Tag: سپریم کورٹ

  • سائفر کیس : چیئرمین پی ٹی آئی نے فرد جرم عائد کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

    سائفر کیس : چیئرمین پی ٹی آئی نے فرد جرم عائد کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

    اسلام آباد : چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفرکیس میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے فرد جرم عائد کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سائفرکیس میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

    چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل حامد خان کے ذریعے درخواست دائر کی گئی، جس میں کہا گیا کہ درخواست گزار کو مخالفین کی جانب سے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سیاسی انتقام کا دائرہ درخواست گزارکی سیاسی جماعت ،اتحادیوں تک پھیلا دیا گیا۔

    درخواست میں کہا ہے کہ سابق وزیراعظم کےخلاف لگ بھگ 200 مقدمات بنائے گئے ہیں،درخواست گزار کیخلاف دہشتگردی، بغاوت ،غداری، توشہ خانہ سمیت سنگین مقدمات بنائےگئے، مقدمات کا مقصد درخواست گزار کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا اور سیاسی طور پرتنہا کرنا ہے۔

    دائر درخواست میں کہنا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں ضمانت کے بعد ایف آئی اے کا سارا فوکس سائفرکیس پر مرکوزہو چکا، سائفر کیس کےلئےایف آئی اے کی ساکھ ،غیر جانبداری سےمتعلق شکوک پیدا ہوتے ہیں، ہائیکورٹ فیصلے میں خصوصی عدالت کے عبوری حکم کوچیلنج کرنےمیں ناکامی پر زور دیا گیا ،اور ہائیکورٹ نے کیس نمٹا کر درخواست گزار کے ساتھ تعصب کامظاہرہ کیا۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نےعجلت کا مظاہرہ کرکےفرد جرم عائد ،ٹرائل مکمل کرنےکی کوشش کی، کیس میں عجلت کی وجہ سے شفاف ٹرائل کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوئی، عقلمندی کا تقاضا ہے الزامات سمجھ کر جواب جمع کرانےکامناسب موقع ملنا چاہیے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ چارج فریم کرنے کی کارروائی نے سنگین سوالات کو جنم دیا جائے، خصوصی کورٹ نے درخواست گزار ،وکلاکی عدم موجودگی میں نامعلوم وقت پرنوٹ لکھا، درخواست گزار کے خلاف پورا ٹرائل غیر قانونی اور دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا 26 اکتوبر کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے اور سپریم کورٹ خصوصی عدالت کا فردجرم کا 23 اکتوبر کا حکم نامہ آئین وقانون کیخلاف قراردے۔

  • سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع فراہم کردیا

    سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع فراہم کردیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو عدالت میں پیش ہونے کاموقع فراہم کردیا ، عدالت کا کہنا ہے کہ نیب ترامیم کیس میں اگر پی ٹی آئی چیئرمین پیش ہونا چاہئیں تو جیل سپرنٹنڈنٹ انتظامات کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ، 31 اکتوبر کی سماعت کا حکمنامہ جاری کیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی نیب ترامیم کیس میں مرکزی درخواست گزار ہیں۔

    سپریم کورٹ کے تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتی ہے، عدالتی حکم کی نقل اڈیالہ جیل میں قید چیئر مین پی ٹی آئی کو پہنچائی جائے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی چیئرمین پیش ہونا چاہئیں تو جیل سپرنٹنڈنٹ انتظامات کریں ، حنیب ترامیم فیصلےکےخلاف اپیلیوں کی سماعت پریکٹس اینڈپروسیجرکےتفصیلی فیصلےسےمشروط ہے۔

    سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو نوٹس جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے بھیجا جائے گا۔

    یاد رہے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی تھی۔

  • کسی ادارے کے پاس آئین سے انحراف کا کوئی آپشن موجود نہیں، سپریم کورٹ کا حکم نامہ

    کسی ادارے کے پاس آئین سے انحراف کا کوئی آپشن موجود نہیں، سپریم کورٹ کا حکم نامہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ 90روز میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت کے حکم نامے میں کہا ہے کہ کسی ادارے کے پاس آئین سے انحراف کا کوئی آپشن موجود نہیں، آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 90روز میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ دستاویز ساتھ لائےہیں تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جی سر دستاویز ساتھ لایا ہوں، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کا جواب پڑھ کر سنایا کہ الیکشن کمیشن 8 فروری کو قومی،صوبائی اسمبلی انتخابات کرائے گا۔

