Tag: سپریم کورٹ

  • سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کیخلاف ایک اور نظر ثانی اپیل دائر

    سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کیخلاف ایک اور نظر ثانی اپیل دائر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کیخلاف ایک اور نظر ثانی اپیل دائر کردی گئی ،جس میں کہا سپریم کورٹ نے ہمیں سنے بغیرنیب ترامیم کیخلاف فیصلہ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل دائر کردی گئی ، فاروق ایچ نائیک نے سابق ایم ڈی اوجی ڈی سی ایل بشارت مرزا کی جانب سے اپیل دائر کی۔

    درخواست میں چیئرمین پی ٹی آئی، وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا اور مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمیں سنے بغیرنیب ترامیم کیخلاف فیصلہ دیا، احتساب عدالت نے میرے خلاف ریفرنس اینٹی کرپشن عدالت کو بھجوادیا۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کیخلاف درخواست میں کسی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کی گئی، نیب ترامیم کیخلاف درخواست آئینی وقانونی تقاضے پورے نہیں کرتی تھی، استدعا ہے کہ سپریم کورٹ نیب ترامیم کیخلاف 15ستمبرکافیصلہ کالعدم قراردے۔

    گذشتہ روز ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے درخواست گزار عبد الجبار کیطرف سے فیصلہ کیخلاف نظر ثانی دائر کی تھی۔

    درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے ہمیں سنے بغیر نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ دیا اور نیب ترامیم کے بعد احتساب عدالت نے میرے خلاف ریفرنس اینٹی کرپشن عدالت کو بھجوادیا۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کیخلاف درخواست میں کسی بنیادی حقوق خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کی گئی، استدعا ہے کہ عدالت عظمیٰ نیب ترامیم کیخلاف 15 ستمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔

  • نیب ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا گیا

    نیب ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا گیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں  نیب ترامیم فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل دائر کردی گئی ، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ نیب ترامیم کیخلاف 15 ستمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کر دیا گیا، ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے درخواست گزار عبد الجبار کیطرف سے فیصلہ کیخلاف نظر ثانی دائر کی۔

    درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمیں سنے بغیر نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ دیا اور نیب ترامیم کے بعد احتساب عدالت نے میرے خلاف ریفرنس اینٹی کرپشن عدالت کو بھجوادیا۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کیخلاف درخواست میں کسی بنیادی حقوق خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کی گئی، استدعا ہے کہ عدالت عظمیٰ نیب ترامیم کیخلاف 15 ستمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔

    دوسری جانب حکومت نے بھی فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے رواں سال 15 ستمبر کو نیب ترامیم کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں۔

    عدالت نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترمیم کالعدم قرار دیں ، جس کے بعد سیاست دانوں کے 50 کروڑ سے کم مالیت کے کرپشن کیسز ایک بار پھر نیب کو منتقل ہوگئے تھے۔

    عدالتی فیصلے کی روشنی میں نیب نے نواز شریف، آصف زرداری ،شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور دیگر سیاست دانوں کے 80 سے زائد کرپشن کیسز بحال کردیے۔

  • فیض آباد دھرنا کیس : سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھادیئے

    فیض آباد دھرنا کیس : سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھادیئے

    اسلام آباد : فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ نے اہم سوالات اٹھادیئے، تحریری حکم نامے میں لکھا کہ طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرثانی درخواستیں کیوں سماعت کیلئے مقرر نہیں کی گئیں؟

    تفصیلات کے مطابق فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کی 28 ستمبرکی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 4صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    جس میں کہا گیا ہے کہ فریقین مزید حقائق واضح کرنا چاہیں تو ایک اور موقع دیا جاتا ہے، دوران سماعت مقدمہ کے 4سال تاخیرسےمقررہونےسمیت متعدد سوالات سامنےآئے، نظرثانی درخواستیں دائر اور واپس لینےکی وجوہات کے سوال بھی سامنے آئے۔

