Tag: سپریم کورٹ

  • ملزم کا میڈیا کو دیا گیا اعترافی بیان ناقابل قبول قرار، سزائے موت پانے والا بری

    ملزم کا میڈیا کو دیا گیا اعترافی بیان ناقابل قبول قرار، سزائے موت پانے والا بری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کراچی میں بچے کے قتل کیس میں گرفتار ملزم کو بری کردیا، ٹرائل کورٹ نے ملزم کو موت کی سزاسنائی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پولیس تحویل میں ملزم کے میڈیا کو دئیے گئے اعترافی بیان کو ناقابل قبول قراردے دیا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے 25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ، جس میں عدالت نے کراچی میں بچے کے قتل کیس میں گرفتار ملزم کو بری کردیا۔

    ٹرائل کورٹ نے بچے کے قتل کےالزام میں ملزم کو موت کی سزا سنائی تھی اور سندھ ہائیکورٹ نے واقعاتی شواہد، ٹی وی انٹرویومیں اعتراف جرم کی بنیاد پر سزا کی توثیق کی تھی۔

    عدالت نے کہا پولیس تحویل میں دیاگیا بیان بطورثبوت استعمال نہیں ہوسکتا،مجسٹریٹ موجودگی لازم ہے، رپورٹر کو ملزم تک رسائی دینا اور بیان ریکارڈ کر کے پھیلانا کوئی معمولی بات نہیں۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ تھانہ انچارج ، آئی اونےجسمانی ریمانڈ کے دوران ملزم کےانٹرویو کی اجازت دی، افسوس سےکہنا پڑتا ہےملزم کے بیان کا ترمیم شدہ حصہ بعد میں ٹی وی چینل پر نشرکیاگیا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ یہ پہلا کیس نہیں کہ جس میں زیر حراست ملزم سےایسا رویہ اپنایاگیاہو، ایسا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے اور بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے، ایسا رویہ روارکھنا نہ صرف ملزم بلکہ متاثرین کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

    جرم کی خبریں لوگوں کیلئے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں خاص طورپرہائی پروفائل کیس، ایسے کیسز میں عوام کی غیر معمولی دلچسپی میڈیا ٹرائل کا باعث بن سکتی ہے، میڈیا ٹرائل نتائج نہ صرف ملزمان بلکہ دیگر متاثرین کیلئے بھی ناقابل تلافی ہو سکتےہیں۔

    فوجداری نظام انصاف ہر معاملے میں منصفانہ ٹرائل کے حق کو یقینی بنانا ہے، میڈیا پر نشر کیا گیا ملزم کا بیان قابل قبول نہ تھا ، بیان نہ کسی مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا اور نہ قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے، ایسا اقدام شاید اپنی کارکردگی دکھانے یا عوامی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہو ، ایسا اقدام کسی طور پر عوامی مفاد میں نہیں تھا۔

    فیصلے کی کاپی سیکریٹری وزارت داخلہ،سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات کو بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے کہا فیصلےکی کاپی چیئرمین پیمرا، صوبائی چیف سیکرٹریز کوبھی بجھوائی جائے، ہر ملزم کو اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک منصفانہ ٹرائل سے مجرم ثابت نہ کر دیا جائے۔

  • سپریم کورٹ کے فیصلے سے آئین وقانون کی بالادستی قائم ہوئی، وزیراعظم

    سپریم کورٹ کے فیصلے سے آئین وقانون کی بالادستی قائم ہوئی، وزیراعظم

    وزیراعظم شہباز شریف نے مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئین وقانون کی بالادستی سے تعبیر کیا ہے۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آج سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) کی مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس کا فیصلہ سنا دیا جس میں سپریم کورٹ کا گزشتہ سال 12 جولائی کو سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کا آئینی حق تسلیم کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بحال کر دیا جس میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر وزیراعظم شہباز شریف کا ردعمل بھی آیا ہے اور انہوں نے سپریم کورٹ آئینی بینچ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے قانونی ٹیم کو مبارکباد اور ان کی انتھک محنت کر سراہا ہے۔

    وزیراعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے سے آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہوئی اور قانون کی درست تشریح ہوئی۔

    اس موقع پر شہباز شریف نے اپوزیشن کو پیغام دیا کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر ملکی ترقی کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ آئینی بینچ کے اس فیصلے کی متاثرہ جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آج انصاف کی روح کو بھی کچل دیا اور پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کو چھین کر مال غنیمت کی طرح بانٹ دیا گیا۔

    دوسری جانب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 77 ممبران کی رکنیت بحال ہوگئی ہے۔

    مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے بعد صورتحال، اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن

    سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ فائدہ وفاق میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو ہوا ہے جس کی قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں میں 44 نشستیں بحال ہوئی ہیں۔

    سپریم کورٹ کا مکمل فیصلہ جاننے کے لیے کلک کریں

     

  • مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر پی ٹی آئی کا ردعمل آ گیا

    مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر پی ٹی آئی کا ردعمل آ گیا

    سپریم کورٹ آئینی بینچ کے مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس کے آج سنائے گئے فیصلے پر پاکستان تحریک انصاف کا ردعمل آ گیا ہے۔

    مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ آج ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کے آئینی حق پر ڈاکا ڈال دیا گیا۔

    ترجمان پی ٹی آئی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے گزشتہ سال 12 جولائی کے فیصلے کے تحت مخصوص نشستوں کا آئینی استحقاق تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عدالت نے آئین کی روشنی میں فیصلہ دیا تھا جب کہ آج ایک ایسا فیصلہ آیا ہے جس نے انصاف کی روح کو کچلا ہے۔

    بیان میں مزید کہا گیا ہےکہ آج کے فیصلے میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کو چھین کر مال غنیمت کی طرح بانٹا گیا ہے۔ پہلے بلے کا نشان چھینا گیا اور اب مخصوص نشستوں کا حق بھی چھین لیا گیا۔ ہم پر ہر دروازہ بند کر دیا گیا، مگر ہمارے دل اور زبان پر تالے نہیں لگائے جا سکتے۔

    پی ٹی آئی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم انصاف کے نظام سے نا امید ہو چکے ہیں، لیکن عوام سے نہیں۔ ہماری آج بھی ایک امید باقی ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان ہیں۔

    مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے بعد صورتحال، اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ آج مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے اور سپریم کورٹ کا گزشتہ سال 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔ اس کے کوٹہ کی نشستیں ن لیگ، پیپلز پارٹی سمیت قومی اسمبلی میں موجود دیگر جماعتوں کو ملیں گی۔

    https://urdu.arynews.tv/pti-deprived-of-specific-seats-supreme-court/

  • مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے بعد صورتحال، اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن

    مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے بعد صورتحال، اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی درخواستوں پر فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صورتحال بدل گئی ہے۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپریم کورٹ کے گزشتہ برس 12 جولائی کے فیصلے جس میں سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کو اس کے کوٹے کی مخصوص نشستوں کا اہل قرار دیا گیا تھا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے کو بحال کر دیا ہے۔

    سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 77 ممبران کی رکنیت بحال ہوگئی ہے۔ قومی اسمبلی کی تین غیر مسلم نشستوں اور کے پی سے 8 خواتین ارکان قومی اسمبلی کی رکنیت بھی بحال ہو گئی ہے۔

    پنجاب سے قومی اسمبلی کی 11 خواتین ارکان کی مخصوص نشستوں پر رکنیت بحال ہو گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 24 خواتین ارکان اور 3 غیر مسلم ارکان کی رکنیت بھی بحال ہو گئی ہے۔

    سندھ اسمبلی سے 2 خواتین اور ایک غیر مسلم رکن جب کہ کے پی اسمبلی کی 21 خواتین اور 4 غیر مسلم ارکان کی رکنیت بھی حال ہوئی ہے۔

    سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ فائدہ وفاق میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو ہوا ہے جس کی قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیوں میں 44 نشستیں بحال ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مجموعی طور پر 15، جے یو آئی کی 13 جب کہ ایم کیو ایم، آئی پی پی، ق لیگ، اے این پی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی ایک ایک نشست بحال ہوئی ہے۔

    قومی اسمبلی سے مسلم لیگ ن کی 14، پیپلز پارٹی کی 5 اور جے یو آئی کی 3 نشستیں بحال ہوئیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے جے یو آئی کی 10، ن لیگ کی 7، پیپلز پارٹی کی 2، ق لیگ اور آئی پی پی کی ایک، ایک نشست بحال ہوئی۔

    سندھ اسمبلی سے ایم کیو ایم کی ایک اور پی پی کی دو مخصوص نشستیں بحال ہوئی۔

    https://urdu.arynews.tv/pti-deprived-of-specific-seats-supreme-court/

  • تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

    تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

    سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے اور سپریم کورٹ کا گزشتہ سال 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔ اس کے کوٹہ کی نشستیں ن لیگ، پیپلز پارٹی سمیت قومی اسمبلی میں موجود دیگر جماعتوں کو ملیں گی۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےپی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 17 سماعتوں کے بعد اس کا فیصلہ سنایا۔ اپنے مختصر فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کرنے کے ساتھ الیکشن کمیشن کو 80 ارکان کی درخواستیں دوبارہ سننے کی ہدایت بھی کی۔

    سپریم کورٹ کے 3 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے نظر ثانی درخواستیں منظور کیں۔ جسٹس امین الدین، جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامر فاروق، جسٹس علی باقر نجفی آئینی بینچ کے اکثریتی ججز میں شامل تھے۔ فیصلہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے پڑھ کر سنایا۔

    اختلاف کرنے والوں میں جسٹس جمال مندوخیل نے 39 نشستوں کی حد تک اپنی رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جب کہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظر ثانی درخواستیں منظور کیں۔

    اقلیتی ججز نے فیصلہ دیا کہ 80 نشستوں تک کا معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہیں۔ الیکشن کمیشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کہ کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔

    مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس کے لیے ابتدا میں 13 رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جب کہ جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

    مخصوص نشستوں کا کیس کیا ہے اور اس میں اب تک کیا کیا ہوا؟

    گزشتہ برس 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے عائد پابندی کے باعث آزاد امیدواروں کو میدان میں اتارا اور کامیابی حاصل کی۔

    قانون کے مطابق آزاد ارکان مخصوص نشستوں کے اہل نہیں ہوتے، اس لیے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی اور مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے 21 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔

    الیکشن کمیشن نے 28 فروری کو سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا اور 4 مارچ کو مخصوص نشستوں کی درخواست پر چار ایک کے تناسب سے فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلیے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، لیکن پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواستوں کو

    14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کیا۔

    سنی اتحاد کونسل نے اس کے بعد 2 اپریل 2024 کو مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 6 مئی کو اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔ تاہم آئینی معاملہ ہونے کے باعث لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا۔

    فل کورٹ نے 3 جون کو مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی پہلی سماعت کی اور 9 سماعتوں کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا، جو 12 جولائی کو سنایا گیا۔

    سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ 8 ججز کی اکثریت نے دیا جب کہ پانچ نے اس سے اختلاف کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلہ تحریر کیا۔

    اکثریتی فیصلہ کے ساتھ اختلاف کرنے والے ججز میں سے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل نے ایک نوٹ تحریر کیا جب کہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس نعیم اختر اعوان اور موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ الگ نوٹ تحریر کیے۔

    سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کے خلاف ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے نظر ثانی درخواستیں دائر کیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13رکنی بینچ نے نظر ثانی درخواستوں پر 17 سماعتیں کیں۔

    بعد ازاں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اگلی سماعت پر نظر ثانی درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد دیگر 11 ججز نے سماعت جاری رکھی۔

