Tag: سپریم کورٹ

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل :  وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس منیب اختر بینچ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

    صدرسپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ 1999سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس سے اصول طے ہے، اصول طے ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے،پانچ نکات پر عدالت کی معاونت کروں گا۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے آپ کی رائے آنا اچھا ہوگا ، عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 83اے پر دلائل کا آغاز کروں گا، آرٹیکل 83 اے ک ےتحت سویلینزکا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا،21 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلے میں عدالت نےجوڈیشل ریویوکی بات کی، بنیادی نکتہ یہ ہے جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسےجوڑا جائے گا۔

    صدرسپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں ، عدالتی کہہ چکی ملزمان کا براہ راست تعلق ہوتوہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سوال یہ ہے کیا بغیر آئینی ترمیم سویلینز کا فوجی عدالتوں ٹرائل ہوسکتا ہے۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اپنا موقف واضح کریں کیا ملزمان کا تعلق جوڑناٹرائل کیلئےکافی ہوگا؟ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا؟ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ سویلینزکا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق ٹرائل کےلئے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کےمطابق تعلق جوڑنے، آئینی ترمیم کے بعد سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیرٹرائل کیا گیا تھا، فوج سےاندرونی تعلق ہوتوکیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟ عابدزبیری نے بتایا کہ سویلینزکےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کیلئےترمیم ضروری ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اگرملزمان کااندرون تعلق ثابت ہوجائےتوکیاہوگا؟ جس پر صدر سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کےلئے خاص ترمیم کرنا ہوگی، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، ہمیں معلوم نہیں ملزمان کےفوج عدالتوں میں مقدمات چلانےکاپیمانہ کیاہے۔

    عابد زبیری کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات سننےوالےجوڈیشل کےبجائےایگزیکٹوممبران ہوتےہیں، 21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کےلئےتھیں، 21ویں ترمیم کےبعدسپریم کورٹ نے اجازت تودی مگرریویو کا اختیار بھی دیا، سپریم کورٹ نے دائرہ اختیاریااختیارات سے تجاوز بدنیتی پرجوڈیشل ریویوکااختیاردیا۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کیا آپ کہہ رہے ہیں پہلےعام عدالتوں میں فردجرم لگےپھرمعاملہ ملٹری کورٹس جائے؟ جس پر انھوں نے بتایا کہ قانون میں ملزم کا لفظ ہی ہے جب تک فرد جرم عائد نہ ہو بندہ مجرم نہیں ہوتا۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے مزید کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کیس پہلے عام عدالت میں چلے پھر ملٹری کورٹس جاسکتاہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لیاقت حسین کیس میں کہاگیاملٹری اتھارٹیز تحقیقات کرسکتی ہیں سویلین کا ٹرائل نہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کس پر آرمی ایکٹ لگے گا کس پرنہیں ؟ عابد زبیری نے کہا کہ تحقیقات کرنا پولیس کا کام ہے،پولیس ہی فیصلہ کرے گی۔

    صدرسپریم کورٹ بارعابدزبیری نےمختلف امریکی عدالتی فیصلوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی فوج کی جانب سے حراست بھی غیر قانونی ہے۔

    صدرسپریم کورٹ بارعابدزبیری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا عدالت کے سامنے 21ویں آئینی ترمیم اورلیاقت حسین کیس کو بھی زیر بحث لایا گیا،جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسےہوسکتا ہے؟

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں 9 رکنی بنچ تھا،عدالت کے 23 جون کے حکم نامے کو پڑھوں گا۔

    اٹارنی جنرل نےفل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل دینا شروع کرتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہا، جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ میں دیگر بینچ ممبران کے اعتراض کا تذکرہ کیا گیا۔

    جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ 26 جون کا حکمنامہ بھی پڑھیں، وفاقی حکومت نے خودبینچ کے ایک ممبر پر اعتراض کیا، کیا اب حکومت فل کورٹ کاکہہ سکتی ہے؟ جس ہر اٹارنی جنرل نے کہا کہ استدعا ہے کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ کون فیصلہ کریگا کہ کونسے ججز دستیاب ہیں؟ آپ خود مان رہے ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا فیصلہ چیف جسٹس کرینگے، اس حوالے سے جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے یہ بینچ اس کیس کو سن چکاہے،آپ اپنی گذارشات جاری رکھیں، کافی حد تک موجودہ بینچ یہ کیس سن چکا ہے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہ رہے ہیں 17 سے زیادہ ججز اس کیس کےلئے دستیاب ہوں جو کہ ممکن نہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت کےہر جج کی رائے کا احترام کرتا ہوں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدالت کے اعتماد کی بات کی ہے، چھٹیاں ہیں ججز دستیاب نہیں،اسلام آباد میں موجود تمام ججز کو پہلی سماعت پر ہی بینچ میں شامل ہونے کا کہا تھا۔

    جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ 3ججز تو بینچ سے علیحدہ ہو چکے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ پر حکومت کے اعتراض اٹھانے پر بھی حیرت ہوئی تھی،جسٹس منصور علی شاہ نے گریس دکھاتے ہوئے خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا۔

    دوران سماعت وزارت دفاع کےوکیل عرفان قادرکی اٹارنی جنرل کولقمہ دینےکو کوشش کی تو اٹارنی جنرل نے وکیل عرفان قادر کو بیٹھنے کی ہدایت کردی۔

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی فل کورٹ کی استدعا مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے کہا کہ فی الحال فل کورٹ قائم کرنا ممکن نہیں، اس وقت چھٹیاں چل رہی ہیں،ججز دستیاب نہیں۔

    خیال رہے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق درخواستوں پر وفاقی حکومت نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کر رکھی ہے۔

    وفاقی حکومت نے اپنے مؤقف میں کہا تھا کہ آرمی ایکٹ ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئین سے پہلےسے موجود ہیں، آرمی ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اقدامات قانون کے مطابق ہیں،سپریم کورٹ براہِ راست اس کیس کو نہ سنے۔

    وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ درخواستیں خارج کیں توفریقین کا ہائیکورٹ میں حق متاثرہونےکاخدشہ ہے، پنجاب الیکشن کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی معاملے پر رائے دے چکے ہیں، فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

    حکومت نے مزید کہا تھا کہ آرمی سے مماثلت قوانین کے تحت دیگربھی بہت سےعدالتی فورمزبنائےگئے ، تمام فورمز کے کارروائی کا اپنا طریقہ کار ہے، عدالتی فورمز کے علاوہ دیگر فورمز کی موجودگی کسی طرح قانون کی خلاف ورزی نہیں۔

    مؤقف میں کہا گیا تھا کہ کورٹ مارشل کا ٹرائل قانون میں دئیے گئے حقوق اور فئیر ٹرائل میں کمی نہیں کرتا، کورٹ مارشل صرف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا مؤثر عدالتی نظام دیتا ہے ، آرمی ایکٹ اور آرمی رولز ہر طرح کے فیئر ٹرائل کا تحفظ دیتے ہیں۔

    گذشتہ روز سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سےمتعلق درخواست قابل سماعت قرار دی تھی، صدر سپریم کورٹ بارعابدزبیری کی درخواست قابل سماعت قرار دی۔

  • 14سالہ  لڑکی سے شادی ،  خاوند کو جیل بھیجا جا سکتا ہے، جسٹس عائشہ ملک برہم

    14سالہ لڑکی سے شادی ، خاوند کو جیل بھیجا جا سکتا ہے، جسٹس عائشہ ملک برہم

    اسلام آباد : جسٹس عائشہ ملک نے 14 سالہ لڑکی کے اغوا اور شادی کے معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے خاوند کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں لڑکی کے اغوا اور شادی کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نےسماعت کی۔

    درخواست گزار والد متاثرہ لڑکی نے کہا کہ لڑکی نابالغ تھی ، اغوا کرکے شادی کی گئی، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اس بچی کی عمر شادی کرنے کی ہے ہی نہیں۔