    سپریم کورٹ میں ایوان صدر کے گریڈ 22 کے افسر کے دستخط سے جواب جمع کرایا گیا ، جواب میں صدر مملکت کی جانب سے 8 فروری کوعام انتخابات کی تاریخ دینے پر رضا مندی ظاہر کی گئی ہے۔

    جس پر سپریم کورٹ نے عام انتخابات سے متعلق آرڈر لکھوانا شروع کردیا، چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا صوبوں کوآٹھ فروری کو انتخابات کرانے پرکوئی اعتراض تونہیں ، چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلزنے یک زبان ہوکر جواب دیا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

    چیف جسٹس نےکہا کیا اب سارے خوش ہیں ، سپریم کورٹ میں سب فریقین نے رضامندی دے دی، چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کے ممبران نے متفقہ فیصلہ کیا اس میں بھی کوئی ایشوتونہیں۔

    عدالت نے حکم نامے میں کہا قومی اسمبلی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر نے تحلیل کیں، علی ظفر نے صدرکے تیرہ ستمبرکے خط کی نشاندہی کی جوچیف الیکشن کمشنرکولکھا گیا، دونومبر دوہزارتئیس کی ملاقات کے بعد الیکشن کی تاریخ پراتفاق ہوا، تسلیم شدہ حقیقت ہے قومی اسمبلی نو اگست کووزیراعظم کی ایڈوائس پرتحلیل ہوئی، الیکشن کمیشن نے ستمبر میں صدرکے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔ اس بات کی تصدیق الیکشن کمیشن کے وکیل نےعدالت میں کی۔۔ صدرمملکت کے خط ملنے کی تصدیق الیکشن کمیشن نے بھی کی۔

    حکم نامے کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں الیکشن ہوں ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ امید کرتا ہوں آئندہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہو۔

    عدالت نے حکم نامے میں کہا قومی اسمبلی وزیراعظم کی مشاورت سےصدرنےتحلیل کیں، علی ظفر نے صدرکے تیرہ ستمبرکے خط کی نشاندہی کی جوچیف الیکشن کمشنرکولکھا گیا، دونومبر دوہزارتئیس کی ملاقات کےبعدالیکشن کی تاریخ پراتفاق ہوا، تسلیم شدہ حقیقت ہےقومی اسمبلی نو اگست کووزیراعظم کی ایڈوائس پرتحلیل ہوئی اور الیکشن کمیشن نے ستمبر میں صدرکے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔ اس بات کی تصدیق الیکشن کمیشن کے وکیل نےعدالت میں کی اور صدرمملکت کے خط ملنے کی تصدیق الیکشن کمیشن نے بھی کی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پورا ملک شش و پنج میں تھا کہ ملک میں عام انتخابات نہیں ہورہے ، اس بات کوسمجھتے ہیں کہ عدالت دائرہ اختیار کو استعمال کرے، ہم صرف یہ چاہتے تھے صدر اور الیکشن کمیشن کو سہولت فراہم کریں، آئین اور قانون پر عمل درآامد ہر شہری پر فرض ہے۔

    سپریم کورٹ نے قرار دیا صدر مملکت اور الیکشن کمیشن دائرہ اختیار میں رہیں، اعلیٰ آئینی عہدہ ہونے کے ناطے صدر مملکت کی ذمہ داری زیادہ بنتی ہے، الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ ہونے سے پورے ملک کو تشویش ہوئی اور کچھ نے خدشے کا اظہار کیا کہ الیکشن نہیں ہوں گے ،ہر آئینی ادارے اور صدر مملکت نے وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے ، آئین کو نظر انداز کرنے کا کوئی آپشن نہیں۔

    عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ہر آئینی آفس رکھنے والااورآئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن ،صدر آئین کے پابند ہیں، آئین کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہوتے ہیں، آئین پر علمداری اختیاری نہیں ، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے غیر ضروری طور پر معاملہ سپریم کورٹ آیا، سپریم کورٹ آگاہ ہے ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔

    عدالت نے مزید کہا کہ آئین سے انحراف کا کوئی آپشن کسی آئینی ادارے کے پاس موجود نہیں، آئین کو بنے 50 سال گزر چکے اب کوئی ادارہ لاعلم ہونے کا نہیں کہہ سکتا، 15سال قبل آئین کو پامال کیا گیا، بدقسمتی سےپاکستان میں متعدد بارآئین کو پامال کیا گیا۔

    حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا سپریم کورٹ نے سیاسی معاملے پر از خود نوٹس لیا، صدر نے تحریک عدم اعتماد کے بعد قومی اسمبلی تحلیل کی جوغیر آئینی عمل تھا، تحریک عدم اعتماد کےبعدصدر وزیراعظم کی ہدایت پراسمبلی تحلیل نہیں کرسکتے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے ہم نہ صرف آئین پرعمل کریں بلکہ ملکی آئینی تاریخ کودیکھیں ،آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ ملکی اداروں اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، عدالتوں کو ایسے معاملات کا جلد فیصلہ کرنا پڑےگا ، قومی اسمبلی اس وقت تحلیل ہوئی جب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئی، وزیراعظم کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار نہیں تھا ، اس وقت کے وزیراعظم نےاسمبلی تحلیل کر کے آئینی بحران پیدا کر دیا ۔

    حکم نامے کے مطابق اسمبلی تحلیل کیس میں ایک جج نے کہا صدر پر پارلیمنٹ آرٹیکل6 کے تحت کارروائی کرے، عجیب بات ہے صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال کیاجو ان کا نہیں تھا، صدر مملکت نے وہ اختیار استعمال نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا، عوام حق دارہیں کہ ملک میں عام انتخابات کرائے جائیں، ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارا کردار صرف سہولت کاری کا ہے۔

    جسٹس مظہر عالم نے قرار دیا کہ غیرآئینی اقدامات پر آرٹیکل 6بھی لگ سکتا ہے، جسٹس مظہر عالم نے آرٹیکل چھ کے اطلاق کا معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑاتھا، ہر آئینی ادارہ آئین پرعملدرآمد کرنےکا پابند ہے، وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے سمجھداری کا مظاہرہ کریں، عوام کا حق ہے انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانےکااعزاز حاصل ہوا، انتخابات کی مقررہ تاریخ8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا الیکشن شیڈول جاری کر دیا ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشن شیڈول دسمبر کے پہلے ہفتے میں جاری ہوگا، حلقہ بندی مکمل ہوتے ہی شیڈول جاری ہوگا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابی شیڈول پر الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھنا چاہتے ہیں، انتخابی شیڈول پہلے جاری کرنے میں کوئی مسئلہ ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے ہو بھی جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا حلقہ بندیاں شائع ہونے کے بعدہی شیڈول جاری ہوسکتاہے، صدر سے اتفاق کے بعد انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا، نوٹیفکیشن کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہونگے، ایڈووکیٹ جنرلز کے مطابق کسی صوبائی حکومت کوانتخابات کی تاریخ پراعتراض نہیں، وفاقی،صوبائی حکومتیں یقین بنائیں انتخابات 8 فروری کوبغیرکسی رکاوٹ مکمل ہو۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت آئین وقانون کی کسی خلاف ورزی کی توثیق نہیں کر رہی، الیکشن کمیشن ہرقدم قانون کے مطابق اٹھائے، یقینی بنائےآٹھ فروری کوانتخابات بہرصورت ہوں، سپریم کورٹ کو پتہ ہے کیسے عملدرآمد کرانا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جس کو انتخابات ہونے پر اعتراض ہے گھر میں اپنی بیوی سے بات کر لے میڈیا پر نہیں، میڈیا پرانتخابات کےحوالےسےمایوسی پھیلانےپر اٹارنی جنرل پیمرا کے ذریعے کارروائی مکمل کریں، میڈیا نے شکوک وشہبات پیداکیےتووہ بھی آئین کی خلاف ورزی کریں گے، آزاد میڈیا ہے ہم انہیں بھی دیکھ لیں گے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا آپ نے عدالت کا دوستانہ چہرہ دیکھا ہے دوسرا چہرہ ہم دکھانا نہیں چاہتے ، شائستگی سےاپناپیغام زیادہ بہتراندازمیں پہنچایاجا سکتاہے، توقع ہےانتخابات اچھےماحول میں ہوں گے۔۔ اگرمیں زندہ رہاتومیں بھی یہی کہوں گا، اگر کسی سے فیصلے نہیں ہوپارہےتووہ گھر چلا جائے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ انتخابات ان شااللہ 8 فروری کو ہوں گے،ہم نے انتخابات کے انعقاد کیلئے سب کوپابند کر دیا،کوئی رہ تو نہیں گیا، صدرمملکت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے پورے ملک کی تاریخ دے دی ہے، وفاقی حکومت اورصوبائی حکومتوں نے اتفاق کیاہے انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہوگا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے 90 دن میں انتخابات کیلئے دائر درخواستیں نمٹا دیں۔