    آج جسٹس صلاح الدین پنہور کی بینچ سے علیحدگی کے بعد سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے سماعت کو جاری رکھتے ہوئے کچھ دیر پہلے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

  • ایل ایل بی پروگرام کتنے اب سال کا ہوگا؟  طلبا کے لیے بڑی خبر

    ایل ایل بی پروگرام کتنے اب سال کا ہوگا؟ طلبا کے لیے بڑی خبر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ایل ایل بی پروگرام 5 سال سے کم کرکے 4 سال کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں لیگل ایجوکیشن ریفارمز کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے ایل ایل بی پروگرام 5 سال سے کم کرکے 4 سال کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے بیرون ملک سے قانون کی تعلیم حاصل کرنیوالوں کیلئے سی لا کا ٹیسٹ ختم کرنے کی ہدایت کردی۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ لاکالجز کا معیار بہتر کرنے کیلئے ضروری اقدامات کیے جائیں، ایس ایم لا کالج میں کوئی کمی ہے تو اسے پوراکریں ناکہ کالج بند کردیں ، یہ کالج تو قیام پاکستان سے بھی پہلے کاہے۔

    جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نےسماعت کی تاہم مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔

  • سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملک بدری کی پالیسی کے حق میں فیصلہ سُنا دیا

    سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملک بدری کی پالیسی کے حق میں فیصلہ سُنا دیا

    امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کو غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کی اجازت دے دی، یہ فیصلہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کے لیے ایک بڑی قانونی کامیابی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملک بدری کی پالیسی کے حق میں فیصلہ سُنا دیا۔

    جس میں عدالت نے ٹرمپ کو غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کی اجازت دے دی۔

    امریکی میڈیا نے کہا کہ یہ فیصلہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کے لیے ایک بڑی قانونی کامیابی ہے۔

    گزشتہ ماہ امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کو پناہ گزینوں کی ملک بدری دوبارہ شروع کرنے سے روک دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : ملک بدری کے احکامات سے متعلق ٹرمپ کا سپریم کورٹ سے بڑا مطالبہ

    ٹرمپ انتظامیہ نے پانچ لاکھ سے زائد تارکین وطن کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انہیں ملک چھوڑنے کے لیے چوبیس اپریل تک کا وقت دیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کے ججز کو بیرون ملک جانے کیلئے چیف جسٹس سے این او سی لینا ہوگا

    سپریم کورٹ کے ججز کو بیرون ملک جانے کیلئے چیف جسٹس سے این او سی لینا ہوگا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ ججز ترمیمی آرڈر 2025 جاری کر دیا گیا ، جس کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کو بیرون ملک جانے کیلئے چیف جسٹس سے این او سی لینا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق صدر آصف زرداری نے سپریم کورٹ ججز ترمیمی آرڈر 2025 جاری کر دیا، جس کے تحت چیف جسٹس کو ججز کی چھٹی منظور یا مسترد اورواپس بلانے کا اختیار ہوگا۔

    رجسٹرار سپریم کورٹ نے جنرل اسٹینڈنگ آرڈر جاری کردیا ہے ، جس میں ججز کی چھٹی، تعطیلات پر ضابطہ کار طے کیا گیا ہے۔

    ایس او پی میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس عوامی مفاد میں صوابدیدی اختیارات استعمال کریں گے، بیرون ملک سفر سے پہلے چیف جسٹس سے این او سی لینا ضروری ہوگا۔

    ایس او پی میں ہر قسم کی چھٹی کے لیے پیشگی منظوری اور معقول وجہ دینا لازم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ججز کو چھٹی کے دوران موجودہ پتہ اور رابطہ تفصیل فراہم کرنا ہوگی۔

    ایس او پی کے مطابق صرف سرکاری دوروں کے لیے وزارت خارجہ کو پروٹوکول کی درخواست دی جائے گی۔

  • ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں،  تحریری فیصلہ جاری

    ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں، تحریری فیصلہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے  تحریری فیصلے میں کہا کہ ملزم ظاہر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

