Tag: سپریم کورٹ

  • ریویو اینڈ ججمنٹ قانون : عدالتی فیصلے پر اسپیکر اسمبلی بول پڑے

    ریویو اینڈ ججمنٹ قانون : عدالتی فیصلے پر اسپیکر اسمبلی بول پڑے

    اسلام آباد : اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اپنے تبصرے میں بل کی بھرپور حمایت کی ہے۔

    میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ریویو اینڈ ججمنٹ قانون سپریم کورٹ کے خلاف نہیں تھا اور نہ ہی اس قانون سے سپریم کورٹ کے اختیارات پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہوتا سپریم کورٹ اس قانون کا بغور جائزہ لے لیتی، ان کا کہنا تھا کہ اگلی اسمبلی کے اراکین دوبارہ اس قانون کو دیکھیں گے۔

    ملک بھر میں الیکشن کے انعقاد سے متعلق اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ مردم شماری کے بعد عام انتخابات 90 دن میں نہیں ہوسکتے، الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی الیکشن شیڈول جاری کرے گا۔

    راجا پرویز اشرف کا مزید کہنا تھا کہ ہماری اسمبلی نے مختصر وقت میں اچھی قانون سازی کی تاہم جاتے جاتے صدر مملکت نے یونیورسٹیوں کے بل واپس کردیے، الیکشن کے بعد مل بیٹھ کر ہی تمام مسائل کا حل ممکن ہے۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 11 اگست کو ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا اور کہا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔

  • سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں سے متعلق معاملہ واپس الیکشن کمیشن کوبھجوا دیا

    سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں سے متعلق معاملہ واپس الیکشن کمیشن کوبھجوا دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں سے متعلق معاملہ واپس الیکشن کمیشن کوبھجوا دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے الیکشن کمیشن شفاف طریقہ کار سے حلقہ بندیاں کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی سندھ میں حلقہ بندیوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے حلقہ بندیوں سے متعلق معاملہ واپس الیکشن کمیشن کوبھجوا دیا ، چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے حلقہ بندیاں عوامی مفاد کا معاملہ ہیں، سپریم کورٹ میں متعدد بار حلقہ بندیوں کا معاملہ آ چکا ہے۔

    جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں شفاف طریقہ کارسے کرے، سندھ میں حلقہ بندیوں پرحساسیت زیادہ ہے، سندھ سے اکثریہ شکوہ کیاجاتا ہے حلقہ بندیاں درست نہیں ہوئیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کب کرا رہا ہے؟ ابھی تک انتخابات کی تاریخ ہی طے نہیں ہوئی ، الیکشن کمیشن انتخابات سے قبل تمام معاملات حل کرے۔

    خیال رہے پی ایس 8،7اور 9کی حلقہ بندیاں سپریم کورٹ میں چیلنج کی گئی تھیں۔

  • سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کا تحریری فیصلہ جاری

    سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کا تحریری فیصلہ جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ریویوآف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ یہ ایکٹ آئین سے متصادم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے ریویوآف آرڈرز اینڈججمنٹس ایکٹ کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ، سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ مجموعی طور پر 87 صفحات پر مشتمل ہے۔

    چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن نے 51 صفحات پرمشتمل فیصلہ لکھا جبکہ جسٹس منیب اختر نے 29 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ لکھا۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈآرڈر ایکٹ کالعدم قرار دیاجاتا ہے، سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ آئین سے متصادم ہے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔

    فیصلے میں کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا تمام نظر ثانی درخواستیں آئین و سپریم کورٹ رولزکیمطابق جاری رہیں گی ، ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر اس قانون کےتحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا، سائلین سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے اس بات کو سامنے رکھے بغیر کہ جو فیصلےدیئے ان پرعملدرآمدبھی ہوچکا ہے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نظرثانی کےدائرہ کارپرسپریم کورٹ کےفیصلوں میں کوئی ابہام نہیں، آرٹیکل 188 اور اس پر عدالتی فیصلوں کی پابندی سب پر لازم ہے۔

    فیصلے کے مطابق پارلیمان کو علم ہے کہ اپیل اور نظرثانی دوالگ چیزیں ہیں، قوانین کوکالعدم قرار دیتےہوئےعدالت کوانتہائی احتیاط کامظاہرہ کرناچاہیے، عدالت کوہر ممکن کوشش کرنی چاہیےقانون کو آئین سےہم آہنگ کیاجاسکے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کوآئین سےہم آہنگ دیکھنےکی پوری کوشش کی گئی، بھرپور کوشش کےباوجودعدالت نےریویو آف ججمنٹ ایکٹ کو آئین سےمتصادم پایا۔

  • سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دے دیا

    سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دے دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دے دیا اور کہا کہ پارلیمنٹ نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا ، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا۔

    چیف جسٹس کے ساتھ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔

    سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان کے آئین سے متصادم بھی قرار دیا۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا، ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ اختیارسے تجاوزکرکے بنایا گیا، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتا۔

    جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے میں شامل ہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے 6سماعتیں کرنے کے بعد 19جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184 تین کے مقدمات کے فیصلے کیخلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا تھا۔

    خیال رہے الیکشن کمیشن کی جانب سےپنجاب میں عام انتخابات کے التوا کوپی ٹی آئی نے چیلنج کیا تھا، جس پر حکومت کی جانب سےریویوآف ججمنٹ ایکٹ پیش کرکےکیس سننےوالےبینچ پر اعتراضات اٹھائے گئے تھےاور نئے قانون کےتحت عوامی مفاد کےمقدمات میں نظرثانی اپیلزلارجربینچ میں سننے کا قانون بنایا گیا تھا۔

    ایکٹ کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت فیصلوں پر نظرثانی کا دائرہ کار آرٹیکل 185 کےتحت ہوگا اور نظرثانی درخواست کی سماعت فیصلے کرنیوالے بینچ سے بڑا بینچ کرے گا۔

    ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ نظرثانی کی درخواست کرنیوالے کو سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کرنے کاحق ہوگا جبکہ آرٹیکل184کےتحت ماضی کے فیصلوں پربھی نظرثانی درخواست دائر کرنے کاحق ہوگا۔

    ایکٹ کے اطلاق کے بعد ماضی کے فیصلوں پر نظرثانی درخواست 60 دن میں دائر ہوسکتی ہے۔

  • سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیس کا فیصلہ آج سنائے گی

    سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیس کا فیصلہ آج سنائے گی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیس کا فیصلہ آج سنائے گی، چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ نے 19 جون کوفیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجربینچ نے19جون کوفیصلہ محفوظ کیا تھا، دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا آرٹیکل 188کےتحت عدالت کونظر ثانی کا اختیارہے، آرٹیکل 188کے تحت کوئی لمٹ نہیں، 184(3)کے تحت مقدمات اور اپیل کوایک طرح ٹریٹ نہیں کیا جاسکتا۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیس پر فیصلہ محفوظ

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون سازی کرنے کا اختیار قانون سازوں کے پاس موجود ہے ،نظر ثانی اور اپیل کو ایک جیسا کیسے دیکھا جا سکتاہے ؟عدالت کو حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، نظر ثانی کا دائرہ اختیار بڑھا دیا جائے تو کیا یہ تفریق نہیں ہوگی۔

    خیال رہے الیکشن کمیشن کی جانب سےپنجاب میں عام انتخابات کے التوا کوپی ٹی آئی نے چیلنج کیا تھا، جس پر حکومت کی جانب سےریویوآف ججمنٹ ایکٹ پیش کرکےکیس سننےوالےبینچ پر اعتراضات اٹھائے گئے تھےاور نئے قانون کےتحت عوامی مفاد کےمقدمات میں نظرثانی اپیلزلارجربینچ میں سننے کا قانون بنایا گیا تھا۔

    ایکٹ کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت فیصلوں پر نظرثانی کا دائرہ کار آرٹیکل 185 کےتحت ہوگا اور نظرثانی درخواست کی سماعت فیصلے کرنیوالے بینچ سے بڑا بینچ کرے گا۔

    ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ نظرثانی کی درخواست کرنیوالے کو سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کرنے کاحق ہوگا جبکہ آرٹیکل184کےتحت ماضی کے فیصلوں پربھی نظرثانی درخواست دائر کرنے کاحق ہوگا۔

    ایکٹ کے اطلاق کے بعد ماضی کے فیصلوں پر نظرثانی درخواست 60 دن میں دائر ہوسکتی ہے۔

  • سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی فوری ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کر دی

    سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی فوری ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کر دی

    چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس کی کارروائی روکنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی فوری ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پرفریقین کو نوٹسز جاری کردیے ہیں تاہم سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی فوری ٹرائل روکنے کی استدعا کو مسترد کر دیا ہے۔

    سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن حکام کو 4 اگست کو طلب کرتے ہوئے توشہ خانہ کیس کی کارروائی روکنے سے متعلق کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی ہے۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، اس موقع پر عدالت نے کہا کہ آپ کی درخواست غیرمؤثر ہوچکی تھی پھربھی ہم نےسنا اور آرڈردیا۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ہم صورتحال کوسمجھ رہےہیں، جو ریلیف آپ نے مانگا وہ ہم نے دے دیا تھا، حیرت ہے پھر بھی سپریم کورٹ سے رجوع کیا، ہائیکورٹ میں کیس اب کب کے لیے مقرر ہے، جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ کیس کل ہائیکورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہے، تاہم اصل سوال دائرہ اختیار کا ہے۔

    جج نے کہا کہ ہم نے سمجھا تھا ہائیکورٹ آپ کو بہترریلیف دے گی، حکم نامے میں لکھا تھا ہائیکورٹ درخواستوں کو اکٹھا سنے، ہوسکتاہے جو ریلیف آپ مانگ رہے ہیں وہ ہائیکورٹ فیصلہ کردے، پہلے ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹ نے حکم امتناع نہیں دیا اس لیے سپریم کورٹ آئے، اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے بجائے ہائیکورٹ کے حکم کا انتظار کرنا بہتر ہو گا۔

    وکیل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے گواہان پیش کرنے کا حکم دیا ہے، ٹرائل کورٹ جج نے کہا گواہان پیش نہ کیے تو حق دفاع ختم کردیں گے، ہائیکورٹ نے 4 درخواستوں پرنوٹس کیے لیکن حکم امتناعی نہیں دیا، جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس پرمزید سوچ بچارکرلیں۔

  • سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل :  فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ۔ آج سنایا جائے گا

    سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل : فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ۔ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے سے متعلق فیصلہ محفوظ۔ آج سنائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں فل کورٹ سے متعلق درخواست پر فیصلہ آج سنایا جائےگا ، سپریم کورٹ نے گزشتہ روز سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیاتھا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ کچھ ججوں نے کیس سننے سے معذرت کی ہے تو فل کورٹ کیسے بنائیں؟ دوران سماعت جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا تھا کہ بظاہرلگتا ہے ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے شواہد کے نام پر صرف تصاویر ہیں۔

    جسٹس نقوی نے ریمارکس دیئے تھے کہ سویلینزکاملٹری ٹرائل کرکے بنیادی حقوق سلب نہیں کئے جاسکتے۔

    درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ ، سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے بھی فل کورٹ کی مخالفت کی تھی۔

    اعتزاز احسن نے فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا کی مشروط حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بینچ کی ازسرنو تشکیل سے مقدمہ تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے، ملزمان کو عدالتی تحویل میں جیل بھیجا جائے توفل کورٹ پر آمادہ ہوں، پہلے ہم نے خود فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی

    سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے تحریری معروضات جمع کرائیں تھیں۔

    جوادایس خواجہ نے کہا تھا سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئین کی خلاف ورزی ہے، موجودہ حکومت کی مدت جلد ختم ہونے والی ہے، حکومتی یقین دہانی کی چندروزبعد کوئی حیثیت نہیں رہےگی۔

    تحریری معروضات میں کہا گیا تھا کہ سویلینز کا ملٹری عدالت میں ٹرائل کرکےبنیادی حقوق سلب نہیں کئےجا سکتے، حکومت قانون سازی کے ذریعے بنیادی حقوق ختم کرنا چاہتی ہے، قانون سازی سےبنیادی حقوق کی فراہمی کوتسلیم کیاجائے تو حقوق دیناحکومت کے اختیار میں آجائے گا۔

    جوادایس خواجہ کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں صاف شفاف ٹرائل ہونا ممکن نہیں،فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا، بینچ تشکیل جو بھی ہوججز کو حلف کے مطابق بلا خوف و خطر فیصلہ کرنا چاہیے، جج کو فیصلہ کرنے کے بعد اس کے نتائج کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

  • فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

    فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے، 102افراد زیر حراست ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سےمتعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی ٹرائل کا سامنا کرنیوالے زیر حراست افراد کی رپورٹ جمع کرا دی ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریری جواب میں پورا چارٹ ہےکتنی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، 102افراد زیر حراست ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زیرحراست7ملزمان جی ایچ کیوحملے میں ملوث ہیں، 4ملزمان نے آرمی انسٹیٹیوٹ پر حملہ کیا، 28م لزمان نےکورکمانڈرہاؤس لاہورمیں حملہ کیا، 5ملزمان ملتان،10ملزمان گوجرانوالہ گریژن حملےمیں ملوث ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 8ملزمان آئی ایس آئی آفس فیصل آباد حملے میں ملوث ہیں، 5ملزمان پی ایف بیس میانوالی حملے اور 14ملزمان چکدرہ حملے میں ملوث ہیں، 7ملزمان نے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان میں حملہ کیا جبکہ 3ملزمان ایبٹ آباد،10ملزمان بنوں گریژن حملےمیں اور ایک ملزم آئی ایس آئی حمزہ کیمپ حملے میں ملوث ہے، زیرحراست ملزمان کی گرفتاری سی سی ٹی وی ودیگرشواہدکی بنیاد پرکی گئی۔

    جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ افراد کی گرفتاری کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم سی سی ٹی وی فوٹیج اور شواہدکی روشنی میں افراد کو حراست میں لیا، کور کمانڈرہاؤس لاہورمیں داخل افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، صرف102افراد کو گرفتار کیا گیا بہت احتیاط برتی ہے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ مجسٹریٹ آرڈر میں ملزمان کوملٹری کورٹس بھیجنےکی وجوہات کاذکر نہیں، جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا جکہ بظاہر لگتاہے ملزمان کیخلاف مواد کے نام پرصرف فوٹو گراف ہیں۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کسی ملزم کو انکوائری میں بے گناہ ہونے پر واپس کیا گیا ؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام 102 افراد کی حوالگی مانگی گئی تھی جو مل گئی، کسی کو واپس نہیں کیا گیا۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کے خلاف صرف تصاویری شواہد ہی موجود ہیں؟ ٹرائل میں آخر کون سے شواہد ہیں جو پیش کئےجائیں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ متعلقہ حکام سے ہدایات لے کر شواہد کے متعلق بتا سکتا ہوں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ایسا لگتا ہے آپ ان سوالات پر پوری طرح تیار نہیں ، ہمارے سامنے ابھی وہ معاملہ ہےبھی نہیں ہم نے آئینی حیثیت کو دیکھنا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے درخواست اپنےموکل کی طرف سےفل کورٹ کی دی ہے، ہم پہلے فیصل صدیقی کو سن لیتے ہیں۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواست مسترد

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواست مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے، جب ٹرائل شروع ہی نہیں ہواتو حکم امتناع کیس چیز کا دیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نو مئی سے متعلق فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔

    لارجربینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

    جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ کے وکیل نے ملٹری ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا کرتے ہوئے کہا قانون سازی کیلئے حکومت کو وقت درکار ہے تو لیں لیکن اس دوران حکم امتناع دے دیں۔

    سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل پر حکم امتناع کی استدعا مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جب ٹرائل شروع ہی نہیں ہواتو حکم امتناع کیس چیز کا دیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس میں جو بھی ہوگاوہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے، آپ کے مطابق ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا تفتیش چل رہی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی ملزم کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا تو جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیاجائے گا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نوٹ کر رہے ہیں کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا، شواہد ریکارڈ کئےجائیں گے اور ٹرائل کھلی عدالت میں ہو گا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کے دوران ملزمان کے اہلخانہ اور وکلاکو آنے کی اجازت ہوگی۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کو سیل میں رکھا گیا ہے یا کمروں میں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو جیل میں ہی رکھا گیا ہے لیکن دہشتگردوں کی طرح نہیں، تمام گرفتار افراد کو تمام تر ضروری سہولتیں دی گئی ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ گرفتار افراد پر دماغی یا جسمانی تشدد نہیں ہونا چاہئے، ہم کسی ریٹائرڈ جج کو102افراد سےملاقات کیلئےفوکل پرسن مقرر کرسکتےہیں، جس پر اتارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اس حوالے سے میں آپ کوان چیمبر بتاؤں گا، ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے، تو لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ دور کا ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں ، اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔

  • سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی نااہلی کیخلاف درخواست خارج کردی

    سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی نااہلی کیخلاف درخواست خارج کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی نااہلی کی درخواست غیرموثرہونے کی بنا پر خارج کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کی نااہلی کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزاروفات پا چکے ہیں، 2013 کے عام انتخابات میں نااہلی کوچیلنج کیا گیا تھا، 2013 کی اسمبلی مدت بھی ختم ہوچکی ہے۔

    سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کی نااہلی کیخلاف درخواست خارج کردی، پرویز مشرف کی نااہلی کی درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنا پر خارج کی گئی۔

    یاد رہے پرویزمشرف نے 2013 انتخابات میں چترال سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اور پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے تھے