  • سپریم کورٹ کی ہدایت : الیکشن کمیشن کا انتخابات کیلئے صدر سے مشاورت کا فیصلہ

    سپریم کورٹ کی ہدایت : الیکشن کمیشن کا انتخابات کیلئے صدر سے مشاورت کا فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کی ہدایت ہر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کیلئے صدر مملکت عارف علوی سے مشاورت کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق د سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے صدر مملکت عارف علوی سے مشاورت کا فیصلہ کرلیا ہے، بہت جلد الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کرے گا اور اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔

    یاد رہے سپریم کورٹ میں90روزمیں عام انتخابات کےانعقادسےمتعلق کیس میں لیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول سے متعلق عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 29جنوری کوحلقہ بندیوں سمیت تمام انتظامات مکمل ہوں گے ، 11فروی کو ملک بھر میں انتخابات ہوں گے، 3سے 5 دن حتمی فہرستوں میں لگیں گے اور 5دسمبرکو حتمی فہرستیں مکمل ہو جائیں گی ، 5 دسمبر سے 54 دن گن لیں تو29 جنوری بنتی ہے۔

    وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ انتخابات میں عوام کی آسانی کیلئےاتوارڈھونڈرہے تھے، 4فروی کو پہلا اتوار بنتا ہے دوسرا اتوار 11فروری بنتا ہے، ہم نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا 11 فروری والے اتوارکوالیکشن کرائے جائیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت آن بورڈہیں؟ تو وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ہم صدر مملکت کو آن بورڈلینے کے پابند نہیں ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے تاریخ دینے سےقبل صدرسےمشاورت نہ کرنےپر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت بھی پاکستانی ہیں اور الیکشن کمیشن بھی پاکستانی ہے، الیکشن کمیشن صدرسے مشاورت نہ کرنے پر کیوں ہچکچاہٹ کاشکار ہے،چیف جسٹس

    ہم جواب کا انتظار کر لیتے ہیں، صدر مملکت اور الیکشن کمیشن آپس میں بات کریں، صدر مملکت کیا ملک میں ہیں، صدر مملکت کیساتھ الیکشن کمیشن بات چیت کرے، کسی کو اعتراض ہے اگر الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کرے، ہم چاہتے ہیں جس کی ذمہ داری ہے وہ پوری کریں، انتخابات کب ہونا ہے یہ آئینی کھلاڑیوں نے فیصلہ کرنا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں ملک میں انتخابات ہو جائیں، ہم ایک تنازع کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، سب کو انتخابات چاہیے، ہم چاہتے ہیں کہ ادارے ترقی کریں، پارلیمنٹ اپنا کام کرے اور صدر مملکت اپنا کام کریں، الیکشن کمیشن اپنا کام کریں ہم بھی سوچ لیتے ہیں کیا کریں، آرڈر جاری کریں یا نہ کریں،ہر کسی کو اپنا کام خود کرنا ہوگا، ہم دوسروں کا کام نہیں کریں گے۔

  • نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت آج ہوگی

    نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت آج ہوگی، سابق چیف جسٹس عمرعطابندیال اورجسٹس اعجازالاحسن نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت ساڑھے 11بجے ہوگی ، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ سماعت کرے گا۔

    لارجربینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں، پریکٹس اینڈپروسیجر کےتحت یہ پہلی اپیل ہے۔