    سپریم کورٹ کا تفصیلی تحریری فیصلہ 13 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری مطابق بغیرعینی گواہ کےویڈیوثبوت قابل قبول ہیں، مستند فوٹیج خود اپنے حق میں ثبوت بن سکتی ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ریکارڈ شدہ ویڈیو یا تصاویر بطورشہادت پیش کی جا سکتی ہیں اور قابل اعتماد نظام سے لی گئی فوٹیج خود بخود شہادت بن سکتی ہے، بینک ڈکیتی کیس میں ویڈیو فوٹیج بغیرگواہ قبول کی گئی، امریکی عدالتوں میں سائلنٹ وِٹنس اصول کووسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ملزم ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں، دونوں لوئر کورٹس کا فیصلہ متفقہ طور پر درست قرار دیا جاتا ہے۔

    تحریری فیصلے میں کہا کہ ملزم کی جانب سے نور مقدم پر جسمانی تشدد کی ویڈیو ثبوت کے طور پر پیش کی گئی، سی سی ٹی وی فوٹیج ڈی وی آر اور ہارڈ ڈسک قابل قبول شہادت ہیں، ویڈیو ریکارڈنگ میں کوئی ترمیم ثابت نہیں ہوئی،ملزم کی شناخت صحیح نکلی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ڈی این اے رپورٹ سے زیادتی کی تصدیق ہوئی، آلہ قتل پرمقتولہ کا خون ہے، ملزم نور مقدم کی موجودگی کی کوئی وضاحت نہ دے سکا، ڈیجیٹل شواہد اب بنیادی شہادت تصور کئے جاتے ہیں۔

    فیصلے کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج مقررہ معیار پر پوری اترے توتصدیق کی ضرورت نہیں، ظاہر جعفر کی قتل میں سزائے موت برقرار رکھی اور زیادتی کی سزاعمرقید میں تبدیل کی۔

    عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ظاہر جعفر کی نورمقدم کواغوا کرنے کے الزام کی سزا ختم کرکے بری کیاجاتا ہے تاہم غیر قانونی طور پراپنے پاس رکھنے پر ظاہر جعفر کی سزا برقرار رکھی گئی ہے جبکہ شریک ملزمان محمد افتخار اور محمد جان کی سزا برقرار ہیں۔

    عدالت نے شریک ملزمان کی سزا کم کرکے جتنی قید کاٹ لی اس کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس علی باقر نجفی فیصلے کے حوالے اپنا اضافی نوٹ دیں گے۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ چیلنج کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کے فیصلے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی۔

    سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلے پرنظرثانی درخواست دائر کی ، جس میں آئینی بینچ سے فوجی عدالتوں کے کیس کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے حقائق اور قانون کا درست جائزہ نہیں لیا، فیصلےمیں غلطی کی نشاندہی ہوجائے تو تصحیح کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے۔

    سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کا فیصلے میں ایف بی علی کیس پرانحصاردرست نہیں، ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کےمطابق تھا جس کا اب وجود نہیں۔

    دائر درخواست میں کہا ہے کہ اکیسویں ترمیم میں فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کےنتیجہ میں قائم کی گئی تھیں،موجودہ کیس میں آئینی ترمیم نہیں ہوئی تواس فیصلے پر انحصاربھی درست نہیں۔

    درخواست کے مطابق سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق کیس کا فیصلہ تضادات کا مجموعہ ہے،آئینی بینچ نے ایک جانب قرار دیا کہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتاہے اور دوسری جانب لکھا کہ بنیادی حقوق یقینی بنانے کیلئے اپیل کا حق دیا جائے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ 9 اور 10 مئی واقعات پر سپریم کورٹ کی آبزرویشن سے ٹرائل متاثر ہوں گے، عدالتوں میں زیر التوا مقدمات پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کا مؤقف فیصلے کا حصہ بنایا، آئینی بینچ نےفیصلےمیں شہریوں کوبنیادی حقوق سےمحروم کر دیا۔