Tag: سپریم کورٹ

  • سپریم کورٹ کا ذوالفقار علی بھٹو پر صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ

    سپریم کورٹ کا ذوالفقار علی بھٹو پر صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ذوالفقار بھٹو پر صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا، آئندہ سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ذوالفقاربھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔

    سماعت کے بعد چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس ریفرنس کی کئی سماعت ہوئیں بدقسمتی سے حتمی شکل نہیں دی گئی، ریفرنس پر سماعت آخری بار 12نومبر2012کو فکس کی گئی لیکن سماعت نہیں ہوسکتی، ذوالفقار بھٹو کے نواسےبلاول نےفاروق ایچ نائیک کےذریعےفریق بننےکی درخواست دی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ذوالفقارعلی بھٹو کے بچے زندہ ہیں ؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ایک بیٹی ہے جو لندن میں ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے نواسے دیگر اہلخانہ کی طرف سے آئے ہیں، اگر کوئی اور بھی آنا چاہے تو عدالت فریق بنائے گی۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک نے کیس کی براہ راست نشرکی درخواست دی جو قبول کی گئی، کیس پہلے سے ہی براہ راست دکھایاجارہاہے تو درخواست کو خارج کررہےہیں ،مخدوم علی خان کےجونیئر وکیل نے بتایا ہےکہ وہ معاونت کےلئے تیار ہیں۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا، آخری بار ریفرنس 2012 میں سناگیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنانہیں گیا اور زیر التوا رہا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کرکے جواب لیا جائے گا، آئینی معاملات پر عدالتی معاونت کیلئے رضاربانی سےدرخواست کریں گے اور سلمان صفدر کو فوجداری معاملات پر معاونت کیلئے بلایا جائے گا، کسی اور معاملے پر کوئی عدالت کی معاونت کرناچاہے تو تعاون کریں گے۔

    حکم نامے میں کہنا تھا کہ جسٹس دراب پٹیل کا بھی انٹرویو سنا ہے ، جی ہم دراب پٹیل کےانٹرویو کا ٹرانسکرپٹ ،ویڈیوبھی فراہم کر دیں گے اور جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کے مکمل ریکارڈکیلئےمتعلقہ چینل کو لکھا جائے گا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک نےبلاول بھٹو کی جانب سے فریق بننےکی درخواست دی، فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں، عدالت کو بتایا گیا کہ ذوالفقار بھٹو کے 8پوتےپوتیاں،نواسے نواسیاں ہیں، ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کر سکتا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ آئینی معاملات اور کریمنل معاملات پر بھی ماہرمعاون مقررکر دیتےہیں ، جسٹس (ر)منظور ملک کو عدالتی معاون بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، خواجہ حارث،خالد جاوید ،سلمان صفدر کو بھی عدالتی معاون بنالیتےہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کسی کو ان معاونین پراعتراض ہے؟ احمد رضا قصوری نے رضا ربانی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی معاونین نیوٹرل ہونے چاہئیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صلاح الدین،زاہد ابراہیم،فیصل صدیقی بھی معاون ہوسکتے ہیں۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ورثا اپنا وکیل مقرر کرنا چاہے تو کرسکتے ہیں، ریفرنس پر آئندہ سماعت کب رکھیں،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سردیوں کی چھٹویوں کے بعد کی تاریخ رکھیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اس بار کی چھٹیوں کے بعد ہی رکھیں نا،آخری سماعت کب ہوئی تھی۔

    احمد رضا قصوری نے سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس الیکشن کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قصوری صاحب اس ریفرنس کے بعد کئی ریفرنس آئیں، اس وقت بھی الیکشن معاملات تھے مگر وہ ریفرنس سنے گئے، جنوری میں آئندہ سماعت ہوگی۔

    علی احمد کرد روسٹرم پر آگئے اور کہا کئی عدالتی معاونین کا انتقال ہوچکا ، کیا عدالت افسوس کا اظہار نہیں کرے گی؟ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کرد صاحب یہ کیس بھی سنجیدگی کا متقاضی ہے، سنجیدگی سے دیکھنے دیں، آپ نے کوئی بیان دینا ہے تو میڈیا پر جا کردیں ، کوئی آئینی اور قانونی معاونت کرنا چاہے تو موقع دینگے، کوئی نہیں آرہا تو زبردستی نہیں کرینگے نہ ہی روسٹرم پر تقاریر کرنے کاکہیں گے، ہائی کورٹ کا عدالتی دائرہ اختیار دیکھا جائے گا کہ قتل کیس براہ راست کیسے سنا۔

    سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل سے پوچھا گیا کیا صدارتی ریفرنس کھبی واپس لیا گیا ، اٹارنی جنرل نے بتایا ریفرنس نے پہلے واپس لیا گیا نہ موجودہ نےواپس لیا، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل نے ریفرنس پڑھ کر سنایا ،ریفرنس میں مقرر کیے گئے معاونین کا انتقال ہوچکا ہے، ایک معاون علی احمد کرد عدالت موجود ہے، معاونت پر بھی رضا مندی لی، مخدوم علی خان کے معاون وکیل نے بتایا ہے کہ وہ معاونت کے لیے تیار ہے۔

    عدالتی حکم میں کہنا تھا کہ آرٹیکل 186 کے سکوپ کا معاملہ توجہ طلب ہے، کس نوعیت کی رائے دی جاسکتی ہے یہ بھی اہم معاملہ ہے، معاملے کے قابل سماعت ہونے پر فودجداری اور آئینی ماہرین کی رائے کیا ہوگی، جسٹس (ر) منظور ملک کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے، عدالتی معاون تحریری یا زبانی طور پر معاونت کرسکتے ہیں۔

    حکم نامے کے مطابق خواجہ حارث بطور ایڈوکیٹ جنرل پنچاب اس کیس کا حصہ رہ چکے ہیں، خواجہ حارث کو عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے، سلمان صفدر ، رضا ربانی ، خالد جاوید ، زاہد ابراہیم اور یاسر قریشی بھی معاون مقرر کرتے ہیں، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں معاونت کیلئے ہمیں کچھ ریکارڈ درکار ہوگا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو کچھ ریکارڈ آپ کو چاہیے وہ کل تک لکھ کر دیں پھر آج کی سماعت کےآرڈر پردستخط کریں گے اور آئندہ سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک کرتے ہیں۔

  • ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    اسلام آباد: بھٹو قتل صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا ہے کہ ریفرنس کی کارروائی براہ راست دکھائی جائے گی۔

    اس ریفرنس کی کارروائی اب ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھائی جائے گی، بلاول بھٹو زرداری نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان کے نانا کے ریفرنس کی براہ راست کوریج کی جائے۔

    بلاول بھٹو کی جانب سے سپریم کورٹ میں دی گئی متفرق درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ مذکورہ معاملہ اہم ہے اور عوام کی اس میں دل چسپی ہے اس لیے اس کی سماعت کو براہ راست نشر کیا جائے۔

    واضح رہے کہ آج ساڑھے گیارہ بجے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دینے کے صدارتی ریفرنس کی سماعت 11 سال بعد ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا۔

  • ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل سے متعلق ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کیے جانے کا امکان

    ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل سے متعلق ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کیے جانے کا امکان

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل سے متعلق ریفرنس آئندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔

    ذرائع نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ میں ذوالفقاربھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دینے کا ریفرنس آئندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے گا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سےمتعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت لارجر بینچ کرے گا، ریفرنس کی سماعت کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا جائے گا۔

    یاد رہے سابق صدرزرداری نے 2011 میں بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر صدارتی ریفرنس بھجوایا تھا۔

  • حق مہر کے حوالے سے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    حق مہر کے حوالے سے سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

    اسلام آباد: حق مہر کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خاتون جب بھی تقاضا کرے شوہر حق مہر کی ادائیگی کا پابند ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے حق مہر کے حوالے سے فیصلہ تحریر کیا جو تین صفحات پر مشتمل ہے۔