    سابق چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے15ستمبرکو2ایک کےتناسب سےفیصلہ سنایا تھا ، جس میں سابق چیف جسٹس عمرعطابندیال اورجسٹس اعجازالاحسن نے نیب ترامیم کوکالعدم قرار دیا تھا جبکہ جسٹس منصورعلی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے نوٹ تحریرکیا۔

    گذشتہ روز نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے 27صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کیا تھا ، جس میں کہا تھا کہ عدلیہ قانون سازی کاتب جائزہ لےسکتی ہےجب انسانی حقوق سےمتصادم ہو، قانون سازی جانچناپارلیمنٹ،جمہوریت کونیچا دکھانےکےمترادف ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا تھا کہ درخواست میں نہیں کہ عوامی عہدہ رکھنےوالوں کافوجداری قوانین پراحتساب کیسےبنیادی حق ہے، نیب ترامیم کیس میں درخواست گزارکے بنیادی حقوق کا مؤقف غیریقینی ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزارکامؤقف تسلیم کیاتوپارلیمان کیلئےکسی بھی موضوع پرقانون سازی مشکل ہوگی، پارلیمان کی جانب سےقوانین بالآخرکسی نہ کسی انداز میں بنیادی حقوق تک پہنچتے ہیں، اداروں میں توازن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے جب اداروں میں احترام کا تعلق قائم ہو۔

  • 9 مئی: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع، حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

    9 مئی: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع، حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

    اسلام آباد: سانحہ 9 مئی سے متعلق فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع ہوگیا اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت کو متفرق درخواست میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق  آگاہ کیا ہے۔

    وفاقی حکومت کی متفرق درخواست کے مطابق 9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں 102 افراد گرفتار کیے گئے، گرفتار کیے گئے افراد کے انصاف کے حق کیلئے فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع کیا گیا ہے، زیر حراست افراد کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل میں جو قصور وار ثابت نہیں ہو گا وہ بری ہو جائے گا، فوجی عدالتوں میں ہونیوالا ٹرائل سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوگا اس واقعات میں ملوث جو افراد جرم کے مطابق قید کاٹ چکے انہیں رہا کر دیا جائے گا۔

    سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

    متفرق درخواست میں کہا گیا کہ فوجی ٹرائل کے بعد سزا یافتہ قانون کے مطابق سزاؤں کیخلاف متعلقہ فورم سے رجوع کر سکیں گے۔

    درخواست کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 اگست کے حکم نامےکی روشنی میں عدالت کو ٹرائلزکے آغاز سے مطلع کیا جارہا ہے، فوجی تحویل میں لیے گئے  افراد کوپاکستان آرمی ایکٹ 1952 اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت گرفتارکیا گیا تھا، گرفتار افراد جی ایچ کیو راولپنڈی اور کورکمانڈر ہاؤس لاہورپر حملے میں ملوث ہیں، گرفتار افراد پی اے ایف بیس میانوالی، آئی ایس آئی سول لائنز فیصل آباد پرحملے میں بھی ملوث ہیں۔

    درخواست کے مطابق گرفتار افراد حمزہ کیمپ، بنوں کیمپ اورگوجرانوالہ کیمپ پرحملے میں ملوث ہونے پرتحویل میں ہیں۔

  • 90 روز میں انتخابات کرانے اور فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس سماعت کے لیے مقرر

    90 روز میں انتخابات کرانے اور فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس سماعت کے لیے مقرر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں نوے روز میں انتخابات کرانے اور فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیے گئے، کیسز کی سماعت 23 اکتوبر کو ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نوے روز میں انتخابات کرانے اور فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ کاز لسٹ کے مطابق نوے روز میں انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت 23 اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ کریں گے۔

    کاز لسٹ کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے کیس کی سماعت بھی 23 اکتوبر کو ہو گی، جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس یحییٰ آفریدی ،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک کیس کی سماعت کریں گے۔

    گذشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان میں انتخابات اور فوجی عدالتوں کا کیس مقرر کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

    پاک عرب ریفائنری ملازمین کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ سپریم کورٹ میں عام انتخابات اور فوجی عدالتوں میں ٹرائل کےکیس مقرر ہونیوالے ہیں، مشکل مقدمات آنے والے ہیں اس دوران دیگرکیسزسننا مشکل ہو گا۔