    جسٹس عائشہ ملک نے کم عمری شادی کرانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملے پر اس کے خاوند کو جیل بھیجا جا سکتا ہے، 18سال سے کم عمر کی لڑکی کی مرضی کا عدالت اور پولیس جائزہ لے سکتی ہے۔

    جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پولیس نے اب تک کیا تفتیش کی؟ لڑکی کے بیان پر تفتیش کیسے بندکر سکتی ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ معصوم اور ناسمجھ ہے،متاثرہ لڑکی کی 2 بیٹیاں بھی ہیں ، انکا مستقبل اب کیا ہوگا؟

    چیف جسٹس نے متاثرہ لڑکی کے خاوند سے استفسار کیا آپ کی لڑکی کے والدین سے صلح نہیں ہو سکتی ؟ جس پر خاوند متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ یہ صلح کے بدلے میری بہن کیساتھ اپنے بیٹے کی شادی کرانا چاہتے ہیں تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ متاثرہ لڑکی کا والد بدلہ لے رہا ہے۔

    چیف جسٹس نے متاثرہ لڑکی کو روسٹرم پر بلا لیا ، جسٹس عائشہ ملک نے متاثرہ لڑکی سے استفسار آپ کس کیساتھ جانا چاہتی ہیں ؟ تو لڑکی نے کہا کہ میں والدین کیساتھ جانا چاہتی ہوں۔
    جس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے والدین اپنے بچوں کا برا نہیں سوچتے۔

    سپریم کورٹ نے 14سالہ لڑکی اور اس کی 2 بیٹیاں والدین کے حوالے کر دیں اور لڑکی کا میڈیکل کراکر اصل عمر کی تصدیق اور خانیوال پولیس کو ایک ماہ میں تفتیش مکمل کرنےکا حکم
    دیا۔

    عدالت نے کہا کہ لڑکی کا شوہر بلاوجہ اپنی بیوی کو تنگ نہ کرے اور پولیس تفتیش میں تعاون کرے، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئےملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ میں  بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق حکومت کے پاس درست اعداد و شمار نہ ہونے کا انکشاف

    سپریم کورٹ میں بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق حکومت کے پاس درست اعداد و شمار نہ ہونے کا انکشاف

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق حکومت کے پاس درست اعدادوشمارنہ ہونے کا انکشاف سامنے آیا ، چیف جسٹس نے کہا کہ یونان کشتی حادثہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی سپریم کورٹ دو رکنی بنچ نے میں بچوں کی انسانی سمگلنگ کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

    دوران سماعت یونان کشتی حادثے کا تذکرہ بھی ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ کشتی حادثہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے،سادہ لوح غریب شہریوں کو بیرون ملک ملازمت کا جھانسہ دیا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہری انسانی سمگلروں کے دھوکے میں آ کر لاکھوں روپے ادا کرتے ہیں، حکومت کوبچوں، خواتین سمیت انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلئے پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔

    بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق عدالتی استفسار پر ڈی جی وزارت انسانی حقوق نے بتایا کہ بدقسمتی سے درست اعدادوشمار موجود نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انسانی سمگلنگ کے حوالے سے بنائے گئے 2018 کے قانون میں ابہام ہے، بنیادی مسئلہ قوانین پر عملدرآمد کیلئے اسپیشلسٹ فورس نہ ہونا بھی ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بچوں کو صرف تحفظ دینا مقصد نہیں بلکہ انہیں مضبوط بھی بنانا ہے، ہمیں معاشرے کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے، بچوں کو محنت مزدوری کرنے کے بجائے اسکولوں میں ہونا چاہئے۔

    عدالت نے تمام صوبوں سے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام سے متعلق اقدامات کی رپورٹس اور تعلیم سے محروم بچوں کے اعداد و شمار طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی ، قمرجاوید باجوہ اور فیض حمید کیخلاف درخواست دائر

    سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی ، قمرجاوید باجوہ اور فیض حمید کیخلاف درخواست دائر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی، سابق آرمی چیف قمرجاویدباجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کیخلاف درخواست دائر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی، سابق آرمی چیف قمرجاویدباجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کیخلاف درخواست دائر کردی گئی۔

    عدالت عظمیٰ میں درخواست وکیل انعام الرحیم نے دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کےبطوروزیر اعظم دورمیں 29 سویلین کاکورٹ مارشل ہوا، چیئرمین پی ٹی آئی دور میں سویلین کوغیرقانونی حراست میں رکھ کرفوجی عدالتوں سے سزائیں دلوائی گئیں۔

    درخواست میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی ،قمرجاویدباجوہ، فیض حمید نے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی، استدعا ہے چیئرمین پی ٹی آئی کے دور حکومت میں سویلین کے کورٹ مارشل،سزاؤں کوغیر آئینی قرار دیا جائے۔

    درخواست گزار نے استدعا کی کہ سویلین کےحقوق کی خلاف ورزی پرتینوں کیخلاف فوجداری کارروائی کاحکم دیا جائے اوور سویلین کےکورٹ مارشل اور سزاؤں کی تفصیلات جیگ برانچ سےطلب کی جائے۔

    درخواست میں مزید استدعا کی ہے کہ سویلین کے کورٹ مارشل کیخلاف ہائیکورٹس میں زیر التوامقدمات کی تفصیلات طلب کی جائیں۔

  • سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہوں میں اضافہ، چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ کتنی ہوگی؟

    سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہوں میں اضافہ، چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ کتنی ہوگی؟

    اسلام آباد : حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ میں 2 لاکھ 4 ہزار864 روپے اضافہ کردیا ، جس کے بعد تنخواہ 12لاکھ 29 ہزار 189 روپے ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کردیا گیا ، قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہوں سے متعلق آرڈیننس جاری کردیا۔

    آرڈیننس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ میں 2لاکھ 4 ہزار 864 روپے اضافہ ہوا اور چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ 12لاکھ 29 ہزار 189 روپے مقرر کردی گئی۔

    آرڈیننس میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ میں ایک لاکھ 93 ہزار 527 روپے کا اضافہ کیا گیا ، جس کے بعد سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 11 لاکھ 61 ہزار 163روپے ہوگی،

    وزارت قانون نے قائم مقام صدر مملکت کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کےججزکی تنخواہوں سے متعلق آرڈیننس جاری کیا ، آرڈیننس یکم جولائی سےنافذ العمل ہوگا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان کی تنخواہ 10لاکھ 24 ہزار 324 روپے اور سپریم کورٹ جج کی تنخواہ 9 لاکھ 67 ہزار 636 روپےتھی۔

  • سپریم کورٹ میں ملکی آبادی سے متعلق دو روزہ کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ

    سپریم کورٹ میں ملکی آبادی سے متعلق دو روزہ کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ

    اسلام آباد: لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے زیر  اہتمام ملکی آبادی سے متعلق سپریم کورٹ میں دو روزہ کانفرنس کے  انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے زیر  اہتمام ملکی آبادی سے متعلق دو روزہ کانفرنس کے  انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    دو روزہ کانفرنس 14 اور 15 جولائی کو سپریم کورٹ عمارت میں ہوگی، کانفرنس کا آغاز اور اختتام پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال شرکت کریں گے۔

    کانفرنس کے دیگر سیشنز میں سپریم کورٹ کے دیگر ججز شرکت کریں گے، کانفرنس میں اعلی عدلیہ کے ججز ، بین الاقوامی ماہرین بشمول سفارتکار شرکت کرینگے۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل، سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوگی

    فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل، سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوگی

    اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے حوالے سے کیس کی سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے کیس میں درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 7 رکنی بنچ آج سماعت کرے گا۔

    وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق وزیر قانون فروغ نسیم کی خدمات حاصل کر لی ہیں، عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر دفاع خواجہ آصف، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، اٹارنی جنرل اور چیئرمین پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیے تھے۔