    حق مہر سے متعلق عدالت نے کہا کہ حق مہر شرعی تقاضا ہے جس کا تحفظ ملکی قوانین میں بھی موجود ہے، حق مہر  ادائیگی کا وقت نکاح نامہ میں مقرر نہ ہو تو بیوی کسی بھی وقت اپنے شوہر سے تقاضا کرسکتی ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس میں بیوی کو حق مہر کے حصول کیلئے مقدمہ دائر کرنا پڑا جو 6 سال بعد سپریم کورٹ پہنچا، عدالتوں نے غیر ضروری اپیلیں دائر کرنے پر شوہر کو جرمانہ عائد نہیں کیا، غیر ضروری اپیلوں پر جرمانہ کیا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی، غیرضروری اپیلیں دائر کرنے سے عدالتی نظام مفلوج ہوتا جارہا ہے۔

    سپریم کورٹ نے بیوی کو حق مہر میں تاخیر پر خاوند پر 1 لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا اور خالد پرویز کی اہلیہ ثمینہ کو حق مہر کی ادائیگی کے حکم کیخلاف اپیل خارج کر دی۔

    سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ بلاوجہ کی مقدمہ بازی ختم کرنے کیلئے عدالتوں کو جرمانہ کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔

  • صدرعارف علوی کو کام سے روکنے اور عہدے سے ہٹانے  کے لئے  درخواست دائر

    صدرعارف علوی کو کام سے روکنے اور عہدے سے ہٹانے کے لئے درخواست دائر

    اسلام آباد : صدرعارف علوی کو کام سے روکنے اور عہدے سے ہٹانے کے لئے درخواست دائر کردی گئی، جس میں کہا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ دینا صدر کا کام تھا لیکن انہوں نے تاریخ نہیں دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صدرعارف علوی کوکام سے روکنے اور عہدے سے ہٹانے کی درخواست دائر کردی گئی۔

    صدرکے خلاف درخواست آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت غلام مرتضیٰ نے دائر کی ، جس میں صدر اور وزارت قانون کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ صدرعارف علوی نےاپنے اختیارات کاغلط استعمال کیا، عارف علوی نے صدر مملکت کے عہدے کی تضحیک کی، صدر پوری قوم کا ہوتا ہے ناکہ صرف ایک سیاسی جماعت کا ہوتاہے، عارف علوی نے صدارتی دفترکو پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کیلئےوقف کر رکھا ہے۔

    درخواست میں کہنا ہے کہ عارف علوی صدرکےعہدےکاغلط استعمال کرکےغیرآئینی اقدام کے بھی مرتکب ہوئے، صدر نے اپنے آئینی ذمہ داری سےبھی پہلوتہی برتی ہے، عام انتخابات کی تاریخ دینا صدر کا کام تھا لیکن انہوں نے تاریخ نہیں دی۔

    صدر غیر قانونی طورپر اسمبلی کی تحلیل کے بھی مرتکب ہوئے ہیں اور انھوں نےآئین کے آرٹیکل 5 کے تحت آئین پر عملداری کویقینی نہیں بنایا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی عارف علوی کو بطور صدر کام کرنے سے روکا جائے اور صدر کے خلاف آئین قانون کی خلاف ورزی کرنے پرکارروائی عمل میں لائی جائے۔

  • چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس کیخلاف اپیل پر سماعت غیرمعینہ کیلئے ملتوی

    چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس کیخلاف اپیل پر سماعت غیرمعینہ کیلئے ملتوی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفرکیس کیخلاف اپیل پر سماعت غیرمعینہ کیلئے ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سائفرکیس کیخلاف چئیرمین پی ٹی آئی درخواست پر سماعت ہوئی ، جسٹس سردارطارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے درخواست پر سماعت کی۔

    چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامدخان نے التواء کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا اسلام آباد ہائیکورٹ نے انٹراکورٹ اپیل پرفیصلہ دیا جس کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔

    جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے اسلام آباد ہائیکورٹ کا تونیا آڈرآیا ہے، جس آڈرکے خلاف آپ کی اپیل ہے اسے ہم ابھی بھی سن سکتےہیں۔

    وکیل حامد خان نے التوا کی استدعا دوہرائی تو عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

    جسٹس سردار طارق نے ہائی کورٹ کے فیصلے کےخلاف نئی اپیل دائر کر سکتے ہیں،سپریم کورٹ ضمانت کا کیس اپنی باری پر ہی سناجائے گا۔