    ان کا کہنا تھا کہپ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کےفیصلےتک آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کےمقدمات مقررنہیں ہو رہے تھے۔

  • بجلی کا بل دینے والے صارفین کے لیے اہم خبر آگئی

    بجلی کا بل دینے والے صارفین کے لیے اہم خبر آگئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے بل ادا کرنے والے صارفین کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے متاثرہ افراد کو نیپرا سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے فیصلے اور بل ادا کرنے والے صارفین کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

    سپریم کورٹ نے لوڈشیڈنگ سے متاثرہ افراد کو نیپرا سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کا لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا حکم قانون کے برخلاف ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ قانون میں ڈسکوز کیخلاف نیپرا اتھارٹی ،ٹربیونل کے فورم قائم کئےگئے ، متعلقہ فورم کے ہوتے ہائیکورٹ براہ راست حکم جاری نہیں کر سکتی۔

    وکیل پیسکو عمر اسلم نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے لوڈشیڈنگ کی صورت میں حکام کیخلاف مقدمات کرانےکا حکم دیا، لوڈشیڈنگ پورے ملک کا مسئلہ ہے، پیسکو حکام کیخلاف مقدمات بلاجواز ہوں گے۔

    وکیل جواب دہندہ کا کہنا ہے کہ عدالت نے گزشتہ حکم میں لوڈشیڈنگ کی تفصیل مانگی تھی، ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ بل دینے والوں کو بجلی فراہم کی جائے، جس پر اس معاملے میں کئی تکنیکی نکات بھی آسکتے ہیں عدالت کیسےجائزہ لے گی،جن فیڈرز سے ریکوری نہیں ہو رہی ان کا کیا کریں گے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے پیسکو کی اپیل منظور کر لی۔

  • وفاقی حکومت نے  نیب ترامیم فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی

    وفاقی حکومت نے نیب ترامیم فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی

    اسلام آباد : وفاقی حکومت نے نیب ترامیم فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی ، جس میں نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم کے فیصلے کیخلاف ایک اور اپیل دائر کردی گئی، درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت اپیل دائر کی۔

    سپریم کورٹ سے اپیل میں نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ کالعدم قراردینے کی استدعا دینے اور نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست گزار نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ،سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس میں پارٹی نہیں تھا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے نوٹس دیئے بغیر نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ دیا، نیب ترامیم سےکسی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

    دائر درخواست میں کہنا تھا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمان کے اختیار پر تجاوز ہے۔

    زبیر احمد صدیقی کی جانب سے اپیل میں وفاقی حکومت، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وصولی، صارفین کے لئے بڑی خبر

    بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی وصولی، صارفین کے لئے بڑی خبر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا آج سے بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ وصول کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں بجلی بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، وکیل کمپنیز نے کہا کہ مئی 2022میں جب فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ لگایا گیا تب نیپرا کی تشکیل غیر آئینی تھی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر نیپرا کی تشکیل غیر آئینی ہےتو جج کو اس پر فیصلہ دینا چاہیےتھا، لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے اختیار سےباہرنکل کرفیصلہ دیا جس کو برقراررکھنا ممکن نہیں، ہائی کورٹ کے ججز آرٹیکل 199 پڑھنا بھول جاتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ہائیکورٹ کاجج یہ کہہ سکتا ہےکہ 500 یونٹ بجلی استعمال پر بل یہ ہوگا؟

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت نیپرا کےتکنیکی معاملات نہیں دیکھ سکتی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ نےوہ فیصلہ دیا جس کی درخواستوں میں استدعا ہی نہیں کی گئی تھی، بہتر ہوگا تکنیکی معاملات نیپرا کے سامنے ہی اٹھائے جائیں۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نیپرا اور ڈسکوزکو ٹربیونل میں معاملہ چیلنج کرنے پرکوئی اعتراض نہیں، سپریم کورٹ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

    سپریم کورٹ نے آج سے بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ وصول کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کمپنیز اور صنعتوں سے ہائی کورٹ کے فیصلے کےبعدواجب الادا رقم نیپراایپلیٹ ٹریبونل کے فیصلے سےمشروط ہوگی۔

    چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے ایک ہزار 90درخواستیں نمٹا دی۔