    آج ہونے والی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے فروغ نسیم لارجر بینچ کے سامنے پیش ہوں گے، وزیر دفاع خواجہ آصف کی نمائندگی عرفان قادر کریں گے، جب کہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی طرف سے شاہ خاور وکیل ہوں گے۔

  • سپریم کورٹ میں دوران سماعت چڑیوں کے چہچہانے کا ذکر، چیف جسٹس کے دلچسپ ریمارکس

    سپریم کورٹ میں دوران سماعت چڑیوں کے چہچہانے کا ذکر، چیف جسٹس کے دلچسپ ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے چڑیوں کے چہچہانے پر اٹارنی جنرل سے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہا چڑیاں شاید آپ کیلئے کوئی پیغام لائی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اورریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز پر چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں آئیں، تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو چڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا چڑیاں شاید آپ کیلئے کوئی پیغام لائی ہیں، جس پراٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ امید ہے پیغام اچھا ہوگا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا وہ زمانہ بھی تھا جب کبوتروں کے ذریعے پیغام جاتے تھے، اٹارنی جنرل نے قانون کے حق میں دلائل کا آغاز کیا اور کہا میں پانچ نکات پر دلائل دونگا، مفاد عامہ کے دائرہ کار کے ارتقاء پر دلائل دونگا، پاکستان میں نظر ثانی کے دائرہ کار پر عدالت کی معاونت کروں گا ، مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات پر معاونت کروں گا اور بھارتی سپریم کورٹ میں نظرثانی دائرہ اختیار،درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پردلائل دوں گا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہ آپ درخواست گزار کامؤقف بھی ذرا سمجھیں، درخواست گزار کو اس پر اعتراض نہیں کہ آپ نےکیوں کیا،رخواست گزار کہتے ہیں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سےکریں ، عدالت مانتی ہے دائرہ کار وسیع ہوں لیکن وجوہات بھی تو شامل کریں، ورنہ تو آپ عدالت کے معاملات کو ڈسٹرب ہی کریں گے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے عدالتی دائرہ اختیارات کو بڑھانا غلط بات نہیں ہے،ہم مانتے ہیں وقت کیساتھ رولز بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں، نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ، نظرثانی رولز کو تبدیل کرنا بھی تھا توآئینی ترمیم ہونی چاہیےتھی۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ حکومت ازخودنوٹس کےفیصلوں کیخلاف اپیل کادائرہ اختیاروسیع کرناچاہتی ہےتوموسٹ ویلکم، آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جاسکتا ہے، یہ حکومت کی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی ہے، ہمیں حکومت کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں، اپیل اور نظرثانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی ذہن میں رکھیں نظر ثانی ،اپیل میں بنیادی فرق ہے، نظر ثانی کا دائرہ کار کیسے بڑھایا جانا چاہیے، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے نظر ثانی دائرہ کار بڑھائیں مگراپیل میں تبدیل نہ کریں، درخواست گزاروں کو مسئلہ دائرہ کار بڑھانے کے طریقے کار سے ہے ، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے آئینی ترمیم سے دائرہ کار بڑھایا جاسکتا ہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی، اٹارنی جنرل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

  • سپریم کورٹ کی  ‘ریویو آف ججمنٹ ایکٹ’ معطل کرنے کی استدعا مسترد

    سپریم کورٹ کی ‘ریویو آف ججمنٹ ایکٹ’ معطل کرنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ معطل کرنےکی استدعا مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایک کے بعد ایک قانون پر عملدرآمد نہیں روک سکتے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اور ریو یوآف ججمنٹ کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔

    درخواست گزار ریاض حنیف راہی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ عدالت سےگزارش ہےمیری درخواست بھی سن لے، جس پر ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت پہلے نظر ثانی قانون پر دلائل سنے گی،اگر قانون کیخلاف کیس مضبوط نہ ہوا توآئندہ لائحہ عمل طے کریں گے۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ موجودہ قانون کے تحت 3 رکنی بینچ نظر ثانی درخواست سن نہیں سکتا۔