    چئیرمین پی ٹی آئی نے درخواست میں سائفر مقدمہ کے اخراج اوراسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف اپیل دائرکی تھی۔

  • بیوی کو حق مہر نہ دینے پر شوہر پر ایک لاکھ روپے جرمانہ

    بیوی کو حق مہر نہ دینے پر شوہر پر ایک لاکھ روپے جرمانہ

    اسکان آباد : سپریم کورٹ نے بیوی کو حق مہر نہ دینے پر شوہر پرایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے ایک ماہ میں حق مہر ادا کرنےکاحکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں بیوی کوحق مہر نہ ادا کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے بیوی کو حق مہر نہ دینے پر شوہر پر ایک لاکھ جرمانہ عائد کر دیا، بھلوال سے تعلق رکھنے والےدرخوست گزار پر 6 سال عدالت میں کیس چلانے اور حق مہر نہ دینے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کو پاکستان کا قانون پسندنہیں توکم ازکم اسلام کاہی احترام کر لیں، اور استفسار کیا کہ درخواست گزار کی کتنی بیویاں ہیں ، حق مہر بیوی کا حق ہے اسے کیوں نہیں دیا، جس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ 2بیویاں ہیں۔

    چیف جسٹس نے نکاح نامہ میں 5 لاکھ حق مہر 6 سال تک نہ ادا کرنے پر درخواست گزار کی سرزنش کرتے ہوئے وکیل سےمکالمے میں کہا کہ 10لاکھ روپےاداکرنے کا حکم دےدیں تاکہ آئندہ ایسے کیسزنہ آئیں۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میں اپنا کیس واپس لیتا ہوں ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایسے نہیں ہوگا وکیل صاحب جب مرضی آپ کیس واپس لےلیں ، 6 سال آپ نےاس کا حق نہیں دیا اوراب انصاف کیلئےسپریم کورٹ آئے ہیں، اب آپ کو انصاف تو ملے گا انصاف دونوں طرف ملنا چاہیے۔

    سپریم کورٹ نے ایک ماہ میں بیوی کو حق مہر ادا کرنے کا حکم دے دیا اور کہا ایک ماہ میں حق مہر اداکرکےفیملی کورٹ کوآگاہ کریں ،دستاویزجمع کرائیں، 30روز میں حق مہر ادا نہ کیا گیا تو قانونی کارروائی کی جائے۔

  • سپریم کورٹ نے افسران کےعہدوں کیساتھ لفظ’’ صاحب‘‘ لگانے پابندی لگا دی

    سپریم کورٹ نے افسران کےعہدوں کیساتھ لفظ’’ صاحب‘‘ لگانے پابندی لگا دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے افسران کےعہدوں کیساتھ لفظ’’ صاحب‘‘ لگانے پابندی لگا دی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے صاحب کا لفظ سرکاری افسران و ملازمین کواحتساب سےبالاتر بناتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں قتل کیس سے متعلق سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ناقص پولیس تفتیش پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بدترین تفتیش خیبر پختونخوا پولیس کی ہے۔

    چیف جسٹس نے قتل کیس میں پولیس تحقیقات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے کچھ کام نہیں کیا۔

    چیف جسٹس نے پولیس اہلکار سے استفسار یہ اتنا پیٹ کیوں نکلا ہوا ہے، آپ ایک فورس ہیں، ایک زمانے میں بیلٹ ہوتی تھی، آپ نے صاحب صاحب کہہ کر سب کا دماغ خراب کر دیا ہے،چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے برہم ہونے ہوئے کہا کہ یہ ڈی ایس پی ہے،صاحب نہیں ، یہ نالائق ڈی ایس پی ہے، یہ معیار ہے آپ کی تفتیش اور تحقیقات کا۔

    سپریم کورٹ نے افسران کےعہدوں کیساتھ لفظ’’ صاحب‘‘ لگانے پابندی لگا دی اور دس سالہ بچےکےقتل کیس میں ناقص تفتیش کےباعث ملزم کی ضمانت منظورکرلی۔

