، جن میں سے بیشتر زیر بحث بھی رہے، عدالت عظمیٰ کے چند اہم فیصلوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

    بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا قانون کالعدم قرار

    رواں سال مارچ میں لاہور ہائی کورٹ نے بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے قانون کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دفعہ 124 اے کو آئین سے متصادم قرار دیا۔

    سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ 2023 کالعدم قرار

    رواں سال اگست میں سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ 2023 کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا۔

    مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ایکٹ آئین کے خلاف ہے اور پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔‘

    حکم نامے کے مطابق ’پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی۔ یہ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔‘

    عدالت نے کہا تھا ’ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم ضروری ہو۔ اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا۔

    سربراہ پی ٹی آئی کیخلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ غلط قرار

    رواں سال اگست میں ہی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی سربراہ کے خلاف توشہ خانہ کیس کے فیصلے کو بادی النظرمیں غلط قرار دیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’بادی النظر میں ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں فیصلہ دیا جودرست نہیں تھا، فیصلے میں خامیاں ہیں۔

    نیب ترامیم کالعدم قرار

    رواں سال ستمبر میں سپریم کورٹ نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے خلاف سابق وزیر اعظم کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا، جس کے تحت عوامی عہدے رکھنے والوں کے خلاف نیب کے مقدمات کی واپسی اور نیب کے پاس پچاس کروڑ روپے سے کم کے مقدمات کی تفتیش نہ کرنے سے متعلق شقیں شامل ہیں۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا جبکہ اس بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ بھی لکھا۔

    سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نیب سمیت تمام عدالتیں اگلے سات روز میں مقدمات کو متعقلہ عدالتوں میں بھیجنے سے متعلق فیصلہ کریں۔

    اس فیصلے میں پلی بارگین سے متعلق ہونے والی ترمیم کو بھی کالعدم قرار دیا گیا جبکہ فیصلے میں مختلف معاملات میں کی جانے والی انکوائری اور تفتیش کو بھی بحال کردیا گیا ہے۔

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار

    رواں سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیا۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہن آرمی ایکٹ کی سیکشن ڈی2 کی ذیلی شقیں ایک اور دو جبکہن آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(4) بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔

    سپریم کورٹ کے 1-4 کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا۔

    عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کے تمام ملزمان کے ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں ہوں گے اور سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ہونے والے کسی ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔

    پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانونی قرار

    پاکستان کی سپریم کورٹ کے فُل کورٹ بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ کو قانونی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کر دیں۔

    سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے تاہم اس ایکٹ میں شامل ایک شق، جو کہ ماضی میں از خود نوٹسز پر دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلوں سے متعلق تھی، کو کثرت رائے سے کالعدم قرار دیا ہے۔

       فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل  نہ کرنے کا فیصلہ معطل

    رواں سال دسمبر میں سپریم کورٹ نے نو مئی کے واقعات کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل نہ کرنے کے تئیس اکتوبر کے اپنے فیصلے کو کالعدم قراردیا۔

    سپریم کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے کی انٹرا کورٹ اپیلوں پر پانچ ایک کی اکثریت کے ساتھ چھ رکنی بنچ کی جانب سے اعلان کئے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ نو مئی میں فسادات کے دوران فوجی تنصیبات پرحملوں میں ملوث ایک سو تین شہریوں کا فوجی ٹرائل جاری رہے گا۔

    ںواز شریف تمام کیسز میں بری

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے احتساب عدالت کی سزا کو کالعدم قرار دیا۔

    ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران سے متعلق فیصلہ معطل

    دسمبر میں ہی لاہور ہائی کورٹ نے عدلیہ سے ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کردیا ، جس سے انتخابات کے التوا کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔

    تاہم لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن نے اپیل دائر کی جس پر سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا اور انتخابی ادارے کو فوری طور پر انتخابی شیڈول جاری کرنے کی ہدایت کی۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی حتمی حد بندیوں کی فہرست جاری کردی تھی۔

    حلقہ بندیوں سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار

    دسمبر 18 کو سپریم کورٹ نے عام انتخابات کے لئے حلقہ بندیوں سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

    جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کوئٹہ کی دو صوبائی نشستوں پر حلقہ بندیوں کے خلاف اپیل پر فیصلہ دیا، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونےکےبعد حلقہ بندیوں پر اعتراض نہیں اٹھایاجاسکتا۔

    بلوچستان ہائی کورٹ نے بلوچستان کی دو صوبائی نشستوں شیرانی اور ژوب میں الیکشن کمیشن کی حلقہ بندی تبدیل کر دی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

  • سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تحریری حکم نامہ جاری

    سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا تحریری حکم نامہ جاری

    سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کے حوالے سے تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں سے متعلق حکم نامہ 5 صفحات پر مشتمل ہے۔ آرمی ایکٹ کی دفعات ڈی 2 ون اور ذیلی شقیں 1 اور 2 کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ معطل کردیا گیا ہے۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 59(4) کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی معطل کیا جاتا ہے۔ فوجی عدالتیں ملزمان کا ٹرائل کرسکتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ نہیں سنائیں گی۔