    سپریم کورٹ نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ معطل کرنےکی استدعا مسترد کر دی ، قانون پرعملدرآمد روکنے کی استدعا درخواست گزار زمان وردگ نے دی تھی، درخواست گزاروں نے استدعا کی تھی کہ نظرثانی قانون لارجربینچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔

    درخواست گزار غلام محی الدین نے دلائل میں کہا کہ عدالتی اصلاحات بل ،نظرثانی ایکٹ ایک جیسےقوانین ہیں، عدالتی اصلاحات بل پر 8رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے،مناسب ہوگا یہ مقدمہ بھی اسی لارجر بینچ کو بھجوا دیا جائے۔

    وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ نئے قانون کیخلاف درخواستوں پر فیصلے تک نظرثانی درخواست زیرالتوارکھی جائے، موجودہ قانون کےتحت 3رکنی بینچ نظرثانی درخواست پرسماعت نہیں کرسکتا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نظرثانی قانون کیخلاف آئی درخواستوں میں جان ہوئی توہی آگےکیس چلےگا،درخواستیں کمزورنوعیت کی ہوئیں توآئندہ لائحہ عمل طےکریں گے۔

    دوسرے درخواست گزار زمان وردگ نے بھی استدعا کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ لارجر بینچ کی سماعت تک عدالت قانون پر عملدرآمد معطل کر دے، جس پر چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ ایک کے بعد ایک قانون پر عملدرآمد نہیں روک سکتے۔

    زمان وردگ کا کہنا تھا کہ دونوں قوانین یکساں ہیں دلائل کی نوعیت بھی ایک جیسی ہوگی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہر قانون پر عملدرآمد روکنا ممکن نہیں۔

    خیال رہے سپریم کورٹ نے تاحال وفاقی حکومت کی لارجر بینچ کی استدعا مسترد کر رکھی ہے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے انتخابات میں تاریخ دینے پر اعتراض اٹھایا تھا۔

  • سپریم کورٹ میں  پنجاب میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت آج ہوگی

    سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت آج ہوگی، عدالت نے وفاق کی جانب سے لارجر بینچ بنانے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب میں الیکشن کیس کی سماعت آج ہوگی، الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست 3 رکنی بینچ سنے گا، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

    گزشتہ سماعت میں عدالت عظمی نے نے پنجاب میں انتخابات کے حوالےسے مقدمہ میں سات رکنی بنچ بنانے کیلئے وفاق کی درخواست مسترد کردی تھی۔

    چیف جسٹس نے تین رکنی بنچ برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا ، تحریری فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ انتخابات سے متعلق فیصلہ تین چارکاکہنا غلط ہے۔ سات رکنی بنچ بناہی نہیں تو تین چار کاتناسب کیسےہوسکتاہے، قابل غورہے یکم مارچ کے فیصلے پر پانچوں ججز کے دستخط ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ جسٹس منصورعلی شاہ نےدستخط کیساتھ لکھاکہ الگ سےآرڈرلکھاہے، جسٹس جمال مندوخیل لکھتےہیں مرکزی فیصلےکیساتھ الگ نوٹ تحریرکیا، دونوں ججزنےمشترکہ آرڈرجاری کیاجس پر2ججز کےدستخط تھے۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس نےالیکشن ازخودنوٹس کیس پرپہلے9رکنی لارجربینچ تشکیل دیا،9رکنی لارجربینچ نے 23 فروری کوپہلی سماعت کی، چیف جسٹس نےانتخابات ازخودنوٹس کیس پرصرف 2بینچ تشکیل دیے،فیصلہ

    فیصلے کے مطابق چیف جسٹس نے پہلے 9 رکنی اور پھر5 رکنی بینچ تشکیل دیا، اس کیس میں کسی دوسرے بینچ کا کوئی وجودنہیں ہے۔