    حکم نامے میں کہا ہے کہ ایک سوال 4سال سے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کا بھی سامنے آیا، فریقین کو ایک اور موقع دیا جاتا ہے کہ سوالات کی روشنی میں گزارشات پیش کریں، وزارت دفاع، پیمرا، انٹیلی جنس بیورو نظر ثانی واپس لینے کی استدعا کی۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے کہا وزارت دفاع نظرثانی درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتی، آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نےبھی متفرق درخواست کےذریعےنظرثانی درخواستیں واپس لینےکی استدعا کی، درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی، درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر چار پر اعتراض اٹھایا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ دوران سماعت کیس سے متعلق چار سوالات اٹھائے گئے، پہلا سوال ، طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرثانی درخواستیں کیوں سماعت کیلئےمقرر نہیں کی گئیں، دوسرا سوال ،نظرثانی درخواستیں واپس لینےکیلئےایک ساتھ متعدد متفرق درخواستیں کیوں دائر کی گئیں، تیسرا سوال، کیا آئینی و قانونی اداروں کا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ آزادانہ ہے، چوتھا سوال، کیا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا؟

    حکم نامے کے مطابق کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے، عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کچھ لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ کیا ہوا، ان لوگوں کا کہنا تھا فیض آباد دھرناکیس میں عدالت نے انکےنکتہ نظرکومدنظرنہیں رکھا۔

    تحریری حکم میں کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے پیراگراف 17کےتحت یہ مؤقف عدالت کے لیے حیران کن ہے، عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کوئی بھی متاثرہ فریق آگے بڑھ کر تحریری مؤقف دے سکتا ہے، عدالت ایک اور موقع دیتی ہے کوئی حقائق منظر عام پر لانا چاہے تو بیان حلفی پیش کرے۔

    عدالت نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے کہا فیض آباد دھرنا ایک محدود وقت کیلئےاسکے دائرہ اختیار کووسیع نہیں کیا جانا چاہیے، کوئی بھی فریق یاکوئی اور شخص اپناجواب جمع کرانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کرا دے، سپریم کورٹ میں کیس کی آئندہ سماعت یکم نومبر کو ہوگی۔

    حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ تحریک انصاف نے نظرثانی کیس میں فریق بننےکی درخواست واپس لینےکی استدعاکی، تحریک انصاف کے مطابق فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے جبکہ شیخ رشید کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے التوا کی استدعا کی، شیخ رشید کےایڈووکیٹ آن ریکارڈ آئندہ سماعت پر دلائل دیں یا متبادل وکیل کابندوبست کریں۔

    عدالت حکم نامے کے مطابق ایم کیو ایم کے ایڈووکیٹ ریکارڈ کے مطابق انکا موکل سے رابطہ نہ ہو سکا، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو موکل ایم کیو ایم سے رابطہ کرنے کی مہلت دی جاتی ہے جبکہ اعجاز الحق کے وکیل نے ادارے کی رپورٹ پر اعتراض اٹھایا، وکیل اعجاز الحق نے نئی ہدایات و بیان حلفی جمع کرانےکیلئے مہلت مانگی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے نظر ثانی واپس لینے کی استدعا کی، کیا الیکشن کمیشن و دیگر اداروں نے آزادانہ طور پر نظرثانی دائر کی؟ کیا الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل در آمد کردیا ہے؟ فیض آباد دھرنے سے متعلق جس کے پاس بھی معلومات ہوں سامنےلائے، اٹارنی جنرل کےمطابق نظرثانی کیس میں معاملے کو مزید نہ پھیلایا جائے، بعض لوگوں نے عوامی سطح پر کہا کہ ان کا موقف سنا ہی نہیں گیا تھا، جو بھی اپنا مؤقف پیش کرنا چاہے بیان حلفی کےذریعے کر27 اکتوبرتک کرسکتا ہے۔

  • سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے ‘صاحب’ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا

    سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے ‘صاحب’ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا اور کہا کہ دفاتر میں سرکاری ملازمین کیلئے صاحب کا لفظ حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں زمین کے معاوضے کے معاملے پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ںے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور سرکاری افسران پر برہمی کا اظہار کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے ایک سال قبل حکم جاری کیا تھا، ایک سال بعد بتایا جارہا ہے معاوضے کی ادائیگی کا عمل جاری ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے ہمیں اور آپ کو عوام کی جیبوں سےتنخواہیں ملتی ہیں، ہماری کارکردگی صفر ہے، ڈاکوؤں اور ریاست میں کوئی توفرق ہونا چاہیے ، عدالتوں کے ساتھ شفاف رویہ ہونا چاہیے اور نظام انصاف سےمذاق کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ 17نومبر 2022 کو عدالت نے حکم جاری کیا ، وکیل پنجاب حکومت نے کہا متفرق درخواست دائر کردی گئی، ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی طرف سے جواب جمع کرا دیا گیا، حکومت پنجاب نے بشیراں بی بی کی زمین کی ملکیت کوتسلیم کیا، 26مارچ1990سے معاوضےکی ادائیگی کا کہا گیا، بشیراں بی بی کی زمین پرڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر سےمتعلق ملکیت تسلیم کی۔

    عدالت نے کہا کہ سوال یہ تھا ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیرپربشیراں بی بی کو کتنا معاوضہ دیا جائے گا ، جب حکومت کسی فردکی ملکیت تسلیم کرے تو سمجھ سے بالاتر ہےمعاوضہ کیوں نہیں دیاگیا، لاہور سے کچھ افسران کو سپریم کورٹ بھیجا گیا کہ ہمیں ممبر صاحب نے بھیجا ہے، ہم نے سوال کیا کیوں آئے ہیں، جواب نہیں دیا گیا۔

    عدالت کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے ، ممبر کےنام کیساتھ صاحب کا لفظ استعمال کرنا مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے، دفاتر میں سرکاری ملازمین کیلئے صاحب کا لفظ حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے ، آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے۔

    سپریم کورٹ نے سرکاری افسران کیلئے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت تک بشیراں بی بی کو معاوضہ دیا جائے ، معاوضہ نہ دیا گیا تو محکمہ پنجاب کے ممبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کریں گے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ثنااللہ زاہد نے عدالت کو بتایا کہ وکلاکو طریقہ کار کے مطابق سناجائے، آپ کہتے ہیں تو استعفیٰ دے کر چلا جاتا ہوں ، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ
    کھلی عدالت میں سماعت ہورہی ہے، ایک سال بعد آکر بتایا کہ معاوضے کی ادائیگی پرکچھ نہیں کیا گیا، آپ نے عدالت کو شرمندہ کردیا ہے۔.

    عدالت نے دو ماہ میں بشیراں بی بی کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

  • سپریم کورٹ میں پہلی خاتون رجسٹرار تعینات

    سپریم کورٹ میں پہلی خاتون رجسٹرار تعینات

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے اسٹاف کے لیے تعیناتیوں کا عمل شروع ہوگیا، جزیلہ اسلم پہلی خاتون رجسٹرار سپریم کورٹ ہوں گی۔

    تفصیلات کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے چیف جسٹس کا حلف اٹھانے کے بعد نئی تعیناتیاں ہورہی ہیں۔ اسی سلسلے میں جزیلہ اسلم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تعینات کیا گیا ہے۔

    جزیلہ اسلم پہلی خاتون رجسٹرار سپریم کورٹ ہوں گی۔ ترجمان سپریم کورٹ نے تعیناتیوں کے حوالے سے اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جزیلہ اسلم رجسٹرار سپریم کورٹ تعینات کی گئیں ہیں، محمد مشتاق کو سیکریٹری ٹو چیف جسٹس تعینات کیا گیا ہے۔

    عبد الصادق چیف جسٹس کے اسٹاف افسر ہوں گے، اعلامیے کے مطابق جزیلہ اسلم کو 3 سال ڈیپوٹیش پر رجسٹرار سپریم کورٹ تعینات کیا گیا ہے۔ اس سے قبل جزیلہ اسلم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہورتھیں۔

  • سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا پہلا بڑا اقدام

    سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا پہلا بڑا اقدام

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت کےلئے مقرر کردیا، ممکنہ طور سپریم کا فل کورٹ تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی  نے پہلا بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت کےلئے مقرر کردیا۔

    کیس کی سماعت اٹھارہ ستمبر کو ہوگی، رجسٹرار آفس نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں، سپریم کورٹ کا لارجر بینچ سماعت کرے گا۔

    سپریم کورٹ کا آٹھ رکنی لارجربینچ پہلے ایکٹ پر حکم امتناع جاری کرچکا ہے، ممکنہ طور سپریم کا فل کورٹ تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد بینچ تشکیل دیں گے۔

  • نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ ،  مختصر اورسویٹ  فیصلہ جلد  سنائیں گے، چیف جسٹس

    نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ ، مختصر اورسویٹ فیصلہ جلد سنائیں گے، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نے ریماکس دیئے وقت کی کمی کے باعث مختصر اور سویٹ فیصلہ جلد سنائیں گے، عوام کو خوشحال اور محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی، خواجہ حارث نے بتایا کہ ترامیم کے بعد بہت سے زیر التوامقدمات کو واپس کردیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ترامیم میں ایسی کوئی شق ہے جس سےمقدمات دوسرےفورمزکوبھجوائے جائیں ؟ ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہوگیا تو خواجہ حارث نے بتایا کہ پہلے تحقیقات پھرجائزےکے بعد مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوائےجائیں گے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ واپس ہونے والے مقدمات کےمستقبل سےمتعلق کسی کو معلوم نہیں، نہیں معلوم کہ یہ مقدمات دوسرے فورمزپر بھی جائیں گے ؟ کیا نیب کےپاس مقدمات دوسرے فورمز کوبھیجنےکا کوئی اختیار ہے ؟

    جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ترامیم کے بعد ان مقدمات کو ڈیل کرنے کا اختیار نیب کےپاس نہیں ، مقدمات دوسرے اداروں کو بھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیارنہیں کیا گیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب کےدفتر میں قتل ہوگا تومعاملہ متعلقہ فورم پرجائے گا، مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوانے کیلئے قانون کی ضرورت نہیں ، جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے، دوسرے فورمز کو مقدمات بھجوانے کا اختیار نہیں مل رہا اس پرضرور پوچھیں گے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہیں، اٹارنی جنرل کا جواب جمع کرا دوں گا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل نے نہیں آنا تھا عدالت کو بتا دیتے، اٹارنی جنرل کے نہ آنے کا معلوم ہوتا تو معمول کے مقدمات کی سماعت کرتے اٹارنی جنرل کی وجہ سے صبح ساڑھے9بجےکیس مقرر کیا تھا۔

    وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ابھی تک نیب مقدمات واپس ہونے سے تمام افراد گھرہی گئے ، یہ بھی کہاگیا نیب ترامیم وہی ہیں جن کی تجویزپی ٹی آئی دور میں دی گئی تھی تو چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کےکنڈکٹ سے لینا دینا نہیں لیکن بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔

    وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے نے بتایا کہ کہا گیا کہ نیب ترامیم سے میں ذاتی طور پر فائدہ اٹھا چکا ہوں، میں نے نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانا ہوتا تو اسی قانون کیخلاف نہ کھڑا ہوتا، چیئرمین پی ٹی آئی نیب ترامیم سے فائدہ نہیں اٹھا رہے، ترامیم کے تحت دفاع آسان ہے مگرنیب کو بتا دیا فائدہ نہیں اٹھائیں گے، نیب کو جمع کرایا گیا بیان بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے زیرالتواتحقیقات ،انکوائریزترامیم کے بعد سردخانے میں جاچکی ہیں، تحقیقات منتقلی کا مکینزم بننےتک عوام کے حقوق براہ راست متاثرہوں گے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ منتخب نمائندوں کو بھی 62 ون ایف کے ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے، منتخب نمائندے اپنے اختیارات بطور امین استعمال کرتے ہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنیٰ دیا گیا ہے، جس پروکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ فوجی افسران کے حوالے سے ترمیم چیلنج نہیں کی، فوجی افسران کیخلاف آرمی ایکٹ میں کرپشن پرسزائیں موجودہیں تو جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سزائیں سول افسران ،عوامی عہدیداروں کیخلاف بھی موجود ہیں، خواجہ حارث نے مزید کہا کہ سول سروس قانون میں صرف محکمانہ کارروائی ہے کرپشن پر فوجداری سزا نہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نیب قانون میں استثنیٰ نہیں ہے، آرٹیکل209کے تحت صرف جج برطرف ہوسکتا ہے ریکوری ممکن نہیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ جج برطرف ہو جائے تو نیب کو کارروئی کرنی چاہیے۔3

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاستی اثاثےکرپشن کی نذرہوں،ا سمگلنگ یاسرمایہ کی غیر قانونی منتقلی اور کارروائی ہونی چاہئیے، قانون میں ان جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے، عوام کو خوشحال اور محفوظ بنایا ریاست کی ذمہ داری ہے، ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب سوموٹو نہیں لیتے۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی افسران سے متعلق نیب قانون کی توثیق سپریم کورٹ ماضی میں کر چکی،ججز کے حوالے سے نیب قانون مکمل خاموش ہے، ریٹائرڈ ججز کیخلاف شکایات کے ازالے کیلئےکوئی فورم موجود نہیں، ججز ریٹائرمنٹ کےبعد6 ماہ تک فیصلے تحریرکرتےرہتے ہیں۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ قانون سازوں نے جن اقدامات کوجرم قرار دیا انہیں اب ختم کر دیا توکیا ہوگا؟ قانون سازوں کو عوام کے سامنے جواب دہ ہونےدیں۔

    سپریم کورٹ نے نیب ترامیم سےمتعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ جلد سنایا جائےگا، معاونت پرتمام وکلا کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کردی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہونے کی وجہ سے آج پیش نہ سکے، پیش نہ ہونے پر اٹارنی جنرل معزرت خواہ ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وقت کی کمی کے باعث مختصر اور سویٹ فیصلہ دیں گے، ریفرنس واپسی کی وجوہات سےاندازہ ہوتا ہے قانون کا جھکاؤ کس جانب ہے، کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکارڈ پرآچکا ہے، نیب قانون کے سیکشن تئیس میں ایک ترمیم مئی دوسری جون میں آئی، مئی سےپہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں کیا نیب کے پاس مقدمات دوسرے فورمز کوبھیجنے کا کوئی اختیار ہے؟ بظاہرکسی رکن اسمبلی کا کیس دوسری عدالت منتقل نہیں ہوا۔

  • بجلی کے زائد بلز اور مفت یونٹس کی فراہمی کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا

    بجلی کے زائد بلز اور مفت یونٹس کی فراہمی کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا

    اسلام آباد : شہری سعیدہ بیگم نے زائد بجلی بل اور مخصوص طبقے کو مفت بجلی کیخلاف درخواست دائرکر دی، جس میں کہا گیا کہ بجلی بلوں پر ٹیکس کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی پی پیزسے ریکوری کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق بجلی کے زائد بلز اور مفت یونٹس کی فراہمی کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ، شہری سعیدہ بیگم نے زائد بجلی بل اور مخصوص طبقےکومفت بجلی کیخلاف درخواست دائرکر دی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ حکومت نے آئی پی پی بورڈز کو بجلی پرٹیکس سے استثنیٰ دیا، بجلی کے محکمےمیں کام کرنے والے بھی تنخواہ لیتے ہیں۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عوام کی سہولت کیلئے بجلی کے بنائے گئے سلیب بحال کیے جائیں، آئین شہریوں کو یکساں سہولتوں کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔

    دائر درخواست میں بتایا گیا کہ درخواست گزار کو بجلی کا 54 ہزارسے زائد کا بل آیا، وسائل کے باوجوددرخواست گزار بجلی کا بل ادا کرنےسے قاصر ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ تمام محکموں کے افسران کومفت یونٹس کی فراہمی فوری روکنےکا حکم دیا جائے اور عدلیہ ،ارکان کو بھی مفت بجلی ،پٹرول کی سہولت کالعدم قرار دی جائے۔

    درخواست گزار نے یہ بھی استدعا کی کہ بجلی بلوں پر ٹیکس کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی پی پیزسے ریکوری کی جائے۔

  • سپریم کورٹ  کا لڑکی کی رضامندی پر اُسے شوہر کے ساتھ جانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا لڑکی کی رضامندی پر اُسے شوہر کے ساتھ جانے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے لڑکی کی رضامندی پر اُسے شوہر کے ساتھ جانے کا حکم دے دیا ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے شوہر کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تو دونوں کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں لڑکی کے مبینہ اغوا اور شادی کے کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    متاثرہ بچی کی میڈیکل رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ، تفتیشی افسر نے بتایا کہ فرزانہ بی بی کی عمر تقریبا ً18سال ہے، چیف جسٹس نے متاثرہ بچی سے استفسار کیا کہ کیا آپ والدین کیساتھ رہ رہی ہے ؟ تو فرزانہ بی بی نے بتایا کہ جی والدین کیساتھ رہ رہی ہو لیکن شوہر کیساتھ رہنا چاہتی ہو۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ لڑکی کے والدین کیس کولڑ کر کیا حاصل کر سکیں گے؟ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے متاثرہ لڑکی تو شوہر کےساتھ جانا چاہتی ہے، جو واقعہ ہوا اس پر افسوس ہےلیکن ان کی شادی ہو چکی ہے۔

    جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ شوہر کیخلاف کارروائی کا حکم دیا تو دونوں کا مستقبل تباہ ہو جائے گا، اب ان کے 2 چھوٹے بچے بھی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے متاثرہ بچی کی رضامندی پر شوہر کیساتھ جانے اور دونوں بچوں کو بھی شوہر کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔

  • سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس سے متعلق ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کردی

    سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس سے متعلق ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس سے متعلق ٹرائل کورٹ کےفیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں لیکن ہم ابھی مداخلت نہیں کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ کا حصہ ہیں۔

    وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کےمختلف احکامات کیخلاف 3درخواستیں دائر کی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی 2018 انتخابات میں میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے، الیکشن ایکٹ ہر رکن اسمبلی کو اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا کہتا ہے، 6اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کیلئےاسپیکر کے پاس ریفرنس بھیجا، اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی پر اثاثوں کی غلط ڈیکلریشن کا الزام لگایا اور اسپیکر نے ریفرنس الیکشن ایکٹ سیکشن 137کے تحت چیف الیکشن کمشنرکوبھجوادیا۔

    جسٹس مظاہر علی اکبر نے لطیف کھوسہ کو ہدایت کی کہ آپ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 137 پڑھیں ، جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ایک رکن اسمبلی دوسرے رکن کیخلاف شکایت درج کرا سکتا ہے؟ ایک رکن نے دوسرے رکن کیخلاف کس قانون کےتحت اسپیکرکودرخواست دی؟