    بنچ کی تشکیل نو اور کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواستیں آئندہ سماعت پر سنی جائیں گی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے حکم امتناع جاری کرنے کی مخالفت کی۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے فیصلے کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔ فوجی عدالتوں کیخلاف درخواست گزاروں کو نوٹس بھی جاری کیا گیا۔

    نوٹس نہ ہونے کے باوجود کچھ وکلا پیش ہوئے، تفصیلی فیصلے تک سماعت موخر کرنے کی استدعا کی۔ حکم نامے کے مطابق مقدمے کی مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے میں ہوگی۔

  • سپریم کورٹ نے عام انتخابات میں تاخیر کے تمام دروازے بند کر دیے

    سپریم کورٹ نے عام انتخابات میں تاخیر کے تمام دروازے بند کر دیے

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عام انتخابات میں تاخیر کرنے کے تمام دروازے بند کر دیے، سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد حلقہ بندیوں پر اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق کوئٹہ کی 2 صوبائی نشستوں پر حلقہ بندیوں کے خلاف اپیل پر جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنا دیا۔

    بلوچستان ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی حلقہ بندی تبدیل کی تھی، تاہم سپریم کورٹ نے بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر لی تھی۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا جو اختیار قانون نے الیکشن کمیشن کو دیا اسے ہائیکورٹ کیسے استعمال کر سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن پروگرام جاری ہونے کے بعد حلقہ بندیوں سے متعلق تمام مقدمہ بازی غیر مؤثر ہو چکی، کسی ایک فرد کو ریلیف دینے کے لیے پورے انتخابی عمل کو متاثر نہیں کیا جا سکتا، ہمیں اس حوالے سے لکیر کھینچ کر حد مقرر کرنی ہے۔

    قائم مقام چیف جسٹس سردارطارق مسعود نے کہا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سارے کیوں چاہتے ہیں کہ الیکشن لمبا ہو، الیکشن ہونے دیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اگر اس درخواست پر فیصلہ دیا تو سپریم کورٹ میں درخواستوں کا سیلاب امڈ آئے گا، الیکشن شیڈول جاری ہو جائے تو سب کچھ رک جاتا ہے، یہ الیکشن کمیشن کا سب سے بڑا امتحان ہے کہ 8 فروری کے انتخابات شفاف ہوں۔

    واضح رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ نے شیرانی اور ژوب میں الیکشن کمیشن کی حلقہ بندی تبدیل کر دی تھی، جس پر الیکشن کمیشن نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی۔

  • عام انتخابات کیس : سپریم کورٹ کا  تحریری حکم نامہ جاری

    عام انتخابات کیس : سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عام انتخابات کیس کے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ عمیر نیازی بظاہرجمہوری عمل ڈی ریل کرنےکی کوشش کےمرتکب ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے عام انتخابات کیس کا 6 صفحات پرمشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

    جس میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے بیرسٹرعمیر نیازی کو نوٹس جاری کرکے وضاحت مانگ لی ہے ، کیوں نہ آپ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، سپریم کورٹ کاحکم واضح تھا کوئی بھی جمہوری عمل میں خلل نہیں ڈالےگا، عمیر نیازی بظاہرجمہوری عمل ڈی ریل کرنےکی کوشش کےمرتکب ہوئے۔

    ہائیکورٹ نے2753ڈی آراوز،آراوزاور اے آر اوز کا کام روک دیا، لاہورہائیکورٹ نے بیک جنبش قلم انتخابی عمل کوڈی ریل کردیا۔

    ڈی آراوزاورآراوزکوخاص طورپرانتخابات کیلئے تعینات نہیں کیا گیا،تعینات کیے گئے افسران پہلے سے ہی بطور انتظامی افسر فرائض انجام دے رہے ہیں، لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے۔

    عدالت نےلاہورہائیکورٹ کودرخواست پرمزید کارروائی سے بھی روک دیا۔

    گذشتہ روز سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ معطل کردیا کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ مزید کوئی کارروائی نہ کرے، فیصلہ دے کرجج نےاپنی حد سےتجاوز کیا، جمہوریت کوڈی ریل کرنےکی اجازت کسی کونہیں دیں گے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کا شیڈول جاری کیا تھا ، ملک بھرمیں قومی اورصوبائی اسمبلیوں کےانتخابات کیلئے پولنگ آٹھ فروری کوہوگی۔

  • سپریم کورٹ کا نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ

    سپریم کورٹ کا نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کرلیا اور کہا نااہلی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نااہلی مدت سے متعلق میر بادشاہ قیصرانی کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔

    جس میں سپریم کورٹ نےنااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔

    عدالت عظمی کے جاری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ نااہلی مدت کے سوال والے کیسز جنوری کے آغاز پر مقرر کئے جائیں، کیس کے زیر التوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

    حکمنامے میں کہنا تھا کہ یڈیشنل اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی آئینی سوال والے کیس پر کم از کم پانچ رکنی بنچ ضروری ہے، کیس کمیٹی کی جانب سے تشکیل دیئے گئے بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔

    یاد رہے دو روز قبل سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کئے تھے۔

    سپریم کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری میں تاحیات نااہلی کیس میں نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟

    جسٹس جسٹس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں، تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا۔