    دوران سماعت عدالت نےایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی اورپولیس افسران کی سرزنش کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پولیس نے قتل کےذمہ داران کے تعین کیلئےکوئی تفتیش نہیں کی،افسران کےعہدوں کے ساتھ صاحب کا لفظ آزادی کےحصول کی نفی کرتاہے،صاحب کا لفظ سرکاری افسران و ملازمین کواحتساب سےبالاتر بناتا ہے۔

    دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کےپی ڈی ایس پی کوصاحب کہتےرہے۔ چیف جسٹس نے قرار دیا ناقص تفتیش کی مثال دینے کے لئےیہ بہترین کیس ہے۔

    کمرہ عدالت میں تفتیشی افسرسے معلومات لینے پر ایڈیشنل اےجی کے پی کی سرزنش کی گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کمرہ عدالت کو اپنا دفتر سمجھ رکھا ہے۔ دفتری کام عدالت میں کرنا سپریم کورٹ کیلئے غیر سنجیدگی کوظاہرکرتاہے۔

    چیف جسٹس نےاستفسار کیا ملزم کے خلاف کیا شواہد ہیں۔ ڈی ایس پی انویسٹی گیشن پشاور نے جواب دیا دو گواہان نے بچے کوملزم کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا۔

    چیف جسٹس نے کہا گواہ تو آپ چار بھی ڈال سکتےتھے شواہد کہاں ہیں تو ڈی ایس پی نے جواب دیا بچہ اپنے چچا کی ورکشاپ میں کام کرتا تھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کوئی چچا اپنے بھتیجے کو کسی غیر کیساتھ کیسے جانےدے سکتا ہے۔ورکشاپ والوں نے بچے کے اہلخانہ کوسولہ دن بعد کیوں آگاہ کیا۔پولیس نے ورکشاپ ملازمین کےبیانات کیوں ریکارڈ نہیں کیے، سب سے ناقص تفتیش کے پی پولیس کی ہوتی ہے۔

  • زبانی معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، چیف جسٹس پاکستان

    زبانی معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، چیف جسٹس پاکستان

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے معاہدہ کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ زبانی معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، زبانی معاہدوں کا دروازہ ہمیں اب بند کرنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں زمین کے زبانی معاہدہ سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے زبانی معاہدہ پر ریلیف دینے کی استدعا مسترد کردی، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ زبانی معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، پنجاب میں زمین کے معاہدوں کو بہت زیادہ لٹکایا جاتا ہے، زبانی معاہدوں کا دروازہ ہمیں اب بند کرنا ہوگا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ لوگوں نے بھی اراضی پر معاہدے کرنا چھوڑ دیے ہیں ، لوگ سمجھ چکے کہ وکلا ایسے کیسز 20سال تک لٹکا دیتے ہیں،درخواست گزار معاہدہ بھی زبانی کرتاہے اور ریلیف بھی عدالت سے مانگتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کیا زبانی معاہدہ کرکے قرآن پاک کی آیت کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، قرآن پاک کی تعلیمات کے مطابق بھی معاہدہ زبانی نہیں تحریری ہوتا ہے، درخواست گزار مقررہ مدت میں طے شدہ رقم جمع کرانے میں ناکام رہا۔

    درخواست گزار محمد رفیق نے 4ایکڑاراضی خریدنے کیلئے152ملین کا معاہدہ کیا تھا، درخواست گزار 2 ماہ میں صرف 15ملین رقم ادا کر سکا تھا۔

  • مٹھائی اور بیکری آئٹمز کی قیمتوں کے تعین کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

    مٹھائی اور بیکری آئٹمز کی قیمتوں کے تعین کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں مٹھائی اور بیکری آئٹمز کی قیمتوں کے تعین کے کیس کی سماعت پندرہ نومبر کو مقرر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق مٹھائی اور بیکری آئٹمز کی قیمتوں کے تعین کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ، سپریم کورٹ نے شہری ادریس اعوان کی اپیل 15 نومبر کو سماعت کیلئے مقرر کردی۔

    چیف جسٹس فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ سماعت کرے گا، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی سمیت فریقین کو نوٹس جاری کردیا۔

    درخواست گزار نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کررکھی ہے، پشاور ہائیکورٹ نےمٹھائیوں اور ،بیکری آئٹمز کی قیمتیں کنٹرول کرنےکوانتظامی معاملہ قرار دیا تھا۔