    چیف جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ سیشن عدالت میں کیا آپ کا مؤقف ہے کہ شکایت قابل سماعت نہیں تھی؟ وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیےتھی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 193 کو پڑھ کر اپناسوال بتائیں، آپ کے مطابق معاملے پر ابتدائی کارروائی مجسٹریٹ کرکےٹرائل سیشن عدالت ہی کرسکتی ہے۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے قانون میں لکھا ہے مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لیکر سیشن عدالت بھیجے گا، قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینےکا مطلب کیا ہے ؟ جس پرلطیف کھوسہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے مجسٹریٹ جائزہ لے گا کہ شکایت بنتی بھی ہےیانہیں ؟ قتل ہو نہ تو دفعہ 302کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ میرے مطابق ایک رکن دوسرے کیخلاف شکایت نہیں کرا سکتا، اسپیکر ریفرنس بھیجتا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف اسپیکر نے ریفرنس بھیجا لیکن120دن گزرنے کے بعد، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف ہے شکایت کی قانونی حیثیت پر نہیں،ٹرائل کورٹ سے مقدمہ ختم ہوچکا اب کس کو ریمانڈ کیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا سزا کیخلاف مرکزی اپیل پر کیا اثر ہوگا؟

    وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانا ہونگی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گرسکتی، تو وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن نے21اکتوبرکوچیئرمین پی ٹی آئی کونااہل کرکےشکایت درج کرانےکافیصلہ کیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا، لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا نہ کوئی فوجداری کارروئی تاحکم ثانی نہیں ہوگی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہتوہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرینگے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست وہاں ہی دائر ہوسکتی جس عدالت کی توہین ہوئی۔

    وکیل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن فیصلےکی روشنی میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرنےفوجداری شکایت درج کرائی، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن نے مقدمہ درج کرانے کی اتھارٹی نہیں دی تھی، چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف شکایت سیکرٹری نے بھیجی وہ مجازنہیں تھا۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے لطیف کھوسہ سے مکالمے میں کہا کہ آپ یہ نقطہ کیسےسپریم کورٹ میں اٹھا سکتےہیں، ہم دوسرے فریق کوسنے بغیر آپ کی اپیل کیسے مان سکتےہیں، مرکزی اپیل تواسلام آبادہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ توبعد کی بات ہے،سیشن جج فیصلے کے بعدامریکا چلے گئے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیاہم کیس کوخود سنیں یا ہائیکورٹ کو کہیں وہ ان نکات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے، آپ کی دلیل ہے کہ بادی النظر میں سیکرٹری الیکشن کمیشن شکایت نہیں بھیج سکتاتھا،سیشن کورٹ کوشکایت مسترد کرنی چاہیے تھی، تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مستردکیوں واپس بھیجنے کی بات کیوں نہیں کررہےہیں۔

    چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس سے متعلق درخواست پر سماعت میں وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ڈی ای سی کومقدمہ درج کرنےکااختیارسیکرٹری الیکشن کمیشن نےدیاتھا، سیکرٹری الیکشن کمیشن کااختیاراستعمال نہیں کرسکتا، الیکشن کمیشن کامطلب اس کاچیف اور 4ممبران ہیں جبکہ جج ہمایوں دلاورمقدمہ سننےکےبھی اہل نہیں تھے۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ مجسٹریٹ نےتعین کرناہوتاہےکہ مقدمہ وہ سن سکتاہےیاسیشن کورٹ، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس کاہائیکورٹ میں زیرالتوااپیل پر براہ راست اثر پڑے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام نکات ہائیکورٹ میں اٹھائیں تو زیادہ مناسب ہوگا تو لطیف کھوسہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں یہ نکات دوسری مرتبہ اٹھائے جارہے ہیں، عدالت نےپہلےبھی سارےنکات ہائیکورٹ کو بھیجے تھے ہائیکورٹ نےعدالتئ حکم کےباوجود کیس دوبارہ ہمایوں دلاور کوبھیجا۔

    جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ دائرہ اختیار کا اعتراض اپیل میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے، ان نکات پرفیصلہ ہم کریں یاہائیکورٹ کوواپس بھیج دیں؟

    چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے سپریم کورٹ میں دلائل مکمل کرلئے، چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظرمیں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں لیکن ہم آج مداخلت نہیں کریں گے، کل ہائیکورٹ میں ہونےوالی سماعت کودیکھیں گے، اسلام آبادہائیکورٹ کل صبح اپیلوں پر سماعت کرے، سماعت کے بعدہم مقدمہ سنیں گے۔